https://youtu.be/QxqRSrDSdQs ٭… یہ آنحضرتﷺ کی سیرت کا ایسا شاندارنمونہ ہے کہ آپؐ نے خدا کا واسطہ دیے جانے پر وہ حکم واپس لے لیا جو جنگ کا نقشہ تبدیل کرسکتا تھا ٭… آپؐ کی وسعتِ حوصلہ کا یہ عالَم تھا کہ بددعا کی بجائے آپؐ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ!ثقیف کو ہدایت دے اور انہیں مسلمان بنا کر لے آ ٭… اس سے پہلے مسلمانوں کو کبھی اس قدر مالِ غنیمت حاصل نہیں ہوا تھا۔ ایسے موقع پر بھی آپؐ کو اپنے صحابہ ؓکی تربیت کا اتنا خیال تھا کہ آپؐ نے مالِ غنیمت کی تقسیم سے قبل اعلان فرمایا کہ اس مال میں سے سوائے خمس کے، میرا حق بھی وہی ہے جس کا تم میں سے ہر کوئی حق دار ہےاور وہ خمس بھی آخر تمہارے پاس ہی پلٹ آئے گا خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍ستمبر ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۹؍تبوک۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۹؍ستمبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمدصاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: گذشتہ خطبات میں طائف کی جنگ کا ذکرہورہا تھا، اس موقعے پر ایک صحابی جو ان سے بات کرنےکےلیے گئےتھے اور طائف والوں نےاس کی ضمانت بھی دی تھی کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا مگر جب وہ قلعےکےقریب گئے تو انہیں عہدشکنی کرتے ہوئےشہید کردیا گیا۔مگر اس کے باوجود آنحضرتﷺنے مصالحت کی کوشش ترک نہیں فرمائی اور بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنےکے لیے حضرت حنظلہ ؓکو بھجوایا۔ طائف والے ان پر بھی حملہ آور ہوگئے تو آنحضرتﷺنےفرمایا کہ کون ہے جو حنظلہ کو بچاکر لائے گا؟ اس پر حضرت عباسؓ گئے اور انہیں حملہ آوروں سے بچاتے ہوئے لے آئے۔ اہلِ طائف اور قریش کے چونکہ دیرینہ اور اچھے تعلقات تھے اس بنا پرمصالحت کےلیے حضرت ابوسفیان بن حربؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ قلعے کے اندر گئے، مگر انہیں بھی کامیابی نہ ہوئی۔ ہاں!قلعے والوں نے یہ کہا کہ محمد(ﷺ)کو کہیں کہ اللہ کی خاطر ہمارے باغوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ آنحضرتﷺ نے ان کی درخواست پر باغوں کو تلف کرنے کا حکم واپس لے لیا۔ یہ آنحضرتﷺ کی سیرت کا ایسا شاندارنمونہ ہے کہ آپؐ نے خدا کا واسطہ دیے جانے پر وہ حکم واپس لے لیا جو جنگ کا نقشہ تبدیل کرسکتا تھا۔ اس موقعے پر آپؐ نے یہ اعلان کروایا کہ جو غلام قلعے کی فصیلوں سے اتر کر ہمارے پاس آجائے گا وہ آزاد ہوگا۔ اس پر ۲۳؍غلام فصیلوں سے اتر کر آپؐ کے پاس آگئے۔ قلعے والے اس پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے ان سب غلاموں کو آزاد کرکے ایک ایک مسلمان کے حوالے کیا اور اس غلام کی کفالت کی ذمہ داری ان مسلمانوں پر ڈالی۔ آپؐ نے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ان کو اچھی طرح علم سکھایا جائے۔ آنحضرتﷺنے محاصرے کی صورتِ حال کے پیشِ نظر حضرت نوفل بن معاویہؓ سے مشورہ کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے لومڑی اپنے بھٹ میں گھسی ہوئی ہو اس پر کھڑے رہیں گے تو پکڑ لیں گے اور چھوڑ دیں گے تو نقصان کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس پر آپؐ نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرمالیا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف مشورے پر نہیں بلکہ خدا کی طرف سے بھی کوئی خاص راہنمائی یا اشارہ ملا تھا ورنہ آنحضرتﷺ کی جنگی مہمات میں یہ پہلا موقع تھا کہ آپؐ اتنی اہم مہم کو بظاہر ادھورا چھوڑ کر جارہے تھے۔ اس ضمن میں آنحضرتﷺ کی ایک خواب کا ذکر بھی ملتا ہے جو آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو سنائی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مَیں نے دیکھا کہ ایک برتن میں مکھن میرے پاس آیا ہےپھر ایک مرغ نے چونچ مار کر اس برتن کو گِرا دیا۔حضرت ابوبکرؓ نےعرض کیا کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ آپؐ ثقیف سے جو چاہتے ہیں وہ اس دفعہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ رسول اللہﷺ نے بھی اس کی تائید فرمائی۔ جب محاصرہ ختم ہونے کا اعلان ہوا تو بعض جوشیلے نوجوانوں کا ردعمل یہ تھا کہ ہم بغیر فتح کے کیوں لوٹ رہے ہیں؟ پہلے یہ لوگ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓکے پاس گئےکہ وہ حضورﷺکی خدمت میں درخواست کریں کہ فتح تک محاصرہ قائم رہے۔ مگر جب ان دونوں نے انکار کیا تو یہ نوجوان ازخود رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوگئے اور بڑے جذباتی انداز میں عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ!ہم لڑیں گے۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے!کل صبح لڑو۔ اگلی صبح انہیں زخموں کےسِوا کچھ حاصل نہ ہوا۔اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کل صبح ہم واپس روانہ ہوں گے، اس پر ان نَوجوانوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔ان کی رائے کی تبدیلی دیکھ کر رسول اللہﷺ بھی مسکرا دیے۔ اس غزوے میں کفار کے تین لوگ قتل ہوئے، البتہ ان کے زخمیوں اور دیگر مقتولین کی معیّن تعدادکا ذکر نہیں ملتا کیونکہ یہ لوگ قلعے میں رہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے زخمیوں کی بھی معیّن تعداد معلوم نہیں لیکن حضرت ابوسفیانؓ اور حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کے زخمی ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ اس غزوے میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ اس غزوہ میں آنحضرتﷺ کی دو ازواجِ مطہرات حضرت امِ سلمہؓ اور حضرت زینبؓ ساتھ تھیں ان دونوں کے لیے دو خیمے نصب کیے گئے تھے۔ آنحضرتﷺ ان دونوں خیموں کے درمیان نماز ادا فرماتے۔ آنحضرتﷺ نے طائف کا کتنے روز محاصرہ کیا اس حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں جن میں دس سے لے کر چالیس راتوں تک کا ذکر ہے۔ روانگی کے وقت آنحضورﷺ نےفرمایا کہ یہ پڑھتے ہوئے لوٹو کہ ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے ربّ کی تعریف کرنے والے ہیں۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہﷺ!بنو ثقیف کے لیے بددعا کریں۔ آپؐ کی وسعتِ حوصلہ کا یہ عالَم تھا کہ بددعا کی بجائے آپؐ نے ان کے لیے یہ دعا کی کہ اے اللہ!ثقیف کو ہدایت دے اور انہیں مسلمان بنا کر لے آ۔ اس کے بعد جب آپؐ واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو یہ دعا کی اے اللہ! انہیں ہدایت عطا فرما اور ان کی سپلائی اور رسد کے مقابلہ پر ہمارے لیے تُو کافی ہو۔ آنحضورﷺ کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ بھولی بھٹکی مخلوق اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ ابھی سال بھی نہیں گزرا تھا کہ یہی طائف والے رمضان ۹؍ہجری میں سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ حنین کے مالِ غنیمت کی تقسیم کا بھی ذکر ملتا ہے ، آپؐ کے ارشاد پر ان غلاموں کی رہائش کے لیےجن کی تعداد چھ یا آٹھ ہزار تک تھی، عارضی تعمیرات کی گئیں تاکہ سردی گرمی کی شدّت سے بچاؤہوسکے۔