https://youtu.be/jQnrZTj-4fA تبلیغ اسلام اور احبابِ جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی بابرکت تربیت و تبلیغی عملی کاوشیں ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا ہے۔ تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے۔ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جاسکتا، جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں، اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کرلیتے اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے ۱۹۲۲ء: لجنہ اماء اللہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے ۲۵؍دسمبر ۱۹۲۲ء کو لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی جس کی پہلی سیکرٹری حضرت امة الحئی صاحبہؓ تھیں۔حضرت امة الحئ صاحبہؓ کے بعد یہ اہم خدمت آپ کی حرم حضرت سارہ بیگم صاحبہ اور پھر حضرت سیدہ امّ طاہر رضی اللہ عنہما کے سپرد ہوئی۔ جب اس تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو لجنہ کی ممبرات نے حضرت امّ المومنینؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ اس کی صدارت قبول فرمائیں اور غالباً پہلا اجلاس آپ ہی کی صدارت میں ہوا تھا۔ لیکن آپ نے پہلے اجلاس ہی میں حضرت امّ ناصرؓ کو اپنی جگہ بٹھا کر صدارت کے لیے نامزد فرمادیا۔ چنانچہ حضرت امّ ناصرؓ اپنی وفات تک جو ۳۱؍جولائی ۱۹۵۸ء کو ہوئی یہ فرض نہایت خوش اسلوبی سے نبھاتی رہیں۔(تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۳۰۳) ۱۹۲۵ء: انجمن احمدیہ خدام الاسلام خلافتِ ثانیہ میں یکم مارچ ۱۹۲۵ء کو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے ’’انجمن احمدیہ خدام الاسلام ‘‘ قائم کی۔ جس کا مقصد اشاعت اسلام و احمدیت تھا۔ انجمن نے تبلیغی ٹریکٹوں کا مفید سلسلہ جاری کیا جو ایک عرصہ تک جاری رہا۔(تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۵۵۰) ۱۹۲۶ء: انجمن انصاراللہ برائے طلبہ و اساتذہ ۵؍نومبر ۱۹۲۶ء کو حضور نے احمدی بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے لیے انجمن انصاراللہ قائم فرمائی۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے نومبر ۱۹۲۶ء میں احمدی بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے لیے ’’انصاراللہ‘‘ کے نام سے ایک نئی انجمن قائم فرمائی۔اس انجمن میں زیادہ تر طالب علم شامل تھے۔ مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلبہ مع اساتذہ مختلف گروپوں کی صورت میں عصر کی نماز کے بعد مدرسہ احمدیہ کے صحن میں اکٹھے ہوتے اور حضور ممبروں کو خود ہدایات دیتے تھے۔ اس انجمن کا پہلا اجلاس ۵؍نومبر ۱۹۲۶ء کو منعقد ہوا۔ جس میں حضور نے ’’انصاراللہ‘‘ کے ہر ممبر کا فرض قرار دیا کہ اسے آیت الکرسی اور تین آخری سورتیں یاد ہونی چاہئیں اور اس کے پاس تین کتابیں ضرور ہونی چاہئیں۔ (۱) قرآن مجید (۲) کشتی نوح (۳) ریاض الصالحین۔ انجمن کے ممبروں کو حضورؓ نے وقتاً فوقتاً جو نصائح فرمائیں ان میں تہجد، خوش اخلاقی، استقلال، یکسوئی، السلام علیکم کی ترویج پر آپ نے خاص طور پر زور دیا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر دونوں سکولوں کے طلبہ نے اپنے اپنے نمائندوں کا بھی انتخاب کیا۔ چنانچہ مدرسہ احمدیہ کے بچوں نے پہلے سال کے لیے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اور تعلیم الاسلام ہائی سکول نے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو اپنا نمائندہ منتخب کیا۔ اس انجمن نے اپنے ممبروں میں بہت تھوڑے عرصہ میں نمایاں تبدیلی پیدا کر دی اور ان میں سے اکثر تہجد پڑھنے لگے۔ انجمن انصاراللہ کے طالب علموں میں ان کا ایک ’’اسلامی سیونگ بینک‘‘ بھی قائم فرمایا۔ جس کی مثال پیش کرتے ہوئے حضورؓ نے مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور کو ملاقات میں بتایا کہ مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے مسلم بینک کھولے جائیں جن میں سود کا شائبہ تک نہ ہو۔(تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۵۶۶) ۱۹۲۸ء ناصرات الاحمدیہ کا قیام جولائی ۱۹۲۸ء میں صاحبزادی امة الحمید صاحبہ (بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ) کی کوشش سے چھوٹی بچیوں کی لجنہ قائم ہوئی اور مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کے کچھ عرصہ بعد صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد پڑی۔ (تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۳۰۸) حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ فرماتی ہیں کہ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے کچھ سالوں کے بعد ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد ڈالی گئی جو کہ سات سے پندرہ سال تک کی بچیوں کی تنظیم ہے۔ جب لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم ہوئی اور ان کے اجلاسات ہوتے تھے تو ہم بچیاں باہر کھیلتی رہتی تھیں۔ ایک دن میں نے ان کو اکٹھا کیا۔ اندر کمرے میں لجنہ کا اجلاس ہو رہا تھا میں نے باہر تخت پوش پر سب بچیوں کو بٹھایا اور کہا آؤ ہم بھی اجلاس کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت مصلح موعودؓ تشریف لائے ہمیں دیکھا تو پوچھا کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ہم چھوٹی لجنہ ہیں اور ہم اپنا اجلاس کر رہی ہیں۔ آپؓ بہت خوش ہوئے اور ہمیں ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ کا نام دیا جس کے لغوی معنی ’’احمدیت کی مددگار بچیاں‘‘ ہیں۔ (روزنامہ الفضل آن لائن لندن۳؍اگست ۲۰۲۲ء بحوالہ خدیجہ جرمنی شمارہ ۱۰-۲۰۱۳ء، صفحہ ۴۰۱) تاریخ لجنہ اماء اللہ کے مطابق بچیوں کے لیے اس شعبہ کی ابتدا تو کئی سال پہلے ہو چکی تھی۔ بنات الاحمدیہ، خادمات الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کے نام سے کئی بار بچیوں نے مجالس قائم کیں۔ چونکہ ان کو پورے طور پر لجنہ اماء اللہ کی نگرانی میسر نہ آئی کچھ عرصہ کام کرکے سست ہوگئیں۔ اس سال(۱۹۴۵ء) میں ناصرات الاحمدیہ کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا گیا اور اس کی سب سے پہلی سیکرٹری ۲۴؍اپریل ۱۹۴۵ء کو طیبہ صدیقہ بیگم صاحبہ خاں مسعود احمد خاں صاحب مقرر کی گئیں۔ ناصرات میں شامل ہونے کے لیے آٹھ سال سے پندرہ سال کی عمر مقرر کی گئی۔ مئی ۱۹۴۵ء تک قادیان کے ہر محلہ میں ناصرات کا قیام ہو چکا تھا۔ (تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اول صفحہ ۶۳۴) ۱۹۳۱ء انصاراللہ کا احیاء سال ۱۹۳۱ء میں تنظیم انصاراللہ کا احیاء ہوا ور اس نے دعوت الی اللہ کے لیے بہترین خدمات سر انجام دیں۔ فروری ۱۹۳۱ء میں’’انصاراللہ‘‘ کا احیاء ہوا اور اس کا مقصد یہ قرار پایا کہ ہر جماعت سے ایسے مخلصوں کو جو تبلیغ کے لیے اپنے اوقات مرکزی لائحہ عمل کے مطابق وقف کریں دوسرے لوگوں سے ممتاز حیثیت دی جائے۔ انصاراللہ میں داخل ہونے والے احمدیوں سے یہ عہد لیا جاتا تھا کہ وہ نظارت دعوۃ و تبلیغ یا مقامی سیکرٹری تبلیغ کے ماتحت اپنے ایام وقف تبلیغ سلسلہ کے لیے اس حلقہ میں گزاریں گے جو ان کے لیے مقرر کیا جائے گا اور اپنی علمی استعداد بڑھانے کے لیے ان مضامین کی تیاری کریں گے جو لائحہ عمل میں تجویز کیے گئے ہیں۔ یہ تبلیغی تنظیم نظارت دعوۃ وتبلیغ کی دست و بازو ثابت ہوئی اور ملک کے طول و عرض میں اس نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس کی ترقی میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ اور حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ کی کوششوں کا بہت دخل تھا۔ انصاراللہ کی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز قادیان کے قرب و جوار میں بیٹ کے علاقہ سے کیا گیا۔ جہاں ۲۸؍ مارچ ۱۹۳۱ء کو بتیس افراد پر مشتمل پہلا وفد پہنچا اس نے سولہ حلقوں میں تقسیم ہو کر ایک سو پندرہ بستیوں میں پیغام احمدیت پھیلانے کی بنیاد رکھ دی۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ قادیان کا ہر بالغ احمدی (معذوروں کے سوا ) سال میں پندرہ دن تبلیغ کے لیے وقف کرے جو نظارت دعوۃ تبلیغ کے زیر انتظام بیرونی مقامات میں بھیجا جائے گا۔ انصاراللہ کے اس پہلے وفد کے تمام افراد قادیان ہی کے رہنے والے اور حضور کی تحریک پر روح اخلاص کا نمونہ دکھانے والوں میں سابقون الاولون تھے۔ اس کے بعد ۹؍اپریل ۱۹۳۱ء کو دوسرا وفد (کہ وہ بھی) بتیس ہی افراد پر مشتمل تھا۔ اسی علاقہ میں روانہ ہوا۔ چودھری محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ کا بیان ہے کہ ’’مولوی غلام رسول صاحبؓ راجیکی اس تبلیغی مہم بیٹ کے انچارج مقرر کیے گئے تھے آپ کا ہیڈ کوارٹر ’’بھینی میلواں‘‘ تھا۔ میں بھی جولائی کے اس وفد میں شامل تھا جس نے اس علاقہ میں کام کیا‘‘۔ قادیان سے باہر جس تنظیم انصاراللہ نے سب سے پہلے اپنے حلقہ تبلیغ میں کام شروع کرنے کی اطلاع دی۔ وہ بنگہ ضلع جالندھر کی تنظیم انصاراللہ تھی۔ یہ تھی مختصر سی داغ بیل اس تنظیم کی جو بعد کو جماعت احمدیہ کی ایک مستقل تحریک بنی اور جو آج عظیم الشان خدمات بجا لا رہی ہے۔(تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۲۵۵-۲۵۶) فروری ۱۹۳۸ء: مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ ۳۱؍جنوری ۱۹۳۸ء کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خصوصی اجازت اور شیخ محبوب عالم صاحب ایم اے کی دعوت پر قادیان کے مندرجہ ذیل دس نوجوان ان کے مکان متصل بورڈنگ مدرسہ احمدیہ پر جمع ہوئے۔ ان احباب نے صدارت کے لئے مولوی قمر الدین صاحب کا اور سیکرٹری کے لیے شیخ محبوب عالم صاحب خالد کا انتخاب کیا۔ ان نوجوانوں نے خداتعالیٰ کے فضل و نصرت پر بھروسہ رکھتے ہوئے تائید خلافت میں کوشاں رہنے اور اس کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنہ کے خلاف سینہ سپر ہونے کا عزم کیا۔ حضورؓ نے ۴؍فروری ۱۹۳۸ء کو اس تنظیم کو ’’مجلس خدام الاحمدیہ‘‘ کے نام سے موسوم فرمایا اور فروری اور مارچ میں قادیان کے مختلف حلقوں میں اس کی شاخیں قائم کر دی گئیں۔ اس دوران میں مجلس کا کام یہ تھا کہ اس کے ارکان قرآن و حدیث، تاریخ، فقہ اور احمدیت و اسلام کے متعلق کتب دینیہ کا مطالعہ کرتے اور مخالف احمدیت و خلافت فتنوں کے جواب میں تحقیق و تدقیق کرتے۔ ان دنوں شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری کا فتنہ برپا تھا۔ چنانچہ مجلس نے یکے بعد دیگرے دو ٹریکٹ شیخ مصری صاحب کے اشتہاروں کے ردّ میں لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ پہلا ٹریکٹ ’’شیخ مصری صاحب کا صحیح طریق فیصلہ سے فرار’’کے عنوان سے شائع ہوا۔ دوسرے کا عنوان ‘‘روحانی خلفاء کبھی معزول نہیں ہوسکتے‘‘ تھا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس مجلس کی بنیاد رکھتے ہوئے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے(دشمن کے) ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا۔ ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اس کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہیں اور درحقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے۔ بے شک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں وہ میری ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے جو وہ اپنے کسی بندے(کو) دیتا ہے…۔ آج نوجوانوں کی ٹریننگ کا زمانہ ہے اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹریننگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہورہا۔ مگر جب قوم تربیت پاکر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے۔ درحقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے مجلس خدام الاحمدیہ کی تاسیس کے زمانہ میں واضح لفظوں میں اس کی غرض و غایت یہ بیان فرمائی کہ ’’میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولادوں کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولادوں کے دلوں میں۔ یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے۔ ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کرے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو۔ اگر ایک یا دو نسلوں تک یہ تعلیم محدود رہی تو کبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحہ ۴۴۵-۴۴۷) اپریل۱۹۳۸ء:اطفال الاحمدیہ اطفال الاحمدیہ سات سال سے پندرہ سال کے لڑکوں کی تنظیم ہے۔ اس نئی تنظیم کے قائم کرنے کا ارشاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اولاً مسجد اقصیٰ قادیان میں خطبہ جمعہ کے دوران ان الفاظ میں کیا کہ ’’اصل چیز یہ ہے کہ اچھی عادت بھی ہو اور علم بھی ہو مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب عادت کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور علم کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے۔ عادت کا زمانہ بچپن کا ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے پس خدام الاحمدیہ کی ایک شاخ ایسی بھی کھولی جائے جس میں پانچ چھ سال کے بچوں سے لے کر پندرہ سولہ سال تک کی عمر کے بچے شامل ہو سکیں یا اگر کوئی اور حد بندی تجویز ہو تو اس کے تحت بچوں کو شامل کیا جائے۔ بہرحال بچوں کی ایک الگ شاخ ہونی چاہیے اور ان کے الگ نگران مقرر ہونے چاہئیں۔ مگر یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے کہ ان بچوں کے نگران نوجوان نہ ہوں بلکہ بڑی عمر کے لوگ ہوں….