https://youtu.be/SWwhBYOj3c4 ربوہ میں صرف انہی لوگوں کو رہنا چاہیے جو ہر وقت دین کی خدمت کے لیے تیار رہیں (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۴۹ء بمقام ربوہ) ۱۹۴۹ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے ربوہ میں رہنے والوں سے اپنی توقعات اور خدا تعالیٰ پر توکل پیدا کرنے کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) یہ نئی بستی جہاں ایک طرف مدینہ سے مشابہت رکھتی ہے اس لحاظ سے کہ ہم قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد یہاں آئے وہاں دوسری طرف یہ مکہ سے بھی مشابہت رکھتی ہے کیونکہ یہ نئے سرے سے بنائی جا رہی ہے اور محض احمدیت کے ہاتھوں سے بنائی جا رہی ہے جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ بنوایا۔ میں نے خود اپنی ذات میں خصوصاً قادیان سے نکلنے کے بعد خداتعالیٰ کے ایسے ہی نشانات دیکھے ہیں ایسے انسان جن کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ میں اُن کی مدد کروں وہ اصرار کرکے مجھے ایسی رقوم دے گئے کہ میرے وہم میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ وہ اِتنا روپیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ پر توکّل ہی انسان کو حقیقی زندگی دیتا ہے اور توکّل ہی ہر قسم کی برکات کا انسان کو مستحق بناتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کے ذریعہ خداتعالیٰ نے مکہ بنوایا تو اُس وقت اُس نے یہی کہا کہ یہاں توکّل سے رہنا اور خداتعالیٰ سے روٹی مانگنا بندوں سے نہ مانگنا۔ اسی نیت اور ارادہ کے ساتھ ہمیں قادیان میں بھی رہنا چاہیے تھا مگر وہ احمدیت سے پہلے کی بنی ہوئی بستی تھی اور ابھی بہت سے لوگ اس سبق سے ناآشنا تھے لیکن یہ نئی بستی جہاں ایک طرف مدینہ سے مشابہت رکھتی ہے اس لحاظ سے کہ ہم قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد یہاں آئے وہاں دوسری طرف یہ مکہ سے بھی مشابہت رکھتی ہے کیونکہ یہ نئے سرے سے بنائی جا رہی ہے اور محض احمدیت کے ہاتھوں سے بنائی جا رہی ہے جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ بنوایا۔ وہاں بھی خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی نسل سے یہی کہا تھا کہ تم اپنی روٹی کا ذمہ دار مجھے سمجھنا کسی بندے کو نہ سمجھنا۔ پھر میں تم کو دوں گا اور اس طرح دوں گا کہ دنیا کے لیے حیرت کا موجب ہو گا۔ چنانچہ دیکھ لو ایسا ہی ہوا۔ مکہ والے بیشک محنت مزدوری بھی کرنے لگ گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اگر وہ محنت و مزدوری چھوڑ دیتے تب بھی جس طرح بنی اسرائیل کے لیے خداتعالیٰ نے ایک جنگل میں منّ و سلویٰ نازل کیا تھا اسی طرح مکہ والوں کے لیے منّ و سلویٰ اُترنے لگے کیونکہ وہاں رہنے والوں کا رزق خداتعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔ اسی طرح ہم کو بھی اس جنگل میں جس جگہ کوئی آبادی نہیں تھی، جس جگہ رزق کا کوئی سامان نہیں تھا، جو مکہ کی طرح ایک وادیٔ غیرذِی زَرع تھی اور جہاں مکہ کی طرح کھاری پانی ملتا ہے اور جو اس لحاظ سے بھی مکہ سے ایک مشابہت رکھتا ہے کہ مکہ کی طرح یہاں کوئی سبزہ وغیرہ نہیں اور پھر مکہ کے گرد جس طرح پہاڑیاں ہیں اسی طرح اس مقام کے اردگرد پہاڑیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لیے بسائیں۔ پس اس موقع پر ہمیں بھی اور یہاں کے رہنے والے سب افراد کو بھی یہ عزم کرنا چاہیے کہ انہوں نے خدا سے مانگنا ہے کسی بندے سے نہیں مانگنا۔ تم اپنے دل میں ہنسو، تمسخر کرو، کچھ سمجھو حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے معزز روزی وہی ہے جو خداتعالیٰ سے مانگی جائے۔ وہ کوئی روزی نہیں جو انسان کو انسان سے مانگ کر ملتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے (مگر یہ اعلیٰ مقام کی بات ہے اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور شاید تم میں سے بہتوں کی سمجھ میں بھی نہ آئے) کہ وہ روزی بھی اتنی اچھی نہیں جو خداتعالیٰ سے مانگ کر ملتی ہے۔ بلکہ اعلیٰ روزی وہ ہے جو خداتعالیٰ خود دیتا ہے اور بے مانگے کے دیتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی ایک بات پر (مگر یہ ابتدائی مقام کی بات تھی اور اعلیٰ مقام ہمیشہ ابتدائی منازل کو طے کرنے کے بعد ملتا ہے۔ اور ابتدائی مقام یہی ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے میں نے خدا سے مانگنا ہے) کہ میں نے بھی خدا سے کچھ مانگا اور اپنے خیال میں انتہائی درجہ کا مانگا مگر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی بیوقوفی پر اور ہمیشہ لطف آتا ہے خداتعالیٰ کے انتقام پر کہ جو کچھ ساری عمر کے لیے میں نے مانگا تھا وہ بعض دفعہ اس نے مجھے ایک ایک ہفتہ میں دے دیا۔ میں تو اس پر شرمندہ ہوں کہ میں نے کیا حماقت کی اور اُس سے کیا مانگا اور وہ آسمان پر ہنستا ہے کہ اس کو ہم نے کیسا بدلہ دیا اور کیسا نادم اور شرمندہ کیا۔ پھر میں نے سمجھا کہ مانگنا بھی فضول ہے۔ کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کریں کہ وہ ہمیں بےمانگے ہی دیتا چلا جائے۔ ایک شخص جو کسی بڑے آدمی کے گھر مہمان جاتا ہے وہ اگر اس سے جا کر کہے کہ صاحب !میں آپ کے گھر سے کھانا کھاؤں گا تو اس میں میزبان اپنی کتنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ جب وہ اس کے ہاں مہمان آیا ہے تو صاف بات یہ ہے کہ وہ اس کے ہاں سے کھانا کھائے گا۔ اُس کا یہ کہنا کہ میں آپ کے ہاں سے کھانا کھاؤں گا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ وہ میزبان کے متعلق اپنے دل میں یہ بدظنی محسوس کرتا ہے کہ شاید وہ کھانا نہ کھِلائے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کا جو مہمان ہو جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خود کھِلاتا اور پِلاتا ہے۔ اگر وہ اس سے مانگے تو اس میں اس کی اعلیٰ و ارفع شان کی ہتک ہوتی ہے۔ مگر خدا کا سلوک ہر بندے سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ جو خدا کے لیے اپنی زندگی وقف نہیں کرتے اُن کو بھی وہ روزی بہم پہنچاتا ہے اور جو اُس کے لیے اپنی ساری زندگی کو وقف کیے ہوئے ہوتے ہیں اُن کو بھی وہ روزی بہم پہنچاتا ہے۔فرماتا ہے۔ کُلًّا نُّمِدُّ ہٰۤؤُلَآءِ وَہٰۤؤُلَآءِ (بنی اسرائیل: ۲۱) ہم اس کے لیے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ایمان سے خارج اور دہریہ ہوتا ہے اور اس کے لیے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ہم پر کامل ایمان رکھنے والا ہوتا ہے۔