۳۱؍سالہ متحرک سياسي کارکن چارلي کرک (Charlie Kirk)کو ۱۰؍ستمبر ۲۰۲۵ء کو امريکي رياست يوٹاہ (Utah) ميں دن ديہاڑے گولي مار کر ہلاک کر ديا گيا۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے قريبي ساتھي تھے اور انہيں اکثرامريکي يونيورسٹيوں کے نوجوان طلبہ کو ريپبلکن پارٹي کي حمايت پر آمادہ کرنے کي کوششوں ميں مصروف ديکھا جاتا تھا۔چارلي کرک کونسلي، صنفي اورتارکين وطن سے جڑے موضوعات پر بے لاگ رائے رکھنے کے ليے جانا جاتا تھا۔ وہ ‘‘تہذيبوں کے تصادم’’ کے حوالہ سے منعقد ہونے والے مباحثوں ميں اکثر حصہ ليتے رہتے تھے اور ان پر نسل پرستانہ، اسلامو فوبک اور خواتين کے خلاف صنفي امتياز روا رکھنے کا الزام لگايا جاتا تھا۔يہ امربھي ملحوظ خاطر رہے کہ چارلي کرک امريکي آئين کي دوسري ترميم کي کھلم کھلاحمايت کيا کرتے تھے، جو امريکي شہريوں کو آتشيں اسلحہ رکھنے کا حق ديتي ہے۔ ۲۰۲۳ء کے ايک انٹرويو ميں، جس کا ان کي موت کے بعد سے بہت حوالہ ديا جا رہا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ ‘‘ميرے خيال ميں، بدقسمتي سے، ہميں ہر سال بندوق سے ہونے والي کچھ اموات کي قيمت ان کا فائدہ اٹھا کر چکانا ہوگي تاکہ اس طرح پھر ہم خدا کے عطا کردہ ديگرحقوق کے تحفظ کے ليے دوسري ترميم لاسکيں۔’’اس طرح کامتنازعہ ريکارڈ رکھنے کے باوجود ان کي موت پر بہت سے لوگوں نے تعزيت کي ہے، خاص کرصدر ٹرمپ اور اسرائيلي وزير اعظم بنجمن نيتن ياہو نے۔ يہاں تک کہ ان کے نظرياتي اور سياسي حريفوں نے بھي ان کے انتقال پر دکھ کا اظہار کر تے ہوئے آزادي اظہار کي حمايت کا اعادہ کيا اور سياسي تشدد کے اس عمل کي مذمت کي۔اس کے برعکس، چونکہ ان کے کچھ مخصوص نظريات نے انہيں نفرت انگيزفرد بنا ديا تھا، اس ليے بہت سارے لوگوں نے ان کي موت کا آن لائن جشن بھي منايا ہے۔ بائيں بازو کے بہت سے امريکيوں اورلبرلز نے اس واقعے پر ہمدردي کا اظہار نہيں کيا، خاص طور پر امريکا ميں اسلحہ کے قوانين، اسقاط حمل، صنفي حيثيتوں اور ديگر کچھ حوالوں سے ان کے مخسوص خيالات کي وجہ سے۔بہت سے مسلمانوں نے بھي ان کي موت پر کوئي زيادہ ہمدردي کا اظہار نہيں کيا۔ چارلي کرک اسلام کي کھلے عام مذمت کيا کرتا تھا، جسےاس کے خيال ميں ‘‘امريکہ کا گلا گھوٹنے’’ کے ليے استعمال کيا جا رہا تھا۔ ايکس (سابقہ ٹؤٹر) پر ايک اکاؤنٹ نے چارلي کرک کو اس کے اسلام مخالف نظريات کي بناپر ‘‘اسلام کا دشمن’’ کا خطاب ديا، اور بہت سے مسلمانوں نے مشورہ ديا کہ اس کے قتل نے ايک غلط کودرست کرديا ہے۔فلسطين اوراسي طرح غزہ کي نسل کشي ميں اسرائيل کے کردار کے بارے ميں چارلي کرک کے خيالات کي وجہ سے بھي بہت سے مسلم اور غير مسلم ان کي موت پر ہمدردي کا اظہار کرنے سے گريزاں رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ انہيں فلسطين ميں انساني جانوں کي پرواہ نہيں تھي اس ليے وہ کسي ہمدردي کے مستحق نہيں۔