ایسے لوگ جن کی عمریں گو زیادہ ہوں مگر ان کے دل نوجوان ہوں اور وہ خدمت دین کے لیے بشاشت اور خوشی سے کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ایسے لوگوں کے سپرد بچوں کی نگرانی کی جائے اور ان کے فرائض میں یہ امر داخل کیا جائے کہ وہ بچوں کو پنجوقتہ نمازوں میں باقاعدہ لائیں، سوال و جواب کے طور پر دینی اور مذہبی مسائل سمجھائیں، پریڈ کرائیں اور اسی طرح کے اور کام ان سے لیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍اپریل ۱۹۳۸ء) ۲۶؍جولائی ۱۹۴۰ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس خدام الاحمدیہ کو یہ ارشاد فرمایا کہ’’ آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہوگا۔ ہر وہ احمدی جس کی پندرہ سے چالیس سال تک عمر ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے۔‘‘ اور یہ ارشاد فرمایا کہ ’’ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کو منظم کریں۔ اور اطفال الاحمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کر کے ان کے لیے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے۔‘‘ (الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء) ۱۹۴۰ء: مجلس انصاراللہ کا باقاعدہ قیام حضورؓ نے ۲۶ وفا؍ جولائی ۱۳۱۹ہش؍۱۹۴۰ء کو اطفال الاحمدیہ کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی چالیس سال سے اوپر کے احمدیوں کی ایک مستقل تنظیم کی بھی بنیاد رکھی، جس کا نام ’’مجلس انصاراللہ‘‘ تجویز فرمایا اور فی الحال قادیان میں رہنے والے اس عمر کے تمام احمدیوں کی شمولیت اس میں لازمی اور ضروری قرار دی۔ انصاراللہ کی تنظیم کا عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب کو نامزد فرمایا اور ان کی اعانت کے لیے مندرجہ ذیل تین سیکرٹری مقرر فرمائے۔ ۱۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ ایم اے۔ ۲۔حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ ایم اے۔۳۔ حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ۔ اس موقعہ پر حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس انصاراللہ کی نسبت بعض بنیادی ہدایات بھی دیں جن کا تذکرہ حضور ہی کے الفاظ میں کیاجانا چاہیے۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصاراللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں۔ ان کے لئے بھی لازمی ہوگا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں۔ اگر مناسب سمجھا گیا۔ تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں ۳ دن یا کم وبیش اکٹھے بھی لئے جاسکتے ہیں۔ مگر بہرحال تمام بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر کسی استثناء کے قادیان میں منظم ہوجانا لازمی ہے۔ مجلس انصاراللہ کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے کے لئے میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد، چودھری فتح محمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں۔ تین سیکرٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھادینے چاہئیں اور چالیس سال سے اوپر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہئے۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہوسکتی ہے۔ اور جوشخص جس کام کے لئے موزوں ہو اس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے۔ یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا جاسکتا ہے۔ یا یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں دوچار دن لے لئے جائیں۔ جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کرلیں اسی دن میری منظوری سے نیا پریذیڈنٹ اور نئے سیکرٹری مقرر کئے جاسکتے ہیں۔ سر دست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لئے ہے جب تک سب لوگ منظم نہ ہوجائیں جب منظم ہوجائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بناسکتے ہیں مگر میری منظوری اس کے لئے ضروری ہوگی۔ میرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہوگا جیسا مربی کا تعلق ہوتا ہے اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہوگی یا جو بھی خلیفہ وقت ہو۔ میرا اختیار ہوگا کہ جب بھی مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلالوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں… اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتاہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہی ہیں۔ اب انہیں ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصاراللہ قائم کرنی چاہئیں۔ ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصاراللہ کے قواعد ہوں گے۔مگر سردست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طورپر نہیں ہوگا بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہوگا۔ لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیر یا سیکرٹری ہیں ان کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں۔ کوئی امیر نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ کوئی پریذیڈنٹ نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اور کوئی سیکرٹری نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اگر اس کی عمر پندرہ سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لئے انصاراللہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا…۔ اب پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا لازمی ہے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحہ ۷۰-۷۳) ذیلی تنظیم مجلس انصاراللہ جماعت احمدیہ عالمگیر کی بنیاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی خاص دعاؤں سے رکھی۔ قریباً پون صدی کا سفر طے کرتے ہوئے اس ذیلی تنظیم کو خلفائے احمدیت کی مسلسل راہنمائی اور سرپرستی میسر رہی اور اس کی شاخیں قادیان دارالامان سے نکل کر اب دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہیں۔ مجلس انصاراللہ اور دوسری مجالس کے بنیادی اغراض ومقاصد حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے پیش نظر مجلس انصاراللہ اور دوسری تنظیموں کے قیام کا مقصد کیا تھا اور حضورؓ کی ان سے کیاتوقعات وابستہ تھیں۔ اس کی وضاحت خود حضورؓ ہی کے الفاظ میں کی جانی مناسب ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں:’’میں نے انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال احمدیہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں تاکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو۔ بچے بچوں کی نقل کریں۔ نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں کی نقل کریں جب بچے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ یہ دیکھیں گے کہ ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور ان کو دنیا میں پھیلانے میں مشغول ہیں۔ وہ نیک کاموں کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو ان کے دلوں میں بھی یہ شوق پیدا ہوگا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں۔ دوسرے وہ جو رقابت کی وجہ سے عام طور پر دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہوگا۔ جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے گا، نوجوان نوجوان کو نصیحت کرے گا اور بچہ بچے کو نصیحت کرے گا تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ مجھے کوئی ایسا شخص نصیحت کررہا ہے جو عمر میں مجھ سے چھوٹایا عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہے۔ وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے خیالات اور میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کررہا ہے اور اس وجہ سے ان کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہوگا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائے گا مگر یہ تغیر اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب جماعت میں یہ نظام پورے طور پر رائج ہوجائے۔ … ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا ہے۔ تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے۔ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جاسکتا، جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں، اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کرلیتے اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے۔… جب ہم تمام جماعت کے افراد کو ایک نظام میں منسلک کرلیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف کامل طور پر توجہ کرسکیں گے اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصاراللہ اور اطفال احمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے اس مقصد میں جو ان کے قیام کا اصل باعث ہے اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال احمدیہ اس اصل کو اپنے مدنظر رکھیں جو حیث ماکنتم فولوا وجوھکم شطرہ میں بیان کیا گیا ہے۔ کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اس فرض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہوجائے جس طرح ایک پاگل اور مجنون تمام اطراف سے اپنی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک بات کے لئے اپنے تمام اوقات کو صرف کردیتا ہے۔ جب تک رات اور دن انصاراللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے جب تک رات اور دن خدام الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے جب تک رات اور دن اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے تمام اوقات کو صرف نہیں کردیتے اس وقت تک ہم اپنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کرسکتے اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کرلیتے اس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری طرح توجہ نہیں کرسکتے۔‘‘(الفضل۱۱؍اکتوبر۱۹۴۴ء) اسی سلسلہ میں یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’میری غرض انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو میں مکمل کردوں۔ ایک دیوار انصاراللہ ہیں، دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ ہیں اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں۔ اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ ہوجائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوسکے گی۔ عمارت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کی چاروں دیواریں آپس میں جڑی ہوئی ہوں۔ علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چاردیواریں ایک دیوار جتنی قیمت بھی نہیں رکھتیں۔ کیونکہ اگر ایک دیوار ہوتو اس کے ساتھ ستون کھڑے کرکے چھت ڈالی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر ہوں تو چاروں دیواریں، لیکن چاروں علیحدہ علیحدہ کھڑی ہوں تو ان پر چھت نہیں ڈالی جاسکے گی۔ اور اگر اپنی حماقت کی وجہ سے کوئی شخص چھت ڈالے گا تو وہ گرجائے گی۔ کیونکہ کوئی دیوار کسی طرف ہوگی اور کوئی دیوار کسی طرف۔ ایسی حالت میں ایک دیوار کا ہونا زیادہ مفید ہوتا ہے بجائے اس کے کہ چار دیواریں ہوں اور چاروں علیحدہ علیحدہ ہوں۔ پس خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہئے۔ اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو خداتعالیٰ کے سامنے تو وہ جوابدہ ہوں گے ہی میرے سامنے بھی جوابدہ ہوں گے یا جو بھی امام ہوگا اس کے سامنے انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لئے مہیا کئے ہیں اس لئے مہیا نہیں کئے کہ جماعت کو جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اس کو بھی ضائع کردیا جائے‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد۸ صفحہ ۷۴-۷۵ و -۷۷ ۷۸) تمام ذیلی تنظیمیں انصاراللہ ہیں ۱۹۱۱ء میں انجمن انصاراللہ پر معترضین نے خلافتِ ثانیہ کے آغاز پر نظامِ خلافت سے برگشتہ ہوکر ۱۹۱۴ء میں الگ ایک احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور قائم کی۔ انہوں نے لاہور کو اپنا مرکز بنا کر مولوی محمد علیؓ صاحب کی سرکردگی میں اپنا الگ نظام جاری کیا۔ لیکن آج دنیا شاہد ہے کہ انجمن ہمدردان اسلام سے مجلس انصاراللہ تک کے اس سفر میں خدا تعالیٰ کی مشیت، سکیم اور قدرت کا ہاتھ خلافتِ احمدیہ کو عطا ہوا اور تمام ذیلی تنظیموں کی شاخیں بھی قادیان دارالامان سے نکل کر اب دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہیں۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کے الہام ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ‘‘ کو ہر روز پورا کر رہی ہیں۔ پھر جہاں ان کی جانب سے ابتدا میں یہ اعتراض ہوا کہ کیا ممبران انجمن انصاراللہ کے سوا کوئی احمدی انصاراللہ نہیں؟ تو وقت نے ثابت کیا کہ انصاراللہ کے نام سے ہر عمر کے لوگوں کے لیے تنظیمیں قائم ہوئیں۔ پھر دیگر ذیلی تنظیموں کا قیام اس بات پر شاہد ہے کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد ناصر اللہ ہے۔ چاہے وہ سات سے پندرہ سال کی عمر کے اطفال ہوں یا ناصرات، پندرہ سے چالیس سال کے خدام ہوں یا چالیس سے اوپر کے انصار ہوں۔ لجنہ اماء اللہ کی ممبرات بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ ہر احمدی من انصاری الی اللّٰہ کا جواب لبیک سے دیتا ہے۔ اور ان ذیلی تنظیموں نے اپنے قیام کے مقاصد کو خلیفہ وقت کے منشا کے مطابق ہر دور میں پورا کیا ہے اور آئندہ بھی پورے کرنے کے عزم کا اظہار ہر اجلاس، میٹنگ، ریفریشرکورسز، کھیلوں اور اجتماع سے قبل اپنے وعدوں اور عہدوں کی صورت میں کرتے ہیں۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر احمدی اپنے آپ کو ان ذیلی تنظیموں کا فعال رکن بنائے۔ تجنید میں شامل ہوکر تمام پروگرامز میں عملی کردار ادا کرے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: بےجا تنقید، اعتراضات اور نکتہ چینی کی روِش اخلاقی تنزلی کی علامت