حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیّت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو۔ قرآن تمہارا دستورا لعمل ہو۔ باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الٰہی کو روکتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہوگئے۔ اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے۔ اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مُردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو۔ وحدت کو ہاتھ سے نہ دو۔ دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔ تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔ پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے۔ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراہیم:8)۔ لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے:اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد۔ (ابراہیم: 8)‘‘(خطبات نور۔ صفحہ 131) اللہ تعالیٰ ہر احمدی کواس سے محفوظ رکھے اور ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھے۔ ‘‘ (خطبہ جمعہ2؍مئی 2003ء) (اعتصام: مضبوطی سے پکڑنا، دستور العمل: لائحہ عمل، تنازع: اختلاف، جھگڑا، غسّال: مردہ نہلانے والا، خوش معاملگی: اچھا برتاؤ)