https://youtu.be/Hqmtos81bmY اگر آپ نے اپنی نسلوں کو سنبھالنا ہے…تو اس عہد کو پورا کرنا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے والی ہیں ٭… اگر عورتوں میں مذہب کی تعلیم ہو گی اور دین کے مطابق عمل کرنے والی ہوں گی تو اگلی نسل میں بھی دین رائج ہو گا اور اُنہیں مذہب سے دلچسپی پیدا ہو گی ٭…آپ وہ مائیں ہیں، جنہوں نے اگلی نسلوں کو یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو گے تو پھر ہی کامیابیاں بھی حاصل کر سکو گے ٭…اگر ہم بنیادی چیز سمجھ لیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے، ہم نے تقویٰ پر چلنا ہےاور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا معیار حاصل کرنا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ ہم پر فضل بھی فرمائے گا ٭…جلسہ گاہ Mendig جرمنی اور ایوان مسرور اسلام آباد میں کُل ملا کر ۱۸؍ ہزار سے زائد خواتین کی شمولیت امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۵ء کے موقع پر مستورات سے بصیرت افروز خطاب کا خلاصہ (۳۰؍اگست۲۰۲۵ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج جماعت احمدیہ جرمنی کے انچاسویں جلسہ سالانہ کا دوسرا روز ہے۔ اس روز حسب روایت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مستورات سے خطاب فرماتے ہیں۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ حضورِانور اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے جلسہ سالانہ میں شمولیت فرما رہے ہیں اسی مناسبت سے یہاں سے حضور انور کے جلسہ سالانہ جرمنی پر براہ راست خطابات کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔ چنانچہ ایوانِ مسرور اسلام آباد میں اجلاس مستورات میں شمولیت کے لیے خواتین کے بیٹھنے کا انتظام تھا اور یہیں کے سٹیج سے حضور انور نے خطاب فرمایا۔ تمام کارروائی کے دوران ایم ٹی اے پر ساتھ ساتھ جرمنی سے مردانہ جلسہ گاہ کے مناظر بھی دکھائے جارہے تھے۔ علاوہ ازیں حضورِانور کے سامنے جو سکرین موجود تھی اس میں جرمنی کا جلسہ گاہ مستورات دکھایا جا رہا تھا۔ برطانیہ کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب حضورِانور ایوانِ مسرور میں رونق افروز ہوئے۔ اس موقع پر جلسہ گاہ مستورات سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے گئے۔ حضور انور کرسیٔ صدارت پر تشریف لائے اور تمام حاضرین کو ‘السلام علیکم ورحمۃ اللہ’ کا تحفہ عنایت فرمایا اور بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔ جرمنی سے مواصلاتی رابطہ قائم ہوجانے کی تسلی کرلینے کے بعد حضور انور نے اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز فرمایا۔ جلسہ گاہ مستورات جرمنی سے آصفہ وسیم جاوید صاحبہ نے سورۃ التغابن کی بارہ تا انیس آيات کی تلاوت پیش کی اور سمیعہ انجم وڑائچ صاحبہ نے تفسیر صغیر سے ان آیات کا ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بعد ازاں در ثمین سے منظوم اردو کلام ‘‘وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا‘‘ انیقہ شاکر باجوہ صاحبہ نے خوش الحانی سے پيش کيا۔ سیکرٹری صاحبہ امور طالبات لجنہ اماء اللہ جرمنی نے تعليمی ميدان ميں نماياں کاميابی حاصل کرنے والی طالبات کے نام پڑھ کر سنائے۔ تعلیمی اعزاز پانے والی طالبات کے نام پی ایچ ڈی:ڈاکٹر نگہت احمد، ڈاکٹر Quynh Chi Le ، ڈاکٹر مرینہ خان، ڈاکٹر باریہ الطاف قدیر، ڈاکٹر مدیحہ ملک، ڈاکٹر شائستہ عندلیب State Examination:ریم انا احمد، انیلہ راحت علی، بشریٰ عباسی، Sera Varli، امة الباری بھٹی، شارفہ امین، ناجیہ نعیم الدین، مریم حنا انور، راحیلہ ناصر، تحریم احمد، عرفہ اقبال، سحر شہزادی دلشاد، مریم حرا، سلمیٰ مبارکہ گورایہ، انعم طاہر، ڈاکٹر مرینہ خان ماسٹرز:فریحہ سعادت احمد، سیدہ جاذبہ شاہ، عائشہ احمد، عروسہ فیضان، ہبہ پاک ترک، ماہا احمد خان، عائشہ احمد، سجیلہ محمود، عائشہ ملیحہ چودھری، سارہ احمد شکور، سونیہ سمرین احمد، ثوبیہ عبداللہ رشید، رامین خان، تنزیلہ خالد، اقصیٰ بھٹی، ماہرہ نصیر بٹ، ماہم ایاز، امة اللہ چیمہ، فرح مبین ملک بیچلرز:عائشہ صبیحہ، عائشہ چودھری ،حمنہ حفیظ اعوان، انیشہ خان، انیلا اقبال بٹ، ماہ رخ بٹ، سامیہ چیمہ، زمرین بٹ، جویریہ شاہ کپی، طیبہ ظفر، عروج ثاقب، سونیا بلال کھوکھر، منیبہ کاہلوں، طوبیٰ احمد، دردانہ رانا، تحریم زاہد، عائشہ امامہ احمد، عروج احمد، سلمیٰ محمود، ثمن خواجہ، ماہم احمد، طوبیٰ خان، ماہم ایاز آبیٹور:کومل زمان، دانیہ احمد، لبیبہ ظہور احمد، سُوہا اصغر، فاطمہ شہزاد، سبیکہ احمد، ہالہ احمد، تہمینہ جاوید، فریحہ چیمہ، صباحت نور، امینہ اصغر، سمرن نوال احمد، عروج تنویر، ایمن رویا وِرک دیگر ممالک سے تعلیم مکمل کرنے والی طالبات:اِرسا اعجاز، میمونه خان، مہ جبین اظہر، تنزیلہ کنول، ہالہ سہیل مقامی وقت کے مطابق ٹھیک بارہ بجے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ منبر پر رونق افروز ہوئے اور خطاب کا آغاز فرمایا۔ خلاصہ خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمايا کہ آج آپ یہاں جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت کے لیے جمع ہوئی ہیں۔ اِس وقت مَیں دیکھ رہا ہوں کہ کئی ہزار کی تعداد میں عورتیں وہاں بیٹھی ہیں۔ ہر احمدی عورت کا ایک مقصد ہے اور ہونا بھی چاہیے، جس کا آپ عہد کرتی ہیں اور ہر مرد بھی عہد کرتا ہے کہ اُس نے دین کو دنیا پر مقدّم رکھنا ہے۔ پس دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ نے جو ہدایات دی ہیں، جو دین ہمیں سکھایا ہے، اُس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے دین کا علم حاصل کر کےاپنی زندگی کا حصّہ بنائیں۔ کسی بھی معاشرے یا قوم کی ترقی کا دارومدار زیادہ تر اُس قوم کی عورتوں پر ہوتا ہے، کیونکہ عورتوں کی تعداد عموماً مردوں سے زیادہ ہوتی ہے اور اِس لحاظ سے اِن کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔اگر عورتوں کے معیار بلند ہوں گے تو نئی نسل زیادہ بہتر طور پر پروان چڑھنے والی ہو گی اور اپنی قوم کی روایات اور علم کو سیکھ کر اُس پر عمل کرنے والی ہو گی۔ یہی حال دین کے معاملے کا ہے۔ اگر عورتوں میں مذہب کی تعلیم ہو گی اور دین کے مطابق عمل کرنے والی ہوں گی تو اگلی نسل میں بھی دین رائج ہو گا اور اُنہیں مذہب سے دلچسپی پیدا ہو گی۔ اس لیے اسلام نے عورت کو ایک خاص مقام دیا ہے اور اُسے ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے۔ اِس بارے میں مَیں اکثر بتاتا رہتا ہوں، لیکن جو توجہ ہونی چاہیے، وہ نہیں ہو رہی۔ حضور انور نے فرمایا کہ مَیں مردوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ عورتوں کے حقوق ادا کریں اور اُنہیں دین سکھائیں۔ اور عورتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دین کا علم حاصل کریں اور اپنی اگلی نسلوں کی حفاظت کریں۔ اِس احساسِ کمتری میں نہ رہیں کہ اسلام نے آپ کو کوئی کمتر مقام دیا ہے، بلکہ اسلام نے آپ کو ایک بڑی حیثیت دی ہے۔ ماں کی حیثیت سے اِس کا ایک مقام ہے۔ بہن کی حیثیت سے اِس کا ایک مقام ہے۔ اور بیوی کی حیثیت سے اِس کا ایک مقام ہے اور مردوں کو اللہ تعالیٰ نے عموماً یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وَعَاشِرُوۡھُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ یعنی عورتوں کا ایک مقام ہے، اِس لیے اُس کی قدر کرو اور بلاوجہ بہانے بنا کر اُسے کسی طرح کا نقصان پہنچانے یا جذباتی تکلیف پہنچانے کی کوشش نہ کرو، اُس سے حُسنِ سلوک کرو۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ تم لوگ سمجھتے ہو کہ تم صحیح ہو اور بعض معاملات میں عورتوں کو غلط سمجھتے ہو اور اِس وجہ سے اُسے سزا دینے یا اُن سے علیحدگی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہو، لیکن اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اگر تم کسی چیز کو ناپسند بھی کرو تو عین ممکن ہے کہ وہ تمہارے فائدے کے لیے ہو اور اللہ تعالیٰ اُس میں بھلائی رکھ دے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر مردوں کو اُن کے مقام کی وجہ سے فرمایا ہے کہ صرف تمہارے ہی جذبات نہیں ہیں، بلکہ عورتوں کے بھی جذبات ہیں، اُن کا خیال رکھا کرو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے ، میرے پاس کئی ایسے معاملات آتے ہیں، جن میں مرد کے ظلم کی وجہ سے ، جبکہ عورت اطاعت اور فرمانبرداری دکھانے والی بھی ہو ، مرد اپنی خواہشات کی تکمیل یا اپنی اَنا کی خاطر بعض دفعہ زیادتی کر جاتا ہے۔ اِس کی وجہ سے پھر اولاد پر بُرا اثر پڑتا ہے اور عورت پر ظلم و زیادتی کی وجہ سے اولاد اپنے باپ کے خلاف ہو جاتی ہے۔ پھر ایسے باپ شکایت کرتے ہیں کہ عورتوں کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے؟ حالانکہ پہلا قدم تو اُنہی نے خود اُٹھایا ہوتا ہے۔ اگر عورت نے غلطی کی بھی تھی ، تو مرد کا کام تھا کہ پیار اور آرام سے سمجھاتا، اُس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا، اور یہ خیال رکھتا کہ ہم نے آئندہ نسل کو سنبھالنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتوں کے جذبات کا خیال رکھو اور بلاوجہ اُن پر الزام تراشی کی کوشش نہ کرو۔ اِسی طرح یہ نہیں کہ سارا الزام صرف مردوں پر ہی آتا ہے، بعض عورتیں بھی ایسی ہیں، جو بلاوجہ شکوے شروع کر دیتی ہیں اور اپنے حقّ اور جذبات کا بہانہ بنا کر گھروں میں لڑائی ڈال رہی ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ مرد کی غلطی ہوتی ہے تو بعض دفعہ عورتوں کی بھی غلطی ہوتی ہے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں دونوں کو فرمایا کہ تم دونوں کے جذبات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اِس لیے رکھے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی قدر کرو۔ پس ایسی عورتوں کو بھی جو بلاوجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھر میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، یہ دیکھنا چاہیے کہ تقویٰ کیا ہے؟ اگر وہ دین کے عہد کو مقدّم رکھنے کی کوشش کرتی رہیں گی تو مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ اِسی طرح اگر مرد دین کو مقدّم کریں گے تو مسائل پیدا نہیں ہوں گے اور گھر میں ایک حسین اور پاک معاشرہ قائم ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں یعنی ایک دوسرے کے رازدار بھی ہیں۔اِس طرح خاوند بیوی کے اچھے تعلقات کی وجہ سے معاشرے میں بھی اِن کا مقام بنا رہتا ہے، کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لباس ہیں، ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھتے ہیں، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے بھی نمونہ قائم رکھتے ہیں اور معاشرے کے سامنے بھی ایک مثال قائم کرتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ پس یہاں خاوند اور بیوی دونوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور نہ مرد عورت کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے، نہ عورت مرد کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔ آجکل ہم دنیاداری میں پڑ کر اِن باتوں کو بھول رہے ہیں کہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو کس طرح نبھانا ہے۔ بعض اچھے بھلے پڑھے لکھے اور دین کا علم رکھنے والے لوگ بھی ایسے ہیں، جن کے گھر اِس لیے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں کہ نہ عورت میں صبر ہے اور نہ مرد میں ۔ دنیا کی طرف زیادہ توجہ ہو گئی ہے اور دین کی طرف کم۔ جب دین کی طرف توجہ کم ہو اور انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات کو یاد نہ رکھے، تو پھر ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ گھروں میں مسائل اور رشتوں میں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اِس سے صرف وہ خود ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ اولادیں بھی متاثر ہو رہی ہوتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے عورت و مرد دونوں کے حقوق و فرائض بتائے ہیں، ایک دوسرے کی ذمہ داریاں ہیں، اپنے گھر کی اور اپنی اولاد کی ذمہ داریاں ادا کرنا اُن کے فرائض میں شامل ہے۔ اولادوں کے بھی اِن پر حق ہیں، خاوندوں کے بھی اِن پر حق ہیں، بیویوں کے بھی خاوندوں پر حق ہیں۔ پس اِن باتوں کو سامنے رکھنا چاہیے اور جب ایسا ہو گا تو ایک خوبصورت اور حسین معاشرہ قائم ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کے خطبے میں بہت ساری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور بار بار یہ تلقین کی ہے کہ تقویٰ پر قائم رہو۔ اور جب تقویٰ پر قائم رہو گے، تو اِن باتوں پر عمل کر سکو گے، جن کا الله تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کا خیال رکھو۔ بہت سارے مسائل سامنے آتے ہیں۔ جب خاوند بیوی کو کہہ دیتا ہے کہ تم اپنے گھر والوں سے تعلق نہیں رکھو گی یا بیوی اِس بات پر ناراض ہو جاتی ہے کہ مَیں خاوند کے گھر والوں سے تعلق نہیں رکھوں گی، مجھے تعلق کا کیوں کہا جا رہا ہے؟ یہ ایسی چیزیں ہیں، جن سے الله تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، اِسی لیے نکاح کے شروع میں ہی فرما دیا کہ اگر تم لوگوں نے رشتے قائم کرنے ہیں تو رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو۔ اِسی طرح فرمایا کہ سچ پر قائم رہو، کیونکہ سچ پر قائم رہو گے، تو آپس کے تعلقات کو صحیح طور پر ادا کر سکو گے اور سچ پر قائم ہو کر ہی اپنی نسلوں کی تربیت بھی کر سکتے ہو۔ خاوند بیوی کے بہت سے جھگڑے اِس لیے ہو رہے ہوتے ہیں کہ وہ بے اعتمادی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک شکایت کر رہا ہوتا ہے کہ دوسرے کو سچ بولنے کی عادت نہیں ہے اور دوسرا بھی یہی شکایت کرتا ہے کہ اُسے سچ بولنے کی عادت نہیں ہے۔ مَیں باربار اِس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ اگر آپ نے اپنی نسلوں کو سنبھالنا ہے اور اپنی دنیا و آخرت کو سنبھالناہے، تو اس عہد کو پورا کرنا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے والے ہوں۔ دین کو مقدّم رکھنے والے تو وہی ہوتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں اور دونوں کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ احکامات پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں۔ حضور انور نے فرمایا کہ پس اس وقت مرد اور عورتیں، جو میری باتیں سن رہے ہیں، اِس بات کا خیال رکھیں کہ آپ نے دین کو مقدّم رکھنے کا عہد کیا ہے، تو پھر مرد اورعورت کے آپس کے جو بہت سارے معاملات ہوتے ہیں، اِن میں میانہ روی اختیار کرنی ہو گی، اَنا کو توڑنا ہو گا اور سچائی پر قائم رہنا ہوگا اور جب ایسا ہو گا تو پھر اگلی نسلیں بھی بچیں گی۔ لیکن اگر سچائی اور اعتماد نہیں ہو گا، تو نہ صرف آپ لوگوں کے اپنے تعلقات خراب ہوں گے، بلکہ بچوں کو بھی جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جائے گی اور پھر وہ معاشرے کا مفید حصّہ بننے کی بجائے ایک تکلیف دہ حصّہ بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے سے ہی تمہیں بڑی کامیابیاں مل سکتی ہیں۔ بڑی کامیابی کیاہے؟ مومن کی تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے کوئی بڑی کامیابی حاصل ہو اور مومن کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی یہی ہے اور ہونی چاہیے کہ الله تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے اور اُس کی جنّتوں کا حصول ہو۔ پس اللہ تعالیٰ کی جنّت کا حصول اُس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک اپنے اعمال پر نظر نہ ہو، حقوق اللہ بھی ادا کریں اور حقوق العباد بھی ادا کرنےکی کوشش کریں۔ اِس کے لیے تقویٰ ضروری ہے۔ تقویٰ کے بارے میں قرآنِ شریف نے بے شمار جگہ فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اِس بارے میں خاص طور پر بار بار نصیحت فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ دنیا کو مقصود بالذّات نہ بناؤ۔ تمہارا مقصد صرف دنیا کو حاصل کرنا نہ ہو، تمہارا مقصد صرف یہی نہ ہو کہ دنیا ہمیں مل جائے، بلکہ دین کو اپنا مقصد بناؤ۔ اور دنیا پھر اِس کے لیے خادم کے طور پر ہو گی، وہ تو پھر تمہارے پاس آ ہی جائے گی، جب یہ سوچ ہو گی تو پھر دیکھیں کہ آپ لوگوں کو ایک سکون اور اطمینان ہو گا۔ حضور انور نے فرمایا کہ اِن ملکوں میں آ کر، جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں، خواہشات بڑھ جاتی ہیں اور دنیا داروں کو دیکھ کر دنیاوی چیزوں کی طرف زیادہ رجحان ہو جاتا ہے۔ کسی کا اچھا گھر دیکھ لیا تو گھر کی لالچ پیدا ہو گئی، کسی کی اچھی کار دیکھ لی تو کار کی لالچ پیدا ہو گئی، کسی عورت کو زیور پہنے دیکھ لیا تو زیور کی لالچ پیدا ہو گئی۔ پس اِن باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہمیں اِن باتوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتؐ نے عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اَے عورتو! تم چاندی کے زیور کیوں نہیں بناتی؟ سنو! کبھی ایسی عورت جس نے سونے کے زیور بنائے اور وہ اُنہیں فخر کی خاطر عورتوں یا اجنبی مردوں کو دکھاتی پھرتی ہے، تو اِس عورت کو اِس کے فعل کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔ بڑا اِنذار ہے۔ بڑی ڈرانے والی بات ہے۔ پس اِس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری خواہشات، زیورات کی خواہشات اور مال کی خواہشات اِس لیے نہ ہوں کہ ہم اِن پر فخر کریں۔ جب ہم فخر کریں گے تو دین سے دُور ہٹ جائیں گے اور جب دین سے دُور ہٹ جائیں گے، تو پھر ہمارے یہاں جلسے کے لیے اکٹھے ہونے اور تقریریں سننے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا، کیونکہ پھر اِن باتوں کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہو گا اور ہمارے ذہنوں میں صرف یہ ہو گا کہ ہم نے یہاں اپنی بڑائی کا اظہار کرنا ہے۔ اور یہ بڑائی اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ پس اِس کے لیے بہت کوشش اور ایک مسلسل عمل کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اپنی بھی اصلاح کر سکیں اور اپنی نسلوں کی بھی اصلاح کر سکیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ پھر ایک دیندار عورت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کی عادت ڈالیں، اِن میں ایک روح پیدا کریں اور عاجزی سے اِنہیں ادا کرنے کی کوشش کریں اور جب عبادت پر توجہ قائم رہے گی، تو انسان مختلف قسم کی لغویات اور فضولیات اور فضول خیالات سے بچتا رہے گا۔ آجکل کے زمانے میں محض ٹی وی پر بیٹھ کر غلط قسم کے ڈرامے دیکھنا یا انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر لغو پروگراموں میں شامل ہونے سےذہن زہر آلود ہو جاتے ہیں۔ اور یہ زہر پھرانسان کے دماغ سے سارے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ اور ایک بُرائی سے دوسری بُرائی جنم لیتی چلی جاتی ہے۔ پس آجکل جبکہ دنیا میں ایسی حالت پیدا ہو چکی ہے کہ دنیا داری میں لوگ دین کو بھول چکے ہیں اور دنیاوی خواہشات ہی اُن کا مقصد بن گئی ہیں، ایسے حالات میں ہر احمدی عورت اور مرد کو کوشش کرنی چاہیے کہ اِن لغویات سے بچیں اور دین کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ کیونکہ آپ ہی وہ لوگ ہیں، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر کے، یہ عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدّم رکھیں گی اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پہنچائیں گی۔ پس اگر آپ نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانا ہے، تو سب سے پہلے اپنی اصلاح کی ضرورت ہے، اپنا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی ناجائز دنیاوی خواہشات کو دُور کرنا ضروری ہے۔ پس اِس بات پر ضرور غور کریں اور اِس کے لیے ایک عہد کریں کہ آپ نے آئندہ اپنی زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا کرنا ہے اور یہ انقلاب اِس لیے پیدا کرنا ہے کہ نہ صرف اپنی عاقبت سنوارنی ہے، بلکہ دنیا کو بھی راہِ راست پر لانا ہے۔آجکل دنیا تباہی کے کنارے کی طرف جا رہی ہے اور اِس تباہی سے وہی لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خُدائے ذوالعجائب سے پیار پس خدائے ذوالعجائب سے پیار رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ پہلے زمانے میں تو کہا جاتا تھا کہ عورتیں زیادہ باتیں کرتی ہیں، لیکن اب تو مردوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ غلط قسم کی باتوں کی مجلسوں میں بیٹھے رہتے ہیں، وقت ضائع کرتے ہیں اور لغویات میں مبتلا ہو کر بجائے عورتوں کی اصلاح کرنے کے خود بگڑتے چلے جا رہے ہیں اور پھر اِس کی وجہ سے بعض دفعہ تو یہ شکایت آتی ہے اور عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ مرد ہمیں کہتے ہیں کہ تم پردے چھوڑ دو، فُلاں مجالس میں آنا شروع کر دو یا ایسی سوسائٹی میں بیٹھو۔ تو اگر مردوں کا یہ حال ہے، تو پھر وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہمارا حقّ ہے کہ عورت ہماری فرمانبردار رہے، ایسے مردوں کی فرمانبردار عورت نہیں رہ سکتی۔ لیکن یہاں عورتوں کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ کس طرح اپنے خاوندوں کی اصلاح کر سکتی ہیں؟ کیونکہ اُنہوں نے اپنے گھر کو پُر امن بنا کر اپنے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانا ہے۔ بچوں کی خاطر قربانی کرتے ہوئے، مختلف طریقے اختیار کرکے، یہ کوشش کریں کہ کس طرح اپنے خاوندوں کی اصلاح کرنی ہے۔ پس اگر عورتیں اپنی ذمہ داریاں سمجھ لیں، تو وہ نہ صرف مردوں کی، بلکہ اپنی نسلوں کی بھی اصلاح کر رہی ہوں گی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ نسلوں کو بچانا بہت ضروری ہے، ورنہ پھر ایسی تباہی آئے گی، جس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ اِسی طرح عورتوں کو یہ بھی حکم ہے کہ زکوٰۃ دیں۔ عام طور پر جس طرح مردوں کو زکوٰۃ کا حکم ہے، عورتوں کو بھی ہے۔ عام طور پر عورتوں پر زکوٰۃ اِس لیے زیادہ فرض ہے کیونکہ اِن کے پاس زیورات ہوتے ہیں۔ اگر سونے کے زیور پہنیں یا رکھیں، تو پھر اِن پر زکوٰۃ بھی فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ احمدی عورتیں مالی قربانیوں میں پیش پیش رہتی ہیں، جرمنی میں مساجد کی تحریک میں بھی عورتیں بہت بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی ہیں، اِس کے علاوہ بھی بعض دفعہ عورتیں اپنے زیورات اور دیگر اشیاء مالی قربانیوں کے لیے پیش کردیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ روح بہت سی عورتوں میں قائم ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ فکر بھی ہے کہ اب دنیا داری میں بھی بہت ساری عورتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں، اور اگر یہ بڑھتی گئیں، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ دینی روح کم ہو جائے، دنیا داری اور دکھاوا زیادہ ہو جائے اور پھر جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے لوگ اور ایسی عورتیں بڑے گناہوں میں مبتلا ہو جائیں۔ پس اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اِس کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اللہ کے فضل سے آپ یہاں جلسے پر آئی ہیں اور آپ سب لوگ جو جلسے پر یہاں آئے ہیں، تو اِس جلسے کے مقصد کو یاد رکھیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشرف لائے، تو وہاں ایک قبیلے کی ایک عورت، جس نے زیور پہنا ہوا تھا، بڑے ناز اور ادا اور زیب و زینت کے ساتھ اچھے لباس میں مسجد میں داخل ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَے لوگو! اپنی عورتوں کو زیب و زینت اختیار کرنے اور مسجد میں ناز و ادا سے مٹک مٹک کر چلنے سے منع کرو۔ اُس وقت آپؐ نے یہ نصیحت مردوں کو کی اور ساتھ ہی عورتوں کو بھی فرما دی۔ آپؐ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل پر صرف اِس وجہ سے لعنت کی گئی تھی کہ اُن کی عورتوں نے زیب و زینت اختیار کر کے ناز و نخرے کے ساتھ مسجدوں میں اِترا کر آنا شروع کر دیا تھا۔ حضور انور نے فرمایا کہ پس یہ جلسے، یہ اجلاس اور یہ فنکشن جو جماعتی ہوتے ہیں، یہ بھی دینی مجالس اور دین سیکھنے کا حصہ ہیں۔ اِس لیے یہاں کسی بھی قسم کی نمائش کے لیے نہیں آنا چاہیے۔ بعض لوگ جلسوں پر بے شمار زیور پہن کر آ جاتے ہیں یا جلسے کے لیے بہت اعلیٰ اعلیٰ کپڑے بنائے جاتے ہیں، صاف ستھرے اور عمدہ کپڑے ہونے چاہئیں، لیکن صرف یہ مقصد نہ ہو کہ ہم نے اپنے کپڑوں اور اپنے زیوروں کو لوگوں کو دکھانا ہے اور اپنی بڑائی کا اظہار کرنا ہے۔ اگر یہ نیّت ہو گی، تو پھر آپ اُس مقصد کو حاصل کرنے والی نہیں ہوں گی، جو جلسوں یا دینی اجلاسوں پر آنے کا مقصد ہے۔ کیونکہ یہ جگہیں تو دینی علم کے حصول کے لیے ہیں اور مسجدیں عبادت کے لیے ہیں۔ پس اِس مقصد کے لیے نہ آئیں کہ نمود و نمائش ہو یا لوگ آپ کے زیور یا کپڑوں کو غور سے دیکھیں۔ یہ مسجد، یہ جلسہ گاہ ہے، یہ کوئی فیشن ہال نہیں ہے۔ یہاں اگر آئیں ، اِس جلسہ گاہ میں اگر آئیں، تو دین سیکھنے اور اُسے مقدّم رکھنے کے لیے آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمارے حق قائم فرمائے ہیں اور مردوں کو کہہ دیا ہے کہ اِن سے نیک سلوک کرو، یہ بھی تمہاری طرح جذبات رکھنے والی ہیں، اور اِن کے دوسرے حقوق بھی ادا کرو۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور بھی بہت سارے حقوق عطا فرمائے ہیں۔ پس اس کے شکرانے کے طور پر ضروری ہے کہ ہم اپنے اور اپنی اولاد کی نیکیوں کے معیار بلند کریں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں اور دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کی کوشش کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو نصیحت اور خاص طور پر اِن باتوں کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آجکل دیکھ لیں کہ دنیا میں جو یہ بد امنی پھیلی ہوئی ہے، اِس کی وجہ یہی ہے کہ لوگوں کی تربیت نہیں ہے، اُن کو تربیت کرنے والی وہ مائیں نہیں ملیں جنہوں نے اُن کو یہ بتایا ہو کہ خدا تعالیٰ کی رضا کیا چیز ہے۔ پس آپ وہ مائیں ہیں، جنہوں نے اگلی نسلوں کو یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو گے تو پھر ہی کامیابیاں بھی حاصل کر سکو گے۔ اور جب کامیابیاں حاصل کرو گے ، تو تب ہی تم اِس دنیا میں بھی سرخرو ہو گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے پر بھی وہاں انعام پانے والے ہو گے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو جماعت پیدا کی اور آخرین کی جماعت کو پہلوں سے ملانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بھیجا، اِس کے لیے ہمیں نیک عمل کرنے ہوں گے، کوشش کرنی ہو گی اور محنت بھی کرنی ہو گی۔ اِس لحاظ سے ہر احمدی عورت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اِس ذمہ داری کو ادا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ بہت ساری لمبی لمبی باتیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر ہم بنیادی چیز سمجھ لیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے، ہم نے تقویٰ پر چلنا ہےاور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا معیار حاصل کرنا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ ہم پر فضل بھی فرمائے گا۔ حضور انور نے آخر پر توجہ دلائی کہ بعض ایسی باتیں بھی ہیں، جن کے زیرِ اثر ہماری لڑکیاں اور عورتیں آ جاتی ہیں، مثلاً پردے یا حیا دار لباس کا معاملہ ہے۔ بہرحال ہم نے لوگوں کو سمجھانا ہے کہ جس چیز کو تم لوگ آزادی سمجھتے ہو، وہ ہمارے نزدیک بےحیائی ہے اور اِس سے بُرائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جن کے نتائج بھی آجکل ظاہر ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کر لیں جو تقویٰ پر چلنے والا ہو، پاک معاشرہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرنے والا ہو۔ اختتامی دعا سے قبل حضورانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ لوگ اِس حسین معاشرے کو قائم کرنے کے لیے، اپنے گھروں کو پُر امن بنانے کے لیے، اپنی اولادوں کا مستقبل بہتر کرنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرنے والی ہوں اور اِس جلسے پر آنے کا جو مقصد ہے، اُسے پورا کرنے والی ہوں، یعنی دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا مقصد اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا مقصد، یہی وہ چیز ہے، جو ایک احمدی کا مقصد ہونا چاہیے۔ یہی چیز ہے، جس کے لیے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہے، اور یہی بات ہے ، جس کے لیے آج ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔اور اگر یہاں جمع ہونا اِس مقصد کے لیے نہیں ہے، تو پھر اِس جلسے پر آنا بھی بے فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اِس کی رضا حاصل کرنے اور اِس مقصد کو پورا کرنے والی بنیں۔ آمین! حضور انور کا خطاب تقریباً پونے ایک بجے تک جاری رہا جس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ نے گروپس کی صورت میں مختلف زبانوں میں ترانے پیش کیے۔ ترانوں کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے حاضری کا اعلان فرمایا کہ جرمنی میں ۱۷؍ہزار ۲۷۶؍ موجود ہیں جبکہ اسلام آباد ٹلفورڈ میں حاضری ایک ہزار ہے۔ اس طرح کُل حاضری ۱۸؍ہزار ہو گئی۔ آخر پر حضور انور نے تمام شاملین کے لیے یہ دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور سب کو حفاظت میں رکھے۔ ایک بج کر ایک منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور ایوان مسرور سے تشریف لے گئے۔ ٭…٭…٭