ليکن ايک مسلمان ہونے کے ناطے، مجھے کيسا رد عمل ظاہر کرنا چاہيے؟ کيا ميں اس کي موت کا جشن مناؤں يا اس کي مذمت کروں؟ کيا ان کے قتل سے دنيا کو کچھ حاصل ہوا؟غصے کو دبانے کے بارہ ميں قرآن پاک کي تعليماسلام ہميں بتاتا ہے کہ جب کوئي ہميں تکليف دے تو صبر کا مظاہرہ کرنااحسن ہے۔ اللہ تعاليٰ واضح طور پرمومنوں سے فرماتا ہے: لَتُبۡلَوُنَّ فِيۡۤ اَمۡوَالِکُمۡ وَاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَلَتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَمِنَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَذًي کَثِيۡرًا ؕ وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ۔ (آل عمران: ۱۸۷) ترجمہ: تم ضرور اپنے اموال اور اپني جانوں کے معاملہ ميں آزمائے جاؤ گے اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہيں تم سے پہلے کتاب دي گئي اور ان سے جنہوں نے شرک کيا، بہت تکليف دِہ باتيں سنو گے۔ اور اگر تم صبر کرو اور تقويٰ اختيار کرو تو يقيناً يہ ايک بڑا باہمت کام ہے۔اس کا صاف مطلب يہ ہے کہ چارلي کرک نے اسلام کے خلاف جو کچھ بھي کہا، اور اس نے مسلمانوں يا دوسروں کے جذبات کو کتنا ہي مجروح کيا، مسلمان اسے يوں خاموش کرنے کا کبھي سوچ بھي نہيں سکتے تھے۔مسلمانوں کو اپنا غصہ دبانا بھي سکھايا جاتا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے: وَالۡکٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللّٰہُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۔ (آل عمران: ۱۳۵) ترجمہ: اورغصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔پس اسلام توامن کي تلقين کرتا ہے، خواہ ہمارے جذبات مجروح کرديے گئے ہوں۔ حقيقت تو يہ ہے کہ جب کوئي نادان کسي مسلمان کي توہين يا اس پرطعنہ زني کرتا ہے تو قرآن پاک مسلمانوں کو يہ ہدايت ديتا ہے کہ وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡہُ وَقَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَلَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۫ سَلٰمٌ عَلَيۡکُمۡ ۫ لَا نَبۡتَغِي الۡجٰہِلِيۡنَ۔ (القصص: ۵۶)ترجمہ: اور جب وہ کسي لغو بات کو سنتے ہيں تو اس سے اعراض کرتے ہيں اور کہتے ہيں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہيں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال۔ تم پر سلام ہو۔ ہم جاہلوں کي طرف رغبت نہيں رکھتے۔انسان خاموش رہے تو فرشتے جواب ديتے ہيںايک دفعہ حضرت ابوبکرؓ جو بعد ميں اسلام کے پہلے خليفہ بنے، ايک غير مسلم کي طرف سے شديد بدزباني کا نشانہ بنائے گئے جو ان کي دلآزاري کا موجب بني۔ حضور صلي اللہ عليہ وسلم قريب ہي بيٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓنے صبر اور خاموشي سے يہ بدزباني برداشت کي۔ يہ ديکھ کر حضور صلي اللہ عليہ وسلم مسکرائے۔آخر جب حضرت ابوبکرؓنے جواب دينا شروع کيا تو حضورؐ اٹھ کھڑے ہوئے اوروہاں سے چلے گئے۔ بعد ميں حضرت ابوبکرؓنے حضورؐ سے دريافت کيا کہ جب ميں گاليوں کا جواب دينے لگا تو آپؐ کيوں چلے گئے؟ حضورﷺ نے فرمايا کہ جب تک تم خاموش رہے تو فرشتے تمہاري طرف سے جواب دے رہے تھے ليکن جب تم نے بات کي تو فرشتے چلے گئے اور اس کي جگہ شيطان نمودار ہو گيا تو ميں کيسے رہ سکتا تھا؟آپﷺ نے مزيد فرمايا: ‘‘اے ابوبکر، اگر کسي شخص پر ظلم ہوتا ہے اور وہ اللہ تعاليٰ کي رضا کے ليے اسے (بغير بدلہ ليے) چھوڑ ديتا ہے، تو اللہ تعاليٰ اسے عزت دے گا اور اپني مدد سے اسے غلبہ عطا فرمائے گا۔’’ ( مشکوٰة المصابيح [عربي]، ۱۹۸۵، جلد ۳، صفحہ ۱۴۱۱،حديث نمبر ۵۱۰۲)يہ اہم واقعہ ہميں حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے ايک قول کي ياد دلاتا ہے جو حضور صلي اللہ عليہ وسلم کے سب سے بڑے پيروکار تھے۔ ايک دن حضور عليہ السلام نے فرمايا: ‘‘ميں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اورخدا تعاليٰ نے ميرے نفس کو ايسا مسلمان بنايا ہے کہ اگر کوئي شخص ايک سال بھرميرے سامنے بيٹھ کرميرے نفس کو گندي سے گندي گالي ديتا رہے آخر وہي شرمندہ ہوگا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ ميرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا۔ ’’( سيرت مسيح موعود عليہ السلام از حضرت مولوي عبدالکريم رضي اللہ عنہ۔ انگلش ترجمہ صفحہ ۸۸۔ اشاعت اول اردو صفحہ ۵۲)يہ دونوں واقعات ثابت کرتے ہيں کہ کسي کو خواہ کتني ہي بدزباني کيوں نہ برداشت کرني پڑے، صبر اور استقامت اعليٰ ترين اخلاقي فضيلت ہے۔اسلام ہميں مرنے والوں کا احترام کيسے سکھاتا ہےچارلي کرک کي موت نے بہت سے لوگوں کودنيا کے سامنے ان کے تعصبات گنوانے پراکسايا، اور ان کے خلاف انہي کے الفاظ پيش کرکے ايک طرح سے ان کي (اس طرح کي) موت کا جواز پيش کرنے کي کوشش کي، ليکن اسلام ہميں مُردوں کي عزت کرنا سکھاتا ہے۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں: ‘‘اگر کوئي دشمن مر بھي جاوے تو کيا اور زندہ رہے تو کيا؟ نفع نقصان کا پہنچانا يہ خداتعاليٰ کے قبضہ و اختيار ميں ہے۔ کوئي شخص کسي کو گزند نہيں پہنچا سکتا۔ سعدي نے گلستان ميں ايک حکايت لکھي ہے کہ نوشيرواں کے پاس کوئي شخص خوشخبري لے کر گيا کہ تيرا فلاں دشمن مارا گيا يے اور اس کا ملک اور قلعہ ہمارے قبضہ ميں آگيا ہے۔ نوشيرواں نے اس کا کيا اچھا جواب ديا۔؎ مرا بمرگ عدو جائے شادمانی نیستکہ زندگانی ما نیز جاودانی نیستدشمن کي موت ميرے ليے خوشي کا مقام نہيں کيونکہ ميري زندگي بھي محدود ہے۔( ناقل) پس آدمي غور کرے کہ اس قسم کے منصوبوں اور ادھيڑبن سے کيا فائدہ اور کيا خوشي۔ يہ سلسلہ تو بہت ہي خطرناک ہے اور اس کا علاج ہے توبہ، استغفار، لاحول اور خدا کي کتاب کا مطالعہ ’’۔