اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا۔ وَالرُّجْزَفَاھْجُرْ (المدثر:۶)یعنی ’’ہر ایک پلیدی سے جُدا رہ‘‘ یہ احکام اِسی لیے ہیں کہ تاکہ انسان حفظان صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے۔ عیسائیوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے احکام ہیں جوہمیں سمجھ نہیں آتے کہ قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کرکے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو، خلال کرو اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ۔ اور بدبوؤں سے دور رہو اور مرد ار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ۔ اس کا جواب یہی ہے کہ قرآن نے اس زمانہ میں عرب کے لوگوں کو ایسا ہی پایا تھا اور وہ لوگ نہ صرف روحانی پہلو کے رو سے خطرناک حالت میں تھے بلکہ جسمانی پہلو کے رُو سے بھی ان کی صحت نہایت خطرہ میں تھی… افسوس پادری اس بات کو نہیں جانتے کہ جو شخص جسمانی پاکیزگی کی رعایت کو بالکل چھوڑ دیتا ہے وہ رفتہ رفتہ وحشیانہ حالت میں گر کر روحانی پاکیزگی سے بھی بے نصیب رہ جاتا ہے۔ مثلاً چند روز دانتوں کا خلال کرنا چھوڑ دو جو ایک ادنیٰ صفائی کے درجہ پر ہے تو وہ فضلات جو دانتوں میں پھنسے رہیں گے ان میں سے مردار کی بو آئے گی۔ آخر دانت خراب ہو جائیں گے۔ اور ان کا زہریلا اثر معدے پر گر کر معدہ بھی فاسد ہو جائے گا۔ خود غور کرکے دیکھو کہ جب دانتوں کے اندر کسی بوٹی کا رگ و ریشہ یا کوئی جز پھنسا رہ جاتا ہے اور اسی وقت خلال کے ساتھ نکالا نہیں جاتا تو ایک رات بھی اگر رہ جائے تو سخت بدبو اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور ایسی بدبو آتی ہے جیسا کہ چوہا مرا ہوا ہوتا ہے۔ پس یہ کیسی نادانی ہے کہ ظاہری اور جسمانی پاکیزگی پر اعتراض کیاجائے اور یہ تعلیم دی جائے کہ تم جسمانی پاکیزگی کی کچھ پرواہ نہ رکھو نہ خلال کرو اور نہ مسواک کرو اور نہ کبھی غسل کرکے بدن پر سے میل اتارو اور نہ پاخانہ پھر کر طہارت کرو اور تمہارے لئے صرف روحانی پاکیزگی کافی ہے۔ ہمارے ہی تجارب ہمیں بتلا رہے ہیں کہ ہمیں جیسا کہ روحانی پاکیزگی کی روحانی صحت کے لئے ضرورت ہے ایسا ہی ہمیں جسمانی صحت کے لئے جسمانی پاکیزگی کی ضرورت ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہماری جسمانی پاکیزگی کو ہماری روحانی پاکیزگی میں بہت کچھ دخل ہے۔ کیونکہ جب ہم جسمانی پاکیزگی کو چھوڑ کر اس کے بد نتائج یعنی خطرناک بیماریوں کو بھگتنے لگتے ہیں تواس وقت ہمارے دینی فرائض میں بھی بہت حرج ہو جاتا ہے اور ہم بیمار ہو کر ایسے نکمے ہو جاتے ہیں کہ کوئی خدمت دینی بجا نہیں لا سکتے۔ اور یا چند روز دکھ اٹھا کر دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں بلکہ بجائے اس کے کہ بنی نوع کی خدمت کر سکیں اپنی جسمانی ناپاکیوں اور ترک قواعد حفظان صحت سےاوروں کے لئے وبال جان ہو جاتے ہیں اور آخر ان ناپاکیوں کا ذخیرہ جس کو ہم اپنے ہاتھ سے اکٹھاکرتے ہیں وبا کی صورت میں مشتعل ہو کر تمام ملک کو کھاتا ہے۔ اور اس تمام مصیبت کا موجب ہم ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہم ظاہری پاکی کے اصولوں کی رعایت نہیں رکھتے پس دیکھو کہ قرآنی اصولوں کو چھوڑ کر اور فرقانی وصایا کو ترک کرکے کیا کچھ بلائیں انسانوں پر وارد ہوتی ہیں اور ایسے بےاحتیاط لوگ جو نجاستوں سے پرہیز نہیں کرتے اور عفونتوں کو اپنے گھروں اور کوچوں اور کپڑوں اور منہ سے دور نہیں کرتے ان کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے نوع انسان کے لئے کیسے خطرناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں۔ اور کیسی یک دفعہ وبائیں پھوٹتی اور موتیں پیدا ہوتیں ہیں اور شور قیامت برپا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ مرض کی دہشت سے اپنے گھروں اور مال اور املاک اور تمام اس جائیداد سے جو جانکا ہی سے اکٹھی کی تھی دست بردار ہو کر دوسرے ملکوں کی طرف دوڑتے ہیں اور مائیں بچوں سے اور بچے ماؤں سے جدا کئے جاتے ہیں کیا یہ مصیبت جہنم کی آگ سے کچھ کم ہے؟ ڈاکٹروں سے پوچھو اور طبیبوں سے دریافت کرو کہ کیا ایسی لاپروائی جو جسمانی طہارت کی نسبت عمل میں لائی جائے وبا کے لئے عین موزوں اور مؤید ہے یا نہیں؟ پس قرآن نے کیا برا کیا کہ پہلے جسموں اور گھروں اور کپڑوں کی صفائی پر زور دے کر انسانوں کو اس جہنم سے بچانا چاہا جو اسی دنیامیں یکدفعہ فالج کی طرح گرتا اور عدم تک پہنچاتا ہے۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۳۲۔۳۳۴) مزید پڑھیں: خدا نے ابتدا سے لکھ چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے