https://youtu.be/tp6YG6g8RyU ٭… جس شخص کو خدا نے تمام دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا، وہ مکّے کی چیز تھی، مگر خدا اُسے مدینے میں لے گیا اور پھر خدا نے اپنے زور اور طاقت سے مکّے کو اُس کے لیے فتح کیا، اُس وقت مکّے والوں کو خیال تھا کہ اُن کی چیز اُنہیں مل جائے گی۔ مگر مکّے والے بھیڑ اور بکریوں کو لے گئے اور مدینے والے خدا کے رسولؐ کو لے کر اپنے شہر کی طرف چلے گئے ٭…انصار الله کا اجتماع بھی آج سے ہو رہا ہے…انصار کو بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں اپنے تجربے اور خدمت کے حوالے سے کوئی خیال پیدا ہوتا ہے، تو وہ اُسے جھٹک دے اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے ٭…مکرم فہیم الدین ناصر صاحب مبلغ سلسلہ رومانیہ اور مکرم عبدالعلیم فاروقی صاحب آف کینیڈا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍ستمبر ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۶؍تبوک۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۶؍ستمبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: گذشتہ خطبے میں حنین کے اموال غنیمت کی تقسیم کا ذکر ہو رہا تھا۔ اِس ضمن میں مزید تفصیل بھی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جب اموالِ غنیمت تقسیم فرمائے اور مجاہدین کو اُن کے حصّے بھی عطا فرما دیے، البتہ جو خُمس تھا، وہ کم و بیش سارا کا سارا آپؐ نے مؤلفۃ القلوبکے لیے سردارانِ قریش اور دیگر عرب سرداروں میں تقسیم کر دیا کہ کسی کو سو اونٹ دیے اور کسی کو پچاس اونٹ۔اتنی کثرت سے دوسروں کو مال دیے جانے پر انصار کے بعض نوجوانوں نے اِس کو محسوس کیا اور یوں سمجھاکہ جیسے اپنی خدمات اور محبّتِ رسول اللهؐ کی وجہ سے وہ دوسروں کی نسبت زیادہ حق دار تھے۔ حضور انور نے فرمایا کہ کبھی بے دھیانی میں کی گئی بات بہت دُورس نتائج رکھتی ہے، ہر چند کہ رسول اللهؐ کی تقسیم پر انصار کے نوجوانوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیاتھا، لیکن سب نے نہیں کیا تھا، لیکن خدا اور خدا کے رسولؐ کو یہ ایسی ناراض کرنے والی بات تھی کہ انصار کو رہتی دنیا تک اِس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ چنانچہ اِس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم نے جب مکّہ فتح کیا، تو مکّے کے لوگ آپؐ کے پاس آئے جن کی نگاہیں بوجہ ا یمان سے پوری طرح روشناس نہ ہونے کے ابھی دنیا ہی کی طرف تھیں۔اِس کے بعد کی ایک جنگ میں کچھ اموال مسلمانوں کے ہاتھ آئے تھے۔ آنحضرتؐ نے وہ اموال اُن لوگوں میں تقسیم کر دیے۔ایک انصاری نوجوان نے کسی مجلس میں کہا کہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے اور رسولِ کریمؐ نے اموال اپنے رشتہ داروں کو دے دیے ہیں۔ آپؐ کو اِس کا علم ہوا تو اکابر انصار کو بلایا اور دریافت کیا کہ مجھے ایسی بات پہنچی ہے۔ انصار رو پڑے اور کہا کہ کسی نادان نے کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں!اے انصار !تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے محمد(صلی الله علیہ وسلم )کو اُس وقت جگہ دی جب اُسے کوئی جگہ نہ دیتا تھا اور اِس کے شہر والوں نے اُسے نکال دیا تھا۔پھر اِس کے لیے عزت اور فتح مندی حاصل ہوئی تو اُس نے اموال اپنے رشتہ داروں کو بانٹ دیے۔ اِس پر انصار کی چیخیں نکل گئیں اور اُنہوں نے پھر کہا کہ یا رسول اللهؐ!ہم ایسا نہیں کہتے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ تم اِسی بات کو ایک اَور طرح بھی کہہ سکتے ہو اور وہ اِس طرح کہ جس شخص کو خدا نے تمام دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا، وہ مکّے کی چیز تھی، مگر خدا اُسے مدینے میں لے گیا اور پھر خدا نے اپنے زور اور طاقت سے مکّے کو اُس کے لیے فتح کیا، اُس وقت مکّے والوں کو خیال تھا کہ اُن کی چیز اُنہیں مل جائے گی۔ مگر مکّے والے بھیڑ اور بکریوں کو لے گئے اور مدینے والے خدا کے رسولؐ کو لے کر اپنے شہر کی طرف چلے گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ یہ بات بے شک ایک نادان کے منہ سے نکلی ہے، مگر اِس کی وجہ سے اب تمہیں اِس دنیا کی حکومت نہیں مل سکتی، اب تمہاری خدمات کا بدلہ تمہیں حوضِ کوثر پر ہی ملے گا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ دیکھ لو!تاریخ بتاتی ہے کہ تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں اور چودہویں صدی گزر رہی ہے(بلکہ اب تو وہ بھی گزر گئی ہے)، اِس عرصے میں ہر قوم ہی اسلام کی بدولت بادشاہ بنی ہے،مگر کوئی انصاری بادشاہ نہیں ہو سکا۔سو بعض اوقات ایک شخص کا قول ساری قوم کے لیے نقصان کا موجب ہو سکتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واقعہ اپنے ایک خطبے میں بیان کیا اور اِسے بیان کر کے جماعت کو نصیحت فرمائی، وہ آج بھی ہمارے لیے اُسی طرح اہم ہے، جیسے اُس وقت تھی۔ آپؓ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو قربانی اِس لیے کرتے ہیں کہ اُنہیں کوئی عہدہ ملے یا دولت وغیرہ ملے، وہ ہرگز میرے بلانے پر (یعنی خلیفۂ وقت کے بلانے پر)قربانی کے لیے نہ آئیں، بلکہ وہی لوگ آئیں جو خدا کے لیے قربانی کرتے ہیں۔ کیونکہ مَیں تو خود کمزور اور بیمار انسان ہوں، مَیں کسی کا احسان نہیں اُٹھا سکتا۔ پس مَیں اپنے لیے نہیں مانگتا۔جو خدا تعالیٰ کے لیے دیتا ہے، وہ دے اور خدا تعالیٰ اُس کا بدلہ بھی دے گا۔ خدا تعالیٰ پر توکّل رکھنا چاہیے۔ اگر وہ چاہے تو اِس دنیا میں دے دے اور اگر وہ چاہے تو آخرت میں دے۔ بہرحال جو اخلاص سے قربانی کرتا ہے، اُس کی قربانی ضائع نہیں جاتی، مومن کی قربانی کو کوئی ضائع نہیں کر سکتا۔ پس قربانی کرنے والے وہی لوگ ہیں، جو خدا کو مدّ نظر رکھتے ہیں، نہ کہ دنیا کو۔ حضور انور نے فرمایا کہ ایک عمر کو پہنچ کر افرادِ جماعت میں بھی یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہمارا اتنا تجربہ ہے، ہم نے اتنا کام کیا ہے، ہمیں اِس کا رِیوارڈ ملنا چاہیے۔ جو نہیں دیا جاتا۔ وہ سوچیں کہ کیا دنیا کا رِیوارڈ صرف لینا ہے یا الله تعالیٰ کے انعامات کا وارث بننا ہے؟انصار الله کا اجتماع بھی آج سے ہو رہا ہے، اِس حوالے سے کیونکہ اِس عمر میں خیال آتا ہے، جب تجربہ حاصل ہو جاتا ہے۔ انصار کو بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں اپنے تجربے اور خدمت کے حوالے سے کوئی خیال پیدا ہوتا ہے، تو وہ اُسے جھٹک دے اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اِس موقعے پر اعرابیوں بدّوؤں کی بے صبری کا بھی ذکر ملتا ہے۔مالِ غنیمت کی تقسیم کے وقت کچھ بدّو لوگ بھی آپؐ کے اِرد گرد اکٹھے ہو گئے اور مال کا مطالبہ کرنے لگے۔ اِن کے ہجوم کی وجہ سے رسول اللهؐ کی چادر مبارک بھی ایک خاردار جھاڑی سے اَٹک گئی اور کچھ دھکم پیل ہونے لگی۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ میری چادر تو مجھے واپس دے دو۔ اور پھر اِن کانٹے بھرے درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اِن کانٹوں کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوتے تو وہ بھی مَیں سب تم میں تقسیم کر دیتا اور تم مجھے بخیل، جھوٹ بولنے والا اور بزدل نہ پاتے۔ آپؐ نے بدّوؤں کی اِس بدتہذیبی پر اُنہیں کوئی سرزنش نہیں کی، نہ ناراض ہوئے، بلکہ مسکراتے ہوئے احسن رنگ میں اُن کی تربیت فرمائی اور اُنہیں مال سے بھی نوازا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اِن جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ اموال جو مغلوب دشمنوں کے جرمانوں اور میدانِ جنگ میں چھوڑی ہوئی چیزوں سے جمع ہوئے تھے، حسبِ دستور رسول اللهؐ کو اسلامی لشکر میں تقسیم کرنے تھے، لیکن اِس موقعے پر آپؐ نے بجائے اِن اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے، مکّے اور اِردگرد کے لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ اِن لوگوں کے اندر ابھی ایمان تو پیدا نہیں ہوا تھا، بہت سے تو ابھی کافر ہی تھے اور جو مسلمان تھے وہ بھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ یہ اُن کے لیے بالکل نئی چیز تھی کہ ایک قوم اپنا مال دوسرے لوگوں میں بانٹ رہی ہے۔ بعض لوگوں میں اِس مال کی تقسیم سے بجائے اِن کے دل میں نیکی اور تقویٰ پیدا ہونے کے حرص اور بھی بڑھ گئی۔ اُنہوں نے رسول اللهؐ کے گرد جمگھٹا ڈال لیا اور مزید مطالبات کے ساتھ آپؐ کو تنگ کرنا شروع کیا۔یہاں تک کہ دھکیلتے ہوئے آپؐ کو ایک درخت تک لے گئے اور ایک شخص نے تو آپؐ کی چادر، جو آپؐ کے کندھوں پر رکھی ہوئی تھی، پکڑ کر اِس طرح مڑوڑنی شروع کی کہ آپؐ کا سانس رکنے لگا۔آپؐ نے فرمایا کہ اے لوگو! اگر میرے پاس کچھ اَور ہوتا تو مَیں وہ بھی تمہیں دے دیتا۔ تم مجھے کبھی بخیل یا بزدل نہیں پاؤ گے۔ پھر آپؐ اپنی اونٹنی کے پاس گئے اور اِس کا ایک بال توڑا اَور اُسے اونچا کیا اور فرمایا کہ اے لوگو! مجھے تمہارے مالوں میں سے اِس بال کے برابر بھی ضرورت نہیں، سوائے اُس پانچویں حصّے کے جو عرب کے قانون کے مطابق حکومت کا حصّہ ہے۔ اور وہ پانچوں حصّہ بھی مَیں اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتا، بلکہ وہ بھی تمہی لوگوں کے کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے۔اور یادرکھو کہ خیانت کرنے والا انسان قیامت کے دن خدا کے حضور اِس خیانت کی وجہ سے ذلیل ہو گا۔ حضور انور نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بادشاہت کے خواہشمند تھے، کیا بادشاہوں اور عوّام کا ایسے ہی تعلق ہوا کرتا ہے، کیا کسی کی طاقت ہوتی ہے کہ بادشاہ کو اِس طرح دھکیلتا ہوا لے جائے اور اُس کے گلے میں پٹکا ڈال کے اُس کو گھونٹے؟ الله کے رسولوں کے سوا یہ نمونہ کون دکھا سکتا ہے!مگر باوجود اِس طرح تمام اموال غرباء میں تقسیم کرنے کے پھر بھی ایسے سنگدل لوگ موجود تھے، جو رسول الله ؐکی تقسیم کو انصاف کی تقسیم نہیں سمجھتے تھے۔ حدیث میں روایات ملتی ہیں کہ مالِ غنیمت کی تقسیم کے دوران ایک بدّو رسول اللهؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اَور کہنے لگا کہ اے محمد!(صلی الله علیہ وسلم)آپؐ نے جو مجھ سے وعدہ کیا تھا، اُسے پورا کریں۔ رسول اللهؐ نے فرمایا کہ خوش ہو جاؤ! وہ بدّو کہنے لگا کہ آپؐ نے بہت دفعہ یہی کہا ہے کہ خوش ہو جاؤ، گویا آپؐ نے دیا کچھ نہیں، بس کہتے ہی رہتے ہیں۔ رسول اللهؐ کو اِس کا یہ ردّعمل بہت ناگوار گزرا، آپؐ نے اِس کی طرف سے اپنا چہرۂ مبارک ہٹا لیا اور وہاں ابو موسیٰ الاشعری اور بلال رضی الله عنہما کھڑے تھے، اُن کی طرف اپنا چہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس نے تو خوشخبری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، اب تم قبول کر لو!دونوں نے یہ سنا، تو فوراً بولے، یارسول اللهؐ!ہم نے قبول کر لی۔اِس کے بعد آپؐ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اِس میں اپنا ہاتھ اور منہ دھویا، پھر آپؐ نے وہ بچا ہوا پانی حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال رضی الله عنہما کو دیتے ہوئے فرمایا کہ تم دونوں اِس پانی کو پی لو اور اپنے چہرے اور سینے پر بھی ڈال لو اور خوش ہو جاؤ۔چنانچہ اُنہوں نے پیالہ لے کر ایسا ہی کیا۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہاں ازواجِ مطہّرات کے اخلاص اور آنحضرتؐ کی ذاتِ بابرکات سے برکت کے حصول کی تشنگی کا بھی ایک عجیب اور قابلِ رشک نظارہ بھی نظر آتا ہے۔ لکھا ہے کہ قریب ہی ایک خیمے میں اُمّ المومنین حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا بھی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا واقعہ اُن کے خیمے کے قریب ہی ہوا تھا۔ اُنہوں نے پردے کے پیچھے سے اُنہیں کہا کہ اپنی ماں کے لیے بھی پانی بچانا۔ چنانچہ اُنہوں نے حضرت اُمّ سلمہ ؓ کے لیے بھی کچھ پانی پیالے میں چھوڑ دیا۔ خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے بعض مرحومین کا ذکر خیر فرمایا فرمایا کہ پہلا ذکر مکرم فہیم الدین ناصر صاحب کاہے جو مبلغِ سلسلہ رومانیہ تھے۔گذشتہ دنوں ۵۲؍ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ الله تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ اِن کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ اِن کے پڑدادا حضرت مرزا علم دین صاحبؓ کے ذریعے سے ہوا، جنہوں نے بذریعہ خط حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔مرحوم نے جون۱۹۹۶ء میں جامعہ پاس کیا۔ پھر اِن کا مختلف جگہوں میں پاکستان میں تقرر ہوا۔ اور پھراِنہوں نے تفسیرِ قرآن میں تخصّص بھی کیا۔ ۲۰۰۶ء میں اِن کو رومانیہ بھجوایا گیا اور وفات تک یہ وہیں خدمت کی توفیق پا تے رہے۔ اہلیہ لکھتی ہیں کہ ایک مثالی شوہر تھے۔خلافت سے گہرا محبّت اور اخلاص کا تعلق تھا، ہر ذاتی اور جماعتی کام سے پہلےخلیفۂ وقت کی خدمت میں لکھتے اور راہنمائی لیتے تھے اور افرادِ جماعت اور اپنے بچوں کی ہمیشہ اپنے عملی نمونے سے تربیت کی۔ بروقت نمازوں کی ادائیگی، تہجد اور نوافل پڑھنا معمول تھا۔ بیماری کی شدّت میں بھی نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ رہی اور آخر میں جب بیماری شدّت اختیار کر گئی، اِن کو کینسر ہو گیا تھا، بولنا بھی مشکل تھا، تو اشارے سے کہا کہ کاپی لاؤ اور لکھا کہ عبادت اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا ہر مشکل اور پریشانی میں اِس کے آستانے پر جھکنا۔ رومانین زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ مکمل کرنا چاہتے تھے، ایک ڈیڑھ پارے کا ترجمہ مکمل کر چکے تھے، لیکن دوسرے کاموں کی وجہ سے مزید کام نہیں ہو سکا۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کی کُتب کا بھی ترجمہ کر رہے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں یہ رومانیہ گئے تھے، وہاں کے پہلے مبلغ تھے، زبان بھی اِنہوں نے بہت عمدہ سیکھی اور وہاں سے گریجوایشن کی ڈگری کی۔ جماعت کے لیے بڑا کام کیا، جماعت کو وہاں رجسٹر کروایا، مشن ہاؤس قائم کیا اور اُس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ روز کا روز کام مکمل نہ کر لیں۔ رومانیہ کے ایک نومبائع کہتے ہیں کہ مَیں اُنہیں ہسپتال میں لے کر آیا، تو اُنہوں نے اگلے دن ایک جماعتی کام کے سلسلے میں میری مدد طلب کی، جس کے لیے قریبی شہر آنا تھا۔ جب ہم کام کے لیے گئے، تو راستے میں مختلف موضوعات پر بات کرتے ہوئے ایک موقعے پر چند منٹوں کے لیے مربی صاحب نے ایک جذباتی کیفیت میں مجھ سے کہا کہ اگر خدانخواستہ اُنہیں کچھ ہو جائے تو وہ یہیں دفن ہونا چاہتے ہیں تاکہ یہ یاد رہے کہ وہ یہاں رہے اور اُنہوں نے یہاں رہ کر ایک مثبت تبدیلی پیدا کی۔ پھر لکھتے ہیں کہ صحت مزید خراب ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر کے اور خود سے ایک خط لکھ کر اپنے کام کو جاری رکھنے کی پوری کوشش کرتے۔ہمیشہ خدا کے دین اور دوسروں کے لیے زیادہ فکر مند رہتے تھے۔ اپنی آخری سانس تک کبھی ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں نہیں سوچا۔ پھر لکھتے ہیں کہ مَیں نے مربی صاحب کو اپنا وقت اور نیند دوسروں کے لیے قربان کرتے ہوئے دیکھا۔ ہمیشہ اِس بات پر شکر گزار رہتے کہ اُ نہیں دوسروں کی خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ مَیں نے کبھی اُن کے منہ سے کسی کے بارے میں معمولی سی بھی بری بات نہیں سنی۔ رو رو کر نہ صرف اہلِ خانہ کے لیے بلکہ ہماری رومانیہ جماعت کے لیے اور اِس کے اراکین کے لیے بھی دعائیں کیا کرتے تھے۔ کبھی ایک دن کی چھٹی نہیں لی اور نہ ہی کبھی زیادہ آرام کرنا چاہا، کیونکہ وہ کہتے تھے کہ یہ اُن کا فرض ہے کہ وہ جماعت کی ہر طرح سے بہترین صلاحیتوں کے ساتھ خدمت کریں، چاہے اِس کے لیے اُنہیں اپنی نیند یا صحت کی کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ ہمیشہ اپنا پورا توکّل الله تعالیٰ پر کرتے، دوسروں کو بھی کثرت سے دعا کرنے اور اِس کی مدد پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتے اور ترغیب دیتے تھے۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہ ہیں مربی کی صفات جو اِس نو مبائع نے بیان کی ہیں اور یہی تربیت اور اپنا نمونہ ہے، جو تبلیغ اور تربیت میں آسانیاں اور نتائج پیدا کرتا ہے۔ غیر ملک میں دین کی خاطر قربان ہوئے، اِس لحاظ سے اِن کا مقام شہید کا مقام ہی ہے، آخری سانس تک اپنے عہدِ وفا کو نبھایا اور خوب نبھایا۔ ہمیشہ مَیں نے بھی دیکھا ہے کہ اِن کے چہرے پر مسکراہٹ ہی رہتی تھی۔ مولوی عبید الله صاحب، جو ماریشس میں میدانِ عمل میں فوت ہو گئے تھے، حضرت مصلح موعودؓ نے اُن کا ذکر کرتے ہوئے جماعت کو بھی نصیحت فرمائی تھی کہ ایسے لوگ شہید ہوتے ہیں اور مرحوم سے ہمیں سبق لینا چاہیے۔ یقیناً فہیم ناصر مرحوم کا بھی ایسا ہی ایک کردار تھا اور یہ نمونہ تھا جو ایک سبق ہے اور خاص طور پر واقفینِ زندگی کے لیے یہ سبق ہے۔ الله تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اِن کے بیوی بچوں اور والدہ سب کو صبر عطا فرمائے۔ دوسرا ذکر ہے مکرم عبدالعلیم فاروقی صاحب کا، عبدالرشید فاروقی صاحب کینیڈا کے بیٹے تھے، گذشتہ دنوں اِن کی وفات ہو گئی۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔مرحوم موصی تھے۔ وفات اس طرح ہوئی کہ تین مسلح افراد ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ یہ اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔اہلیہ اور تین بچے نیچے تھے۔ بیٹا بھی اپنے کمرے میں تھا۔ ڈاکوؤں نے سب کے فون لے لیے۔ مرحوم شور سن کر بیدار ہوئے۔ ایک ڈاکو آپ کے کمرے میں داخل ہو گیا، مرحوم نے ڈاکو کو ڈرانا چاہا تو اُس وقت اُس نے آپ کے ناک اور کندھے پر ایک ڈنڈے سے ضرب لگائی اور فرار ہو گیا۔اُس وقت مرحوم اپنے بیٹے کے کمرے کی طرف جانے لگے تو ایک ڈاکو جو سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا اس نے آپ پر دو فائر کیے۔ ایک گولی مرحوم کے دل کے قریب لگی اور موقعے پر ہی آپ کی وفات ہو گئی۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ آپ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صحابہؓ حضرت مولوی قدرت الله صاحب سنوریؓ اور حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ کے پڑنواسے تھے۔جماعت کے فعّال ممبر تھے۔ پنجوقتہ نماز اور تہجد میں باقاعدہ تھے۔ پُر جوش داعی الیٰ الله تھے۔ اپنے حلقے میں بطور لوکل سیکرٹری تبلیغ خدمت کرنے کا بھی موقع ملا۔ اِس وقت بطور صدر حلقہ خدمت کر رہے تھے۔ پسماندگان میں اِن کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں بھی شامل ہیں۔الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ والدہ اور بیوی بچوں کو صبر عطا فرمائے۔ اِن کی اولاد اِن کے نیک نمونے اور اِن کی خواہشات پر چلنے والی ہو۔ ٭…٭…٭