اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس: ۱۰) کا مصداق ہو گا۔ پاکیزگی اور طہارت عمدہ شَے ہے۔ انسان پاک اور مطہّر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔ لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذّات کی ہر ایک شَے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خد ا اسے اَور راہ سے مالدار کردے۔ اسی طرح زانی زنا کرتا ہے۔ اگر صبر کرے تو خداتعالیٰ اس کی خواہش کو اَور راہ سے پوری کردے جس میں اس کی رضا حاصل ہو۔حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھا سکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے۔ اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پاسکتا ہے۔ بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے۔انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچا سکتے۔حکّام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے۔ انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کرکے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ خدا میرے ساتھ ہے وہ مجھے دیکھتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا تو گناہ نہ کرتا۔تقویٰ سے سب شَے ہے۔ قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتحۃ: ۵) سے بھی مراد تقویٰ ہے کہ انسان اگر چہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اُسے اپنی طرف منسوب کرے اور اُسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔ پھر دوسری سورت بھی هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ سے شروع ہوتی ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰة وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو۔ اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے۔بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے۔ دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے۔ جس شَے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی۔ (ملفوظات جلد۳ صفحہ۴۲۰-۴۲۱) مزید پڑھیں: بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے