ارشاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’مَیں جب کشمیر گیا تو وہاں ایک غالیچہ باف کو غالیچے بننے کے لیے کہا گیا اور قیمت پیشگی دے دی۔ غالیچہ کا طول و عرض سب اس کو بتادیا گیا۔ ہم آگے چلے گئے جب واپس آکر اس سے غالیچے مانگے تو اس نے لپیٹے ہوئے ہمارے ہاتھ میں دے دئیے اور کہنے لگا کہ اسی طرح بند کے بند ہی لے جاؤ ، کھولو نہیں۔ لیکن اس کے بار بار اس بات پر زور دینے سے ہمیں خیال ہوا کہ کوئی بات ہی ہے جب یہ کہتا ہے کہ بند کے بند ہی لے جاؤ۔ اس لیے کھول کر دیکھنے چاہئیں ۔ جب کھولے اور نا پے تو معلوم ہوا کہ ایک ایک بالشت طول میں اور ایک ایک چپہ عرض میں کم تھے ۔ ہم نے اسے کہا یہ تم نے کیا کیا؟ وہ کہنے لگا جی ہم مسلمان ہوتے ہیں۔ میں اسے کہوں کہ اسلام میں تو ایسا کرنا نا جائز ہے ۔پھر تم نے مسلمان ہو کر کیوں ایسا کیا؟ اس کا وہ یہی جواب دیتارہا کہ مَیں مسلمان ہوں۔ اس کہنے سے اس کا یہ مطلب تھا کہ اگر ہم مسلمان لوگ ایسا نہ کریں تو ہمارا گزارہ نہیں ہوتا۔ تو اب مسلمانوں میں ہر ایک سے دھوکہ، فریب، دغا کرنے کی عادت ہی ہوگئی۔ جب انہوں نے دوسروں سے غدر کرنا سیکھا تو اب اپنوں پر بھی اس کو استعمال کرنے لگ گئے ۔ اس طرح ان کا نہ آپس میں اعتبار بھروسہ اور اطمینان رہا اور نہ دوسروں کے نزدیک ۔اور ان اخلاقی جرموں کی پاداش میں ان کی حالت اس قدر ذلت اور رسوائی کو پہنچ گئی کہ اب کشمیر کی تجارت پہلے کی نسبت سینکڑوں گنا کم ہوگئی ہے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو یہ بتائی گئی کہ یہاں کے لوگ ناقص مال بنا کر بھیجتےتھے ۔ جس کا آہستہ آہستہ یہ انجام ہوا کہ لینے والوں نے مال کا لینا ترک کر دیا اور جب مال نہ بکا تو بنانے والوں نے بھی اس کام کو چھوڑ کر اور کام اختیار کر لیے اور اس طرح تجارت کو زوال آ گیا۔ ‘‘( خطبات محمود جلد ۵ صفحہ ۲۶۸) (مرسلہ: وکالت صنعت و تجارت)