https://youtu.be/AEH4FcPJ4Hg اردو زبان میں آسمان سر پَر پَھٹ پَڑنا یا آسمان پھٹ پڑنا یا آسمان ٹوٹ پڑنا بطور محاورہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی سخت مصیبت نازل ہو یا کسی حادثے سے تباہی و بربادی ہو اور بادل پھٹنا کے محاورے کے معنے بالکل الٹ ہیں یعنی گھرے ہوئے ابر کا ٹکڑے ہو کر پھیلنا، بادل کا تتربتر ہوجانا، بادل کا دُور ہونا۔(ریختہ ڈکشنری) لیکن حال ہی میں اس محاورے کے معنے اس وقت تبدیل ہوگئے جب موسلادھار اور غیر معمولی تیز بارشوں کے دوران شہریوں نے ایک نیا لفظ یا ایک نئی موسمیاتی اصطلاح سنی ‘‘کلاؤڈ برسٹ’’۔ اس کے لفظی معنی تو ‘‘بادل پھٹنا’’ ہیں، لیکن کسی نے بھی آسمان پر بادل پھٹتے نہیں دیکھا، یہ ایک سائنسی موسمیاتی مظہر ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق پہلا کلاؤڈ برسٹ ۲۸؍ستمبر ۱۹۰۸ء کو ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں ریکارڈ کیا گیا۔ جب اس المناک حادثہ سے پیدا ہونے والے سیلاب سے پندرہ ہزار اموات ہوئیں اور ۸۰؍ہزار سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا۔ کلاؤڈ برسٹ کیاہے؟: کلاؤڈ برسٹ دراصل ایک غیرمعمولی موسمی واقعہ ہے جس میں ایک چھوٹے علاقے میں صرف ایک گھنٹے کے اندر سو ملی میٹر یا اس سے زیادہ بارش ہو جاتی ہے۔ زمین اور نکاسی آب کا نظام اس پانی کو برداشت نہیں کر پاتا اور نتیجہ تباہ کن سیلاب اور لینڈ سلائیڈز کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ اصطلاح ان معنوں میں استعمال کی جاتی ہے کہ جیسے بادل پانی سے بھرے غبارے ہیں جو اچانک پھٹ جاتے ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ کی بنیادی وجوہات میں مرطوب ہوا کا اوپر اٹھنا، زیادہ نمی، کم فضائی دباؤ اور پہاڑی خطوں میں بادلوں کا پھنس جانا شامل ہے۔ یہ عام طور پر پہاڑی یا وادی والی جگہوں میں ہوتا ہے جہاں نم ہوا بلندی پر پہنچ کر ٹھنڈی ہوا سے ٹکراتی ہے تو بخارات پانی کے قطروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں جب بادل ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو اچانک ہی بھاری بارش ایک دم نیچے گِر پڑتی ہے جیسے بادل پھٹ پڑے ہوں۔پہاڑ کی ڈھلوانی سطح اسے اوپر اٹھنے میں مدد دیتی ہے۔ میدانی علاقوں میں عام طور پر ہوا نسبتاً آہستگی سے اوپر اٹھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں سیلابی صورتحال، زمین بوس ہونے والی مٹی اور لینڈ سلائیڈز جنم لیتی ہیں جو زبردست تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ عام طور پر کلاؤڈ برسٹ پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلی کے باعث جیسے جیسے زمین کا درجۂ حرارت بڑھتا چلا جا رہا ہے، میدانی علاقوں میں بھی کلاؤڈ برسٹ کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ فضا میں ہر ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے نمی رکھنے کی صلاحیت تقریباً سات فیصد بڑھ جاتی ہے، جو مختصر وقت میں شدید بارشوں کو جنم دیتی ہے، اسی طرح بحر ہند اور بحیرۂ عرب کی گرم ہوتی ہوئی ہوائیں بھی غیرمعمولی نمی مہیا کر رہی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اس کی وجہ مون سون کے موسم میں خلیج بنگال اور بحیرہ عرب سے بننے والے بادلوں کا شمال میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کی جانب بڑھنا ہے۔ مون سون میں عام بارش بھی بعض اوقات کوہِ ہمالیہ میں ۷۵؍ملی میٹر فی گھنٹہ تک ریکارڈ کی جاتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے پہاڑی علاقے کلاؤڈ برسٹ کے لیے سب سے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں کیونکہ یہاں مون سون، نمی اور بلند و بالا پہاڑ تینوں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ممالک میں کلاؤڈ برسٹ کے واقعات دیکھے گئےہیں۔ بھاری بارش اور کلاؤڈ برسٹ میں فرق: طوفانی بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ میں واضح فرق ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصہ میں اس اصطلاح کو لے کر لوگوں میں اتنا خوف و ہراس پھیلا کہ انہوں نے عام بارشوں جیسے کراچی یا اسلام آباد میں ایک دن میں ہونے والی ریکارڈ موسلادھار بارش کو بھی کلاؤڈ برسٹ کا نام دے ڈالا۔ طوفانی اور موسلادھار بارشیں بھی کئی ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جاتی ہے اور ان کا علاقہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ ان بارشوں سے علاقے کے محل وقوع اور تعمیرات کے سبب کم درجے کے سیلاب یا فلیش فلڈ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ کیا امسال پاکستان میں کوئی کلاؤڈ برسٹ کا واقعہ پیش آیا؟: پاکستان بھی دیگر ممالک کی طرح موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث موسمی تغیرات کا سامنا کر رہا ہے۔ کہیں غیرمعمولی بارشیں تو کہیں قیامت خیز گرمی، سیلاب کی زیادتی، گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ اور دیگر کئی موسمی تبدیلیاں شدید متاثر کر رہی ہیں۔ پاکستان میں حالیہ تباہ کن فلیش فلڈز کو ‘کلاؤڈ برسٹ’ سے منسوب کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ۲۴؍سال سےکلاؤڈ برسٹ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔پاکستان میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزادہ خان کے مطابق گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں حالیہ دو ماہ کے دوران بارشوں میں صرف ۱۲؍فیصد اضافہ ہوا، جو خاطر خواہ نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ حالیہ فلیش فلڈز کلاؤڈ برسٹ کی بجائے دیگر عوامل کا نتیجہ ہیں۔ ماہر موسمیات ڈاکٹر سید فیصل سعید نے بتایا کہ پاکستان میں آخری کلاؤڈ برسٹ جولائی ۲۰۰۱ء میں راولپنڈی میں ہوا، جب ۲۴؍گھنٹوں میں ۶۲۰؍ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جس میں ایک گھنٹے میں سو ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں کو بھاری بارش کہا جا سکتا ہے لیکن یہ کلاؤڈ برسٹ نہیں ہیں۔ ایک اَور ماہر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تباہی کی وجہ قدرتی آفات نہیں بلکہ انتظامی ناکامیاں ہیں۔ (بحوالہ ڈی ڈبلیو) ماہرین کیا کہتے ہیں؟: موسمیاتی ماہرین کے مطابق دنیا کے بڑھتے درجہ حرارت نے ان واقعات کی شدت اور تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، بےہنگم تعمیرات، جنگلات کی کٹائی اور نکاسی آب کے مسائل نے ان خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔نتیجۃً ایک طرف اچانک سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے تو دوسری جانب انسانی جانوں اور انفرااسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کلاؤڈ برسٹ کا عین وقت اور مقام پیشگوئی کے ذریعے بتانا مشکل ہےتاہم حفاظتی اقدامات سے نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ کے نقصانات کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ندی نالوں اور دریاؤں کے کنارے تعمیرات سے گریز کیا جائے، نکاسیٔ آب کے راستوں کو کھلا رکھا جائے، درخت لگائے جائیں تاکہ بارش کا پانی جذب ہو سکے۔ بارش کے دنوں میں پہاڑی علاقوں کا سفر مؤخر کیا جائے اور ہنگامی کٹس گھروں میں تیار رکھی جائیں۔