وفات یافتگان کا ذکر ہوا ہے تو اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریق تھا۔ ان کے بارے میں آپؐ نے کیا نصیحت فرمائی کہ کس طرح دعا کی جائے۔ آپؐ کا اسوہ کیا تھا؟اس بارے میں چند احادیث بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ اس پر عمل کرکے ہم اپنے لئے بھی اور وفات یافتگان کے لئے بھی اللہ کا رحم اور مغفرت حاصل کرنے والے ہوں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمیٰ کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو ان کی وفات ہو چکی تھی اور ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور آنحضورؐ نے آتے ہی پہلے ان کو بند کیا۔ پھر حضرت ابو سلمیٰ کے اہل میں سے کسی نے نوحہ کی غرض سے بلند آواز نکالی، اونچی آواز میں ماتم کرنے کی کوشش کی تو نوحہ کی آواز سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے لوگوں کے لئے صرف خیر کی بات کرو۔ کیونکہ ملائکہ ہر وہ بات جو تم کرتے ہو اسے امانت رکھتے ہیں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔ اے اللہ! ابو سلمیٰ کی بخشش فرما اور ہدایت یافتہ لوگوں میں ان کے درجات بلند فرما اور اس کے پیچھے رہنے والوں میں اس کا اچھا جانشین بنا۔ اے رب العالمین! ہمیں بخش دے اور اس کی بھی بخشش فرما۔ اے اللہ! اس کی قبر کو کشادہ فرما۔ اور اس کے لئے اسے منور فرما۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب تغمیض المیت۔ حدیث نمبر 3118)(خطبہ جمعہ یکم ستمبر ۲۰۰۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۲؍ستمبر ۲۰۰۶ء) مزید پڑھیں: صفتِ مومن سے حقیقی فیض پانےوالے احمدی ہی ہیں