مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات و صدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض ٹھہرایا ہے بجالاوے اور ہر ایک کارِخیر کے کرنے میں اس کو ذاتی محبت ہو اور کسی تصنع و نمائش ورِیا کو اس میں دخل نہ ہو۔ یہ حالت مومن کی اس کے سچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کردیتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اس کی زبان ہوجاتاہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے کان ہوجاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہے جس سے وہ کام کرتاہے۔ الغرض ہرایک فعل اس کا اور ہر ایک حرکت و سکون اس کا اللہ ہی کا ہوتاہے۔ اس وقت جو اس سے دشمنی کرتا ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے اور پھرفرماتاہے کہ مَیں کسی بات میں اس قدر تردّد نہیں کرتا جس قدر کہ اس کی موت میں۔ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مومن اور غیرمومن میں ہمیشہ فرق رکھ دیا جاتا ہے۔ غلام کو چاہئے کہ ہر وقت رضاءِ الٰہی کو ماننے اور ہر ایک رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں دریغ نہ کرے۔ کون ہے جو عبودیت سے انکار کرکے خدا کو اپنا محکوم بنانا چاہتا ہے۔ (ملفوظات جلد۵صفحہ۱۷۳-۱۷۴۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء) ظاہر ہے کہ مومن کی تکمیل کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ زنا سے پرہیز کرے کیونکہ زنا نہایت درجہ مفسد طبع اور بے حیا انسانوں کا کام ہے اور یہ ایک ایسا موٹا گناہ ہے جو جاہل سے جاہل اس کو بُرا سمجھتا ہے اور اس پر بجز کسی بے ایمان کے کوئی بھی دلیری نہیں کر سکتا۔ پس اِس کا ترک کرنا ایک معمولی شرافت ہے کوئی بڑے کمال کی بات نہیں لیکن انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔تقویٰ کی باریک راہیں رُوحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں۔ ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقوٰی قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ۲۰۹-۲۱۰) مزید پڑھیں: نماز، روزہ، زکوٰة وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو