وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (التوبۃ:100) اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت لے جانے والے اولین اور وہ لوگ جنہوں نے حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں یہ بہت عظیم کامیابی ہے۔ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ذکر ہے جو سبقت لے جانے والے ہیں جو روحانی مرتبہ میں سب سے اوپر ہیں اور اپنے ایمان کے معیاروں اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اعمال بجا لانے والوں میں باقی سب کو پیچھے چھوڑنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائے اور دوسروں کے لئے، بعد میں آنے والوں کے لئے اپنی مثالیں بطور نمونہ چھوڑ گئے تا کہ دوسرے ان کے نمونوں کی تقلید کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہاں صحابہ کو بعد میں آنے والوں کے لئے ایک قابل تقلیدنمونہ بنایا ہے اور اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کے معیار اور ان اعمال سے راضی ہوا جو وہ بجا لاتے رہے اور انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ ہر حال میں وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندوں میں شامل رہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھی ان نمونوں پر چلتے رہیں گے، ایمان، اخلاص، وفا اور اعمال صالحہ بجا لاتے رہیں گے وہ خداتعالیٰ کے انعامات کے حاصل کرنے والے بنتے رہیں گے۔ … اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ مقام عطا فرمایا ہے۔ ہر ایک ان میں سے ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ صحابہ کے مقام و مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کے ان سے راضی ہونے اور اللہ تعالیٰ سے اُن کے راضی ہونے کا ذکر فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں وہ صدق دکھلایا ہے کہ انہیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کی آواز آ گئی۔ یہ اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جو صحابہ کو حاصل ہوا۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے۔ اس مقام کی خوبیاں اور کمالات الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتے‘‘۔ (کیا خوبیاں اور کتنے کمالات ہیں اس کے؟ الفاظ ان کا احاطہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جانا شخص کا کام نہیں بلکہ یہ توکّل، تبتّل اور رضا و تسلیم کا اعلیٰ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو کسی قسم کا شکوہ شکایت اپنے مولیٰ سے نہیں رہتی۔ اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے راضی ہونا یہ موقوف ہے بندہ کے کمال صدق و وفا داری اور اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اور طہارت اور کمال اطاعت پر‘‘۔ فرمایا کہ ’’جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے معرفت اور سلوک کے تمام مدارج طے کر لئے تھے۔ ‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍دسمبر ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍جنوری۲۰۱۸ء) مزید پڑھیں: احمدی جانتا ہے کہ وطن کی محبت کیا ہوتی ہے