ایک دفعہ ایک ایلچی حضرت رسول کریمﷺ کے پاس آیا۔ وہ بار بار آپؐ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا اور حضرت عمرؓ تلوار کے ساتھ اس کا ہاتھ ہٹاتے تھے۔ آخر حضرت عمرؓ کو آنحضرتﷺ نے روک دیا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ ایسی گستاخی کرتا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے اس کو قتل کر دوں۔ مگر آنحضرتﷺ نے اس کی تمام گستاخی حلم کے ساتھ برداشت کی۔ (ملفوظات جلد ۵صفحہ۳۲۴۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے بیان کیا کہ محبوب رایوں والے مکان کا واقعہ ہے۔ ایک جلسہ میں جہاں تک مجھے یاد ہے ایک برہمو لیڈر (غالباً انباش موزمدار بابوتھے) حضرت سے کچھ استفسار کر رہے تھے اور حضرت جواب دیتے تھے۔ اسی اثناء میں ایک بدزبان مخالف آیا اور اس نے حضرت کے بالمقابل نہایت دلآزار اور گندے حملے آپ پرکئے۔ وہ نظار ہ میرے اس وقت بھی سامنے ہے۔ آپؑ منہ پرہاتھ رکھے ہوئے جیسا کہ اکثر آپؑ کا معمول تھاکہ پگڑی کے شملہ کا ایک حصہ منہ پر رکھ کر یا بعض اوقات صرف ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ خاموش بیٹھے رہے اور وہ شورپشت بکتا رہا۔ آپؑ اس طرح پرمست اور مگن بیٹھے تھے کہ گویا کچھ ہو نہیں رہا۔ کوئی نہایت ہی شیریں مقال گفتگو کررہاہے ۔برہمو لیڈر نے اسے منع کرنا چاہا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ حضرت (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں، کہنے دیجئے۔ آخر وہ خود ہی بکواس کرکے تھک گیا۔ اور اٹھ کر چلا گیا۔ برہمو لیڈر بے حد متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ یہ آپؑ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے۔ اس وقت حضورؑ اسے چپ کرا سکتے تھے اپنے مکان سے نکال سکتے تھے۔ اور بکواس کرنے پر آپؑ کے ایک ادنیٰ اشارہ سے اس کی زبان کاٹی جا سکتی تھی۔ مگر آپؑ نے اپنے کامل حلم اور ضبط نفس کا عملی ثبوت دیا۔ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ۔ صفحہ۴۲۶-۴۲۷) مزید پڑھیں: جماعت کے لیے اجتماعی نمازِ جنازہ کی دعا