https://youtu.be/MGghrXB1koM ایک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں۔ کیوں خوش ہیں؟ صرف قوموں کی بھلائی کےلئے۔ کاش وہ سوچیں اور سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے۔ ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کےلئے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہوجاتا۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) ۳۱؍سالہ متحرک سیاسی کارکن چارلی کرک (Charlie Kirk) کو ۱۰؍ستمبر ۲۰۲۵ء کو امریکی ریاست یوٹاہ (Utah) میں دن دہاڑے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی تھے اور انہیں اکثرامریکی یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ کو ریپبلکن پارٹی کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف دیکھا جاتا تھا۔ چارلی کرک کونسلی، صنفی اورتارکین وطن سے جڑے ہوئے موضوعات پر بے لاگ رائے رکھنے کے لیے جانا جاتا تھا۔ وہ ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ پر منعقد ہونے والے مباحثوں میں اکثر حصہ لیتے رہتے تھے اور ان پر نسل پرستانہ، اسلامو فوبک اور خواتین کے خلاف صنفی امتیاز روا رکھنے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ یہ امربھی ملحوظ خاطر رہے کہ چارلی کرک امریکی آئین کی دوسری ترمیم کی کھلم کھلاحمایت کیا کرتے تھے جو امریکی شہریوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کا حق دیتی ہے۔ ۲۰۲۳ء کے ایک انٹرویو میں، جس کا ان کی موت کے بعد سے بہت حوالہ دیا جا رہا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ ’’میرے خیال میں، بدقسمتی سے، ہمیں ہر سال بندوق سے ہونے والی کچھ اموات کی قیمت ان کا فائدہ اٹھا کر چکانا ہوگی تاکہ اس طرح پھر ہم خدا کے عطاکردہ دیگرحقوق کے تحفظ کے لیے دوسری ترمیم لاسکیں۔‘‘ اس طرح کامتنازعہ ریکارڈ رکھنے کے باوجود ان کی موت پر بہت سے لوگوں نے تعزیت کی ہے، خاص کرصدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے۔ یہاں تک کہ ان کے نظریاتی اور سیاسی حریفوں نے بھی ان کے انتقال پر دکھ کا اظہار کر تے ہوئے آزادی اظہار کی حمایت کا اعادہ کیا اور سیاسی تشدد کے اس عمل کی مذمت کی۔ اس کے برعکس، چونکہ ان کے کچھ مخصوص نظریات نے انہیں نفرت انگیزفرد بنا دیا تھا، اس لیے بہت سارے لوگوں نے ان کی موت کا آن لائن جشن بھی منایا ہے۔ بائیں بازو کے بہت سے امریکیوں اورلبرلز نے اس واقعے پر ہمدردی کا اظہار نہیں کیا، خاص طور پر امریکہ میں اسلحہ کے قوانین، اسقاط حمل، صنفی حیثیتوں اور دیگر کچھ حوالوں سے ان کے مخصوص خیالات کی وجہ سے۔ بہت سے مسلمانوں نے بھی ان کی موت پر کوئی زیادہ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ چارلی کرک اسلام کی کھلے عام مذمت کیا کرتا تھا، جسےاس کے خیال میں ’’امریکہ کا گلا گھونٹنے‘‘ کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک صارف نے چارلی کرک کو اس کے اسلام مخالف نظریات کی بناپر ’’اسلام کا دشمن‘‘ کا خطاب دیا، اور بہت سے مسلمانوں کا کہنا تھا کہ اس کے قتل نے ایک غلط کودرست کردیا ہے۔ فلسطین اوراسی طرح غزہ کی نسل کشی میں اسرائیل کے کردار کے بارے میں چارلی کرک کے خیالات کی وجہ سے بھی بہت سے مسلم اور غیر مسلم ان کی موت پر ہمدردی کا اظہار کرنے سے گریزاں رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ انہیں فلسطین میں انسانی جانوں کی پروا نہیں تھی اس لیے وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں۔ لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناطے، مجھے کیسا رد عمل ظاہر کرنا چاہیے؟ کیا میں اس کی موت کا جشن مناؤں یا اس کی مذمت کروں؟ کیا اس کے قتل سے دنیا کو کچھ حاصل ہوا؟ غصے کو دبانے کے بارے میں قرآن پاک کی تعلیم اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ جب کوئی ہمیں تکلیف دے تو صبر کا مظاہرہ کرنااحسن ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح طور پرمومنوں سے فرماتا ہے: لَتُبۡلَوُنَّ فِیۡۤ اَمۡوَالِکُمۡ وَاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَلَتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَمِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَذًی کَثِیۡرًا ؕ وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ۔ (آل عمران: ۱۸۷) ترجمہ: تم ضرور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے معاملہ میں آزمائے جاؤ گے اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان سے جنہوں نے شرک کیا، بہت تکلیف دِہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقیناً یہ ایک بڑا باہمت کام ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ چارلی کرک نے اسلام کے خلاف جو کچھ بھی کہا اور اس نے مسلمانوں یا دوسروں کے جذبات کو کتنا ہی مجروح کیا، مسلمان اسے یوں خاموش کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ مسلمانوں کو اپنا غصہ دبانا بھی سکھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَالۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔ (آل عمران: ۱۳۵) ترجمہ: اورغصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ پس اسلام توامن کی تلقین کرتا ہے، خواہ ہمارے جذبات مجروح کردیے گئے ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب کوئی نادان کسی مسلمان کی توہین یا اس پرطعنہ زنی کرتا ہے تو قرآن پاک مسلمانوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡہُ وَقَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَلَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۫ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ لَا نَبۡتَغِی الۡجٰہِلِیۡنَ۔ (القصص: ۵۶)ترجمہ: اور جب وہ کسی لغو بات کو سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال۔ تم پر سلام ہو۔ ہم جاہلوں کی طرف رغبت نہیں رکھتے۔ انسان خاموش رہے تو فرشتے جواب دیتے ہیں ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ جو بعد میں اسلام کے پہلے خلیفہ بنے، ایک غیر مسلم کی طرف سے شدید بدزبانی کا نشانہ بنائے گئے جو ان کی دلآزاری کا موجب بنی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓنے صبر اور خاموشی سے یہ بدزبانی برداشت کی۔ یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔آخر جب حضرت ابوبکرؓنے جواب دینا شروع کیا تو حضورؐ اٹھ کھڑے ہوئے اوروہاں سے چلے گئے۔ بعد میں حضرت ابوبکرؓنے حضورؐ سے دریافت کیا کہ جب میں گالیوں کا جواب دینے لگا تو آپؐ کیوں چلے گئے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب تک تم خاموش رہے تو فرشتے تمہاری طرف سے جواب دے رہے تھے لیکن جب تم نے بات کی تو فرشتے چلے گئے اور اس کی جگہ شیطان نمودار ہو گیا تو میں وہاںکیسے رہ سکتا تھا؟ آپﷺ نے مزید فرمایا: ’’اے ابوبکر، اگر کسی شخص پر ظلم ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اسے (بغیر بدلہ لیے) چھوڑ دیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے عزت دے گا اور اپنی مدد سے اسے غلبہ عطا فرمائے گا۔‘‘ ( مشکوٰۃ المصابیح [عربی]، ۱۹۸۵ء، جلد۳، صفحہ ۱۴۱۱،حدیث نمبر ۵۱۰۲) یہ اہم واقعہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قول کی یاد دلاتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے پیروکار تھے۔ ایک دن حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اورخدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھرمیرے سامنے بیٹھ کرمیرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے آخر وہی شرمندہ ہوگا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا۔ ‘‘( سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ۔ انگلش ترجمہ صفحہ ۸۸۔ اشاعت اول اردو صفحہ ۵۲) یہ دونوں واقعات ثابت کرتے ہیں کہ کسی کو خواہ کتنی ہی بدزبانی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے، صبر اور استقامت اعلیٰ ترین اخلاقی فضیلت ہے۔ اسلام ہمیں مرنے والوں کا احترام کیسے سکھاتا ہے چارلی کرک کی موت نے بہت سے لوگوں کودنیا کے سامنے ان کے تعصبات گنوانے پراکسایا، اور ان کے خلاف انہی کے الفاظ پیش کرکے ایک طرح سے ان کی (اس طرح کی) موت کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن اسلام ہمیں مُردوں کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی دشمن مر بھی جاوے تو کیا اور زندہ رہے تو کیا؟ نفع ونقصان کا پہنچانا یہ خداتعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہے۔ کوئی شخص کسی کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ سعدی نے گلستان میں ایک حکایت لکھی ہے کہ نوشیرواں کے پاس کوئی شخص خوشخبری لے کر گیا کہ تیرا فلاں دشمن مارا گیا ہے اور اس کا ملک اور قلعہ ہمارے قبضہ میں آگیا ہے۔ نوشیرواں نے اس کا کیا اچھا جواب دیا۔؎ مرا بمرگ عدو جائے شادمانی نیست کہ زندگانی ما نیز جاودانی نیست [دشمن کی موت میرے لیے خوشی کا مقام نہیں کیونکہ میری زندگی بھی محدود ہے۔] پس آدمی غور کرے کہ اس قسم کے منصوبوں اور ادھیڑبن سے کیا فائدہ اور کیا خوشی۔ یہ سلسلہ تو بہت ہی خطرناک ہے اور اس کا علاج ہے توبہ، استغفار، لاحول اور خدا کی کتاب کا مطالعہ ‘‘۔(ملفوظات اردو جلد ۱ صفحہ ۳۲۵، ۳۲۶۔ ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ہمیں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایک شاندار نمونہ ملتا ہے۔ جب ایک یہودی کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپؐ احتراماً کھڑے ہوگئے۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے آپ کو یاد دلایا کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے تو آپؐ نے پوچھا: کیا وہ انسان نہیں تھا؟ دشمن کی موت کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی غالباً سب سے بڑی مثال عبداللہ بن ابی بن سلول ہے، جسے ابتدائی اسلامی تاریخ میں ’’منافقوں کا سردار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے کئی مواقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف پہنچائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے پیروکاروں کو ستانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر بھی جب اس کی وفات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی اوراحترام کا نمونہ دکھایا۔ ( صحیح البخاری، کتاب الجنائز، حدیث ۱۳۶۶) مخالف کی موت پر مسلمان کا ردعمل کیسا ہونا چاہیے؟ جیسا کہ ہم انٹرنیٹ کے دور میں ہیں، چارلی کرک کی موت کے بارے میں بہت سے میمز (memes)اور لطیفے بنائے گئے ہیں۔ لیکن ایک سچا مسلمان اس طرح کی بیہودگی میں حصہ نہیں لے سکتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں درج ذیل رہنمائی فرمائی ہے: ’’ہر انسان کی وفات کے بعد اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو جاتا ہے، وہ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے۔ کسی دوسرے شخص کو اس بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہر ایک شخص کا خدا تعالیٰ سے الگ الگ حسا ب ہے۔ سوہر ایک کو اپنے اعمال کی اصلاح اور جانچ پڑتال کر نی چاہیے۔ دوسروں کی مو ت تمہارے واسطے عبرت اور ٹھوکر سے بچنے کا با عث ہونی چاہیے نہ کہ تم ہنسی ٹھٹھے میں بسر کر کے اور بھی خدا تعالیٰ سےغافل ہوجاؤ۔ ‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۲۱۷) …اسلام کسی انسان سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ اس کے فعل سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام اپنے مخالفین کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں۔ (سورۃ الشعراء: ۱۶۹) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ہدایت فرمائی کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے استہزاء ہوتا سنو تو ان ہنسی کرنے والوں کے ساتھ اس وقت نہ بیٹھو۔ (سورۃ النساء: ۱۴۱) گویا انسانوں سے نفرت نہیں بلکہ ان کے عمل سے بیزاری کے اظہار کی تعلیم دی گئی ہے۔ پس اسلام کی تعلیم ہر معاملے میں مکمل اور نہایت خوبصورت ہے۔ اسلام تو سخت ترین معاند کی موت پر بھی خوش ہونے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس کی موت پر بھی ایک سچے مومن کو اس لیے دکھ ہوتا ہے کہ کاش یہ شخص ہدایت پاجاتا‘‘۔(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۲۹، الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍فروری ۲۰۲۲ء ) نیز انگریزی ترجمہ کے لیے دیکھیں: https://www.alhakam.org/answers-to-everyday-issues-part-xxix/ پنڈت لیکھرام اور ضیاء الحق: درست ردعمل لیکھرام ایک بڑا معاند اسلام تھا۔ اس کی اسلام دشمنی کی وجہ سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے للکارا تھا لیکن جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے عین مطابق مارا گیا تو اس پر آپؑ کا رد عمل بڑا واضح تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اس بارہ میں فرماتے ہیں: ’’احمدیت کے سخت ترین دشمن اور ہمارے آقا و مطاع سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی ذات اطہر کے بارے میں بد زبانی کرنے والے معاند اسلام پنڈت لیکھرام کی الٰہی پیشگوئیوں کے مطابق جب ہلاکت ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی ہلاکت پر بھی اس کی قوم کے لوگوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں۔ کیوں خوش ہیں؟ صرف قوموں کی بھلائی کےلئے۔ کاش وہ سوچیں اور سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے۔ ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کےلئے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہوجاتا۔ ‘‘(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲صفحہ ۲۸) باقی جہاں تک اسلام کی مخالفت پر مرنے والے کسی شخص کےلیے دعا کرنے کی بات ہے تو اسلام نے صرف مشرک جو خدا تعالیٰ سے کھلی کھلی دشمنی کا اظہار کرے، اس کےلیے دعائے مغفرت کرنے سے منع فرمایا ہے باقی کسی کےلیے دعا کرنے سے نہیں روکا۔ (سورۃ التوبہ: ۱۱۴)(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۲۹، الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍فروری ۲۰۲۲ء ) نیز انگریزی میں: https://www.alhakam.org/answers-to-everyday-issues-part-xxix/ معاند احمدیت پاکستانی آمرجنرل ضیاء الحق کے انتقال کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ یہ جماعت احمدیہ کے لیے اللہ کی مدد کاایک نشان تھا، اس کے باوجود حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے ان کے اہل خانہ کو تعزیت کا پیغام بھیجا تھا۔ انہوں نے بیان فرمایا: ’’… جنرل ضیاء الحق صاحب کی موت بذات خود ہرگز کسی خوشی کا موجب نہیں۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہمیں ان کے پسماندگان سے بھی ہمدردی ہے اور ان کے ساتھ مرنے والوں کے پسماندگان سے بھی ہمدردی ہے اور میں نے جماعت احمدیہ کے سربراہ کی حیثیت سے ان کو تعزیت کا پیغام بھی بھجوایا ہے اور بلا تردّد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے دل میں ان کے دلوں کے لئے رحم تو ہے کسی قسم کی شوخی، کسی قسم کا تمسخر، کسی قسم کی مفاخرت کا کوئی جذبہ نہیں ہے اور یہی حال میں جماعت احمدیہ کادیکھنا چاہتا ہوں اور یہی حال میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کا ہے۔‘‘ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مومن کے برعکس جو لوگ ایمان کی حلاوت سے آشنا نہیں ہوتے، جن کو قرآن اور سنت کی صحیح تربیت حاصل نہیں ہوتی،ان کے ردعمل اس سے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ وہ دشمن کے چھوٹے سے غم پر بغلیں بجاتے، ناچتے اور تمسخر کرتے اور اس کی چھوٹی سی خوشی پر نڈھال ہوجاتے ہیں گویا ان پر موت وارد ہو گئی ہے۔ ہم سے بالکل برعکس صورتحال احمدیت کے دشمنوں کی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍اگست ۱۹۸۸ء۔ بحوالہ خطبات طاہر جلد ۷۔ صفحہ ۵۵۹-۵۶۰) پس چارلی کرک کی موت بھی کسی بھی پہلوسےخوشی منانےکا موقع نہیں ہے۔ اس کے بجائے، اسلام کی تعلیمات، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خلفاء نے وضاحت کے ساتھ بیان کی ہیں، یہ واضح کرتی ہیں کہ قطع نظر اس کے کہ کرک کس مقصد کے لیے کھڑا تھا؟ کیا پرچارکرتا تھا؟ اس کاعقیدہ کیا تھا؟ مسلمان اس کی موت پر شادیانے نہیں بجا سکتے۔ بلکہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مخالف کے انتقال پر غمگین ہوئے کہ وہ اسلام قبول کیے بغیر فوت ہو گیا، جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لیکھرام کی وفات پر دکھ ہوا، جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو ضیاء پر دکھ ہوا، ہمیں بھی چارلی کرک کی حالت کفر میں وفات کا دکھ ہے۔ اگر کرک فلسطینیوں یا دیگرمعصوم جانوں کے ضیاع کی پروا نہیں کرتاتھا تب بھی ہم اس کی موت کامذاق تو نہیں اڑا سکتے اور نہ ہی اس پر خوش ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، ہمارے سب سے کامل آقا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن سلول، جسے شاید ہی مسلمانوں کی جانوں کی پرواہ ہوا کرتی تھی، کی موت پر بڑے احترام کے ساتھ ردعمل کا اظہارفرمایاتھا۔ ہمارے ردعمل اسی اسوہ کی تقلید کے حامل ہونے چاہئیں۔ وگرنہ ہم خود کو آنحضور ﷺ کے پیروکار کیسے کہلا سکتے ہیں؟ انگریزی میں تحریرپڑھنے کے لیے لنک: https://www.alhakam.org/charlie-kirk-killed-as-a-muslim-how-should-i-react/ نوٹ: اردو میں دستیاب عبارات کو ان کے اصل ماخذ ومصادر سے مع حوالہ نیز قرآنی آیات کا عربی متن و ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ جاذب محمود ۔ گھانا (ترجمہ، تلخیص وتدوین: طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا) مزید پڑھیں: عفو و در گزر کی اہمیت و افادیت