(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍فروری ۲۰۲۳ء) حضرت مصلح موعودؓ کے علمی اور متفرق کارناموں میں سے بعض کا ذکرپیش کروں گا۔ ان باتوں کے سننے سے پہلے جو پیش کرنے لگا ہوں اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ آپؓ کا بچپن صحت کے لحاظ سے نہایت کمزوری میں گزرا، بیماری میں گزرا۔ آنکھوں کی تکلیف وغیرہ بھی رہی۔ نظر بھی ایک وقت میں ایک آنکھ سے جاتی رہی۔ پھر دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے بھی آپؓ کی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ آپؓ نے خود فرمایا کہ مشکل سے میری پرائمری تک تعلیم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا آپؓ کو دینی و دنیوی علوم سے پُر کرنے کا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے زبردست اور عقل کو دنگ کر دینے والے خطابات اور خطبات آپؓ سے کروائے اور ایسے ایسے مضامین آپؓ نے لکھے کہ جو اپنی مثال آپ ہیں اور غیر بھی ان کے معترف ہیں۔ آج کچھ حوالے میں پیش کروں گا۔ مَیں یہ حوالے پیش کرنے سے پہلے آپؓ کی تصنیفات، تقاریر، مضامین، خطبات اور مجالس عرفان وغیرہ کی تعداد اور حجم کا ایک جائزہ پیش کرتا ہوں۔ جو کتب، خطابات، لیکچرز، مضامین پیغامات وغیرہ کی شکل میں شائع ہوئے یا اب تقریباً مکمل ہیں ا ور وہ جو تقاریر، خطابات وغیرہ انوار العلوم کی شکل میں شائع ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی کل اڑتیس (38) جلدیں بن جائیں گی اور ان کی تعداد چودہ سو چوبیس (1424) ہے اور اس کے کُل صفحات بیس ہزار تین سو چالیس(20340) ہیں۔ اتنے ہوجائیں گے اندازاً۔ تفسیر کبیر ،تفسیر صغیر سمیت دیگر تفسیری مواد کے صفحات اٹھائیس ہزار سات سو پینتیس(28735)ہیں۔ 1808خطبات جمعہ ہیں جن کے صفحات اٹھارہ ہزار سات سو پانچ(18705)ہیں۔ اکاون(51)خطباتِ عید الفطر ہیں جن کے صفحات پانچ سو تین(503)ہیں۔ بیالیس(42)خطباتِ عید الاضحی ہیں جن کے صفحات چار سو پانچ(405)ہیں۔ 150خطباتِ نکاح ہیں جن کے صفحات چھ سو چوراسی(684)ہیں۔ خطاباتِ شوریٰ جلد اوّل تا سوم بھی شائع ہوئی ہے اس کے صفحات دو ہزار ایک سو اکتیس(2131)ہیں یہ سارے اور جو مختلف اور بھی ہیں ان صفحات کو اکٹھا کیا جائے، جمع کیا جائے تو کُل تقریباً پچہتر ہزار(75000) صفحات بنتے ہیں۔ ریسرچ سیل نے الحکم اور الفضل کے 1913ء سے 1970ء تک کے شماروں کو دیکھا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کچھ مزید مواد سامنے آیا ہے جو ابھی تک انوارالعلوم یا کسی کتاب میں شائع نہیں ہو سکا۔ اس تفصیل کے مطابق پچپن(55)مضامین، ستائیس(27)تقاریر، ایک سو تینتالیس(143)مجالس عرفان، دو سو بائیس(222) عناوین ملفوظات اور ایک سو اکتیس(131) مکتوبات ابھی تک مل چکے ہیں۔ ایک بڑا وسیع علمی ذخیرہ ہے۔ اس وقت میں پہلے آپؓ کے علمی کارناموں میں سےقرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے کچھ کوائف اور غیروں کے اس بارے میں آرا ، تبصرے پیش کرتا ہوں۔ تفسیر کبیر میں حضرت مصلح موعودؓ نے اُنسٹھ (59) سورتوں کی تفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ دس جلدوں اور پانچ ہزار نو سو سات (5907) صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے تفسیری نوٹ بھی آپؓ کے ملے ہیں جن کے صفحات کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے اور امید ہے کسی وقت یہ بھی شائع ہو جائے گی۔ بامحاورہ ترجمہ قرآن کا ایک بہت بڑا کام آپؓ کا تفسیرِ صغیر کی صورت میں ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی عمر کے آخری دَور میں سب سے بڑی یہ خواہش تھی کہ آپؓ کی زندگی میں آپؓ کے ذریعہ پورے قرآنِ مجید کا ایک معیاری اور بامحاورہ اردو ترجمہ مع مختصر مگر جامع نوٹوں کے شائع ہو جائے۔ سفرِ یورپ 1955ء سے واپسی کے بعد اگرچہ حضورؓ کی طبیعت اکثر ناساز رہتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ موعود کی روح القدس سے ایسی زبردست تائید فرمائی کہ جون 1956ء میں گرمیوں میں مری کے پہاڑوں پر گئے تو وہاں آپؓ نے ترجمہ قرآن املا کرانا شروع کیا جو خدا کے فضل سے 25اگست 1956ء کی عصر تک مکمل ہو گیا اور یہ نخلہ ایک جگہ تھی جو کلرکہار کے قریب چھوٹا سا پُرفضا مقام ہے وہاں آپؓ نے چھوٹی سی ایک بستی بنائی تھی جہاں یہ کام کیا۔ اس کے بعد پھر اس کی نظرِثانی ہوئی۔ پھر نظر ثالث ہوئی۔ کتابت ہوئی۔ پروف ریڈنگ وغیرہ ہوئی۔ اس کے بہت سارے کام ہوئے اور تفسیر صغیر 15؍نومبر 1957ء کو طبع ہو کر مکمل تیار ہو گئی۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد19صفحہ522تا531) حضرت مصلح موعودؓ نےتفسیر صغیر کے بارے میں ایک جگہ فرمایا کہ’’میری رائے یہ ہے کہ اس وقت تک قرآن کریم کے جتنے ترجمے ہو چکے ہیں ان میں سے کسی ترجمہ میں بھی اردو محاورے اور عربی محاورے کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جتنا اس میں رکھا گیا ہے۔‘‘ عام طور پر دیکھیں اور خصوصاً اس کے نوٹس میں بھی نظر آ جاتا ہے کہ آپؓ نے ترجمہ میں محاورے کا خیال رکھا ہے۔ ’’یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اتنے تھوڑے عرصہ میں ایسا عظیم الشان کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرما دی۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’… اللہ تعالیٰ نے اس بڈھے اور کمزور انسان سے وہ عظیم الشان کام کروا لیا جو بڑے بڑے طاقتور بھی نہ کرسکے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’گذشتہ تیرہ سو سال میں بڑے بڑے قوی نوجوان گزرے ہیں مگر جو کام اللہ تعالیٰ نے مجھے سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے اس کی ان میں سے کسی کو بھی توفیق نہیں ملی۔ درحقیقت یہ کام خدا کا ہے اور وہ جس سے چاہتا ہے کروا لیتا ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد19صفحہ525-526) پھر ایک اَور جگہ آپؓ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے …قرآنِ شریف کا سارا ترجمہ مکمل ہو گیا۔ یعنی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ سے وَالنَّاس تک مع تفسیر صغیر کے جس کے متعلق تفسیر کبیر سے مقابلہ کرنے سے یہ پتہ لگا ہے کہ کئی مضامین اختصاراً اس میں ایسے آئے ہیں کہ تفسیر کبیر میں بھی نہیں۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد19صفحہ530) پھر تفسیر القرآن انگریزی کا بھی ایک اہم کام ہوا جسے ہم فائیو والیم کمنٹری (Five Volume Commentary)کہتے ہیں۔ اس تفسیر کے شروع میں حضرت مصلح موعودؓ کے قلم سے لکھا ہوا ایک نہایت پُرمعارف دیباچہ بھی شامل ہے جس میں دوسرے صحفِ سماوی کی موجودگی میں قرآن مجید کی ضرورت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور جمع القرآن اور قرآنی تعلیمات پر بالکل اچھوتے اور دلآویز پیرائے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس دیباچے کے آخر میںشکریہ و اعتراف کے زیر عنوان تحریر فرمایا کہ مَیں اس دیباچے کے آخر میں مولوی شیر علی صاحب کی ان بے نظیر خدمات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے باوجود صحت کی خرابی کے قرآن کریم کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے متعلق کی ہیں۔ اسی طرح ملک غلام فرید صاحب، خان بہادر چودھری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے ترجمےپر تفسیری نوٹ میری مختلف تقریروں اور کتابوں اور درسوں کا خلاصہ نکال کر درج کیے ہیں۔ پھر اس میں آپؓ نے یہ بھی لکھا کہ میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کا شاگرد ہونے کی و جہ سے کئی مضامین میری تفسیر میں لازماً ایسے آئے ہیں جو مَیں نے اُن سے سیکھے۔ اس لیے اس تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر بھی، حضرت خلیفہ اوّلؓ کی تفسیر بھی اور میری تفسیر بھی آ جائے گی اور چونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی روح سے ممسوح کر کے ان علوم سے سرفرا زفرمایا تھا جو اس زمانے کے لیے ضروری ہیں اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ یہ تفسیر بہت سے بیماروں کو شفا دینے کا موجب ہو گی۔ بہت سے اندھے اس کے ذریعہ سے آنکھیں پائیں گے۔ بہرے سننے لگ جائیں گے۔ گونگے بولنے لگ جائیں گے۔ لنگڑے اور اپاہج چلنے لگ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے مضامین کو برکت دیں گے اور یہ اس غرض کو پورا کرے گی جس غرض کے لیےیہ شائع کی جا رہی ہے۔ اللّٰھم آمین۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ507-508) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: قرآن کریم پڑھنے کا شوق