https://youtu.be/e1nZS54Ti4w ربوہ صرف ایک شہر نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی قلعہ ہے۔ یہاں کی ہر اینٹ، ہر درخت، ہر راستہ، اور ہر گلی احمدیت کی تاریخ کی گواہ ہے ربوہ۔ یہ نام میرے لیے محض ایک جغرافیائی حقیقت ہی نہیں، بلکہ ایک عقیدت، محبت اور روحانی وابستگی کی علامت ہے۔ یہ وہ مقدس بستی ہے جہاں میری آنکھ کھلی، جہاں میں نے اپنے بچپن کے حسین دن گزارے، جہاں کی گلیاں میرے قدموں کے نشانات سے آشنا ہیں، اور جہاں کا ہر گوشہ میرے لیے ایک کہانی بلکہ داستان رکھتا ہے۔ یہ کوئی عام شہر نہیں، بلکہ ایک ایسی بستی ہے جس کی بنیاد ۱۹۴۸ء میں خدا کی برگزیدہ ہستی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے رکھی۔ یہ شہر محض اینٹ اور پتھر کا مجموعہ نہیں، بلکہ روحانی برکات کا گہوارہ، قربِ الٰہی کی تجلی گاہ، اور خلافت کی نورانی چھاؤں میں پلنے والا مرکز ہے۔ دارالہجرت ربوہ، جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کے ساتھ آباد کیا گیا تھا، واقعی ایک عظیم تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کی زبانِ مبارک پر خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہی الفاظ جاری فرماکر، اس شہر کی تقدیر میں یہ پیغام لکھا کہ یہ شہر ہمیشہ جماعت کی حفاظت اور توحید کے قیام کا مرکز بنا رہے گا۔ ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعا گو کعبہ کی پہنچتی رہیں ربوہ کو دعائیں میرا بچپن ربوہ میں: میری پیدائش اسی پاکیزہ سرزمین پر ہوئی۔ میں نے اپنی زندگی کے بائیس قیمتی سال اس شہر کی گلیوں، بازاروں، سکولوں اور مسجدوں میں گزارے۔ یہاں کے ہر کوچہ و بازار میں ایک الگ ہی محبت اور روحانی سکون کا احساس ہوتا تھا۔ ہمارے لیے کھیل کود، تعلیم اور روزمرہ زندگی کے معمولات بھی تربیت کا ایک حصہ تھے، کیونکہ خلافت کی برکت سے ہر گھر، ہر محلہ اور ہر فرد ایک روحانی ماحول میں پروان چڑھ رہا تھا۔ نماز اور دینی تربیت: ربوہ میں پنجوقتہ نمازوں کی باجماعت ادائیگی کو باقی ہر شے پر مقدم رکھا جاتا تھا۔ ہر محلّے میں مساجد موجود تھیں جہاں ہر عمر کے لوگ باجماعت نماز ادا کرتے۔ لیکن مسجد مبارک کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وہ مسجد تھی جہاں تین خلفائے احمدیت نے نمازیں پڑھائیں۔ مجھے یاد ہے جب میں اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ یہاں نماز ادا کرنے آتا تھا، تو کس طرح ہر سجدے میں ایک عجیب روحانی کیفیت محسوس ہوتی تھی۔ مسجد اقصیٰ اور جمعہ کا اجتماع: ربوہ کی روحانی فضاؤں میں مسجد اقصیٰ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں جمعہ کے دن ایک عظیم الشان اجتماع ہوتا تھا، جہاں ہزاروں احمدی بھائی جمع ہوکر خدا کے حضور جھکتے اور خلافت کی برکات سے فیض پاتے۔ رمضان کا روحانی ماحول: ربوہ میں رمضان المبارک ایک خاص روحانی ماحول کا حامل ہوتا تھا۔ فجر کے وقت قرآنِ کریم کی تلاوت ہر گھر سے سنائی دیتی تھی۔ مسجدوں میں نماز تراویح کے دوران ایسے سماں بندھتا تھا کہ گویا ہم کسی جنتی بستی میں ہیں۔ سحری کے وقت لوگ گھروں اور مسجدوں میں بیٹھ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہوتے، اور دن میں ظہر و عصر کے بعد خلفاء یا جید علماء کے دروس قرآن و حدیث منعقد ہوتے، جن سے ہر فرد کا ایمان تازہ ہو جاتا۔ افطار کے وقت ایک عجیب سماں ہوتا۔ ہر گھر میں دسترخوان سجا ہوتا، اور پڑوسیوں میں کھجوریں اور دیگر اشیاء تقسیم کرنا ایک روایت بن چکا تھا۔ یہ سب روحانی ماحول ایک ایسی فضا میں رچ بس چکا تھا کہ جہاں کے ہر فرد کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے جینا تھا۔ رمضان المبارک میں ربوہ کے روز و شب یکسر بدل جاتے۔ عبادتوں اور دعاؤں سے فضا معطّر ہوجاتی۔ گلیوں اور بازاروں میں ایک عجیب پُرکیف ماحول ہوتا۔ جہاں تاجر حضرات فراغت کے لمحات میں تلاوت کرتے نظر آتے۔ خریدار جو خود بھی روزےدار ہوتے، اُن کے کانوں میں تلاوتِ قرآن کریم کی آواز رس گھولتی رہتی۔ عام دنوں میں بالعموم اور رمضان المبارک میں بالخصوص نمازوں کے اوقات میں بازاروں میں سنّاٹا چھا جاتا۔ تراویح اور درسِ قرآن کے اوقات میں سب کا رُخ مساجد کی جانب ہوتا۔ رمضان المبارک کی ایک ایسی ہی بابرکت رات کا ذکر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی ایک نظم میں فرمایا ہے: ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات اتر آیا ہے خداوند یہیں آج کی رات شہرِ جنت کے ملا کرتے تھے طعنے جس کو بن گیا واقعۃً خُلدِ بریں آج کی رات (کلام طاہر ایڈیشن ۲۰۰۴ء صفحہ۱۱) مسجد مبارک – آنکھوں میں آنسو بھر دینے والی جگہ:اب جب بھی ربوہ جانے کی سعادت نصیب ہوتی ہے، تو میں سب سے پہلے مسجد مبارک کا رخ کرتا ہوں۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں تاریخ کے سنہری ابواب رقم ہوئے۔ جب میں یہاں سجدہ ریز ہوتا ہوں، تو دل کی گہرائیوں سے وہی دعا نکلتی ہے جو ہمیشہ یہاں آ کر زبان پر آتی تھی:اے میرے خدا! مجھے پھر سے ان دنوں کی برکتیں نصیب کر دے، مجھے اس مقدس بستی کی دائمی محبت عطا فرمادے! یہاں سجدہ کرتے وقت میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں، دل ایک ناقابلِ بیان کیفیت میں ڈوب جاتا ہے، اور روح خلافت کی برکات میں بھیگ جاتی ہے۔ میرا بیٹا حذیفہ احمد ناصر اور ربوہ: میرا بیٹا حذیفہ احمد ناصر، جو سات سال کا ہے اور جرمنی میں پیدا ہوا، جب بھی میرے ساتھ ربوہ جاتا ہے، تو وہ بھی اس مقدس بستی کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ ایک دن اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور بڑی معصومیت سے بولا:“ابا جان! یہ شہر ربوہ کتنا پُرسکون سا ہے، مجھے یہاں کی مسجد مبارک بہت پسند ہے!”۔ یہ الفاظ سُن کر میرا دل خوشی اور اللہ کی شکرگزاری کے جذبات سے لبریز ہو گیا۔ میں نے سوچا، یہی تو اس بستی کی برکت ہے کہ اس کی محبت ہماری نسلوں میں بھی سرایت کر رہی ہے۔ بہشتی مقبرہ – دعاؤں کی برکتیں: ہر بار جب میں ربوہ جاتا ہوں، تو میرا ایک خاص معمول ہوتا ہے۔ میں بہشتی مقبرہ جاتا ہوں، جہاں خلفاء اور بزرگانِ دین کی قبریں موجود ہیں۔یہاں آ کر ایک عجیب سکون نصیب ہوتا ہے۔ میں ہر قبر پر رک کر دعا کرتا ہوں، ربوہ کی مٹی کو چوم کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس بابرکت زمین سے نسبت نصیب ہوئی۔ یہ وہی بہشتی مقبرہ ہے جہاں حضرت مسیح موعودؑ کے دو خلفاء سمیت متعدد بابرکت وجود آرام فرما رہے ہیں، جہاں اللہ کے مقرب بندے ابدی نیند سو رہے ہیں۔ میرے والد اور بھائی کی ربوہ میں خدمت: ربوہ میرے خاندان کی زندگی کا مرکز ہے۔ میرے والد ربوہ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔اسی طرح میرے بھائی کو بھی ایک لمبے عرصے سے بطور استاد خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ ربوہ۔ ایک مقدس ورثہ: ربوہ صرف ایک شہر نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی قلعہ ہے۔ یہاں کی ہر اینٹ، ہر درخت، ہر راستہ، اور ہر گلی احمدیت کی تاریخ کی گواہ ہے۔ یہاں سال بھر “صل علی محمد” کی صدائیں فضاؤں میں گونجتی ہیں۔ بچوں کے گروپس فجر سے پہلے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے اور دوسروں کو نماز کے لیے جگاتے ہیں۔ یہ وہی بستی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کی عملی تصویر بن کر آباد ہوئی۔ یہاں کی ہر مسجد، ہر گلی، ہر درخت اپنے اندر ایک تاریخ رکھتا ہے۔ ہاں اس گلزارِ علم و فضل میں اگر کمی ہے تو صرف ایک کہ اس شہر کی فضا اپنی تمام تر رونق اور گہماگہمی کے باوجود فراقِ یار کی تکلیف دہ اداسی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عشّاقِ خلافت کی یہ مبارک بستی وادیٔ ایمن کے مصداق اپنے موسیٰ کی راہ تَک رہی ہے۔ آج تک بام و در سسکتے ہیں ساعتِ ہجرتِ مکین کے بعد یہ داستانِ مفارقت طویل و غم ناک سہی، لیکن ربوہ اور اہلِ ربوہ اپنے مولا کی رحمت سے آس لگائے ، اور اپنے آقا کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔؎ مجبور سہی، لاچار سہی ہے کرب و بَلا کا دَور مگر! پُر عزم بھی ہیں باحوصلہ بھی رہتے ہیں جو سارے ربوہ میں تسکین سماعت پاتی ہے، ذہنوں کو جِلا بھی ملتی ہے پر دِید کی پیاس کا کیا کیجے، بھڑکی ہے جو سارے ربوہ میں کب ساقی بزم میں آئے گا، کب جام لُنڈھائے جائیں گے دو قطروں سے کب ہوتے ہیں رِندوں کے گزارے ربوہ میں (الفضل ۲۰؍ستمبر ۲۰۱۹ء۔ Copied) جب میں جرمنی میں ہوتا ہوں، تو دل ہر لمحہ اسی مقدس بستی کی یاد میں ڈوبا رہتا ہے۔ لیکن میں شکر گزار ہوں کہ ربوہ کی محبت میرے دل میں آج بھی ویسے ہی زندہ ہے جیسے بچپن میں تھی۔ یہ محبت کبھی کم نہیں ہوگی، بلکہ نسل در نسل پروان چڑھے گی، ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ اہماری س مقدس بستی ربوہ کو تا قیامت آباد رکھے اور یہاں کی روحانی فضا کو مزید جِلا بخشے۔ آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: رد قول فصیح ؍ تنویر النبراس علی من انکر تحذیر الناس از مولانا قاسم نانوتوی صاحب