محمود اور احمد بھاگتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور جلدی سے دادی جان کے بیڈ پر بیٹھ گئے۔ دادی جان کرسی پر آرام کر رہی تھیں۔ اچانک شور سے اُن کی آنکھ کھل گئی۔ گڑیا اس وقت کمر ے میں داخل ہوئی اور کہا دیکھو محمود آپ نے دادی جان کو اٹھا دیا۔ محمود: I am so sorry دادی جان! دادی جان مسکراتے ہوئے: کوئی بات نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ نے کہانی سننی ہوتی ہے۔ آپ کا انتظار کرتے کرتے آنکھ لگ گئی۔ احمد:دادی جان آج آپ نے ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے بچپن کی کہانی سنانی ہے ؟ دادی جان ساتھ میز سے کتاب اٹھاتے ہوئے: جی ہاں یہ دیکھیں دو کتابیں بھی ہیں میرے پاس ’’اک مردِ خدا‘‘اور سید ناطاہر نمبر ماہنامہ خالد2008ء۔ تو بچو ! ایسا ہے کہ یہ تو آپ سب کو علم ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہمارے چوتھے خلیفہ تھے۔ آپ شروع ہی سے انتہائی شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ تھے۔ بچپن میں آپ شرارتیں بھی کرتے لیکن ایسی نہیں جن سے کسی کا دل دکھے۔ ہمجولیوں کے ساتھ کھیلتے اور مقابلہ کرتے۔ مثلاً دیوار پر چلنے کا مقابلہ یا بارش کے پانی سے بھرے ہوئے گڑھوں کو پھلانگنے کا مقابلہ، کچھ بڑے ہوئے تو فٹ بال اورکبڈی میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ کبڈی میں تو آپؒ نے خاصی شہرت حاصل کی۔ احمد : تو آپ کی کسی شرارت کا واقعہ بتائیں ناں ؟ دادی جان : آپؒ کا بچپن ہی تھا جب قادیان میں ایک کنواں کھودا جا رہا تھا۔ آپؒ نے مزدوروں کو دیکھا کہ وہ کس طرح رسّہ پکڑ کر پاؤں کنویں کی دیوار سے اٹکا کر نیچے اُترتے ہیں اور پھر اسی طرح اوپر چڑھ کر باہر آتے ہیں۔ شام ڈھلے جب مزدور چلے گئے تو آپؒ نے بھی کنویں میں اترنے کی ٹھانی۔ جونہی رسّہ پکڑا کنویں میں اترے تو ٹانگیں بہت چھوٹی تھیں اور دیوار تک پہنچ نہ سکتی تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آپؒ تیزی سے نیچے گرتے چلے گئے اور رسّے نے ہاتھ چھلنی کردیے۔ اب آپؒ کو یہ ڈر تھا کہ امی جان نے زخمی ہاتھ دیکھے تو گھبراجائیں گی اور سزا بھی مل سکتی ہے۔ چنانچہ آپؒ ڈاکٹر کے پاس گئے، صرف مرہم ہاتھوں پر لگائی اور پٹی نہ باندھی۔ اس طرح یہ تکلیف برداشت کرتے رہے لیکن کسی کو پتا نہ لگنے دیا۔ محمود : تو کیا اُن کی اُمی جان کو پتا نہیں چلا ؟ دادی جان : پتا تو شاید چل ہی گیا ہو کیونکہ امی سے کبھی کوئی بات نہیں چھپ سکتی تھی مگر فوراً نہیں پتا چلا۔ محمود: نہ بابا نہ۔ میں تو کسی گڑھے کے قریب نہ جاؤں گا۔ دادی جان: پھر ایک اور واقعہ بھی سن لو۔ ایک بار چڑیا گھر کی سیر کے دوران چھلانگ لگاکر شیر کے جنگلے میں چلے گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پہرہ دار مکرم عبدالاحد خان صاحب نے دوڑ کر آپؒ کو باہر نکالا۔ سب گھبرائے ہوئے تھے لیکن آپؒ کے چہرہ پر خوف کے کوئی آثار نہ تھے۔ گڑیا : ہائے اللہ اگر شیر آپ کو کھا جاتا تو؟ دادی جان : تبھی تو سارے ڈر گئے تھے شکر ہے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ احمد : یہ تو بہادری والی لیکن بہت خطرناک شرارت تھی۔ دادی جان : تھا تو خطرناک مگر اس سے آپ کی بہادری کا بھی پتا چلتا ہے۔ چلیں ایک اور مزے کا واقعہ سناتی ہوں۔ آپ کی ہمشیرہ محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپؒ اتنے شرارتی تھے کہ جب ہم لڑکیاں اپنے گڈے گڑیا کی شادی کرتیں تو آپ اپنے گھر کے ہی دوستوں کے ساتھ آتے اور ہمارا پکا ہوا کھانا کھا جایا کرتے۔ ایک روز ہم نے کمرہ بند کرکے شادی کا اہتمام کیا تاکہ لڑکوں کی مداخلت کا امکان نہ رہے۔ ابھی کھانا شروع کرنا ہی تھا کہ یوں محسوس ہوا کہ دروازہ پر حضرت مصلح موعودؓ تشریف لائے ہیں۔ ہم نے کنڈی کھول دی۔ دیکھا تو حضورؒ تھے۔ آپؒ نے ایک بکرا پکڑا ہوا تھا جس سے ڈر کر لڑکیاں بھاگ گئیں اور حضورؒ نے اپنے دوستوں کے ساتھ شادی کے کھانے مزے سے کھائے۔ محمود : ہاہاہا گڑیا آپی تیار رہیں اب کسی دن میں بھی ایسی شرارت کروں گا آپ کے ساتھ آپ بھی مجھے نہیں آنے دیتی ناں کمرے میں۔ گڑیا : مجھے بکرے سے بالکل بھی ڈر نہیں لگتا اس لیے ایسا سوچنا بھی مت۔ دادی جان : ویسے بھی محمود آپ اب بڑے ہوگئے ہو لڑکیوں والے کھیل نہ کھیلا کرو۔ بلکہ میں آپ کو حضور ؒ کی بہن کا بتاتی ہوں۔ محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر صاحبہ نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ میرا اور حضورؒ کا صرف چار ماہ کا فرق تھا۔ آپؒ چھوٹی بہنوں کے ساتھ خوب کھیلتے، مذاق بھی کرتے لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی لڑائی کی ہو یا کسی کی دلآزاری کی ہو۔ شعر و شاعری میں دلچسپی تھی اور جب سب مل کر شعر سناتے تو آپؒ کئی بار فی البدیہہ مزاحیہ شعر کہہ دیتے۔ بڑی بہنوں کا بہت احترام کرتے۔ کبھی وقت ضائع نہ کرتے۔ محمود :واہ یہ تو بہت مزے کے واقعات ہیں۔ اور کون کون سے کھیل آپ کھیلتے تھے ؟ دادی جان :بہت سارے کھیل جیسے آپ لوگ کھیلتے ہیں بلکہ میں آپ کو بتاؤں کہ خودحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اپنے بچپن کے مشاغل کا ذکر کرتے ہوئے کیا فرماتے ہیں؟ آپؒ فرماتے ہیں : ’’ اپنی مرضی کی کہانیاں پڑھنی اور کھیل کو د اور گھڑ سواری اور کبڈی اور کبھی فٹبال اور سب سے زیادہ تو مجھے گھوڑے کی سواری کا شوق تھا اور بچپن سے ہی گھڑ سواری کا شوق اللہ نے ڈال دیا تھا۔ میں اچھی کرلیا کرتا تھا‘‘۔ احمد : اور کیا کام کیا کرتے تھے ؟ دادی جان :بہت سے اچھے کام بھی کرتے تھے مثلاً آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم جب چھوٹے ہوتے تھے ہم اپنی مرضی کا کوئی نہ کوئی در خت لگایا کرتے تھے، بچے اپنے درخت کو بڑھتا دیکھتے ہیں تو اچھا لگتا ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اونچا ہوجاتا ہے۔ ‘‘ گڑیا : کیا بچپن میں بھی آپ جماعتی کام کرتے تھے ؟ دادی جان :جی بالکل بچپن ہی سے جماعتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے آپؒ خود بتاتے ہیں ’’جب مَیں اطفال میں تھا تو جو بھی اطفال کا کام میرے سپرد ہوتا تھا، مَیں کیا کرتا تھا اور ہم وقارعمل بھی کیا کرتے تھے اور مَیں اطفال میں دس بچوں کا سائق بھی بن گیا تھا‘‘۔ گڑیا : میں نے سنا ہے کہ آپ کی نمازوں کا معیار بہت عمدہ تھا اس بارے میں کچھ بتائیں ؟ دادی جان : نماز میں تو آپ کی خوشی اور ذوق دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ محترمہ صاحبزادی امة الباسط صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب کو نمازوں کا بچپن ہی سے بے حد شوق تھا۔ ہمیشہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ پھرحضورؒ فرماتے ہیں کہ مجھے تو چھوٹی عمر سے تہجد کا شوق تھا۔ بچپن سے ہی خدا نے دل میں ڈال دیا تھا کہ تہجد ضرور پڑھنی چاہیے اور اس کو میں نے آج تک حتی المقدور برقرار رکھا ہے۔ ایسے ایک اور اچھی عادت بچپن سے ہی آپؒ کی ذات کا حصہ بن گئی تھی وہ مالی قربانی کی عادت تھی۔ اس بارے میں بھی حضورؒ خود فرماتے ہیں کہ اُس زمانہ کے لحاظ سے ایک ہفتہ کا ایک آنہ ملا کر تا تھا تو مہینہ میں چار آنے ملتے تھے تو ہم سے وہ ( والدہ) ایک آنہ ایک ہفتہ کالے لیا کرتی تھیں کہ یہ فلاں چندہ میں ڈالا جائے گا۔ اللہ اُن کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اس وجہ سے مجھے بھی بچپن سے ہی چندہ دینے کی عادت پڑ گئی ہے۔ احمد : یہ تو بہت اچھی عادت ہے تبھی آپ ہمیں ہاتھ سے چندہ دینے کا کہتی ہیں تاکہ ہم بھی اس نیکی کو اپنائیں۔ دادی جان : بالکل یہی بات ہے۔ چلیں شاباش اب بہت دیر ہوگئی ہے اٹھیں جا کر سوئیں نہیں تو فجر پر آنکھ نہیں کھلے گی۔ ٹھیک ہے دادی جان شب بخیر۔ دادی جان : شب بخیر بچو ! (درثمین احمد۔ جرمنی)