https://youtu.be/1YKWR1eWsOw الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ ۱۸؍ستمبر ۲۰۲۵ء میں امیر المومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےنارتھ ایسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات میں سہواً حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا گیا تھا۔ آن لائن اس کی تصحیح کردی گئی ہے۔ قارئین نوٹ فرما لیں۔ اسی حوالے سے ادارے کو قمر احمد ظفر صاحب آف جرمنی کی طرف یہ وضاحتی نوٹ موصول ہوا ہے: ایک طویل عرصہ تک دنیا بھر کے ماہرینِ لسانیات سنسکرت زبان کو اُمّ الالسنہ قرار دیتے رہے، تاہم حضرت مسیح موعودؑ نے یہ نظریہ پیش فرمایا تھا کہ عربی زبان اُمّ الالسنہ (زبانوں کی ماں) ہے، حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے تقریباً پچاس سے زائد زبانوں پر تحقیق کر کے ثابت کیا تھا کہ وہ دراصل عربی سے ہی ماخوذ ہیں۔ یہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔ آپ نہ صرف ایک بلند پایہ ماہر لسانیات، ممتاز قانون دان اور قادرالکلام شاعر تھے، بلکہ آپ کو غیرمعمولی جماعتی خدمات سرانجام دینے کی بھی توفیق حاصل ہوئی۔ بلاشبہ ان کی پیدائش نومبر ١٨٩٦ء ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا نام ازراہ شفقت خود عطا فرمایا تھا اور آپ کے والد منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی رضی اللہ عنہ جو کہ مخلص صحابی تھے، ان کو اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا تھا کہ محبّی اخویم منشی ظفر احمد صاحب سلّمه! السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاته !لڑکا نَو وارد مبارک ہو، خدا تعالیٰ باعمر کرے۔ آمین! اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیحِ پاکؑ کی اس دعا کو بڑی شان کے ساتھ قبول و منظور فرمایا اور آپ نے سخت بیماریوں کا شکار رہنے کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک طویل اور بابرکت زندگی بسر کی۔ بالآخر ۱۹۹۳ء میں فیصل آباد میں اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعۂ صحابہؓ میں عمل میں آئی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ مورخہ ٢٥؍ دسمبر ١٩٩٢ء میں ان کا ذکر کرتے ہوئے صحابی کہا تھا ۔ مگر اس سے اگلے خطبے میں پھر حضور رحمہ اللہ نے اس غلطی لگنے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے تصحیح فرمائی تھی کہ ’’جو ان کو صحابی کہا گیا تو اس لیے کہ خیال تھا کہ اس زمانے میں ضرور کسی وقت گئے ہوں گے، لیکن یہ معلوم کرکے تعجب ہوا کہ کبھی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمت میں خود حاضر ہونے کا موقع نہیں ملا…مگر مَیں نے جو صحابی کہا، تو صرف عمر کی وجہ سے نہیں، ان کی ادائیں بھی صحابہؓ والی ہیں۔ پس میری غلطی تو اپنی جگہ، لیکن ان سے بھی تو پوچھیے کہ وہ کیوں اتنے پیارے ہوئے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی صحابہؓ کی طرح صَرف کی ہو۔ ان کو اگر غلطی سے صحابہؓ میں شمار کر لیا جائے ، تو انسانی نقطہ نگاہ سے تو غلطی ہے، مگر خدا تو بغیر غلطی کے شامل کر سکتا ہے۔ نیز اس دعا پر اختتام کیا کہ پس آخری دعا جو مَیں کرتا ہوں اور آپ سے بھی اس کی گزارش کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب کے لیے یہ دعا کریں کہ میرے منہ سے جو غلطی سے نکلا تھا، خدا کی تقدیر میں واقعتاً لکھا جائے اور الله کے رجسٹر میں ان کا شمار صحابہؓ میں ہو۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جنوری ۱۹۹۳ء بحوالہ خطباتِ طاہر۔ جلد۱۲ صفحہ۷) اور اسی طرح ان کی وفات کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ ان میں صحابہؓ کا سا رنگ تھا، اگر تابعین نے کبھی صحابہؓ کا سا رنگ اختیار کیا ہے، تو حضرت شیخ صاحب اس کی بہترین مثال تھے…مَیں نے ایک نظم میں ایک شعر خاص طور پر ان کو ذہن میں رکھ کر کہا، وہ شعر یہ تھا یہ شجر خزاں رسیدہ، ہے مجھے عزیز یا ربّ یہ اک اور فصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے مزید پڑھیں: سکرین کے سانپ