(ملفوظات اردو جلد ۱ صفحہ ۲۲۵، ۲۲۶۔ ايڈيشن ۲۰۲۲ء) ( ملفوظات [انگريزي]، جلد ۲، صفحہ ۷۴-۷۵)ہميں اسوہ رسول صلي اللہ عليہ وسلم سے بھي ايک شاندار نمونہ ملتا ہے۔ جب ايک يہودي کا جنازہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے پاس سے گزرا تو وہ احتراماً کھڑے ہوگئے۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم نے آپ کو ياد دلايا کہ يہ ايک يہودي کا جنازہ ہے تو آپؐ نے پوچھا: کيا وہ انسان نہيں تھا؟دشمن کي موت کے حوالہ سے حضور صلي اللہ عليہ وسلم کے اسوہ کي غالباً سب سے بڑي مثال عبداللہ بن ابي بن سلول ہے، جسے ابتدائي اسلامي تاريخ ميں ‘‘منافقوں کا سردار’’ بھي کہا جاتا ہے۔ اس نے کئي مواقع پر حضور صلي اللہ عليہ وسلم کو بہت تکليف پہنچائي اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم اور آپ کے پيروکاروں کو ستانے ميں کوئي کسر نہ چھوڑي۔ پھر بھي جب اس کي وفات ہوئي تو حضور صلي اللہ عليہ وسلم نے اس کي نماز جنازہ خود پڑھائي اوراحترام کا نمونہ دکھايا۔ ( صحيح البخاري، کتاب الجنائز، حديث ۱۳۶۶)مخالف کي موت پر مسلمان کا ردعمل کيسا ہونا چاہيے؟جيسا کہ ہم انٹرنيٹ کے دور ميں ہيں، چارلي کرک کي موت کے بارے ميں بہت سے ميمز (memes)اور لطيفے بنائے گئے ہيں۔ ليکن ايک سچا مسلمان اس طرح کي بيہودگي ميں حصہ نہيں لے سکتا۔ حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ نے اس مسئلہ ميں درج ذيل رہنمائي فرمائي ہے: ‘‘ہر انسان کي وفات کے بعد اس کا معاملہ خدا تعاليٰ کے ساتھ ہو جاتا ہے، وہ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے کسي دوسرے شخص کو اس بارے ميں کوئي رائے قائم کرنے کا کوئي اختيار نہيں۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام اس امر کي وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ‘‘ہر ايک شخص کا خدا تعاليٰ سے الگ الگ حسا ب ہے۔ سوہر ايک کو اپنے اعمال کي اصلاح اور جانچ پڑتال کر ني چاہيے۔ دوسروں کي مو ت تمہارے واسطے عبرت اور ٹھوکر سے بچنے کا با عث ہوني چاہيے نہ کہ تم ہنسي ٹھٹھے ميں بسر کر کے اور بھي خدا تعاليٰ سےغافل ہوجاؤ"۔ ’’(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۲۱۷)…اسلام کسي انسان سے نفرت نہيں سکھاتا بلکہ اس کے فعل سے ناپسنديدگي کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کريم ميں حضرت لوط عليہ السلام اپنے مخالفين کو مخاطب کر کے فرماتے ہيں کہ ميں تمہارے عمل کو نفرت سے ديکھتا ہوں۔ (سورة الشعراء: ۱۶۹)اسي طرح اللہ تعاليٰ نے مومنوں کو ہدايت فرمائي کہ جب تم اللہ تعاليٰ کي آيتوں سے استہزاء ہوتا سنو تو ان ہنسي کرنے والوں کے ساتھ اس وقت نہ بيٹھو۔ (سورة النساء: ۱۴۱) گويا انسانوں سے نفرت نہيں بلکہ ان کے عمل سے بيزاري کے اظہار کي تعليم دي گئي ہے۔پس اسلام کي تعليم ہر معاملے ميں مکمل اور نہايت خوبصورت ہے۔ اسلام تو سخت ترين معاند کي موت پر بھي خوش ہونے کي تعليم نہيں ديتا بلکہ اس کي موت پر بھي ايک سچے مومن کو اس ليے دکھ ہوتا ہے کہ کاش يہ شخص ہدايت پاجاتا’’۔(بنيادي مسائل کے جوابات قسط ۲۹، الفضل انٹرنيشنل ۲۲؍فروري ۲۰۲۲ء )نيز انگريزي ترجمہ کے ليے ديکھيں: https://www.alhakam.org/answers-to-everyday-issues-part-xxixپنڈت ليکھرام اور ضياء الحق: درست ردعملليکھرام ايک بڑا معاند اسلام تھا۔ اس کي اسلام دشمني کي وجہ سے ہي حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اسے للکارا تھا ليکن جب وہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي پيشگوئي کے عين مطابق مارا گيا تو اس پر آپؑ کا رد عمل بڑا واضح تھا۔حضرت خليفة المسيح الخامس اس بارہ ميں فرماتے ہيں: ‘‘احمديت کے سخت ترين دشمن اور ہمارے آقا و مطاع سيدنا حضرت اقدس محمد مصطفيٰﷺ کي ذات اطہر کے بارے ميں بد زباني کرنے والے معاند اسلام پنڈت ليکھرام کي الٰہي پيشگوئيوں کے مطابق جب ہلاکت ہوئي تو حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اس کي ہلاکت پر بھي اس کي قوم کے لوگوں سے اظہار ہمدردي کرتے ہوئے فرمايا: ‘‘ايک انسان کي جان جانے سے تو ہم دردمند ہيں اور خدا کي ايک پيشگوئي پوري ہونے سے ہم خوش بھي ہيں۔ کيوں خوش ہيں؟ صرف قوموں کي بھلائي کےلئے۔ کاش وہ سوچيں اور سمجھيں کہ اس اعليٰ درجہ کي صفائي کے ساتھ کئي برس پہلے خبر دينا يہ انسان کا کام نہيں ہے۔ ہمارے دل کي اس وقت عجيب حالت ہے۔ درد بھي ہے اور خوشي بھي۔ درد اس لئے کہ اگر ليکھرام رجوع کرتا زيادہ نہيں تو اتنا ہي کرتا کہ وہ بدزبانيوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعاليٰ کي قسم ہے کہ ميں اس کےلئے دعا کرتا۔ اور ميں اميد رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھي کيا جاتا تب بھي زندہ ہوجاتا۔ ’’(سراج منير، روحاني خزائن جلد ۱۲صفحہ ۲۸)باقي جہاں تک اسلام کي مخالفت پر مرنے والے کسي شخص کےليے دعا کرنے کي بات ہے تو اسلام نے صرف مشرک جو خدا تعاليٰ سے کھلي کھلي دشمني کا اظہار کرے، اس کےليے دعائے مغفرت کرنے سے منع فرمايا ہے باقي کسي کےليے دعا کرنے سے نہيں روکا۔ (سورة التوبہ: ۱۱۴)(بنيادي مسائل کے جوابات قسط ۲۹، الفضل انٹرنيشنل ۲۲؍فروري ۲۰۲۲ء )نيز انگريزي ميں: https://www.alhakam.org/answers-to-everyday-issues-part-xxixمعاند احمديت پاکستاني آمرجنرل ضياء الحق کے انتقال کے وقت بھي ايسا ہي ہوا تھا۔ يہ احمديہ مسلم کميونٹي کے ليے اللہ کي مدد کاايک نشان تھا، اس کے باوجود حضرت مرزا طاہر احمد، خليفة المسيح الرابع نے ان کے اہل خانہ کو تعزيت کا پيغام بھيجا تھا۔ انہوں نے بيان فرمايا: ‘‘… جنرل ضياء الحق کي موت بذات خود ہرگز کسي خوشي کا موجب نہيں۔ امرواقعہ يہ ہے کہ ہميں ان کے پسماندگان سے بھي ہمدردي ہے اور ان کے ساتھ مرنے والوں کے پسماندگان سے بھي ہمدردي ہے اور ميں نے جماعت احمديہ کے سربراہ کي حيثيت سے ان کو تعزيت کا پيغام بھي بھجوايا ہے اور بلا تردد ميں يہ کہہ سکتا ہوں کہ ميرے دل ميں ان کے دلوں کے لئے رحم تو ہے کسي قسم کي شوخي، کسي قسم کا تمسخر، کسي قسم کي مفاخرت کا کوئي جذبہ نہيں ہے اور يہي حال ميں جماعت احمديہ کاديکھنا چاہتا ہوں اور يہي حال ميں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمديہ کا ہے۔’’حضور رحمہ اللہ نے فرمايا: ‘‘مومن کے برعکس جو لوگ ايمان کي حلاوت سے آشنا نہيں ہوتے، جن کو قرآن اور سنت کي صحيح تربيت حاصل نہيں ہوتي،ان کے ردعمل اس سے مختلف ہوا کرتے ہيں۔ وہ دشمن کے چھوٹے سے غم پر بغليں بجاتے، ناچتے اور تمسخر کرتے اور اس کي چھوٹي سي خوشي پر نڈھال ہوجاتے ہيں گويا ان پر موت وارد ہو گئي ہے۔ ہم سے بالکل برعکس صورتحال احمديت کے دشمنوں کي ہے’’۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹ اگست ۱۹۸۸ء۔ بحوالہ خطبات طاہر جلد ۷۔ صفحات ۵۵۹-۵۶۰)پس چارلي کرک کي موت بھي کسي بھي پہلوسےخوشي منانےکا موقع نہيں ہے۔ اس کے بجائے، اسلام کي تعليمات، جيسا کہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام اور ان کے خلفاء نے وضاحت کے ساتھ بيان کي ہيں، يہ واضح کرتي ہيں کہ قطع نظر اس کے کہ کرک کس مقصد کے ليے کھڑا تھا، کيا پرچارکرتا تھا، اس کاعقيدہ کيا تھا، مسلمان اس کي موت پر شاديانے نہيں بجا سکتے۔بلکہ جس طرح آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم ايک مخالف کے انتقال پر غمگين ہوئے کہ وہ اسلام قبول کيے بغير فوت ہو گيا، جس طرح حضرت مسيح موعود عليہ السلام کو ليکھرام کي وفات پر دکھ ہوا، جس طرح حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ کو ضياء پر دکھ ہوا، ہميں بھي چارلي کرک کي حالت کفر ميں وفات کا دکھ ہے۔اگر کرکؔ فلسطينيوں يا ديگرمعصوم جانوں کے ضياع کي پروا نہيں کرتاتھا تب بھي ہم اس کي موت کامذاق تو نہيں اڑا سکتے اور نہ ہي اس پر خوش ہو سکتے ہيں۔ جيسا کہ پہلے ذکر کيا گيا ہے، ہمارے سب سے کامل آقا، آنحضور صلي اللہ عليہ وسلم نے ابي بن سلول، جسے شايد ہي مسلمانوں کي جانوں کي پرواہ ہوا کرتي تھي، کي موت پر بڑے احترام کے ساتھ ردعمل کا اظہارفرماياتھا۔ ہمارے ردعمل اسي اسوہ کي تقليد کے حامل ہونے چاہيئں۔ وگرنہ ہم خود کو ان ﷺ کے پيروکار کيسے کہلا سکتے ہيں؟انگلش ميں تحريرپڑھنے کے ليے لنک:https://www.alhakam.org/charlie-kirk-killed-as-a-muslim-how-should-i-react/نوٹ: اردو ميں دستياب عبارات کو ان کے اصل ماخذ ومصادر سے بمع حوالہ نيز قرآني آيات کا عربي متن ترجمہ ميں شامل کيا گيا ہے۔ مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ کی مخالفت اور دشمن کے لیے دعا اور ہمدردی۔جماعت احمدیہ کا وصف