حضرت مسیح موعودؑ کو ۸؍فروری ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا یُخْرِجُ ھَمُّہٗ وَغَمُّہٗ دَوْحَةَ اِسْمٰعِیْلَ۔ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُج۔(تذکرہ صفحہ۵۰۷۔ ایڈیشن۲۰۰۴ء)حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’پھر آپ [حضرت مسیح موعودؑ] کا ایک اور الہام یہ بھی ہے کہ یُخْرِجُ ھَمُّہٗ وَ غَمُّہٗ دَوْحَةَ اِسْمٰعِیْلَ۔ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ یعنی تمہارے ہم اور غم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک اسماعیلی درخت اُگائے گا لیکن یہ راز چھپائے رکھو یہاں تک کہ وہ درخت نکل آئے۔ سو اِس ہجرت پر پردہ پڑا رہا یہاں تک کہ قادیان پر جن دنوں حملہ ہو رہا تھا اور میں بتا رہا تھا کہ تم خدائی وعدہ کے مطابق قادیان سے نکلو گے، آپ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو یہاں سے ہلنا نہیں۔ پھر ان لوگوں میں سے جو کہہ رہے تھے کہ ہم نے ہلنا نہیں بعض نکل آئے مگر دوسرے لوگ پھر بھی کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو یہاں سے نہیں جانا۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے محبت کی وجہ سے کسی کا اِس طرف خیال ہی نہیں جاتا تھا کہ ہجرت ہوگی اور ہم قادیان کو چھوڑ کر باہر آ جائیں گے۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے جب وفات پائی تو حضرت عمرؓ کی یہ کیفیت تھی کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہوچکے تھے وہ یہ کہنے لگے کہ میں تو مان ہی نہیں سکتا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ پس جہاں محبت ہوتی ہے وہاں ایسا خیال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح خداتعالیٰ کا قادیان کو دائمی اور مستقل مرکز قرار دینا اِس بات پر پردہ ڈال رہا تھا کہ ہمیں قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ مگر آخر وہی بات ہو گئی کہ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ جب تک وہ درخت نکل نہ آئے اُسے ظاہر نہ کرنا۔ ورنہ یہ لوگ قادیان آنے سے رُک جائیں گے اور اگر یہ رُک گئے تو قادیان میں مکان کیسے بنائیں گے حالانکہ ہمارا یہ ارادہ ہے کہ یہ لوگ قادیان میں مکان بناتے چلے جائیں۔ جب قادیان ہاتھ سے نکل جائے گا تو جو سچا متبع ہوگا وہ تو کہے گا کہ جیسے ہم نے پہلے چھتہ بنایا تھا ویسے ہی پھر بنا لیں گے اور جو کمزور ہوگا اُس کا دل تو یہ کہتا ہوگا کہ میں نے جو کرنا تھا کر لیا لیکن بظاہر وہ کہے گا اچھا یہ اور مرکز بنا رہے ہیں یہ قادیان کو بھول رہے ہیں اور اس طرح وہ اپنی منافقت کو ظاہر کر دے گا۔‘‘(انوار العلوم جلد ۲۱صفحہ ۳۵۷-۳۵۸)