(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍جولائی ۲۰۱۵ء) گزشتہ دنوں کسی نے ایک چھوٹی سی ویڈیو دکھائی کہ ایک افریقن مولوی بڑی عمر کے لوگوں کو قرآن پڑھا رہا ہے اور ذرا سی غلطی پر سوٹیوں سے مار مار کر ان کا برا حال کیا ہوا تھا۔ اب جس کی ایک تو زبان نہ ہو اور پھر سترہ اٹھارہ سال یا اس سے بھی زیادہ بڑی عمر ہو جائے تو وہ کس طرح قاریوں کی طرح ہر حرف کی صحیح ادائیگی کر سکتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ قرآن پڑھنے سے ہی بھاگتے ہیں اور یہی وجہ ہے مسلمانوں میں سے جو غیر عرب لوگ ہیں، بہت سوں کو قرآن کریم پڑھنا بھی نہیں آتا۔ پس اگر قرآن پڑھانا ہے تو ایسے طریقے سے پڑھانا چاہئے جس سے شوق اور محبت پیدا ہو۔ گزشتہ دنوں ایک جاپانی خاتون جو یہاں رہتی ہیں ملنے آئیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے بیعت کی۔ انہوں نے بتایا کہ تین سال میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن شریف مکمل کر لیا ختم کرلیا، اور وہ کچھ سنانا بھی چاہتی تھیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے سنائیں۔ تو انہوں نے آیۃ الکرسی اس طرح ڈوب کر پڑھی کہ حیرت ہوتی تھی۔ تواصل چیز یہی ہے کہ قرآن کریم سے ایسی محبت ہو کہ اس میں ڈوب کر اسے پڑھا جائے۔ صرف دکھاوے کے لئے قاریوں کی طرح گلے سے آوازیں نکال لینا تو مقصدنہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ترتیل سے پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر اور جس حد تک بہترین تلفّظ ادا ہو سکتا ہے ادا کر کے پڑھا جائے۔ اگر ہم کہیں کہ ہم عربوں کی طرح الفاظ کی ادائیگی کر سکتے ہیں تو یہ مشکل ہے۔ بعض حروف کی صحیح ادائیگی غیر عرب کر ہی نہیں سکتے۔ سوائے اس کے کہ عربوں میں پلےبڑھے ہوں۔ جاپانی قوم ہے وہ بھی بعض حروف کی ادائیگی نہیں کر سکتے۔ مثلاً یہ جو پڑھنے والی تھیں وہ بھی ’خ‘ کو جس طرح ادا کر رہی تھیں اس میں ’ح‘ زیادہ ابھر کر سامنے آتی تھی۔ ’خ‘ اور ’ح‘ کا فرق نہیں تھا۔ ان جاپانی خاتون سے سن کر مجھے یہ تاثر ملا ہے کہ اگر تمام جاپانی نہیں تو ان خاتون کی طرح بہت سے ایسے ہوں گے جن کے لئے بعض حروف کی ادائیگی مشکل ہو گی۔ لیکن بہرحال اصل چیز تو خدا تعالیٰ کے کلام سے محبت ہے۔ اسے حتی الوسع صحیح رنگ میں ادا کرنا چاہئے۔ اس کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ صرف قاری بننا اور دکھاوے کے لئے مقابلوں میں حصہ لینا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اَشْھَدُ کے بجائے اَسْھَدُ کہنے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی جو پیار کی نظر تھی اس کا کوئی قاری یا عرب مقابلہ نہیں کر سکتا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد15 صفحہ470) پس جماعت میں غیر مسلموں سے بھی لوگ شامل ہو رہے ہیں، اسلام لا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت جیسا کہ مَیں نے کہا قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتی۔ افریقہ میں ہمارے مبلغین کو بہت سے ایسے مواقع پیش آتے ہیں جہاں نئے سرے سے قرآن کریم پڑھانا پڑتا ہے۔ نئے سرے سے قرآن کریم کیا بلکہ ابتدا سے قاعدہ پڑھانا پڑتا ہے۔ تو ان لوگوں کو بھی قرآن کریم پڑھانا ہے۔ اس لئے قرآن کریم پڑھانے والے استادوں کو اس طریق سے پڑھانا چاہئے کہ قرآن کریم پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ اس پاکستانی خاتون کو بھی اجر دے جنہوں نے ان جاپانی خاتون کو نہ صرف قرآن کریم پڑھایابلکہ لگتا تھا کہ قرآن کریم کی محبت بھی پیدا کی ہے۔ پس اصل چیز قاری کی طرح قراءت نہیں اور یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اگر اس طرح الفاظ ادا نہ کر سکیں تو قرآن کریم پڑھنا ہی چھوڑ دیں۔ قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے اس میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن صرف اس بات پر کہ بعض الفاظ ہم ادا نہیں کر سکتے یا مشکل ہیں، قرآن کریم کو پڑھنا ہی نہیں چھوڑ دینا چاہئے بلکہ تلاوت کی طرف روزانہ ہر احمدی کی توجہ ہونی چاہئے۔ ہاں یہ کوشش ضرور ہونی چاہئے جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل کے جتنا قریب ترین ہو کر آسانی سے الفاظ کی ادائیگی ہو سکے، کی جائے اور پھر اس میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ یہ کوشش کہ ہم قاری کی طرح ہی ہر لفظ کو ادا کریں درست نہیں کیونکہ اس کی طاقت خدا تعالیٰ نے ہمیں نہیں بخشی جو غیر عرب ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ میری مرحومہ بیوی اُمِّ طاہر بیان کرتی تھیں کہ ان کے والد صاحب کو قرآن پڑھنے پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے لڑکوں (اپنے بچوں) کو پڑھانے کے لئے استاد رکھے ہوئے تھے اور لڑکی کو بھی قرآن پڑھانے کے لئے اسی کے سپرد کیا ہوا تھا۔ اُمِّ طاہرؓ بتاتی ہیں کہ وہ استاد بہت مارا کرتے تھے اور ہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال کر، (درخت کی چھوٹی ٹہنیاں پنسل کی طرح لے کر، بعض لوگ پنسلیں بھی ڈالتے تھے، استاد شاخیں انگلیوں میں ڈال کر) انہیں دباتے تھے۔ مارتے تھے۔ پیٹتے تھے اس لئے کہ ہم صحیح طور پر تلفّظ کیوں ادا نہیں کرتے۔ ہم پنجابی لوگوں کا لہجہ بھی ایسا ہی ہے کہ ہم عربوں کی طرح عربی کے الفاظ ادا نہیں کرسکتے۔ (ماخوذ از الفضل 11 اکتوبر 1961ء صفحہ 2-3 جلد 50/15 نمبر235) حضرت مصلح موعودؓنے پھر اس عرب کا بھی واقعہ بیان کیا جس کو مَیں گزشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے آیا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو تین دفعہ ’ض‘کا استعمال کیا تو کہنے لگا آپ کس طرح مسیح موعود ہو سکتے ہیں آپ کو تو ضاد بھی کہنا نہیں آتا۔ اس عرب نے یہ بڑی لغو حرکت کی تھی۔ ہر ملک کا اپنا لہجہ ہوتا ہے۔ عرب خود کہتے ہیں کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں۔ ہندوستانی اسے ادا نہیں کر سکتے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہندوستانی لوگ اسے یا تو ’دواد‘ کر کے پڑھتے ہیں یا ’ضاد‘ کر کے پڑھتے ہیں لیکن اس کے مخارج اور ہیں۔ پس جب عرب خود کہتے ہیں کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں اور کوئی صحیح طور پر اسے ادا نہیں کر سکتا تو پھر اعتراض کرنے کی بات ہی کیا ہوئی؟ (ماخوذ از الفضل 11 اکتوبر 1961ء صفحہ 3 جلد 50/15 نمبر235) پس عرب احمدیوں کو بھی اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے۔ عموماً اکثریت تو اس بات کو سمجھتی ہے لیکن بعض کی طبیعتوں میں کچھ فخر کی حالت بھی ہوتی ہے۔ ایک پاکستانی عورت ایک عرب سے بیاہی ہوئی ہے وہ بھی اپنی طرف سے حلق سے آواز نکال کر سمجھتی ہے کہ میں نے صحیح تلفّظ ادا کر دیا حالانکہ وہ صحیح نہیں ہوتا۔ اگر اس کی ذات تک ہی بات ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی اور مجھے کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن مجھے پتا چلا ہے کہ بعض مجالس میں بیٹھ کر استہزا کے رنگ میں یہ بات کرتی ہے کہ بعض حروف کی ادائیگی پاکستانیوں کو نہیں آتی، قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا۔ عربی کے الفاظ صحیح ادا نہیں کر سکتے اور عرب بیٹھ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ عربوں میں سے ہر ایک ایسا ہو گا جو مذاق اڑاتا ہو۔ ہو سکتا ہے جن عربوں میں یہ بیاہی ہوئی ہیں وہ مذاق اڑاتے ہوں۔ اسلام میں تو ہر قوم کے دل جیت کر انہیں اللہ تعالیٰ کے کلام سے نہ صرف آشنا کروانا ہے بلکہ اسے پڑھنے کے لئے ان کے دلوں میں محبت بھی پیدا کرنی ہے اور ہر ایک کا الگ الگ لہجہ ہے۔ ہر ایک قرآن کریم کی محبت کی وجہ سے اسے بہترین رنگ میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور کرنی بھی چاہئے اور یقیناً ترتیل کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور جو اس بارے میں نئے مسلمان ہونے والوں کی مدد کر سکتے ہیں اور جنہیں صحیح طرح تلفّظ کے ساتھ پڑھنا آتا ہو۔ انہیں مدد بھی کرنی چاہئے لیکن مذاق اڑانے کی اجازت نہیں ہو سکتی۔ مزید پڑھیں: اللہ تعالیٰ کی حمد اور دعا کے مضمون کا بیان