https://youtu.be/Ac4_loBOHUI?si=FaWcjQrvHR9KqN6O ’’یہ کبھی نہ وہم کرنا کہ ربوہ اُجڑ جائے گا۔ ربوہ کو خدا نے برکت دی ہے۔ ربوہ کے چپہ چپہ پر اَللّٰہُ اَکْبَر کے نعرے لگے ہیں۔ ربوہ کے چپہ چپہ پر محمد رسول اللہ پر درود بھیجا گیا ہے۔ خدا اس زمین کو کبھی ضائع نہیں کرے گا جس پر نعرہ تکبیر لگے ہیں اور محمد رسول اللہ ؐپر درود بھیجا گیا ہے۔ یہ بستی قیامت تک خدا تعالیٰ کی محبوب بستی رہے گی اور قیامت تک اس پر برکتیں نازل ہوں گی۔ اس لئے یہ کبھی نہیں اُجڑے گی، کبھی تباہ نہیں ہوگی بلکہ محمد رسول اللہؐ کا نام ہمیشہ یہاں سے اونچا ہوتا رہے گا اور قادیان کی اتباع میں یہ بھی محمد رسول اللہؐ کا جھنڈا دنیا میں کھڑا کرتی رہےگی۔ اِنْشَاءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ ‘‘ (حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد الہامات اور رؤیاو کشوف میں ہجرت کا اشارہ ملتا ہے۔ ۱۸؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو آپ کو الہام ہوا ’’داغ ہجرت‘‘ (تذکرہ صفحہ ۲۱۸) بعض مشکلات اور نامساعد حالات میں آپ نے قادیان سے ہجرت کا ارادہ بھی ظاہر فرمایا اور آپ کے محبین نے آپ کو بھیرہ، لاہور، سیالکوٹ اور چک پنیار میں ہجرت کر کے جانے اور اپنے قیام کے لیے جگہ کی پیشکش کرنے کی سعادت پائی لیکن آپ نے یہی فرمایا کہ جب اذن ہو گا تب ہجرت ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا نبی کے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعہ سے پورے ہوتے ہیں مثلاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو قیصر و کسریٰ کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے‘‘۔(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۳۶۲، ایڈیشن ۱۹۸۸ء) یہ مشیتِ اِیزدی تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو جو ہجرت کی خبر دی گئی وہ آپ کے متبع کامل اور پسر موعود حضرت فضل عمرؓ کے بابرکت دور میں پوری ہوئی۔ ۱۹۴۷ء کی تقسیم ہند کے وقت جماعت کو اپنے دائمی مرکز قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان آنا پڑا۔ نئے مرکز احمدیت کا قیام اولوالعزم خلیفہ سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓکا ایک عظیم المرتبت کارنامہ ہے۔ جب تقسیمِ ہند کے نتیجے میں بکھری ہوئی جماعت کو پھر ایک جگہ جمع کر کے اشاعتِ دین کے فریضہ کو دوبارہ اسی شان و شوکت کے ساتھ شروع کر دیا گیا جس طرح یہ سلسلہ قادیان میں جاری تھا۔دارالہجرت ربوہ حضرت مصلح موعودؓ کی دُور بین نگاہ اور آپ کی اولوالعزم قیادت کا آئینہ دار ہے۔ حضورؓ بیان فرماتے ہیں: ’’یہاں (پاکستان) پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے۔ یعنی ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ فوراً ایک مرکز بنایا جائے اس کے لیے ۷؍ستمبر ۱۹۴۷ء کو ایک میٹنگ بلائی گئی۔ جس طرح میرے قادیان سے نکلنے کا کام کیپٹن عطاءاﷲ صاحب کے ہاتھ سے سرانجام پایا تھا اسی طرح ایک نئے مرکز کا کام ایک دوسرے آدمی کے سپرد کیا گیا جو پیچھے آیا اور کئی لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ میری مراد نواب محمد دین صاحب مرحوم سے ہے‘‘۔ (الفضل ۳۱؍جولائی ۱۹۴۹ء) حضرت مصلح موعودؓ کا یہ ایک عظیم الشان اور تاریخی کارنامہ ہے جس کے ذریعہ ایک بے آب و گیاہ وادی کو بسایا گیا اور پھر اسے گل و گلزار میں اﷲ کے فضل سے تبدیل کر دیا گیا۔ قادیان سے پاکستان ہجرت کے بعد سب سے بڑا مرحلہ پاکستان میں نئے مرکز سلسلہ کے لیے مناسب اور موزوں جگہ کی تلاش تھی۔ نئے مرکز کے لیے جگہ کی تلاش کی خدمت کی سعادت محترم چودھری عزیز احمد صاحب باجوہ کے حصّہ میں آئی۔ آپ ان ایّام میں سرگودھا میں سیشن جج کے عہدہ پر فائز تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں لاہور بلوا کر ان سے مشورہ لیا اور ہدایات دیں۔ سیدناحضرت مصلح موعودؓ نئی مجوزہ جگہ کو بذاتِ خود ملاحظہ فرمانے کی غرض سے ۱۸؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو لاہور سے سرگودھا کی طرف تشریف لائے۔ یہ وہ تاریخی دن ہے جب سرزمین ربوہ پر حضرت مصلح موعودؓ کے پہلی بار مبارک قدم پڑے۔ حضور صبح سویرے رتن باغ سے روانہ ہوئے اور تقریباً دس بجے سر زمین ربوہ بس اڈہ کے قریب پہنچے۔ حضورؓ نے کار سے اتر کر جگہ کا معائنہ فرمایانیز قریبی پہاڑی کے اوپر جاکر بھی حضور ؓنے جگہ ملاحظہ فرمائی اور پھر سرگودھا کی طرف آگے چل کر نلکے سے پانی چکھ کر فرمایا کہ پانی تو بہت اچھا ہے۔ یہاں سے روانہ ہو کر احمد نگر کے بالمقابل سڑک پر نکل کر ایک کنویں کے قریب درخت کے نیچے ٹھہر کر احمد نگر کے غیر از جماعت معززین سے مخاطب ہوئے اور ربوہ کی زمین کے بارہ میں بعض معلومات لیں اور پھر سرگودھا کی طرف روانہ ہو گئے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد ۱۱ صفحہ ۲۸۶، ۲۸۸) یہ رقبہ جو چک ڈھگیاں کے نام پر تھا۔ اس کی کل اراضی ۱۵۰۶؍ایکڑ تھی جبکہ اس میں ۴۷۲؍ا یکڑ رقبہ آبادی کے قابل نہ تھا جس میں بڑی سڑک، ریلوے لائن اور پہاڑیاں شامل ہیں۔ بقیہ ۱۰۳۴؍ایکڑ جو کہ زراعت کے ناقابل تھا تاہم اس میں مکانات تعمیر ہو سکتے تھے اور یہ رقبہ کسی کی ملکیت بھی نہیں تھا اس رقبہ کے حصول کی درخواست پیش کی گئی۔ درخواست پیش کیے جانے کے بعد اس کی کئی قانونی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ بہرحال ایک طویل سلسلہ کے بعد حضورؓ نے ۱۱؍جون ۱۹۴۸ء کے خطبہ جمعہ میں اس اراضی کی خرید کی کارروائی کی تفصیلات بیان فرمائیں۔ ۲۷؍جون ۱۹۴۸ء کو زمین کی قیمت جھنگ سرکاری خزانہ میں جمع کروائی گئی یوں سرکاری رجسٹری مکمل ہوئی۔ ۱۶؍ستمبر ۱۹۴۸ء کو لاہور میں حضرت مصلح موعودؓ نے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے مشترکہ اجلاس میں نئے مرکز کے افتتاح کے لیے ۲۰؍ستمبر کا دن مقرر فرمایا اور اس کے انتظامات کے لیے بعض اہم ہدایات دیں۔ اسی اجلاس میں نئے مرکز کا نام زیرِ غور آیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مولانا شمس صاحب کا تجویز کردہ نام ’’ربوہ‘‘ منظور فرمایا۔ جس کے معنی ٹیلہ، پہاڑی، بلند زمین کے ہیں اور قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی والدہ کے ہمراہ ہجرت کے واقعہ میں انہیں ربوہ میں اﷲ کی طرف سے پناہ دیے جانے کا ذکر موجود ہے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۱۱ صفحہ ۴۲۳،۴۲۲) افتتاح کی تاریخ طے ہو جانے کے بعد حضور ؓکی ہدایات کی روشنی میں صدر انجمن اور تحریک جدید نے فوری طور پر انتظامات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس مقصد کے لیے ۱۹؍ستمبر کو ربوہ کے لیے لاہور سے دو قافلے روانہ ہوئے۔ پہلا قافلہ چودھری عبدالسلام صاحب اختر اور مولانا چودھری محمد صدیق صاحب پر مشتمل تھا جس نے رات ربوہ میں گزاری جبکہ دوسرا قافلہ مکرم چودھری ظہور احمد صاحب کی امارت میں شام پانچ بجے لاہور سے بس کے ذریعہ براستہ فیصل آباد (لائلپور ) رات گیارہ بجے چنیوٹ پہنچا۔ اس قافلے نے رات سڑک کے کنارے گزاری اور اگلے روز یعنی ۲۰؍ستمبر کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ربوہ پہنچا۔ اس قافلہ میں صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ۳۴؍عہدیداران شامل تھے۔ نئے مرکز ربوہ کا افتتاح ۲۰؍ستمبر ۱۹۴۸ء وہ تاریخی دن ہے جس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی کئی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا تھا۔ ’’تین کو چار کرنے والا‘‘ پسر موعود کی علامت تھی اس کا ایک ظہور بھی ہونے والا تھا اور ایک بے آب و گیاہ، وادی غیرذی زرع کی آبادی کا سامان ہونے والا تھا اور ایک ایسی بستی کی بنیاد ڈالی جارہی تھی جہاں سے دین کی نشاۃ ثانیہ کے لیے فدایان و جاں نثاران نے اکنافِ عالم میں پھیل جانا تھا۔ افتتاح کے لیے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ بنفس نفیس لاہور سے سرزمین ربوہ کے لیے روانہ ہوئے۔ حضورؓ بذریعہ کار صبح نو بج کر بیس منٹ پر لاہور سے روانہ ہوئے۔ یہ یادگار سفر حضورؓ نے براستہ فیصل آباد (لائلپور) طے فرمایا۔ حضورؓ کے ہمراہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور دوسرے بزرگانِ سلسلہ بھی تھے۔ حضورؓ نے ایک بج کر بیس منٹ پر نئے مرکز پر قدم رنجہ فرمایا۔ سب سے پہلا کام نماز ظہر کی ادائیگی تھی۔ دراصل اس نماز کے ساتھ ہی نئے مرکز کا افتتاح عمل میں آگیا۔ ڈیڑھ بجے حضورؓ نے نماز ظہر پڑھائی۔ یہ پہلی باجماعت نماز تھی جو سیّدنا مصلح موعودؓ کی اقتدا میں احباب جماعت نے نئے مرکز میں ادا کی۔ اس نماز میں ۲۵۰؍ کے قریب احباب موجود تھےجو حضورؓ کی آمد سے قبل چنیوٹ، احمد نگر، لالیاں، لائلپور، سرگودھا، لاہور، قصور، سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ، جہلم اور بعض دوسرے مقامات سے بھی اس تاریخی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچ گئے تھے۔ ربوہ کی افتتاحی تقریب میں شامل احباب کی فہرست تیار کی گئی تھی۔ ان خوش قسمت احباب کے اسماء تاریخ احمدیت جلد ۱۲ میں بطور ضمیمہ شامل ہیں۔ یہ فہرست حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کی نگرانی میں تیار ہوئی۔ جو ۶۱۶؍احباب پر مشتمل ہے۔ جس مقام پر حضورؓ نے نماز ظہر پڑھائی وہاں پر ایک مسجد یادگار۱۹۵۳ء میں تعمیر کر دی گئی جو کہ احاطہ فضل عمر ہسپتال میں انتہائی خوبصورت عمارت کی صورت میں موجود ہے اور وہاں پانچ وقت باجماعت نماز ہوتی ہے اور ہسپتال آنے والے مریض اور ان کے لواحقین بھی اسے عبادت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کا تاریخی افتتاحی خطاب نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ جن کو خوش نصیب حاضر احباب جماعت نے بھی دہرایا، ربوہ کا افتتاح کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ابراہیمی دعاؤں کو ۳، ۳ بار دہرایا اور احباب جماعت بھی ساتھ ساتھ دہراتے رہے۔ یہ دعائیں حسب ذیل تھیں: ۱۔ رَبَّنَا اجۡعَلۡ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارۡزُقۡ اَہۡلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ ۲۔ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ (البقرۃ:۱۲۸) ۳۔ رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ۔ (البقرۃ: ۱۲۹) ۴۔ رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رِجَالًامِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُونَہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکّوْنَھُمۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔ (حضور نے جمع کا صیغہ دعا میں استعمال فرمایا تھا) ان دعاؤں کو پڑھنے کے بعد حضورؓ نے فرمایا:’’یہ وہ دعائیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے بساتے وقت کیں اور اﷲ تعالیٰ نے ان کو قبول فرما کر ایک ایسی بنیاد رکھ دی جو ہمیشہ کے لیے نیکی اور تقویٰ کو قائم رکھنے والی ثابت ہوئی۔ …سو ہمیں بھی اس کام کی یاد کے طور پر اور اس بستی کی یاد کے طور پر جس جگہ خدا کے ایک نبی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد کے انتظار میں دعائیں کی گئیں۔ اپنے نئے مرکز کو بساتے وقت جو اسی طرح ایک وادی غیر ذی زرع میں بسایا جارہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں کہ شاید ان لوگوں کے طفیل جو مکہ مکرمہ کے قائم کرنے والے اور مکہ مکرمہ کی پیشگوئیوں کے حامل تھے۔ اﷲ تعالیٰ ہم پر بھی اپنا فضل نازل کرے اور ہمیں بھی ان نعمتوں سے حصہ دے جو اس نے پہلوں کو دیں۔ …خدائی خبروں اور اس کی بتائی ہوئی پیشگوئیوں کے مطابق ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا۔ اب انہی خبروں اور پیشگوئیوں کے ماتحت ہم ایک نئی بستی اﷲ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لیے اس وادیٔ غیر ذی زرع میں بسا رہے ہیں۔ ہم چیونٹی کی طرح کمزور اور ناطاقت ہی سہی مگر چیونٹی بھی جب دانہ اٹھا کر دیوار پر چڑھتے ہوئے گرتی ہے تو وہ اس دانے کو چھوڑتی نہیں بلکہ دوبارہ اسے اٹھا کر منزل مقصود پر لے جاتی ہے اسی طرح گو ہمارا وہ مرکز جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے دشمن نے ہم سے چھینا ہوا ہے لیکن ہمارے ارادہ اور عزم میں کوئی تزلزل واقعہ نہیں ہوا۔ …اس وادیٔ غیر ذی زرع کو اس ارادہ اور نیت کے ساتھ چنا ہے کہ جب تک یہ عارضی مقام ہمارے پاس رہے گا ہم اسلام کاجھنڈا اس مقام پر بلند رکھیں گے اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور جب خدا ہمارا قادیان ہمیں واپس دیدے گا یہ مرکز صرف اس علاقہ کے لوگوں کے لیے رہ جائے گا۔ یہ مقام اجڑے گا نہیں کیونکہ جہاں خدا کا نام ایک دفعہ لے لیا جائے وہ مقام برباد نہیں ہوا کرتا۔ …یہ زمین ہم نے پہاڑی ٹیلوں کے درمیان اس لیے خریدی ہے کہ میری ایک رؤیا اس زمین کے متعلق تھی۔ یہ رؤیا دسمبر ۱۹۴۱ء میں مَیں نے دیکھی تھی اور ۲۱؍دسمبر ۱۹۴۱ء کے الفضل میں شائع ہو چکی ہے۔ اب تک دس ہزار آدمی یہ رؤیا پڑھ چکے ہیں اور گورنمنٹ کے ریکارڈ میں بھی یہ رؤیا موجود ہے۔ میں نے اس رؤیا میں دیکھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور ہر قسم کے ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں مگر مقابلہ کے بعد دشمن غالب آگیا اور ہمیں وہ مقام چھوڑنا پڑا۔ باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جاکر اپنی حفاظت کا سامان کریں۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں ایک جگہ بتاتا ہوں۔ آپ پہاڑوں پر چلیں … اس رؤیا کے مطابق یہ جگہ مرکزکے لیے تجویز کی گئی ہے۔ جب میں قادیان سے آیا تو اس وقت یہاں اتفاقاً چودھری عزیز احمد صاحب احمدی سب جج لگے ہوئے تھے۔ میں شیخوپورہ کے متعلق مشورہ کر رہا تھا کہ چودھری عزیز احمد صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے اخبار میں آپ کی ایک اس اس رنگ کی خواب پڑھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چنیوٹ ضلع جھنگ کے قریب دریائے چناب کے پار ایک ایسا ٹکڑا زمین ہے جو اس خواب کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ میں یہاں آیا اور میں نے کہا ٹھیک ہے۔ خواب میں جو میں نے مقام دیکھا تھا اس کے ارد گرد بھی اسی قسم کے پہاڑی ٹیلے تھے صرف ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ میں نے اس میدان میں گھاس دیکھا تھا مگر یہ چٹیل میدان ہے۔ اب بارشوں کے بعد کچھ کچھ سبزہ نکلا ہے ممکن ہے ہمارے آنے کے بعد اﷲ تعالیٰ یہاں گھاس بھی پیدا کر دے اور اس رقبہ کو سبزہ زار بنا دے۔ بہرحال اس رؤیاء کے مطابق ہم نے اس جگہ کو چنا ہے۔ ’’آؤ !اب ہم ہاتھ اٹھا کر آہستگی سے بھی اپنے دلوں میں اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمارے ارادوں میں برکت ڈالے اور ہمیں اس مقدس کام کو دیانتداری کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق بخشے۔‘‘ (الفضل سالانہ نمبر دسمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۵ تا۹،انوارالعلوم جلد نمبر ۲۰ صفحہ ۵۳۶ تا ۵۴۸) بکروں کی قربانی اس پُر معارف اور ایمان افروز افتتاحی تقریر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے لمبی دعا کروائی۔ درویشان قادیان کو فون اور تار کے ذریعہ نماز اور دعا کے وقت کی اطلاع کر دی گئی تھی۔ وہ اپنی جگہ انتظام کر کے دعا میں شریک ہو گئے۔ دعا کے بعد حضورؓ نے چاروں کونوں پر بکروں کی قربانی کا ارشاد فرمایا اور ایک بکرا وسط رقبہ حضورؓ نے اپنے دست مبارک سے قربان کیا۔چاروں کونوں پر مندرجہ ذیل احباب نے قربانیاں ذبح کیں: ۱۔ محترم مولانا عبدالرحیم صاحب درد ۲۔ محترم مولوی عبداﷲ بوتالوی صاحب ۳۔ محترم چودھری برکت علی خان صاحب وکیل المال تحریک جدید ۴۔ محترم مولوی چودھری محمد صدیق صاحب مولوی فاضل بکروں کی قربانی کے بعد ایک ترک نوجوان مکرم محمد افضل صاحب ترکی نے حضورؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت میں شمولیت کی۔ اس کو نئے مرکز کا پہلا پھل قرار دیا گیا۔ اس موقع پر حضورؓ نے نئے مرکز کا نام ربوہ ہونے کا اعلان فرمایا۔ قربانی اور بیعت کے بعد حضورؓ نے نماز عصر پڑھائی جس میں چھ سو کے قریب مرد و زن شریک ہوئے۔ نماز کے بعد حضورؓ نے کھانا تناول فرمایا جس میں دوسرے احباب بھی شریک ہوئے۔ اس کھانے کا انتظام احباب جماعت چنیوٹ نے کیا تھا۔ چار بج کر چالیس منٹ پر حضور ؓکی گاڑی لاہور کے لیے واپس روانہ ہو گئی اور آٹھ بج کر پانچ منٹ پر حضور بخیروعافیت لاہور پہنچ گئے۔ تقریب اِفتتاح کے مقام پر ایک موٹر لاری، پانچ کاریں، ۲۴؍تانگے اور ۳۲؍سائیکل موجود تھے۔ وسیع شامیانے کے علاوہ چھ خیمے نصب کیے گئے تھے۔ بعض مستورات بھی افتتاحی تقریب میں شامل ہو گئی تھیں۔ انہوں نے پردہ کے پیچھے نماز ادا کی۔(ملخص از مضمون حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓمطبوعہ الفضل ۲۲؍ستمبر ۱۹۴۸ء) خان بہادر حضرت نواب محمدالدین صاحب کو نئے مرکز کے قیام کے سلسلہ میں غیر معمولی خدمات کی توفیق ملی۔ آپ ۵؍جولائی ۱۹۴۹ء کو وفات پا گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کی وفات کے بعد خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے فرمایا:’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جدید مرکز کے قیام کا سہرا یقیناً نواب محمد الدین صاحب مرحوم کے سر پر ہے اور یہ عزت اور رتبہ انہی کا حق ہے۔ جب تک یہ جماعت قائم رہے گی لوگ ان کے لیے دعا بھی کریں گے اور ان کی قربانی کو دیکھ کر نوجوانوں کے دلوں میں یہ جذبہ بھی پیدا ہو گا کہ وہ ان جیسا کام کریں … یہ مقام (ربوہ) چونکہ اﷲ تعالیٰ کی پیشگوئی کے ماتحت قائم کیا جارہا ہے اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی حفاظت کریں گے اور اس کی برکتیں اس سے وابستہ رہیں گی اور یقیناً اس مقام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نواب صاحب مرحوم کا نام بھی قیامت تک قائم رہے گا‘‘۔ (روزنامہ الفضل ۳۱؍جولائی ۱۹۴۹ء) حضرت مصلح موعودؓ ۱۹؍ستمبر ۱۹۴۹ء بروز دوشنبہ لاہور سے صبح دس بج کر پچاس منٹ پر مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے نئے مرکزربوہ کے لیے عازم سفر ہوئے۔ (روزنامہ الفضل لاہور ۲۳؍ستمبر ۱۹۴۹ء) نئے مرکز میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے بعد پہلا جمعہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۴۹ء کو پڑھایا۔۳؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو ربوہ کی پہلی مستقل مسجدمبارک کا سنگِ بنیاد حضور نے اپنے دستِ مبارک سے رکھا۔مسجد مبارک اگست ۱۹۵۱ء میں مکمل ہوئی۔ حضورؓ نے ۲۳؍اگست ۱۹۵۱ء میں اس میں پہلا خطبہ ارشاد فرمایا۔ جماعت احمدیہ کا سر زمین ربوہ پر پہلا جلسہ سالانہ ۱۵تا ۱۷؍اپریل ۱۹۴۹ء کو منعقد ہوا۔ (یہ ۱۹۴۸ء کا جلسہ سالانہ تھا) جس میں حضور ؓ بنفس نفیس شامل ہوئے۔ غیر معمولی طور پر اس بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں سولہ ہزار سے زائد افراد اس جلسہ میں شامل ہوئے۔ اہالیان مرکز سے حضرت مسیح موعودؑکی توقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ میں تجارت کے لیے قادیان آنا چاہتا ہوںآپ نے فرمایا: ’’یہ نیت ہی فاسد ہے اس سے توبہ کرنی چاہیے۔یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہیے اور اصلاحِ عاقبت کے خیال سے یہاں رہنا چاہیے۔ نیت تو یہی ہو اور اگر پھر اس کے ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کے اغراض کو پورا کرنے کے لیے ہو تو حرج نہیں ہے۔ اصل مقصد دین ہو نہ دنیا۔ کیا تجارتوں کے لیے شہر موزوں نہیں؟ یہاں آنے کی اصل غرض کبھی دین کے سوا اَور نہ ہو۔ پھر جو کچھ حاصل ہوجاوے وہ خدا کا فضل سمجھو۔‘‘ (ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۲۶۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) قیامت تک خدا کی محبوب بستی سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے نئے مرکز سلسلہ ربوہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ کبھی نہ وہم کرنا کہ ربوہ اُجڑ جائے گا۔ ربوہ کو خدا نے برکت دی ہے۔ ربوہ کے چپہ چپہ پر اَللّٰہُ اَکْبَر کے نعرے لگے ہیں۔ ربوہ کے چپہ چپہ پر محمد رسول اللہ پر درود بھیجا گیا ہے۔ خدا اس زمین کو کبھی ضائع نہیں کرے گا جس پر نعرہ تکبیر لگے ہیں اور محمد رسول اللہ ؐپر درود بھیجا گیا ہے۔ یہ بستی قیامت تک خدا تعالیٰ کی محبوب بستی رہے گی اور قیامت تک اس پر برکتیں نازل ہوں گی۔ اس لیے یہ کبھی نہیں اُجڑے گی، کبھی تباہ نہیں ہوگی بلکہ محمد رسول اللہؐ کا نام ہمیشہ یہاں سے اونچا ہوتا رہے گا اور قادیان کی اتباع میں یہ بھی محمد رسول اللہؐ کا جھنڈا دنیا میں کھڑا کرتی رہےگی۔اِنْشَاءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ (انوارالعلوم جلد ۲۶ صفحہ ۱۷۶) اہالیان ربوہ سے حضرت مصلح موعودؓ کی توقعات حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ربوہ کی بنیاد کی غرض یہ تھی کہ یہاں زیادہ سے زیادہ نیکی اختیار کرنے والے اور دین دار لوگ آباد ہوں۔…ایک مقام کی بنیاد اس لیے رکھی گئی تھی کہ وہ دین کی اشاعت کا مرکز ہو۔ تو وہاں بسنے والوں کو اس غرض سے بسنا چاہیے تھا کہ وہ یہاں رہ کر دین کی اشاعت میں دوسروں سے زیادہ حصہ لیں گے۔… ہم نے اس مقام کو محض اس لیے بنایا ہے کہ تا اشاعتِ دین میں حصہ لینے والے لوگ یہاں جمع ہوں۔…اور دین کی اشاعت کریں اور اس کی خاطر قربانی کریں۔…پس تم یہاں رہ کر نیک نمونہ دکھاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔…تم خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کر لو۔… اگر تم اس کی رضا کو حاصل کر لو تو ساری مصیبتیں اور کوفتیں دور ہوجائیں اور راحت کے سامان پیدا ہوجائیں۔(خطباتِ محمود جلد ۳۵ صفحہ ۹۸ تا ۱۰۳) آپؓ کا ایک ضروری ارشاد حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ایک زمانہ میں قادیان مرکز تھا اب عارضی طور پر ربوہ مرکز ہے، پھر علاقوں علاقوں کی مرکزی جماعتیں نقطہ مرکزی کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ بیرونی جماعتوں کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ بہرحال مرکز میں کوئی خرابی پیدا ہوگی تو بیرونی جماعتیں بھی اس سے متاثر ہوں گی۔ مثلاًمرکز میں اگر نمازوں میں سستی یا چستی پیدا ہوجائے تو باہر سے جب کوئی مہمان آئے گا تو وہ یہاں سے کچھ باتیں اخذ کرے گا اور اپنے گاؤں جا کر کہے گا کہ میں نے ربوہ میں دیکھا ہے کہ لوگ نمازوں کے بہت پابند ہیں آپ کیا کر رہے ہیں؟ اس طرح بہت حد تک اس جماعت کے لوگ پابند ہوجائیں گے لیکن اگر وہ مہمان مرکز سے بُرا اثر لے کر گیا ہے تو جب کوئی اُٹھ کر لوگوں کو نماز کی پابندی کرنے کی تلقین کرے گا تو وہ شخص کہے گا، مَیں ربوہ میں گیا تھا وہاں بھی لوگ نماز کے پابند نہیں، اسی طرح جماعت میں سستی پھیل جائے گی۔ (خطبات محمود جلد ۳۲ صفحہ ۱۲۲) ربوہ ایک مقدس مقام ہے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۵۲ء بمقام ربوہ میں فرمایا: یہ ایک حقیقتِ مسلمہ ہے اور تمام اولیاء اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی برکات بدل جاتی ہیں لیکن مقامات کی برکات نہیں بدلتیں، وہ ہمیشہ قائم رہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے حالات بدلتے رہتے ہیں لیکن مقام کے حالات نہیں بدلتے۔ مقام گناہ نہیں کرتا۔وہ جس رنگ میں ایک دفعہ رنگا گیا ۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد لوگ اس کے اندر خرابیاں کرنے لگ جاتے ہیں لیکن وہ خرابیاں لوگوں کی طرف منسوب ہوں گی اس مقام کی طرف منسوب نہیں ہوں گی کیونکہ مقامات جرم نہیں کرتے۔ پس خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کی وجہ سے بعض مقامات کو مقدس بنا دیا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ’’بیت اللہ ‘‘بنایا اور اس وجہ سے مکہ مقدس قرار پایا۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے مکہ کی برکات میں اَور بھی اضافہ ہوگیا۔ اسی طرح اور مقامات ہیں جو مقدس ہیں۔ یہ مقام بھی اپنے درجہ کے لحاظ سے مقدس ہے، یہاں وہ لوگ بیٹھے ہیں جو یہ ارادہ لے کر آئے ہیں کہ وہ دین کی خدمت کریں گے۔ یہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے اور دینی تعلیم کے حصول کےلیے بہت دور دور کے ممالک سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ اگر کوئی یہاں آئے گا اور چاہے گا کہ اس کی اصلاح ہوجائے تو اس کی اصلاح ہوجائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ یہاں رہتے ہیں ان میں سے اکثر دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور جب تک یہاں کے رہنے والوں کی اکثریت خدمتِ دین میں لگی ہوئی ہے اس وقت تک وہ لوگ بھی مقدس ہیں۔یہ مقام بھی مقدس ہے اور جب یہاں رہنے والوں کی اکثریت خدمتِ دین سے ہٹ جائے گی تو ان سے تقدیس چلی جائے گی لیکن یہ مقام پھر بھی مقدس رہے گا کیونکہ جب کوئی جگہ مقدس ہوجاتی ہے تو اس کی برکتیں اس سے واپس نہیں لی جاتیں اس لیے کہ اس کے حالات نہیں بدلتے۔… اس وقت ربوہ ہی ایک ایسا مقام ہے جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت خدمتِ دین کے لیے لگی ہوئی ہے اس لیے یہ مقام بھی مقدّس ہے اور اسے آئندہ ایک زمانہ تک کے لیے دین کا مرکز بنایاگیا ہے اور یہاں کے رہنے والے بھی مقدّس ہیں کیونکہ وہ اس کی تقدیس میں مدد دے رہے ہیں اور یہاں کے رہنے والوں کی اکثریت خدمتِ دین میں لگی ہوئی ہے۔ بے شک جہاں تک انسان کا سوال ہے وہ کمزور ہوتا ہے اور اس سے کمزوریاں سر زد ہوتی رہتی ہیں، اسی طرح اگر یہاں کے رہنے والوں میں بعض کمزوریاں پائی جاتی ہوں تو توبہ و استغفار سے خدا تعالیٰ ان کمزوریوں کو معاف کر دے گا۔ ایسے مقام پر آکر وقت ضائع کرنا نہایت افسوسناک امر ہے پس تم یہاں اپنے آنے کو زیادہ سے زیادہ موجبِ برکات بناؤ۔(خطباتِ محمود جلد ۳۳ صفحہ ۳۷۱و ۳۷۲) ربوہ کے رہنے والوں کا اصل مقصددین کی خدمت ہو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : مستقل انتظام کے لیے یہ شرط ہوگی کہ صرف ایسے ہی لوگوں کو ربوہ میں رہنے کی اجازت دی جائے گی جو اپنی زندگی عملی طور پر دین کی خدمت کے لیے وقف کرنے والے ہوں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ یہاں رہنے والا کوئی شخص دکان نہیں کرسکتا یا کوئی اور پیشہ نہیں کر سکتا۔ وہ ایسا کر سکتا ہےمگر عملاً اسے دین کی خدمت کے لیے وقف رہنا پڑے گا۔ جب بھی سلسلہ کو ضرورت ہوگی و ہ بلا چون و چرا اپنا کام بند کر کے سلسلہ کی خدمت کرنے کا پابند ہوگا۔ مثلاً اگر تبلیغ کے لیے وفد جارہے ہوں یا علاقہ میں کسی اور کام کے لیے اُس کی خدمات کی ضرورت ہو تو اُس کا فرض ہوگا کہ وہ فوراًاپنا کام بند کر کے باہر چلا جائے۔ انہی شرائط پر لوگوں کو زمین دی جائے گی اور جو لوگ اس کے پابند نہیں ہوں گے انہیں یہاں زمین نہیں دی جائے گی۔ ہم چاہتےہیں کہ یہ جگہ ایک مثالی جگہ ہو۔ جس طرح ظاہر میں ہم اسے دین کا مرکز بنارہے ہیں اس طرح حقیقی طور پر یہاں کے رہنے والے سب کے سب افراد دین کی خدمت کے لیے وقف ہوں۔ وہ بقدر ضرورت دنیا کا کام بھی کرتے ہوں لیکن ان کا اصل مقصد دین کی خدمت اور اس کی اشاعت ہو۔ مزید فرمایا: پس اس مقام کے رہنے والوں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ تو کل سے کام لیں اور ہمیشہ اپنی نگاہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلند رکھیں۔ جو دیانتدار احمدی ہیں میں اُن سے کہوں گا کہ اگر وہ کسی وقت یہ دیکھیں کہ وہ تو کّل کے مقام پر قائم نہیں رہے تو وہ خودبخود یہاں سے چلے جائیں۔ اور اگر خو دنہ جائیں تو جب اُن سے کہا جائے کہ چلے جاؤ تو کم سے کم اس وقت ان کا فرض ہوگا کہ وہ یہاں سے فوراً چلے جائیں۔ یہ جگہ خداتعالیٰ کے ذکر کے بلند کرنے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے، یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے، یہ جگہ خداتعالیٰ کے دین کی تعلیم اور اس کا مرکز بننے کے لیے مخصوص ہونی چاہیے۔ ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی اولا داور اپنے اعزہ اور اقارب کو اس رستہ پر چلانے کی کوشش کرے۔ …پس اپنے اندر عزم پیدا کرو اور سوچو کہ تمہیں بھیجا کیوں گیا ہے؟ ہمیں انہی چیزوں کو دیکھنےکے لیے بھیجا گیا ہے جن کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں لالچ پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں انہی چیزوں کو مٹانے کے بھیجا گیا ہے جن کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں ان کے پیچھے چلنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ تم سمجھو یا نہ سمجھو یہ خدا کا کام ہے اور بہر حال ہو کر رہے گا۔ اگرتم یہ کام نہیں کرو گے تو خدا اور لوگ کھڑے کر دے گا جو اس کام کو سر انجام دیں گے۔ یہ نظام بدلا جائے گا اور ضرور بدلا جائے گا۔ امریکہ اور روس اور انگلستان کے مادی لیڈر اور اسی طرح کے اور صنادید جو اس وقت ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں جو دنیا کے مستقبل پر مادی اسباب سے قبضہ جمانے کی فکر میں ہیں یہ مٹائے جائیں گے، یہ تباہ کیے جائیں گے، یہ برباد کیے جائیں گے۔ اور پھر دنیا اُس پرانے طریق پر لائی جائے گی جو آج سے تیرہ سو سال پہلے جاری تھا۔ بلکہ خود ان لوگوں کی اولا داسی طریق کو اختیار کرے گی اور اپنے آباء کے راستہ کو چھوڑ دے گی۔ کوئی تدبیر اس تقدیر کو بدل نہیں سکتی۔ یہ ناممکن نظر آنے والی چیزوں میں سب سے زیادہ ممکن چیز ہے۔ …پس ایمان کے ارادہ کے ساتھ یہاں رہو اور تو کل کی گرہ باندھ کر رہو اور ایک زندہ خدا پر یقین رکھتے ہوئے یہاں رہو۔ اگر خدا پر تمہارا یقین ہوگا، اگر خدا پر تمہارا ایمان ہوگا تو تم دیکھو گے کہ زمین تمہارے لیے بدل جائے گی، آسمان تمہارے لیے بدل جائے گا۔ ہمارا خدا وہی ہے جوآدم علیہ السلام کے وقت میں تھا۔ مگر خدا بوڑھا نہیں ہوتا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس نے زمین و آسمان کو بدل دیا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے لیے اس نے زمین و آسمان کو بدل دیا تھا۔ اسی طرح اور لاکھوں لوگ ہیں جن کے لیے خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بدلا۔ یہی زمین و آسمان بدلنے تمہارے لیے بھی مقدر ہیں بشرطیکہ تم ان لوگوں کے نقش قدم پر چلو جن کے لیے خدا تعالیٰ نے پہلے زمین و آسمان کو بدلا تھا۔ (خطبات محمود جلد ۳۰ صفحہ ۳۱۷ تا ۳۲۸، الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء) حضرت مصلح موعودؓ اپنےمنظوم کلام میں فرماتے ہیں: ربوہ کو ترا مرکزِ توحید بنا کر اِک نعرۂ تکبیر فلک بوس لگائیں جس شان سےآپ آئے تھے مکہ میں مری جاں اِک بار اسی شان سےربوہ میںبھی آئیں ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعا گو کعبہ کی پہنچتی رہیں ربوہ کو دعائیں (الفضل ۱۹؍جنوری ۱۹۵۰ء، کلام محمود صفحہ ۲۰۷) ربوہ کو غریب دلہن کی طرح بنا دو حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب تک اہل ربوہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے اور ان کو نباہتے رہیں گے اس وقت تک ربوہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا مرکز بنا رہے گا۔اور اگر خدا نہ کرے وہ ان باتوں کو نظر انداز کردیں،ان سے غفلت برتیں،اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے لیے تیار نہ ہوں۔اپنے فرائض سے غافل ہوجائیں تو پھر اللہ تعالیٰ پر ان کا کوئی زور نہیں چلے گا کہ وہ پھر بھی اسی جگہ کے مکینوں کو برکات کا سرچشمہ اور منبع بنائے رکھے… اہل ربوہ کو جن ذمہ داریوں کی طرف میں آج توجہ دلانا چاہتا ہوں ان میں پہلی ذمہ داری کا تعلق طہارت ظاہری کا خیال رکھنے سے ہے۔میں اس سے پہلے بھی کئی موقعوں پر احباب ربوہ کو توجہ دلا چکا ہوں کہ وہ ربوہ کی صفائی کریں بلکہ ربوہ کو دلہن کی طرح سجا دیں۔‘‘ (خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۳۸۲) ایک خطبہ میں آپؒ نے فرمایا: ’’پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی برکت دی ہے۔اللہ تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ فضلوں کو حاصل کرو جن کا پاکیزگی کے ساتھ تعلق ہے اور پاکیزگی کا تو تبلیغ کے ساتھ بھی بڑا تعلق ہے چنانچہ قُمْ فَاَنْذِرْ کے بعد کہا وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ (المدثر:۵،۳) اس لیے جب تک انسان اپنے ماحول کو پاکیزہ نہیں کرتا اور آنے والوں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے ایک نمونہ نہیں بناتا اس وقت تک وہ صحیح معنی میں،صحیح طور پر،صحیح رنگ میں تبلیغ بھی نہیں کر سکتا اور نہ انذار کر سکتا ہے۔آپ لوگ ربوہ کو صاف رکھا کریں اور جلسہ سے پہلے تو اس کو ایک غریب دلہن کی طرح بنا دیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ ربوہ کو سونے کے کڑے پہناؤ میں یہ کہتا ہوں کہ اس کو ایک غریب دلہن کی طرح صاف ستھرا بنا دو۔اسی میں ہماری شان ہے شو میں ہماری شان نہیں ہے۔ (خطبات ناصر جلد ششم صفحہ ۲۴۶) ربوہ کا مقام اور ذمہ داریاں ایک دورے پر روانگی سے قبل اہل ربوہ کو مخاطب کرکےحضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے فرمایا: اللہ گواہ ہے کہ میرا دل ربوہ میں اٹکار ہے گا۔ مرکزی جماعت کا ایک اپنا مقام ہوتا ہے اور اس کے ساتھ جو پیار کا تعلق ہوتا ہے ویسے ساری جماعت کے ساتھ ہے مگر مرکز کی جماعت کے ساتھ پیار کا تعلق ایک حیثیت رکھتا ہے اس لیے یہ فکر رہے گی۔ خدا نہ کرے کہ وہ پریشانی میں تبدیل ہو کر آپ لوگ کہیں آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھیں نہیں۔ بلا وجہ اختلافات میں مبتلا ہو کر میرے لیے دکھ کا موجب نہ بنیں اپنے بہن بھائیوں کے لیے دکھ کا موجب نہ بنیں۔ پس زبان سے، قول سے، فعل سے کوئی ایسی بات نہ کہیں جو کسی کو دکھ پہنچانے کا موجب بنے، استغفار سے کام لیتے رہیں۔ محبت کو پھیلائیں اور اسی کی اشاعت کریں۔ اللہ تعالیٰ محبت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ خدا کرے ہمیں اس کی توفیق عطا ہو۔ آمین۔(خطبات طاہر جلد اول صفحہ ۷۲، روزنامہ الفضل ربوہ ۲۸؍اگست ۱۹۸۲ء) نمازوں اور جمعہ کی حاضری کے بارے میں عہدے داروں کا فرض حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں: جہاں تک میرا نظری جائزہ ہے میں سمجھتا ہوں ربوہ کی پوری آبادی جمعہ میں بھی حاضر نہیں ہوتی۔ ربوہ کی آبادی ہمیں معلوم ہے اور جتنے فیصد لوگوں کو مسجد میں پہنچنا چاہئے اتنے یہاں نظر نہیں آتے۔ چونکہ ہمارا موازنہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا، دوسری سوسائٹیوں سے نہیں ہے بلکہ ہمارے معیار بہت بلند ہیں۔ ہماری ذمہ داریاں بہت وسیع، بہت اہم، بہت گہری اور بہت بھاری ہیں۔ اس لیے ان کی ادائیگی کے لیے بھی ہمیں اسی قسم کی تیاریاں کرنی پڑیں گی اور نماز کے قیام کے بغیر ہم دنیا کی تربیت کرنے کے اہل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے جمعہ کی نماز میں بھی حاضری کو بڑھانا چاہئے اور اس کے لیے بھی گھروں میں تلقین کرنی پڑیگی۔ صدران محلّہ جات اور زعماء انصار اللہ کا فرض ہے کہ بجائے اس کہ وہ صرف مسجد میں نماز کی تلقین اور یاددہانی کا پروگرام بنائیں، اگر کوئی ایسے گھر ہیں جو مسجد میں نہیں آتے تو گھروں میں جائیں اور گھر والوں سے ملیں اور ان کی منت کریں اور ان کو سمجھائیں کہ تمہارے گھر بے نور اور ویران پڑے ہیں۔ کیونکہ جو گھر ذکر الٰہی سے خالی ہے وہ ایک ویرانہ ہے اور جس گھر میں بے نمازی پیدا ہو رہے ہیں وہ تو گویا آئندہ نسلوں کے لیے ایک نحوست کا پیغام بن گیا ہے اس لیے ہوش کرو اور اپنے آپ کو سنبھالو اور نمازوں کی طرف توجہ کرو اس سے تمہاری دنیا بھی سنورے گی اور تمہارا دین بھی سنورے گا کیونکہ عبادت میں ہی سب کچھ ہے۔ عبادت پر قائم رہو گے تو خدا کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنو گے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنو گے۔ پس یہ نصیحت گھروں کے دروازوں تک پہنچانی پڑے گی اور بار بار وَاصْطَبِرْ عَلَيْھَا کا نقشہ پیش کرنا پڑے گا۔ یعنی جو بھی یہ عہد کرے کہ میں گھروں میں نماز کا پیغام پہنچاؤں گا اور گھر والوں کو تاکید کروں گا اور ان کو ہوش دلاؤں گا کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کریں، اس کو یہ نیت بھی کرنی پڑے گی کہ میں پختہ عزم اور مستقل مزاجی کے ساتھ یہ کام کروں گا کیونکہ ایسا کہنا تو آسان ہے لیکن اس پر عمل بہت مشکل ہوگا۔ وجہ یہ کہ چند دنوں کے بعد انسان پر غفلت غالب آجاتی ہے اور وہ اس کام کو جو اس نے شروع کیا ہوتا ہے چھوڑ بیٹھتا ہے۔ اس لیے اگر نتیجہ حاصل کرنا ہے تو وَاصْطَبِرْ عَلَيْھَا کے مضمون کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جب تک خدا تعالیٰ کی اس واضح تلقین کو ہمیشہ مد نظرنہ رکھا جائے کہ نماز کی تلقین میں صبر اور دوام اختیار کرنا چاہئے اس وقت تک ہم اعلیٰ مقصد حاصل نہیں کرسکیں گے۔ (خطبات طاہر جلد اول صفحہ ۲۸۸) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی توقعات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: پاکستان میں تو ہمارے سلام کہنے پر پابندی ہے،بہت بڑا جرم ہے۔ بہرحال ایک احمدی کے دل سے نکلی ہوئی سلامتی کی دعائیں اگر یہ لوگ نہیں لینا چاہتے تو نہ لیں اور تبھی تو یہ ان کا حال ہو رہا ہے۔ لیکن جہاں احمدی اکٹھے ہوں وہاں تو سلام کو رواج دیں۔ خاص طور پر ربوہ، قادیان میں۔ اور بعض اَور شہروں میں بھی اکٹھی احمدی آبادیاں ہیں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا رواج دینا چاہئے۔ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ ربوہ کے بچوں کو کہا تھا کہ اگر بچے یاد سے اس کو رواج دیں گے تو بڑوں کو بھی عادت پڑ جائے گی۔ پھر اسی طرح واقفین نو بچے ہیں۔ ہمارے جامعہ نئے کھل رہے ہیں ان کے طلباء ہیں اگر یہ سب اس کو رواج دینا شروع کریں اور ان کی یہ ایک انفرادیت بن جائے کہ یہ سلام کہنے والے ہیں تو ہر طرف سلام کا رواج بڑی آسانی سے پیدا ہو سکتا ہے اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بعض اور دوسرے شہروں میں کسی دوسرے کو سلام کرکے پاکستان میں قانون ہے کہ مجرم نہ بن جائیں۔ احمدی کا تو چہرے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے۔ اس لیے فکر کی یا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اور مولوی ہمارے اندر ویسے ہی پہچانا جاتا ہے۔ (خطبات مسرور جلد ۲صفحہ ۶۳۶) ربوہ کی صفائی اور خوبصورتی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں: ’’اب دیکھیں مومن کے لیے صفائی کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے، اور یہ احادیث اکثر مسلمانوں کو یاد ہیں، کبھی ذکر ہوتو آپ کو فوراً حوالہ بھی دے دیں گے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس پر عمل کس حد تک ہے؟ یہ دیکھنے والی چیز ہے، اگر ایک جگہ صفائی کرتے ہیں تو دوسری جگہ گند ڈال دیتے ہیں اور بدقسمتی سے مسلمانوں میں جس شدت سے صفائی کا احساس ہونا چاہئے وہ نہیں ہے اور اسی طرح اپنے اپنے ماحول میں احمدیوں میں بھی جو صفائی کے اعلیٰ معیار ہونے چاہئیں وہ مجموعی طور پر نہیں ہیں۔ بجائے ماحول پر اپنا اثر ڈالنے کے ماحول کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔ پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک میں اکثر جہاں گھر کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں ہے، گھر سے باہر گند پھینک دیتے ہیں حالانکہ ماحول کو صاف رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے گھر کو صاف رکھنا۔ ورنہ تو پھر اس گند کو باہر پھینک کر ماحول کوگندا کر رہے ہوں گے اور ماحول میں بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہوں گے۔ اس لیے احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ کوئی ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ گھروں کے باہر گند نظر نہ آئے۔ ربوہ میں، جہاں تقریباً ۹۸؍فیصد احمدی آبادی ہے، ایک صاف ستھرا ماحول نظر آنا چاہئے۔ اب ماشاء اللہ تزئین ربوہ کمیٹی کی طرف سے کافی کوشش کی گئی ہے۔ ربوہ کوسرسبز بنایا جائے اور بنا بھی رہے ہیں۔کافی پودے، درخت گھاس وغیرہ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے ہیں اور نظر بھی آتے ہیں۔ اکثر آنے والے ذکر کرتے ہیں۔ اور کافی تعریف کرتے ہیں۔ کافی سبزہ ربوہ میں نظر آتا ہے۔ لیکن اگر شہر کے لوگوں میں یہ حس پیدا نہ ہوئی کہ ہم نے نہ صرف ان پودوں کی حفاظت کرنی ہے بلکہ ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف رکھناہے تو پھر ایک طرف تو سبزہ نظر آ رہا ہو گا اور دوسری طرف کوڑے کے ڈھیروں سے بدبو کے بھبھاکے اٹھ رہے ہوں گے۔ اس لیے اہل ربوہ خاص توجہ دیتے ہوئے اپنے گھروں کے سامنے نالیوں کی صفائی کا بھی اہتمام کریں اور گھروں کے ماحول میں بھی کوڑ اکرکٹ سے جگہ کو صاف کرنے کا بھی انتظام کریں۔ تاکہ کبھی کسی راہ چلنے والے کو اس طرح نہ چلنا پڑے کہ گند سے بچنے کے لیے سنبھال سنبھال کر قدم رکھ رہا ہو اور ناک پررومال ہو کہ بو آ رہی ہے۔اب اگر جلسے نہیں ہوتے تو یہ مطلب نہیں کہ ربوہ صاف نہ ہو بلکہ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا کہ دلہن کی طرح سجاکے رکھو۔ یہ سجاوٹ اب مستقل رہنی چاہئے۔ مشاورت کے دنوں میں ربوہ کی بعض سڑکوں کو سجایا گیا تھا۔ تزئین ربوہ والوں نے اس کی تصویریں بھیجی ہیں، بہت خوبصورت سجایا گیا لیکن ربوہ کا اب ہرچوک اس طرح سجنا چاہئے تاکہ احساس ہو کہ ہاں ربوہ میں صفائی اور خوبصورتی کی طرف توجہ دی گئی ہے اور ہر گھر کے سامنے صفائی کا ایک اعلیٰ معیار نظر آنا چاہئے۔ اور یہ کام صرف تزئین کمیٹی نہیں کر سکتی بلکہ ہر شہری کو اس طرف توجہ دینی ہوگی۔‘‘(خطبات مسرور جلد ۲صفحہ ۲۶۱تا ۲۶۳) دکان داروں کو نصائح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : دیانت سے کام کرنا ایک اہم حکم ہے۔ ایک دکاندار کو بھی یہ حکم ہے، ایک کام کرنے والے مزدور کو بھی یہ حکم ہے اور اپنے دائرے میں ہر ایک کو یہ حکم ہے کہ دیانتدار بنو۔ ایک دکاندار ہے، اُس کے سامنے دیانت سے چلنے کا حکم کئی بار آتا ہے۔ ایک انجان گاہک آتا ہے تو اُسے وہ یا کم معیار کی چیز دیتا ہے، یا قیمت زیادہ وصول کرتا ہے، یا اُس مقررہ قیمت پر کم وزن کی چیز دیتا ہے۔ یہ بیماری جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا، ان ملکوں میں تو کم ہے لیکن غریب ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ پس گاہک کو چیز دیتے ہوئے کوئی تو یہ سوچتا ہے کہ اس گاہک کی کم علمی کی وجہ سے میں فائدہ اُٹھاؤں۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر میں وزن میں اتنی کمی ہر گاہک کے سودے میں کروں تو شام تک میں اتنا بچا لوں گا۔ بعض دفعہ گاہک کی سخت ضرورت اور مجبوری دیکھ کر اصل منافع سے کئی گنا زیادہ منافع کما لیا جاتا ہے۔ یہ تو ویسے بھی تجارت کے جو اخلاق ہیں اُن کے خلاف ہے لیکن اسلام تو اس کو سختی سے منع کرتا ہے۔ منافع کے ضمن میں یہ بھی کہوں گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربوہ جو آباد ہوا ہے تو وہاں کے دکانداروں کو یہ نصیحت کی تھی کہ تم منافع کم لو تو تمہارے پاس گاہک زیادہ آئیں گے۔ لیکن میرے پاس بعض شکایات ایسی آ رہی ہیں یا آتی رہتی ہیں کہ ربوہ میں دوکاندار اتنا منافع کمانے لگ گئے ہیں کہ لوگ چنیوٹ جا کر سودا خریدنے لگ گئے ہیں۔ یعنی اپنوں کے بجائے غیروں کے پاس احمدیوں کا روپیہ جانے لگ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار ربوہ کے احمدی دکاندار ہیں۔پس اس لحاظ سے بھی ہمارے احمدی دکاندار سوچیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔ یہ جہاں بھی ہوں، صرف ربوہ کی بات نہیں ہے۔ جہاں بھی دکاندارہو، ایک احمدی دکاندار کا معیار ہمیشہ اچھا ہونا چاہئے، اُن کا وزن پورا ہونا چاہئے، کسی چیز میں نقص کی صورت میں گاہک کے علم میں وہ نقص لانا ضروری ہونا چاہئے۔ منافع مناسب اور کم ہونا چاہئے۔ اس سے ان شاء اللہ تعالیٰ تجارت میں برکت پڑتی ہے، کمی نہیں آتی۔ (خطبات مسرورجلد۱۱صفحہ ۷۰۱) اللہ تعالیٰ ہمیں خلفاء کی توقعات پر پورا اترنے اور ان کے ارشادات پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ (نوٹ: اس مضمون میں حوالہ جات تاریخ احمدیت کے پرانے ایڈیشن کے مطابق ہیں) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: کائنات کی وسعت پذیری