اللہ تعالیٰ کا ایک نام اَلسَّلَام ہے۔ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے اس لفظِ سَلَام کو مختلف پیرایوں میں استعمال فرمایا ہے۔ اپنی صفت کے حوالے سے بھی بیان فرمایا ہے اور مومنوں کو اس صفت کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بھی فرمایا ہے۔ اس کے معانی مختلف مفسرین اور اہل لغت نے کئے ہیں، تفسیر الطبری میں علامہ ابو جعفر محمد کہتے ہیں کہ اَلسَّلَام وہ ذات ہے جس کی مخلوق اس کے ظلم سے محفوظ رہے۔ پھر ابوالحسن الترمذی کے نزدیک اَلسَّلَام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اَلسَّلَام اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہر نقص، عیب اور فنا سے سلامت ہے۔ جبکہ بعض دوسرے علماء کے نزدیک وجہ تسمیہ یہ ہے یعنی اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان آفتوں سے سلامت ہے جو دوسروں کو تغیر اور فنا وغیرہ کی پہنچتی رہتی ہیں۔ نیز یہ کہ وہ ایسا باقی رہنے والا دائمی وجود ہے کہ تمام مخلوقات فنا ہو جائیں گی مگر اس پر فنا نہیں۔ وہ ہر ایک چیزپر دائمی قدرت رکھنے والا ہے۔ پھر تفسیر رُوح البیان میں لکھا ہے اَلسَّلَام ہر قسم کی آفت اور نقص سے محفوظ ہے، تمام تر نقائص سے پاک ہونے کی وجہ سے اور سلامتی عطا کرنے میں بڑھا ہوا ہونے کی وجہ سے اُسے اَلسَّلَام کہا گیا ہے۔ اور اَنْتَ السَّلَام حدیث میں آتا ہے، (ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما یقول اذا سلم من الصلوٰۃ حدیث:300) نماز کے بعدجو دعا پڑھتے ہیں اس میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تُو وہ ذات ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہے اور ہر قسم کے نقص اور کمی سے مبرّا ہے۔ اور حدیث میں جو یہ ہے کہ مِنْکَ السَّلَام تو اس سے مراد یہ ہے کہ تُو وہ ذات ہے جو ایک بے کس شخص کو ناپسندیدہ اور تکلیف دِہ امور سے محفوظ کرتی ہے اور دونوں جہانوں کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے چھٹکار ادلاتی ہے اور تُو وہ ذات ہے جو ایمان لانے والوں کے گناہوں اور عیوب کی پردہ پوشی کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ قیامت والے دن کی رسوائی سے سلامتی میں ہوں گے۔ یہ لکھتے ہیں کہ مِنْکَ السَّلَام کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں مومنوں پر سلامتی کا تحفہ عطا کرتاہے۔ جیسا کہ فرمایا سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْم یعنی ان کو سلام کہا جائے گا جو بار بار کرم کرنے والے ربّ کی طرف سے ان کے لئے پیغام ہو گا۔ تو اس لفظ سَلَام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مکمل حفاظت کا پیغام اور وعدہ دے دیا ہے۔ اُس خدا کی طرف سے جو رحم کرنے والا خدا ہے اور بار باررحم کرنے والا خداہے۔ یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے لیکن ایک عظیم پیغام اپنے اندر رکھتی ہے کہ اس سلامتی کے تحفے کو حاصل کرنے کے لئے، اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بننے کے لئے اور اگلے جہان میں بھی اس سے فیض پانے کے لئے تم بھی اپنے اندر، آپس میں، یہ روح پیدا کرو۔ آپس کے تعلقات میں یہ روح پیدا کرو۔ ایک دوسرے کو سلامتی بھیجو تو یہ تحفہ تمہیں ملتا رہے گا۔ پھر اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپس کی سلامتی کے تحفے سے جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرکے جنت میں جگہ پاؤ گے وہاں اس دنیا میں بھی سلامتی کی وجہ سے اپنے روح و دماغ کو بھی امن میں رکھو گے اور تمہارے لئے، اپنی ذات کے لئے بھی اور اپنے ماحول کے لئے بھی مکمل خوشی پہنچانے والی چیز ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا بھی یہ ایک عظیم راستہ ہے۔ (خطبہ جمعہ ۱۱؍مئی ۲۰۰۷ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ یکم تا ۷جون ۲۰۰۷ء صفحہ۵تا۸) مزید پڑھیں: خدا تعالیٰ کی صفت قدوس