یہ دو گروہ ہیں جو الگ الگ ہیں۔ایک وہ ہے جو ہمیں گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خود کمائی کروں گا اور اپنی کوشش سے رزق حاصل کروں گا اور ایک گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ کمائی لغو چیز ہے بلکہ میں نے تو خداتعالیٰ سے بھی نہیں مانگنا۔ اس کی مرضی ہے چاہے دے یا نہ دے۔فرماتا ہے ہم اِس گروہ کو بھی دیتے ہیں اور اُس گروہ کو بھی دیتے ہیں۔ ایک ہٰۤؤُلَآءِ اُن لوگوں کی طرف جاتا ہے جو بدترین خلائق ہوتے ہیں اور جو مادیات کے اتنے دلدادہ اور عاشق ہوتے ہیں کہ سمجھتے ہیں سب نتائج کی بنیاد مادیات پر ہی ہے۔ اور ایک ہٰۤؤُلَآءِ اُن لوگوں کی طرف جاتا ہے جو مادیات سے بالکل بالا ہو کر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ سمجھتے ہیں ہم نے خدا سے بھی نہیں مانگنا۔ اور ایک درمیانی گروہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے اپنے درجہ کے مطابق ظاہر میں کچھ مادی کوششیں بھی کر لیتے ہیں اور پھر ساتھ اس کے اللہ تعالیٰ پر توکّل بھی رکھتے ہیں۔ کبھی مانگتے ہیں اور کبھی نہیں مانگتے یا اپنی زندگی میں سے کچھ عرصہ کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کوشش اور جدوجہد کو ترک کر دیتے ہیں۔ ظاہری تدبیر حضرت خلیفہ اول نے بھی کی۔ آپ طب کرتے تھے اور روپیہ کماتے تھے۔ اور ظاہری تدبیر ہم نے بھی کی۔ ہم بھی زمیندارہ کرتے ہیں اور بعض دفعہ تجارت بھی کر لیتے ہیں مگر اس نیت سے کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ خداتعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے۔ اگر وہ کہے کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دینا تو ہمیں اُس سے کوئی شکوہ نہیں ہوگا۔ ہمیں اس کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ہم پھر بھی یہی سمجھیں گے کہ وہ ہماری اُتنی ہی حمد کا مستحق ہے جتنی حمد کا اب مستحق ہے بلکہ وہ ہماری اُتنی حمد کا مستحق ہے جتنی حمد ہم کر بھی نہیں سکتے۔ پس اس مقام کے رہنے والوں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ توکّل سے کام لیں اور ہمیشہ اپنی نگاہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلند رکھیں۔ جو دیانتدار احمدی ہیں میں اُن سے کہوں گا کہ اگر وہ کسی وقت یہ دیکھیں کہ وہ توکّل کے مقام پر قائم نہیں رہے تو وہ خودبخود یہاں سے چلے جائیں۔ اور اگر خود نہ جائیں تو جب اُن سے کہا جائے کہ چلے جاؤ تو کم سے کم اُس وقت ان کا فرض ہو گا کہ وہ یہاں سے فوراً چلے جائیں۔ یہ جگہ خداتعالیٰ کے ذکر کے بلند کرنے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے، یہ جگہ خداتعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے، یہ جگہ خداتعالیٰ کے دین کی تعلیم اور اس کا مرکز بننے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے۔ ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد اور اپنے اعزہ اور اقارب کو اس رستہ پر چلانے کی کوشش کرے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو سکے۔ نوحؑ کی کوشش کے باوجود اُس کا بیٹا اُس کے خلاف رہا۔ لوطؑ کی کوشش کے باوجود اُس کی بیوی اس کے خلاف رہی۔ اِسی طرح اَور کئی انبیاء اور اولیاء ایسے ہیں جن کی اولادیں اور بھائی اور رشتہ دار اُن کے خلاف رہے۔ ہم میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے خاندان میں سے کتنوں کو دین کی طرف لا سکے گا مگر اس کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس کی ساری اولاد اور اس کی ساری نسل دین کے پیچھے چلے۔اور اگر اس کی کوشش کے باوجود اس کا کوئی عزیز اس رستہ سے دور چلا جاتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ میری اولاد میں سے نہیں۔میری اولاد وہی ہے جو اس منشا کو پورا کرنے والی ہے جو الٰہی منشا ہے۔ جو شخص دین کی خدمت کے لیے تیار نہیں وہ ہماری اولاد میں سے نہیں۔ ہم اپنی اولاد کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ضرور دین کے پیچھے چلیں۔ ہم ان کے دل میں ایمان پیدا نہیں کر سکتے۔ خدا ہی ہے جو ان کے دلوں میں ایمان پیدا کر سکتا ہے۔لیکن ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ جو اولاد اس منشا کو پورا کرنے والی نہ ہو اسے ہم اپنے دل سے نکال دیں۔ بہرحال اگر خداتعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اعلیٰ مقام دے تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس مقام کو دین کا مرکز بنائے رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لیے وہ اپنی زندگیاں وقف کرتے چلے جائیں۔ لیکن اگر ہماری کسی غلطی اور گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ مقام ہمیں نصیب نہ کرے اور ہماری ساری اولادیں یا ہماری اولادوں کا کچھ حصہ دین کی خدمت کرنے کے لیے تیار نہ ہو، اللہ تعالیٰ پر توکّل اس کے اندر نہ پایا جاتا ہو، خداتعالیٰ کی طرف اِنابت کا مادہ اس کے اندر موجود نہ ہو تو پھر ہمیں اپنے آپ کو اس امر کے لیے تیار رکھنا چاہیے کہ جس طرح ایک مُردہ جسم کو کاٹ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے اُسی طرح ہم اس کو بھی کاٹ کر الگ کر دیں اور اس جگہ کو دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے ان سے خالی کروا لیں۔ بہرحال میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر یہ عزم پیدا کرے۔ یہ عزم پیدا کرنا کوئی معمولی چیز نہیں۔ بڑے کام بڑے ارادوں کے ساتھ ہوا کرتے ہیں۔ بڑے کام بڑے عزم سے ہوا کرتے ہیں اور بڑے کام بڑی قربانیوں سے ہوا کرتے ہیں۔ انسان ہزاروں دفعہ موت سے ڈر کر پیچھے ہٹتا ہے حالانکہ وہی وقت اُس کی دائمی زندگی کا ہوتا ہے۔ جہنم میں جانے والوں میں سے کروڑوں کروڑ انسان ایسے ہوں گے کہ جب ان کے اعمال ان کے سامنے کھولے جائیں گے تو انہیں پتا لگے گا کہ صرف ایک سیکنڈ کی غلطی کی وجہ سے وہ جہنم میں گر گئے۔ اگر ایک سیکنڈ وہ اَور صبر کرتے تو خداتعالیٰ کا فیصلہ ان کے حق میں صادر ہو جاتا مگر وہ ایک سیکنڈ پہلے خداتعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گئے۔ وہ ایک سیکنڈ پہلے بے صبری کا شکار ہو گئے اور صرف ایک سیکنڈ کی غلطی کی وجہ سے دوزخ میں جا گرے۔ کروڑوں کروڑ انسان ایسے مقام پر پہنچ کر دوزخ میں چلا جاتا ہے جب خدا کی طرف سے ان کے ولی بننے کا فیصلہ ہو رہا ہوتا ہے۔ کروڑوں کروڑ انسان اُس وقت بددیانت ہو جاتا ہے جب خداتعالیٰ کی طرف سے ان کی دیانت کے قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کے مادی سامان بہم پہنچائے جانے کا فیصلہ ہو رہا ہوتا ہے۔خداتعالیٰ ہمارا امتحان لیتا ہے اور اس میں بعض دفعہ ہم اُس وقت فیل ہو جاتے ہیں جب امتحان کے پرچوں کا ہمارے حق میں فیصلہ ہونے والا ہوتا ہے۔پیشتر اس کے کہ ہم اپنا پرچہ ختم کرتے اور وہ ہمیں پاس کرتا ہم مایوس ہو کر امتحان کے کمرہ سے باہر نکل جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کو ناکامی میں بدل لیتے ہیں۔ پس مت سمجھو کہ عزم کوئی معمولی چیز ہے۔تم میں سے جو اس ارادہ کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے میں اسے کہتا ہوں …یہ نسخہ بھی آزما…٭ اور وہ شخص جو طاقت تو رکھتا ہے مگر پھر بھاگنے کا خیال اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے میں اسے کہتا ہوں ٹھہر اور صبر کر۔ تیرے لیے خداتعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کھلنے والا ہے۔ بسااوقات خدا خود چل کر آ رہا ہوتا ہے اور دروازہ کی کنڈی کھول رہا ہوتا ہے کہ تُو منہ پھیر کر چلا جاتا ہے اور اس طرح خداتعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ کے لیے دُور چلا جاتا ہے اور ساری… ٭٭ہزاروں نہیں لاکھوں دلائل سے ہم ثابت کر سکتے ہیں۔ آدمؑ سے لے کر اب تک ایک ایک بات ہوچکی ہے لیکن اس مادی دنیا کے اثر کے نیچے ہزاروں ہزار بلکہ اربوں ارب ایسے لوگ ہیں جو اس رستہ پر چلنے سے گھبراتے ہیں۔ کاش! وہ اپنے گردوپیش کو نہ دیکھیں بلکہ پیچھے کی طرف دیکھیں۔وہ اُس دنیا کی طرف دیکھیں جو پیچھے گزر چکی ہے اِس دنیا کی طرف نہ دیکھیں جس کی اصلاح اور درستی کے لیے وہ کھڑے کیے گئے ہیں۔ کیا ہی بدقسمت وہ انسان ہے کہ جس کی اصلاح کے لیے اسے بھیجا جائے اُسی کے مرض میں وہ خود بھی گرفتار ہو جائے۔ کتنا بدقسمت وہ سپاہی ہے جو چور کو پکڑنے کے لیے بھیجا جائے اور خود اس کے ساتھ مل کر چوری کرنے لگ جائے۔ جو شخص اِس وقت مادیات میں مبتلا ہوتا ہے وہ اس مادی اثر کے نتیجہ میں ہوتا ہے جو اِس وقت دنیا میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس مادی اثر کو مٹانے کے لیے ہی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا گیا تھا۔ پھر ہم سے زیادہ بدنصیب اَور کون ہو گا کہ خدا نے تو ہمیں اس لیے بھیجا کہ ہم دین کے چوروں اور باغیوں کو پکڑ کر اُس کے سامنے لائیں اور ہم ان …٭٭٭اور ترقی کو دیکھ کر خود بھی انہیں چوروں اور باغیوں میں شامل ہو جائیں۔ پس اپنے اندر عزم پیدا کرو اور سوچو کہ تمہیں بھیجا کیوں گیا ہے؟ ہمیں انہی چیزوں کو دیکھنے کے لیے بھیجا گیا ہے جن کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں لالچ پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں انہی چیزوں کو مٹانے کے بھیجا گیا ہے جن کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں ان کے پیچھے چلنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ تم سمجھو یا نہ سمجھو یہ خدا کا کام ہے اور بہرحال ہو کر رہے گا۔ اگر تم یہ کام نہیں کرو گے تو خدا اَور لوگ کھڑے کر دے گا جو اس کام کو سرانجام دیں گے۔ یہ نظام بدلا جائے گا اور ضرور بدلا جائے گا۔ امریکہ اور روس اور انگلستان کے مادی لیڈر اور اسی طرح کے اَور صنادید جو اِس وقت ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں جو دنیا کے مستقبل پر مادی اسباب سے قبضہ جمانے کی فکر میں ہیںیہ مٹائے جائیں گے، یہ تباہ کیے جائیں گے،یہ برباد کیے جائیں گے۔ اور پھر دنیا اُس پرانے طریق پر لائی جائے گی جو آج سے تیرہ سَوسال پہلے جاری تھا۔ بلکہ خود ان لوگوں کی اولاد اسی طریق کو اختیار کرے گی اور اپنے آباء کے راستہ کو چھوڑ دے گی۔ کوئی تدبیر اس تقدیر کو بدل نہیں سکتی۔ یہ ناممکن نظر آنے والی چیزوں میں سب سے زیادہ ممکن چیز ہے۔ ایک رستم زماں کے لیے ایک چھوٹے سے کنکر کا اُٹھا لینا ناممکن ہو سکتا ہے لیکن دنیا کے موجودہ نقشہ کا تبدیل نہ ہونا ناممکن ہے۔ یہ نظام بدلے گا اور ضرور بدلے گا۔ سوال صرف یہ ہے کہ کس کے ہاتھ سے بدلے گا؟ ہمارے ہاتھ سے یا اَور لوگوں کے ہاتھ سے؟ اگر ہمارے ہاتھ سے اس نظام نے بدلنا ہے تو ہمیں پہلے اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا۔ جس چیز کو بدلنے کے لیے ہم کھڑے کیے گئے ہیں اُسے ہم اپنے لیے کس طرح اختیار کر سکتے ہیں۔ ایک درخت کے متعلق اگر ہم جانتے ہیں کہ اس پر بجلی گرنے والی ہے تو کیا یہ بدقسمتی نہیں ہو گی کہ ہم اس کے نیچے کھڑے ہو جائیں؟ ایک مکان کو اگر آگ لگنے والی ہے تو کیا یہ بدقسمتی نہیں ہو گی کہ ہم اس مکان میں رہنے لگ جائیں؟ ایک پہاڑ پر اگر زلزلہ آنے والا ہے تو کیا یہ بدقسمتی نہیں ہو گی کہ ہم اس پہاڑ پر چلے جائیں؟ اسی طرح وہ چیز جس کے لیے خداتعالیٰ کی طرف سے تباہی مقدر ہے، جس کے لیے خداتعالیٰ کی طرف سے بربادی مقدر ہے اُس کی نقل کرنا اور اس کی پیروی اختیار کرنا یہ ضرور ہماری بدقسمتی ہو گی، یہ ہماری انتہا درجہ کی حماقت ہو گی اور ہماری یہ کوشش اپنی خودکشی کے برابر ہو گی۔ پس ایمان کے ارادہ کے ساتھ یہاں رہو اور توکّل کی گرہ باندھ کر رہو اور ایک زندہ خدا پر یقین رکھتے ہوئے یہاں رہو۔ اگر خدا پر تمہارا یقین ہو گا، اگر خدا پر تمہارا ایمان ہو گا تو تم دیکھو گے کہ زمین تمہارے لیے بدل جائے گی، آسمان تمہارے لیے بدل جائے گا۔ ہمارا خدا وہی ہے جو آدم علیہ السلام کے وقت میں تھا۔مگر خدا بوڑھا نہیں ہوتا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس نے زمین و آسمان کو بدل دیا تھا، حضرت عیسٰی علیہ السلام، حضرت موسٰی علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے لیے اس نے زمین و آسمان کو بدل دیا تھا۔ اسی طرح اَور لاکھوں لوگ ہیں جن کے لیے خداتعالیٰ نے زمین و آسمان کو بدلا۔ یہی زمین و آسمان بدلنے تمہارے لیے بھی مقدر ہیں بشرطیکہ تم ان لوگوں کے نقشِ قدم پر چلو جن کے لیے خداتعالیٰ نے پہلے زمین و آسمان کو بدلا تھا۔ (الفضل ۶؍اکتوبر۱۹۴۹ء ) ٭ اصل مسودہ میں یہاں الفاظ نہیں پڑھے جاتے۔ ٭ ٭ اصل مسودہ میں یہ لفظ واضح نہیںہے۔ ٭ ٭ ٭ اصل مسودہ میں یہ الفاظ واضح نہیں ہیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اللہ کی نعمت سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں