تقویٰ کے راستوں کی تلاش کے لئے قرآنِ کریم نے جو ہمیں تعلیم دی ہے اور ایک حقیقی مومن کا جو معیار بیان فرمایا ہے اُس کی تلاش کر کے اور اُس پر عمل کر کے ہی ہم یہ معیار حاصل کر سکتے ہیں جس کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کی ہے۔ قرآنِ کریم میں تقویٰ پر چلنے کے بارے میں مختلف حوالوں سے، مختلف نہج سے بیشمار جگہ ذکر ہے جن میں سے بعض کا میں یہاں ذکر کروں گا تا کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ(النحل:3) میرے سوا کوئی معبودنہیں، پس میرا تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ کا مطلب ہے بچاؤ کے لئے ڈھال کے پیچھے آنا، گناہوں سے بچاؤ کے سامان کرنا، مشکلات سے بچنے کے سامان کرنا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت اگر اُس کا حق ادا کرتے ہوئے کرو گے تو یہی تقویٰ ہے جو تمہاری ہر طرح سے حفاظت کرے گا، تمہیں گناہوں سے بچائے گا، تمہیں مشکلات سے نکالے گا۔ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت جب اُس کے حق کے ساتھ کی جائے تو یہ وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا ہوتی ہے لیکن یہ خوف اُس پیار کی وجہ سے ہے جو ایک حقیقی عابد اور ایک حقیقی مومن کو خدا تعالیٰ سے ہے اور اس کو دوسرے لفظوں میں تقویٰ کہتے ہیں۔ پس ان عبادتوں کا حق ادا کرنے کی کوشش ایک حقیقی احمدی کو کرنی چاہئے تا کہ تقویٰ پر چلنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا کہلا سکے اور یہی انسانی پیدائش کا بہت بڑا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات: 57) اور مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’اگرچہ مختلف الطبائع انسان اپنی کوتاہ فہمی یا پست ہمتی سے مختلف طور کے مدّعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں‘‘۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل بلکہ ہمیشہ سے ہی یہ اصول رہا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے مقصد خود بناتا ہے یا سمجھتا ہے کہ میں نے یہ مقصد بنائے ہیں اور یہی میری کامیابی کا راز ہیں۔ اور اُس اصل مقصد کو بھول جاتا ہے جو خدا تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا انسان کو بتایا ہے۔ فرماتے ہیں ’’پست ہمتی سے مختلف طور کے مدّعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں۔ اور فقط دنیا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کر آگے ٹھہر جاتے ہیں۔ مگر وہ مدّعا جو خدائے تعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے، یہ ہے۔ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن(الذاریات: 57) یعنی مَیں نے جنّ اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس آیت کی رُو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 414) (خطبہ جمعہ ۶؍جولائی ۲۰۱۲ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍جولائی ۲۰۱۲ء) مزید پڑھیں: ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ‘‘کی تشریح