مالِ غنیمت میں چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بھیڑ بکریاں ، چار ہزار اوقیہ چاندی جو تقریباً ۴۹۰؍کلو گرام بنتی ہے حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو کبھی اس قدر مالِ غنیمت حاصل نہیں ہوا تھا۔ ایسے موقع پر بھی آپؐ کو اپنے صحابہ ؓکی تربیت کا اتنا خیال تھا کہ آپؐ نے مالِ غنیمت کی تقسیم سے قبل اعلان فرمایا کہ اس مال میں سے سوائے خمس کے، میرا حق بھی وہی ہے جس کا تم میں سے ہر کوئی حق دار ہے اور وہ خمس بھی آخر تمہارے پاس ہی پلٹ آئے گا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ سوئی اور اس کا دھاگہ یا اس سے بھی چھوٹی کوئی چیز کسی کے پاس ہے تو وہ واپس کردے، فرمایا:خیانت سے بچو کیونکہ قیامت کے دن یہ خیانت کرنے والے کے لیے باعثِ عار اور ایک دھبہ ثابت ہوگی۔ یہ سن کر ایک صحابی اونٹ کےبالوں سے بنی ہوئی رسّی کا ایک گولا لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ مَیں نے پھٹی ہوئی زِین سینے کے لیے دھاگہ مالِ غنیمت میں سے لے لیا تھا۔ اسی طرح ایک اَورصحابی حاضر ہوئے جنہوں نے مالِ غنیمت میں سے ایک سوئی لے کر اپنی بیوی کو دی تھی، وہ فوراً اعلان سن کر بیوی کے پاس گئے اور سوئی واپس لے کر مالِ غنیمت میں رکھ دی۔ آنحضرتﷺ نے مالِ غنیمت کی تقسیم میں تالیفِ قلب کا خیال رکھتے ہوئے سب سے پہلے قبائل کے رؤسا ءاور سرداروں کو مالِ غنیمت عطا فرمایا۔ یہ سردار اپنے اپنے قبائل میں شرف اور بزرگی رکھنے والے تھے ۔آپؐ نے انہیں سَو سَو اور پچاس پچاس اونٹ عطا فرمائے۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے حضرت زید بن ثابت ؓسے ارشاد فرمایا کہ وہ باقی لوگوں کو بھی بلا لیں۔ پھر آپؐ نے سب لوگوں میں مالِ غنیمت تقسیم فرمایا۔ ہر کسی کے حصّے میں چار اونٹ یا چالیس بکریاں آئیں۔ آنحضرتﷺ نے قریش کو مالِ غنیمت دینے کی ایک وجہ بیان کرتےہوئے فرمایا کہ مَیں قریش کو دے کر ان کی تالیفِ قلب کا سامان کر رہا ہوں کیونکہ انہیں کفر سے تعلق توڑے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اس موقعے پر کچھ منافقین نے مالِ غنیمت کی تقسیم پر اعتراض بھی کیا اور یہ الزام بھی لگایا کہ نعوذ باللہ آپؐ نے مالِ غنیمت کی تقسیم میں عدل سے کام نہیں لیاا ور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کام کیا ہے۔ آنحضورﷺ نے جب یہ سنا تو آپؐ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا اور آپؐ نے فرمایا کہ اگر اللہ اور اُس کا رسول بھی انصاف سے کام نہیں لے گا تو کون ہے جو عدل و انصاف کرے۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ اللہ میرے بھائی موسیٰ پر رحم کرے انہیں اس سے بھی بڑی بڑی تکلیفیں پہنچائی گئیں اور انہوں نے صبر سے کام لیا۔ اس کے بعد ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے بھی تقسیم پر اعتراض کیا تو آپؐ نے فرمایا:تیرا بُرا ہو اگر میرے پاس بھی عدل نہیں تو پھر کس کے پاس ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ اگر حکم ہو تو ابھی اس کی گردن اُڑا دی جائے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا نہیں!ممکن ہے کہ یہ شخص نماز پڑھتا ہو۔ اس پر خالد نے عرض کیا کہ کیا کوئی نمازی یہ کہہ سکتا ہے جو اس کے دل میں نہ ہو۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ خالد !مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مَیں لوگوں کے دل چیر کر یا سینے چاک کرکے دیکھوں۔ خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نے فرمایا کہ باقی ان شاء اللہ آئندہ۔ ٭…٭…٭