https://youtu.be/m2s0IxewtCk آج سے چوہتر سال قبل خاکسار نے پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ ان دنوںمیٹرک اور ایف اےکے امتحانات پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہوا کرتےتھے جبکہ آج کل بورڈز کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ضمنًا یہ بھی بیان کرنا مفید ہوگا کہ ان دنوں میں پنجاب یونیورسٹی نے اپنے نام میں پنجاب کے (Spelling) ہجےPanjab مقرر کیے ہوئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کی سٹیشنری، سرٹیفیکیٹس اور ڈگریوں وغیرہ پر پنجاب کے یہی ہجے ہوتے تھے۔ خاکسار کی میٹرک کی اور بی ایس سی کی سندات پر بھی یہی ہجے تحریر ہیں۔ میٹرک پاس کرنے کے معاً بعد عاجز کو کسی کام سے لاہور جانا پڑا۔ وہاں نماز عصر سے کچھ بعد اچانک اپنے ایک کلاس فیلو، بلکہ روم فیلو سے بر سرِراہ ملاقات ہوئی۔ میرے یہ دوست محترم نذیر احمد صاحب ساجد تھے جو سندھی کہلاتے تھے اور اب تو مرحوم ہو چکے ہیں، خاکسار کو کہنے لگےکیا آپ نے کالج میں داخلہ لے لیا ہے۔خاکسار نے کہا ابھی تو نہیں۔ کہنے لگےمیں دیال سنگھ کالج میں داخل ہوا ہوں اور ہوسٹل میں رہائش ہے۔ کہنے لگے کہ وہاں غیر احمدی طلبہ احمدیت پر بہت اعتراضات اور سوالات کرتے ہیں، آپ میرے ساتھ چل کر ان سے تبادلہ خیالات کریں۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کام پر تو کافی وقت لگے گا اور میری بس نکل جائے گی۔ پھر کل تک کوئی بس لاہور سے گجرات کے لیے نہیں ہے۔ کہنے لگے میرا وعدہ ہے کہ آپ کو بر وقت سٹاپ پر پہنچا دوں گا اور سامان وغیرہ بھی چھت پر چڑھا دوں گا۔ قصہ مختصر خاکسار تانگے میں ان کے ساتھ دیال سنگھ کالج کے ہوسٹل پہنچ گیا۔ ان دنوں بہت سادگی ہوتی تھی۔ کمرے میں دو عدد ننگی چارپائیاں تھیں اور ایک کونے میں چھوٹی سی میز اور ایک کرسی۔ خاکسار ایک چارپائی پر بیٹھ گیا اور ساجد صاحب لڑکوں کو بلانے چلے گئے۔ چند طلبہ بڑے جوش و خروش سے آ گئے اور دوسری چارپائی پر براجمان ہو گئے۔ خاکسار نے اُن سے کہا کہ پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟ کہنے لگے اسمہٗ احمد پر بات ہو گی، مگر ہماری شرط یہ ہے کہ ہم صرف اپنے علما کا ترجمہ اور تشریح قبول کریں گے۔ خاکسار نے کہا کہ پھر لاؤ اپنا ترجمہ اور تشریح۔ ایک اُن میں سے بھاگ کر گیا اور تاج کمپنی کا شائع شدہ نہایت دیدہ زیب قرآن کریم لے آیا اور مجھے تھما دیا۔ خاکسار نے سورۃالصف سے اسمہٗ احمد والی آیت نکال کرترجمہ اور اس کی مختصر تشریح جو متن کے دائیں طرف حاشیے میں لکھی تھی پڑھی۔ ترجمہ تو وہی تھا کہ حضرت عیسٰیؑ نے اپنے ماننے والوں کو اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی بشارت دی جس کا نام احمد ہو گا۔ اور حاشیے میں لکھا تھا کہ اگرچہ آنحضرتﷺ کا نام محمدؐ تھامگر فرشتوں میں آپ کا نام احمدؐ تھا۔ خاکسار نے یہ ترجمہ اور تشریح ان لڑکوں کو سنائی اور پوچھا کیا آپ یہ ترجمہ اور تشریح مانتے ہیں؟ کہنے لگے بالکل مانتے ہیں۔ خاکسار نے کہا کہ دیکھیں حضرت عیسٰیؑ اپنے پیروؤں کو خوشخبری سنا رہے ہیں کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کا نام احمدؐ ہو گا۔ لیکن جب رسول اللہﷺ تشریف لائے تو آپؐ کا نام محمدؐ تھا۔ اگر وہ پوچھیں کہ آنے والے رسول کا نام تو احمد ہونا تھا مگر آپؐ کا نام محمدؐ ہے۔ اس پر اگر انہیں یہ جواب دیا جائے کہ ٹھیک ہے آپؐ کا نام محمدؐ ہے مگر فرشتے آپؐ کو احمدؐ کہتے ہیں۔ تو کیا یہ دلیل درست ہو گی؟ اس طرح تو کوئی شخص بھی زید؍بکر دعویٰ کر دے میں اسمہٗ احمد والی پیشگوئی کے مطابق آیا ہوں اور جب کہا جائے کہ اس کا نام تو احمد ہونا تھا آپ کا نام تو زید؍بکر ہے،اور جواباً کہا جائے کہ ٹھیک ہے میرا نام زید؍بکر ہے مگر فرشتے مجھے احمد کہتے ہیں، تو کیا یہ دلیل درست ہو گی ؟ آپ کالج کے طلبہ ذہین اور سمجھ دار ہیں ذرا غور کر کے بتائیں۔ اس پر میں نے دیکھا کہ وہ سب ایک ایک کر کے وہاں سے کھسک گئے اور چارپائی خالی ہو گئی۔ خاکسار نے محترم ساجد صاحب سے کہا لو جی مجھے بس سٹاپ پر چھوڑ آ ئیں۔ آج سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل خاکسار کو خیال آیا کہ تاج کمپنی کا وہ قرآن دیکھنا چاہیے، کیا اب بھی وہی تشریح وہاں موجود ہے؟ چنانچہ منگوا کر دیکھا تو بالکل وہی ترجمہ اور تشریح موجود تھی۔ یاد رہے کہ اسمہٗ احمد والی پیشگوئی کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ یہ پیشگوئی آنحضرتﷺ کے بارے میں ہے جس کا ظہور آنحضرتﷺ کی بعثت ثانیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ہوا۔ (۲) اب ایک واقعہ کینیا (مشرقی افریقہ ) سے متعلق۔ نیروبی میں ایک پاکستانی ڈاکٹر ہوتے تھے جو فوت ہو چکے ہیں، ان کا نیروبی میں صاف ستھرا ماڈرن کلینک بھی تھا۔ ان کے مراسم احمدیوں سے بہت اچھےتھے۔ احمدیہ مسلم مشن میں بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ مگر تھے کٹر سنّی۔ اور سنّی کمیونٹی میں بہت معزز تھے۔ یہ ۱۹۸۰ء کی دہائی کی بات ہے۔ بہت سے احمدیوں کے وہ دوست تھے، ان سے احمدیت کے بارے میں بحث بھی کیا کرتے۔ خاکسار سے بھی ان کی واقفیت تھی مگر خاکسار سے کبھی انہوں نے احمدیت کے بارے میں بات نہیں کی تھی۔ ایک خاص بات ہوئی جس کا ذکر یہاں کرنے کی ضرورت نہیں، تو ایک دن اچانک ان کا فون خاکسار کو آیا کہ وہ عاجز سے احمدیت کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور کہا کہ میں آپ کے پاس آ جاؤں یا آپ میرے ہاں آ جائیں گے؟ عاجز نے کہا آپ خاکسار کے ہاں تشریف لے آئیں، جب چاہیں۔ کہنے لگے اس گفتگو کے لیے میں نے ڈھیر ساری کتب اکٹھی کی ہیں، سب کولے کر آنا مشکل ہو گا، آپ ہی آجائیں ۔ کہا ٹھیک ہے۔ کہنے لگے تو پھر آج تین بجے بعد دوپہر خاکسار کے ہاں آئیے۔ خاکسار ٹھیک تین بجے ان کے ہاں پہنچ چکا تھا۔ بڑی تواضع سے پیش آئے۔ چائے کے بعد کہنے لگے کہ میں چاہتا ہوں کہ مسئلہ ختم نبوت پر آپ سے گفتگو کروں،مگر میری کچھ شرائط ہیں۔ پوچھا کیا ہیں ؟ کہنے لگے دو حصوں میں یہ گفتگو ہوگی۔ آج اس موضوع پر صرف اور صرف قرآن کریم کی رُو سے بات ہو گی۔ نہ کوئی حدیث، نہ عربی لغت اور نہ ہی اقوالِ بزرگان کا ذکر ہو گا۔ اور کل اسی موضوع پر صرف احادیث کی روشنی میں گفتگو ہو گی۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ پہلے بات کریں گے، اور دوران گفتگو خاکسار پوری طرح خاموش رہے گا۔ جب وہ بات ختم کریں گے تو پھر عاجز اس پر بحث کرے گا اور وہ درمیان میں نہیں بولیں گے اور پوری طرح خاموش رہیں گے۔ ان شرائط کے بعد وہ میز کے ایک طرف تشریف فرما ہوئے، کتب کےڈھیر کے ساتھ۔ اور میز کی دوسری طرف ان کے سامنے عاجز تھا۔ انہوں نے ایک نوٹ بک نکالی جس کے ہر صفحے پر صرف ایک ایک آیت قرآن کریم کی درج تھی۔ اور الحمد سے والناس تک ترتیب وار وہ آیات لکھی تھیں جن میں ختم یا ختم کے مرادفات استعمال ہوئے تھے۔ پہلے صفحہ پر سے انہوں نے آیت پڑھی : خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ اور کہا لو جی ہم ختم کا آپ ہی کا ترجمہ یعنی مہر لے لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں پر مہر لگا دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا۔ یعنی مہر نے رستہ بند کرنے کا کام کیا ہے۔ جب خوب اچھی طرح تشریح کر کے خاکسار سے کہا کہ اب آپ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ خاکسار نے کہا کہ یہ عاجز آپ کی تشریح سے متفق ہے۔ کہنے لگے، پھر تو بات ختم ہوئی کہ ختم نبوت کا معنی ٰ بھی یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے۔ خاکسار نے کہا کہ عاجز آپ کی تشریح سے تو متفق ہے مگر اس پر ایک سوال ہے۔ کہنے لگے وہ کیا ؟ عرض کیا دلوں پر مہر لگنے کے بعد اب ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا، مگر کیا کفر کی بات بھی داخل نہیں ہو سکتی؟ کہنے لگے آپ یہ کیوں پوچھتے ہیں؟ کہا آپ کی تشریح پر بحث تو ہونی ہی ہے اور اسی لیے آپ نے عاجز کو مدعو کیا ہے۔ کہنے لگے کفر کی بات تو اُن کے دلوں میں داخل ہو گی۔ خاکسار نے کہا کہ دلوں پر مہر نے ایمان کے اندر داخل ہونے کو روک دیا ہے، مگر کفر اور بدی کے داخلے کے لیے کوئی روک نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ روحانی مہر جب کسی چیز پر لگتی ہے تو کچھ چیزوں کو روک لیتی ہے، اور کچھ کو نہیں۔ غور کریں تو یہ کارروائی ایک کلیہ قاعدہ کے مطابق ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ جس چیز پر روحانی مہر لگائی جائے، اس چیز کے اندر جو کچھ پہلے سے موجود ہے اس کی تائید میں اور چیزیں اندرداخل ہو سکتی ہیں۔ مگر اس کے مخالف چیز کا داخلہ ممنوع ہے۔ پس آنحضرت ﷺ کی نبوت کے جو نبوت منافی ہو گی اس کا داخلہ بند ہے۔ مگر جو نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت کی مؤیِّد ہے، قرآ ن کریم، ارکان اسلام اور ارکان ایمان کی اشاعت کے لیے ہے، اسے مہر نبوت نہیں روکے گی۔ کچھ سوچ کر کہنے لگے، اچھا میں دوسری آیت لیتا ہوں۔ کاپی کا اگلا صفحہ نکالا اور زیر لب آیت پڑھی۔ پھر خود ہی کہنے لگے، اِس پر بھی آپ وہی کہہ دیں گے جو ابھی آپ نے کہا ہے۔ پھر اگلا صفحہ نکالا، پھر اگلا صفحہ اور ہر دفعہ کہا، یہاں بھی آپ وہی کہہ دیں گے۔ اس کے بعد کہنے لگے، کل اسی موضوع پر احادیث کی روشنی میں بات ہونی تھی۔ مگر کل میں پاکستان جا رہا ہوں، واپس آ کر بات کریں گے۔ خاکسار نے کہا ٹھیک ہے واپس آ کر خاکسار کو مطلع کر دیں۔ اگلے دن صبح صبح فون آیا کہ خاکسار نے آج پاکستان جانا ملتوی کر دیا ہے، کل جاؤ ں گا اس لیے آج پھر تین بجے آ جائیں۔ حسب معمول تواضع کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔ اب انہوں نے لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کی کثیر احادیث کا ڈھیر لگا دیا۔ خاکسار سنتا رہا۔ پھر کہنے لگے کہ اب آپ ان احادیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ عاجز نے کہا ہم یہ سب احادیث دل و جان سے مانتے ہیں۔ تعجب سے کہنے لگے تو پھر مسئلہ کیا ہے ؟ عاجز نے کہا آج حدیث کی باری ہے۔ آپ کے پاس احادیث کی کتب موجود ہیں، اُن میں سے صحیح مسلم نکالیں اور کتاب الحج باب فضل الصلاۃ فی مسجد المدینہ دیکھیں۔ انہوں نے صحیح مسلم نکالی اور مطلوبہ باب کھولا اور پڑھا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا فاِنِّی آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ وَاِنَّ مَسْجِدِیْ آخِرُ الْمَسَاجِدِ۔ یعنی میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔ آنحضرتﷺ نے دونوں باتیں ایک ہی حدیث میں بیان کر کے واضح کر دیا کہ جو آخری مسجد کا مفہوم ہے وہی آخری نبی کا ہے۔ اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا، تو آپ کی مسجد کے بعد کوئی اور مسجد تعمیر نہیں ہو سکتی۔مگر آپ تو خود بھی نئی مساجد کی تعمیر میں خوب حصہ لیتے ہیں۔ متبسم ہو کر کہنے لگے آخری مسجد سے مراد کعبہ، بیت المقدس اورمسجد نبوی، ان تین مساجد میں آپؐ کی مسجد آخری ہے۔ خاکسار نے عرض کیا تین مساجد میں سے آپﷺ کی مسجد آخری ہے، تو آنحضرتﷺ تین نہیں چار انبیاء میں آخری ہیں۔ یعنی تورات،زبور، انجیل اور قرآن لانے والے انبیاء میں آخری۔ یا یوں کہیں کہ آپ تشریعی انبیاء میں آخری ہیں۔ لہٰذا کوئی نبی نہیں آ سکتا جو نئی شریعت لائے۔ مگر آنحضرتﷺ کے بعد غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے جو آپؐ کی امت میں سے ہو، آپ ﷺ کا دل و جان سے فدائی۔ بلکہ اسی طرح جس طرح مسجد نبوی کے بعد اور مساجد بنائی جا سکتی ہیں جن میں اسلامی نماز ادا ہو، یعنی مسلم مساجد کے لیے کوئی روک نہیں، اسی طرح مسلم نبی کے لیے بھی کوئی روک نہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے او ر کہا : آپ کی اس گفتگو سے مجھے فائدہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ غیر احمدی حضرات کے نزدیک تورات، زبور، انجیل اور قرآن چار شریعت کی کتب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے صرف تورات اور قرآن کریم شریعت کی کتب ہیں۔ زبور اور انجیل شریعت کی کتب نہیں۔