ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ (الحشر:24) فرمایا۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے اور کبریائی والا ہے۔ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ کا ایک نام مُؤْمِن ہے۔ جو ترجمہ مَیں نے پڑھا ہے، اس میں مُؤْمِنْ کے معنی امن دینے والے کے کئے گئے ہیں۔ پس ہر شخص کا انفرادی امن بھی اور معاشرے کا امن بھی اور دنیا کا امن بھی اُس ذات کے ساتھ وابستہ رہنے سے ہے جو امن دینے والی ذات ہے جس کا ایک صفاتی نام جیسا کہ آپ نے سنا اَلْمُؤْمِنْ ہے۔ پس اس نام سے فیض بھی وہی پائے گا جو اللہ تعالیٰ کے حکم صِبْغَۃَ اللّٰہ کہ اللہ کے رنگ میں رنگین ہو، پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اِس سے دُور ہو کر ہر امن کی کوشش رائیگاں جائے گی۔ ہر کوشش کا آخری نتیجہ ذاتی مفادات کے حصول کی کوشش ہو گا نہ کہ امن۔ اور یہ امن اسی کو مل سکتا ہے جن کا ایمان کامل ہو۔ اور اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل تب ہوگا جب اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء پر بھی ایمان ہو جیسا کہ اس نے فرمایا ہے۔ پس آنحضرتﷺ جو خاتم الانبیاء ہیں آپ پر ایمان لانا بھی اصل میں ایک مومن کو کامل الایمان بناتا ہے۔ آپؐ کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء پر ایمان لانے کا حکم اتارا اور ایک مسلمان کو اِس کا پابند کیا۔ اور پھر آنحضرتﷺ نے ایک مسلمان کو اس بات کابھی پابند فرمایا کہ تاریک زمانے کے بعد جب میرا مسیح و مہدی مبعوث ہو گا تو اسے ماننا، اسے قبول کرنا، اس کی بیعت میں شامل ہونا، یہ بھی تم پر فرض ہے اور وہ کیونکہ حَکَم اور عدَل بھی ہو گا اس لئے قرآن کریم کے معارف اور احکامات کی جو تشریح وہ کرے، جووضاحت وہ کرے اس کو ماننا اور اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ وہی ہے جس نے تمام مسلمانوں کو بھی اور غیر مسلموں کو بھی میرے نام پر ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا اور اُمّتِ واحدہ بنانا ہے۔ پس آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے والے ہی اللہ تعالیٰ کی صفت مومن سے حقیقی فیض پانے والے ہیں، ایمان میں بڑھنے والے ہیں، امن میں رہنے والے ہیں اور امن قائم کرنے والے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ یہ خصوصیات ہر احمدی میں ہونی چاہئیں۔ پس ہر احمدی کو اپنے ایمان میں ترقی کرتے ہوئے اس اہم بات کو ہمیشہ اپنے پلّے باندھے رکھنا چاہئے کہ صرف منہ سے مان لینا کافی نہیں ہو گا بلکہ ایمان میں بڑھنا اس میں ترقی کرنا، یہی ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی صفت مومن سے حقیقی رنگ میں فیضیاب کرنے والا بنائے گا۔ ورنہ اگر تعلیم پر عمل نہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ایک حصہ کو تو مان لیا کہ ہم تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہمیں آنحضرتﷺ کے ذریعہ سے ملے اور جنہیں اس زمانے میں آپؐ کے غلام صادق نے پھر خوبصورت انداز میں پیش کرکے ان پر عمل کرنے کی ہمیں نصیحت فرمائی، اس پر ہم پوری طرح کار بند ہونے کی کوشش نہ کرکے عملاً اپنے ایمان کو کمزور کر رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کے ایمان کو مضبوط کرتا چلا جائے، اسے اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنی ذات میں بھی اور اپنے معاشرے میں بھی اللہ تعالیٰ کی صفت مومن کا حقیقی پر تَو نظر آئے۔ (خطبہ جمعہ ۶؍ جولائی ۲۰۰۷ء ، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍جولائی ۲۰۰۷ء) مزید پڑھیں: تقویٰ کا مطلب ہے بچاؤ کے لئے ڈھال کے پیچھے آنا