https://youtu.be/i0Q79oILPLg (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ۴؍ستمبر ۱۹۳۱ء) ۱۹۳۱ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے خدا تعالیٰ سے ملنے کے لیے اپنے اندر ایک کوشش اور ارادہ پیدا کرنے کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) میں ان لوگوں کو جو خداتعالیٰ سے ملنے کی آرزو رکھتے ہوں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دلوں سے حسرت نکال دو۔ اگر حسرتوں میں ہی مبتلاء رہے تو خدا چھوڑ اس کہ فرشتے بھی نہیں مل سکیں گے بلکہ فرشتے چھوڑ ان کے آثار بھی تمہیں دکھائی نہیں دے سکیں گے۔ خدا سے ملنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ بجائے افسوس کرنے کے کہ ہائے ہمیں خدا نہیں ملا ارادہ کرو کہ ہم ضرور خدا تعالیٰ سے مل کررہیں گے۔ پھر دیکھ لو چند ہی دنوں کے اندر اندر کس طرح تمہارے نفس کے اندر تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ خود بخود دل ایسی تدبیریں سوجھائے گا جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے لیے ضروری ہوں گی تشهّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں یہ سوال عام طور پر پایا جاتا ہے کہ کیا خدا تعالیٰ مل سکتا ہے؟ یہ قدرتی امر ہے کہ اگر کوئی شخص دہریہ نہ ہو اور خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہو تو اس کے دل میں اس قسم کا سوال کبھی نہ کبھی پیدا ہو۔ دیکھ لو دنیا کی اچھی چیزوں کے دیکھنے کی خواہش ہر انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً لوگ خواہش کرتے ہیں کہ ہم فلاں اچھی عمارت دیکھیں۔ یا میدانی علاقوں میں رہنے والے کہا کرتے ہیں اگر ہمیں موقع ملے تو پہاڑوں کی سیر کریں۔ یا پہاڑوں میں رہنے والے خواہش کرتے ہیں کہ ہم میدانی شہروں کو دیکھیں۔ یا خشکی کے رہنے والے کہتے ہیں ہم سمندروں کی سیر کریں۔ یا سمندروں میں رہنے والے بسااوقات آرزو کیا کرتے ہیں کہ اگر ہمیں چھٹی ملے تو ہم خشکی کے لطف اٹھا ئیں۔ اسی طرح لاکھوں اور کروڑوں چیزیں ہیں جن کی انسان خواہش کرتا ہے اور خصوصاً ایسی چیزوں کی جن کی نسبت اسے خیال ہوتا ہے کہ ان کے ملنے میں مشکلات ہیں۔ حتیٰ کہ ہر انسان دوسرے انسان کی کیفیت کو جو کہ اس پر مخفی ہوتی ہے حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے۔ امراء خیال کرتے ہیں غریب بڑے مزے میں ہیں انہیں کسی قسم کا غم و فکر نہیں نہ انہیں چور کا ڈر ہے نہ ڈاکے کا خوف اور نہ گورنمنٹ کے ٹیکسوں سے ہراساں۔ پھر ان کی صحتیں کیسی اچھی ہوتی ہیں۔ کیسے محنتی اور مضبوط ہوتے ہیں یہ لوگ اپنے گھروں میں خوش رہتے ہیں لیکن اگر غریبوں سے پوچھو تو وہ کہیں گے ہماری بھی کوئی زندگی ہے جیسے جانور ہیں ویسے ہی ہم ہیں بلکہ جانوروں کا بھی ان کے مالک کچھ نہ کچھ خیال کرتے ہیں مگر ہمیں تو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ زندگی ہےتو امیروں کی ہر وقت ان کی خدمت کے لیے نوکر چاکر حاضر رہتے ہیں۔ سارا دن آرام سے گزارتے ہیں اور جس چیز کو دل چاہا حاصل کر لیتے ہیں۔ غرض امیر کے دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ غریب کی حالت مجھ سے بہتر ہے اور غریب کہتا ہے امیر مجھ سے اچھا ہے۔ یہ دونوں اپنی جگہ ایک دوسرے پر رشک کرتے اور حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ غرض جو چیز انسان کو نہ ملی ہو اور اسے امید ہو کہ وہ مل سکتی ہے اس کی ضرور خواہش کرتا ہے۔ جب ہر چیز حتیٰ کہ ادنیٰ چیزوں کی خواہش بھی انسان کے دل میں پائی جاتی ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص خدا پر ایمان لائے اور اس کے دل میں کبھی یہ تڑپ پیدا نہ ہو کہ میرا خدا مجھے مل جائے۔ شاعر جسے انسانوں کی ذہنیت کے باریک احساسات کے سمجھنے کا فخر حاصل ہوتا ہے اور جس کی نسبت لوگوں کو بھی یقین ہوتا ہے کہ وہ انسان کے باریک در باریک احساسات محسوس کرتا ہے۔ وہ کبھی انتہائی جوش میں ایک جنگلی ہرن کو دیکھتا اور اس پر رشک کرتا ہے، کبھی اُڑنے والی چڑیوں کو دیکھتا اور ان کو اپنے سے بہتر قرار دیتا ہے، کبھی پھول کو مخاطب کرتا اور اسے کہتا ہے تو کیسے آرام میں ہے، پھر کبھی تیتریوں کو دیکھ کر ان سے باتیں کرنے لگ جاتا اور کہتا ہے تم مجھ سے اچھی ہو۔ غرض انسانی دماغ کی کھلی کتاب کو پڑھنے والا شاعر تیتریوں، بلبلوں، کوئلوں، پھول کی پنکھڑیوں اور گھاس کی پتیوں پر نظر ڈال کر اپنے آپ کو ان سے ادنیٰ قرار دیتا اور ان پر رشک کرتا ہے۔ جب اشرف المخلوقات انسان ان چیزوں پر رشک کرتا ہے تو کیونکر ممکن ہے ایک انسان خدا پر ایمان لائے اور اس کے دل میں اس کے ملنے کی خواہش نہ پیدا ہو۔ اگر گھاس کی پتی اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکتی ہے، اگر ہرن کا کلیلیں بھرنا اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے اگر بلبل کا نغمہ اس کی توجہ کو کھینچ سکتا ہے، اگر کوئل کی کُوکُو اس کی توجہ کو کھینچ سکتی ہے، اگر نسیم کے جھونکے اس کی توجہ کو کھینچ سکتے ہیں تو خدائے واحد اس کی توجہ کو کیوں کھینچ نہیں سکتا اور کیوں اس کے دل میں ایک حسرت انگیز خواہش پیدا نہیں ہوگی کہ کاش میں خدا سے ملوں۔پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ خواہش انسان کے دل میں ضرور پیدا ہوتی ہے۔ مگر جہاں انسان کے اندر یہ ایک مرض ہے کہ وہ ہر چیز کی خواہش کرتا ہے وہاں اس کے اندر ایک یہ بھی مرض پایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے کی برتری کو قبول نہیں کرتا۔ وہ ہمیشہ سمجھتا ہے جو کچھ میں جانتا ہوں وہ دوسرا نہیں جانتا۔ بڑے سے بڑا عقل مند جس نے اپنی زندگی ایک کام کے سمجھنے اور اس کی عمیق تہہ تک پہنچنے میں مصروف کردی ہو جس وقت اپنا تجربہ بیان کر رہا ہو گا چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی اس پر اعتراض کر دے گا اور کہے گا۔ یوں نہیں بلکہ یوں ہے۔ یہ خواہش بھی اگرچہ بری نہیں مگر ہر جگہ اس کا استعمال برا ہوتا ہے۔ یہ خواہش ہر انسان میں خدا نے اس لیے پیدا کی ہے کہ تا بندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسرا واسطہ نہ ہو۔ وہ چاہتا ہے میں خود انسان کا معلّم بنوں۔ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا(البقرۃ:۳۲) اس نے سارے اسماء آدم کو خود سکھائے۔ پس وہ ذات جس نے آدم کو تمام اسماء سکھائے کوئی وجہ نہیں کہ آدم کی اولاد کو وہ نہ سکھائے۔اَلرَّحۡمٰنُ۔ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ۔ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ۔ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ۔ (الرحمٰن: ۲تا ۵) خدا ہی انسان کو بیان سکھاتا ہے اور تمام تشریحات و توضیحات خدا ہی کی طرف سے آتی اور وہی انسان کی رہبری کرتی ہیں۔ پس اپنی معرفت کا علم اللہ تعالیٰ خود سکھاتا ہے۔ چنانچہ ہر چیز کے اندر اس نے اپنے علوم نقش کر دیے ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ (العلق:۵) کوئی چیز ایسی نہیں جس کے اندر اس نے اپنے روحانی علوم نقش نہ کر دیئے ہوں۔ کیونکہ وہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے خدا تک فلاں بندے نے پہنچایا۔ پس چونکہ یہ بات خدا برداشت نہیں کرتا اس لیے ہر انسان کی طرف وہ اپنا ہاتھ خود بڑھاتا ہے اور اسے خود اپنے حضور درجات عطا کرتا ہے۔ پس انسان کو دوسرے انسان سے مستغنی اور آزاد کرنے کے لئے ہر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش رکھی ہے کہ وہ کہتا ہے مجھے دوسروں سے سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ میں خود براہ راست سیکھوں گا مگر بعض لوگ اس کے غلط معنے سمجھ لیتے ہیں اور وہ بغیر سیکھے کے اپنے آپ کو سیکھا ہوا سمجھ لیتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو سیکھا ہوا سمجھ لینا صحیح نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو یہ تو حق دیا ہے کہ وہ سیکھ کر اپنے آپ کو دوسرے سے مستغنی سمجھے۔ مگر یہ حق نہیں دیا کہ وہ بغیر سیکھے اپنے آپ کو سیکھا ہوا سمجھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ (بنی اسرائیل: ۳۷) جس چیز کا تمہیں علم نہیں وہ بات مت کہو۔ مگر باوجود اس کے کہ دنیا کے ابتدائی دور میں جو رسول آیا اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌکا حکم دیا۔ یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعے فرمایا کہ جس بات کا علم نہ ہو مت کہو۔ مگر اب تک انسان نے اس عادت کو نہیں بدلا۔ اب بھی وہ یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو تحقیر سے نظر انداز کردوں۔ پس نقص یہ ہے کہ انسان راہنمائی کا محتاج ہوتے ہوئے دوسروں کی راہنمائی قبول نہیں کرتے۔ جب رسول کریمﷺ کی معرفت الله تعالیٰ نے فرمایا۔ میرا بندہ ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ میں اس کا ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہوں تو اس کا مطلب یہی تھا کہ میں اس بندے کا ہاتھ اپنے دوسرے بندوں کی طرف بڑھاتا ہوں اور وہ میرا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ(الفتح: ۱۱) جو لوگ محمدﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ دراصل خدا کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جس شخص کو محمد ﷺ کے ذریعے ہدایت حاصل ہوئی اسے آپﷺ نے ہدایت دی بلکہ اسے دراصل خدا نے خود ہدایت دی کیونکہ آپﷺ کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے اور چونکہ خدا کا ہاتھ مادی ہاتھ نہیں اس لیے وہ اپنے بندوں میں سے کسی بندے کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ ضرور قرار دیتا ہے۔ اور چونکہ خدا کی زبان مادی زبان نہیں اس لیے وہ کسی بندے کی زبان کو اپنی زبان قرار دیتا ہے۔ اور چونکہ اس کے پاؤں مادی پاؤں نہیں اس لیے وہ اپنے کسی بندے کے پاؤں کو اپنا پاؤں قرار دیتا ہے۔ پس جب وہ بندے جن کے ہاتھ کو خدا اپنا ہاتھ، جن کے پاؤں کو خدا اپنا پاؤں اور جن کی زبان کو خدا اپنی زبان قرار دیتا ہے کسی کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ خود نہیں دیکھتے بلکہ خدا دیکھتا ہے۔ اور جب وہ کسی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو دراصل خدا اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا رہا ہوتا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں بندے کے ذریعے مجھے ہدایت دی بلکہ ہدایت دینے والا خدا ہی ہوتا ہے۔ پس یہ خواہش جو انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے کہ میرا خدا مجھے مل جائے اگر اس کے نتیجہ میں وہ صحیح طور پر ان ہاتھوں کو پکڑے جو خدا کی طرف سے اس کی طرف بڑھتے ہیں اور اس زبان سے نکلی ہوئی باتوں کو مان لے جو خدا کے حکم کے ماتحت چلتی ہے تو یقیناً وہ ہدایت حاصل کرلے اور خدا کو بھی پالے۔ مگر بندہ بجائے اس کے کہ ان ہاتھوں کو پکڑلے اور اس زبان سے نکلی ہوئی باتوں کو مانے محض ایک حسرت اپنے دل میں پیدا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کاش مجھے خدامل جائے۔ ہر شخص جو خدا کو مانتا ہے اس کی زندگی کے حالات پر اگر نظر کی جائے۔ بارہا تو اس کے دل میں یہ خواہش اٹھتی معلوم ہو گی کہ کاش مجھے خدا مل جائے۔ ہندو، عیسائی، سکھ غرض کسی مذہب کا انسان ہو اگر اس کے تمام حالات زندگی کی ایک کتاب لکھی ہوئی ہو تو اس کے پڑھنے سے نظر آجائے کہ ہر ایسے شخص کے دل میں جو خدا کا ماننے والا ہو بسا اوقات یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش مجھے خدا مل جاتا۔ مگر پھر کتنے لوگ ہیں جنہیں خدا مل جاتا ہے۔ آخر تو خدا کو سارے ہی مل جائیں گے۔ جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔ وَادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔(الفجر: ۳۰، ۳۱)جو میرے بندوں میں داخل ہوا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اور جبکہ سب کو خدا نے اپنا بندہ ہی قرار دیا ہے تو آخر کا ر سب بندے جنت میں داخل ہو جائیں گے اور اس طرح انہیں خدا مل جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ مرنے سے پہلے کتنے لوگ ہیں جنہیں خدا مل جاتا ہے۔ مختلف زمانوں میں ایسے لوگوں کی مختلف نسبتیں رہی ہیں۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ خدا کو ملنے والے بہ نسبت ان لوگوں کے جنہیں خدا کا قرب حاصل نہیں ہو تا ہمیشہ کم ہوتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں خدا سے ملنے کا سچا ارادہ پیدا نہیں ہوتا۔ وہ خیال جو ان کے دلوں میں خدا سے ملنے کا پیدا ہوتا ہے بطور حسرت کے پیدا ہوتا ہے بطور ارادہ کے پیدا نہیں ہوتا۔ تم اپنے دلوں کو ٹٹولو اور سوچو کہ کیا خدا سے ملنے کا تمہارے دلوں میں اس طرح خیال پیدا ہوتا ہے کہ آج سے ہم خدا کو حاصل کرکے رہیں گے۔ یا یوں پیدا ہوتا ہے کہ تم کہتے ہو۔ ہائے خدا مجھے مل جائے۔ ہائے خدا مجھے مل جائے۔ یہ کہنا کہ ہائے خدا مجھے مل جائے یہ ارادہ نہیں بلکہ حسرت ہے اور حسرت بطور عذاب کے ہوتی ہے بطور رہنما کے کام نہیں کرتی۔ پس ایسے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے ملنے کی خواہش بطور ارادہ کے پیدا نہیں ہوئی ہوتی بلکہ حسرت کے رنگ میں پیدا ہوتی ہے اور حسرت ہمیشہ ماضی کے متعلق ہوا کرتی ہے۔ اگر ہم کسی سے ملنا چاہیں اور وہ ہمیں اب تک نہ ملا ہو تو وہ شخص مستقبل میں ہمیں مل سکتا ہے اور آج اگر حاصل نہیں تو آنے والے کل میں حاصل ہو سکتا ہے۔ مگر آنے والے کل کے متعلق ہمارے دل میں حسرت پیدا نہیں ہو گی بلکہ ملنے کا ارادہ پیدا ہوگا۔ مگر ہمارا یہ کہنا کہ کاش مجھے فلاں مل جاتا۔ یہ چونکہ گذشتہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اس لیے یہ ارادہ کے رنگ میں نہیں بلکہ حسرت کے رنگ میں دل میں خیال اٹھتا ہے وگرنہ اگر یہ یقین ہو کہ وہ اب بھی مل سکتا ہے تو حسرت کی کیا ضرورت ہے۔ انسان کہے گا آج اگر فلاں شخص نہیں ملا تو نہ سہی کل مل جائے گا۔ پس لوگوں کے دلوں میں خدا سے ملنے کی خواہش تو ہوتی ہے مگر وہ حسرت کے رنگ میں ہوتی ہے۔ ارادہ کے رنگ میں نہیں ہوتی۔ اگر ارادے کے ساتھ ایسی خواہش انکے دل میں پیدا ہوتی تو یقیناً اس کے لیے وہ تیاری اور کوشش بھی کرتے۔ ایک شخص جو یہ کہتا ہے کل میری فلاں چیز ضائع ہو گئی وہ اس کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتا کیونکہ جانتا ہے کہ وہ چیز اب مجھے نہیں مل سکتی۔ ہاں اس کی حسرت پیدا ہوتی ہے۔ یا اسی طرح جو لوگ اپنے فوت شدہ والدین کو یاد کرتے ہیں وہ ان سے ملنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ جانتے ہیں وہ نہیں مل سکتے۔ اسی وجہ سے ان کا کام حسرت اور افسوس کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جس کے ہاں اولاد نہ ہو چونکہ اسے امید ہوتی ہے کہ بچہ پیدا ہو جائے اس لیے وہ خود دعائیں کرتا اور دوسروں سے کراتا ہے نیز علاج معالجہ بھی کرتا ہے۔ تو مستقبل کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور ماضی کے متعلق حسرت ہوتی ہے۔ اگر اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے لوگ بجائے یہ حسرت پیدا کرنے کے کہ کاش خدا مل جاتا ارادہ کریں کہ ہم خدا کو مل کر رہیں گے اور اس کے لیے کوشش اور سعی کریں تو انہیں ضرور خدا مل جائے۔ کیونکہ انہیں خیال پیدا ہو گا کہ جب ہم خدا سے ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لیے تیاری بھی کرنی چاہئے۔ اور جب وہ اس پر غور کرتے تو انہیں کچھ نہ کچھ باتیں اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے ضرور سوجھ جاتیں۔ اور جب انسان ارادہ کرکے اپنا ایک قدم اٹھاتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ دوسرا قدم اٹھانے کی بھی توفیق دے دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ قدم اٹھاتے اٹھاتے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا مقام ہے۔ پس میں ان لوگوں کو جو خداتعالیٰ سے ملنے کی آرزو رکھتے ہوں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دلوں سے حسرت نکال دو۔ اگر حسرتوں میں ہی مبتلاء رہے تو خدا چھوڑ اس کہ فرشتے بھی نہیں مل سکیں گے بلکہ فرشتے چھوڑ ان کے آثار بھی تمہیں دکھائی نہیں دے سکیں گے۔ خدا سے ملنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ بجائے افسوس کرنے کے کہ ہائے ہمیں خدا نہیں ملا ارادہ کرو کہ ہم ضرور خدا تعالیٰ سے مل کررہیں گے۔ پھر دیکھ لو چند ہی دنوں کے اندر اندر کس طرح تمہارے نفس کے اندر تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ خود بخود دل ایسی تدبیریں سوجھائے گا جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے لیے ضروری ہوں گی۔ خود بخود وہ امنگ اور ہمت پیدا کرے گا اور محنت سے کام کرنے کا جوش پیدا ہو گا۔ پھر اس کے نتیجہ میں انسان ایسے مقام تک پہنچ سکتا ہے جو اس کی زندگی کا مقصد ہے۔ مگر جب تک حسرتوں میں مبتلاء رہو گے اس وقت تک کبھی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ حسرت سوائے انسانی ہمت کو پست کرنے اور اس کے استقلال کو کمزور کرنے کے اور کسی کام نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حسرتیں ہم منافق کے دل میں پیدا کیا کرتے ہیں۔ مومن کے دل میں حسرت پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے متعلق تو فرمایا لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرۃ: ۳۹) اس کے دل پر خوف اور حزن طاری ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر اسکے ہاتھ سے کوئی چیز ضائع ہو جائے تو وہ کہتا ہے ماضی میرے ہاتھ سے نکل گیا اب مجھے مستقبل کے درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ ہزاروں مواقع جو انسان حسرتوں میں گزار دیتا ہے اگر بجائے ان کے بیسیوں منٹ بھی ارادوں میں صرف کر دے تو اس کی حالت میں عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو جائے اور وہ کہیں کا کہیں پہنچ جائے۔ مگر انسان اپنی زندگی کی قیمتی گھڑیوں کو محض حسرتوں میں گزار کر اپنے ارادے کو کمزور اپنی ہمت کو پست اور اپنے استقلال کو ضعیف کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے ملنے کا اپنے دل میں ارادہ پیدا کرو اور یاد رکھو حسرتیں اپنے دل میں کبھی نہ آنے دو کیونکہ یہ منافقت کی علامت ہوتی ہے۔ لیکن حسرت سے میری مراد وہ حسرت ہے جو ناکامی پر ہوتی ہے۔ ایک حسرت خواہش کے رنگ میں پیدا ہوتی ہے۔ انسان کہتا ہے کاش فلاں تبدیلی ہو جائے۔ یہ حسرت بری نہیں بلکہ اچھی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے۔ یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ۔(یٰسین: ۳۱) یہ حسرت ماضی پر غم کرنے کے لیے نہیں بلکہ موجودہ لوگوں کی انگیخت اور ان میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت مخالفت کرنے والے کیوں تباہ ہوئے۔ بلکہ یہ ہے کہ محمد ﷺ کے زمانہ کے لوگ عذاب الہٰی سے بچ جائیں۔ پس اس حسرت کے حال یا استقبال پر کوئی ناگوار اثر نہیں پڑتا۔ اور جو اس نیت کے ساتھ حسرت ہو کہ کاش لوگ دین کی طرف متوجہ ہوں۔ وہ ہمت کو بڑھانے والی ہوتی ہے نہ کہ پست کرنے والی۔ ان دونوں قسم کی حسرتوں کے اگر چہ الفاظ مشترک ہیں مگر ان کے معنوں میں اختلاف ہے۔ بعض دفعہ ایک ہی لفظ ہوتا ہے مگر معانی کے اختلاف کی وجہ سے مفہوم بالکل بدل جاتا ہے۔ مثلاً درد کا لفظ ہے۔ ایک شخص کہتا ہے میرے دل میں قوم کا درد ہے مگر دوسرا کہہ رہا ہوتا ہے کہ آج میرے پیٹ میں درد ہے۔ اب کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو ان دونوں دردوں کا ایک ہی مفہوم لے بلکہ وہ شخص جو یہ کہے کہ میرے دل میں قوم کا درد ہے۔ ہمارے دلوں میں اس کے متعلق ادب اور احترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جو شخص یہ کہے کہ میرے پیٹ میں درد ہے اس کے متعلق ہمارے دلوں میں رحم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ پس اگرچہ حروف کے لحاظ سے درد کا لفظ ایک ہی ہے مگر ایک درد کے ماتحت ہم ایک کی عزت کرتے ہیں اور اس کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور دوسرے کی حالت پر رحم کرتے ہیں۔ قومی درد والے کے ہم محتاج ہوتے ہیں۔ مگر پیٹ کے درد والا ہمارا محتاج ہوتا ہے۔ پس ایسی حسرت جو ماضی پر ہو وہ بری ہوتی ہے لیکن جو تحریک پیدا کرنے کے لیے ہو وہ نہ صرف اچھی ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکت کے نزول کی موجب بنتی ہے۔ غرض ترقی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی زندگی کے ایام حسرتوں میں نہ گذر جائیں کیونکہ حسرتیں کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ ارادوں اور ان کی تکمیل میں گزاریں۔ کیونکہ وہ جو ارادے کرتے ہیں، وہی آگے کی طرف اپنا قدم بڑھایا کرتے ہیں۔ ( الفضل ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۱ء ) مزید پڑھیں: سچ اور جھوٹ کے پرکھنے کا معیار