https://youtu.be/AlQBQGdC4bU ٭… امام کی آواز کے مقابلے میں افراد کی آواز کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانوں میں خدا کے رسول کی آواز آئے تم فوراً اس پر لبیک کہو اور اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑو۔ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے (حضرت مصلح موعودؓ) ٭… آنحضورﷺ نے مسلمانوں کو آواز دے کر واپس بلانے کا حکم دیا اور جب مسلمانوں کو آواز دی گئی تو چند لمحوں میں مخلص صحابہؓ انتہائی تیزی سے واپس میدانِ جنگ میں آگئے ٭… عباسؓ کہتے ہیں…اللہ کی قَسم! جونہی آپؐ نے کنکریاں پھینکیں تو کفار کی تیزی ماند پڑنے لگی اور ان کا معاملہ الٹنے لگا خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍ستمبر ۲۰۲۵ء بمطابق ۵؍تبوک۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۵؍ستمبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: جنگِ حنین میں دشمن کے تیراندازوں کی وجہ سے مسلمانوں کے لشکرمیں جو بھگدڑ مچی تھی، اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓنے سورة النور کی آیت ۶۴کی تفسیرمیں بیان کرتے ہوئے یہ واقعہ بیان فرمایاہے کہ کس طرح نبی کی اطاعت کرنی چاہیے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے مومنو! یہ نہ سمجھو کہ رسول کا تم میں سے کسی کو بلانا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم میں سے بعض کا بعض کو بلانا۔ اللہ اُن لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے پہلو بچا کر مشورے کی مجلس سے بھاگ جاتے ہیں۔ پس چاہیے کہ جو اس رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اس سے ڈریں کہ اُن کو خدا کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے۔ یا ان کو دردناک عذاب نہ پہنچ جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ امام کی آواز کے مقابلے میں افراد کی آواز کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانوں میں خدا کے رسول کی آواز آئے تم فوراً اس پر لبیک کہو اور اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑو۔ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے بلکہ اگر انسان اس وقت نماز بھی پڑھ رہا ہو تو تب بھی اس کا فرض ہوتا ہےکہ نماز توڑ کر خدا کے رسول کی آواز کا جواب دے۔ ایک اَور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ اسلامی لشکر میں بھگدڑ مچ جانے کے واقعے کی تفصیل بیان کرکے آنحضرتﷺ کی ثابت قدمی کے متعلق فرماتے ہیں کہ …نوبت یہاں تک بڑھی کہ رسول اللہﷺکے گرد صرف بارہ صحابہؓ باقی رہ گئے۔ اس موقع پر حضرت عباسؓ نے آنحضرتﷺ کے گھوڑے کی باگ پکڑی اور عرض کیا کہ اب ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں واپس چلیں تاکہ مسلمانوں کی جمعیت کو دوبارہ مجتمع کرکے حملہ کیا جاسکے۔ مگر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ خدا کے نبی میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں موڑا کرتے۔ یہ کہہ کر آپؐ نے گھوڑے کی باگ اٹھائی اور اسے اور بھی آگے بڑھا دیا اور یہ شعر پڑھا کہ مَیں خدا کا نبی ہوں اور مَیں جھوٹا نہیں ہوں اور مَیں جو آج چار ہزار تیر اندازوں کے حملے کے باوجود نہیں رکا اور آگے ہی بڑھتا چلا جارہا ہوں تو کہیں اس نظّارے کو دیکھ کر تم یہ نہ سمجھ لینا کہ مَیں خدا ہوں، یا مجھ میں خدائی صفات پائی جاتی ہیں۔ نہیں! مَیں خدا نہیں ہوں مَیں وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ مگر یہ لوگ خدا نما وجود ہوتے ہیں ۔ اس موقعے پر آنحضورﷺ نے مسلمانوں کو آواز دے کر واپس بلانے کا حکم دیا اور جب مسلمانوں کو آواز دی گئی تو چند لمحوں میں مخلص صحابہؓ انتہائی تیزی سے واپس میدانِ جنگ میں آگئے۔ حضرت مصلح موعودؓ صحابہؓ کے اس اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہﷺ کے اس ایمان سے فائدہ اٹھایا جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ شان تھی کہ خواہ کیسا ہی خطرہ ہو خدا آپؐ کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا تھا یہی شان اپنے اپنے درجے کے مطابق صحابہؓ میں پیدا ہوگئی۔ روایات میں آنحضورﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہنے والے صحابہؓ اور صحابیات ؓکی تعداد اور اسماء بھی ملتے ہیں۔ مختلف روایات میں یہ تعداد ایک سَو تک بیان کی گئی ہے۔ حضرت امِّ سُلَیم رضی اللہ عنہا کو لوگوں کے میدانِ جنگ سے بھاگنے کا اتنا دکھ تھا کہ آپؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے بعد جو طلقاء (یعنی مکے کے وہ باشندے جنہیں آپؐ نے احسان فرماتے ہوئے معاف فرمادیا تھا) ملیں انہیں قتل کردیجیے گا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اے امِّ سُلَیم! یقیناً اللہ تعالیٰ دشمن کے مقابلے میں کافی ہوا اور اس نے احسان فرمایا۔ ایک اَور بہادر صحابیہ حضرت امِّ عمارہ ؓسے روایت ہے کہ جب غزوۂ حنین کے دن لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تو ہم چار عورتیں تھیں۔ میرے پاس تیز کاٹنے والی تلوار تھی اور امِ سُلیمؓ کے پاس تیز خنجر تھا اور انہوں نے وہ خنجر کمر کے ساتھ باندھ رکھا تھا اور وہ امید سے تھیں۔ ان کے علاوہ دو اور خواتین بھی تھیں۔ حضرت امِ عمارہ ؓنے آواز دی اور کہا کہ اے انصار! تمہیں فرار ہونے سے کیا تعلق؟ وہ کہتی ہیں کہ مَیں نے ھوازن کے ایک شخص کو دیکھا جو جھنڈا اٹھائے گندمی اونٹ پر سوار تھا۔ وہ مسلمانوں کے پیچھے بھاگا جارہا تھا۔ مَیں اس کے سامنے آئی اور اس کے اونٹ کی کونچوں پر وار کیا، وہ سوار اپنی پیٹھ کے بَل نیچے گرا تو مَیں نے اس پر حملہ کیا اور اس پر وار کرتی رہی یہاں تک کہ اسے موت کی نیند سلا دیا۔ پھر مَیں نے اس کی تلوار لے لی اور رسول اللہﷺ کے پاس آئی۔ آپؐ صحابہؓ کو پکار رہے تھے اور صحابہؓ واپس آرہے تھے اور پھر مسلمانوں نے دشمن پر حملہ کیا اور دشمن اتنی دیر ہی ٹھہر سکا جتنی دیر میں اونٹنی کو دوہا جاتا ہے۔مَیں نے دشمن کی ایسی ذلت بھری شکست کبھی نہیں دیکھی وہ منہ اٹھائے ادھر ادھر بھاگے جاتا تھا۔ میرے بیٹے واپس آئے تو ان کے پاس قیدی تھے۔ صحابہؓ کے واپس پلٹنے پر جب جنگ زوروں پر تھی تو آنحضورﷺ نے نظر اٹھاکر جنگ کا نظارہ کیا اور آپؐ اس وقت اپنے خچر پر سوار تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جنگ اپنے زوروں پر ہے۔ پھر آپؐ نے کنکر پکڑے اور انہیں کفار کے چہرے کی طرف پھینکا اور فرمایا محمد(ﷺ) کے ربّ کی قَسم! یہ لوگ شکست کھا گئے۔ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ مَیں دیکھنے لگا تو لڑائی ویسے ہی ہورہی تھی جیسے مَیں دیکھتا تھا۔ اللہ کی قَسم! جونہی آپؐ نے کنکریاں پھینکیں تو کفار کی تیزی ماند پڑنے لگی اور ان کا معاملہ الٹنے لگا۔ اس موقعے پر آپؐ کی ایک دعا کا بھی ذکر ملتا ہے جو اس طرح ہے: اے اللہ! مَیں تجھے اس کا واسطہ دیتا ہوں جو تُو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اے اللہ! ان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ہم پر غالب آئیں اور ہم مغلوب ہوجائیں۔ شیبہ بن عثمان ایک قریشی معزز شخص تھاجس کا باپ اُحد کی جنگ میں مارا گیا تھا، وہ خود کہا کرتا تھا کہ چاہے سارا عرب محمد(ﷺ) کا کلمہ پڑھ لے مگر مَیں پھر بھی مسلمان نہیں ہوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ جب میدانِ جنگ میں آپؐ کے پاس صرف چند آدمی رہ گئے تو مَیں نے سوچاکہ یہ اچھا موقع ہے کہ مَیں محمد(ﷺ ) کو (نعوذ باللہ) قتل کردوں۔ یہ سوچ کر مَیں نے دائیں جانب سے حملہ کرنا چاہا تو وہاں مَیں نے عباس کو کھڑا دیکھا۔ مَیں نے خیال کیا کہ عباس کی موجودگی میں محمدﷺ پر حملہ کرنا ممکن نہیں۔ پھر مَیں نے بائیں جانب سے حملہ کرنا چاہا تو اس طرف ابو سفیان بن حارث کو کھڑا پایا تو مَیں واپس ہوگیا۔ پھر مَیں نے آپؐ کے پیچھے سے حملہ کرنا چاہا تو مَیں اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر واپس بھاگ آیا۔ بعد میں یہ بیان کرتے کہ مجھے آگ کے شعلے اٹھتے ہوئے دکھائی دیے جو مجھے بھسم کرکے رکھ دیتے۔ ایسے میں آپؐ نے آواز دی کہ اے شیبہ! میرے قریب آؤ۔ یہ کہتے ہیں کہ مَیں قریب آیا تو آپؐ نے تبسّم فرمایا اور میرے سینے پر اپنا ہاتھ پھیرا اوریہ دعا کی کہ اے اللہ! شیطان کو اس سے دُور کردے۔ شیبہ کہتے ہیں کہ خدا کی قَسم! اُسی وقت رسول اللہﷺ مجھے میرے کان، میری آنکھ اور میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہوگئے اور میرا سینہ صاف ہوگیا۔ پھر آپؐ نے شیبہ سے فرمایا :اے شیبہ! کافروں سے جنگ کرو۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اب مَیں رسول اللہﷺ کے دفاع میں تلوار لے کر آگے بڑھا اور رسول اللہﷺ کی محبت میں یوں جنگ کرنے لگا کہ اگر اس وقت میرا باپ بھی میرے سامنے آتا تو مَیں اس کو بھی قتل کردیتا۔ یہ واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بیان کیا ہے۔ آپؓ یہ واقعہ بیان کرکے فرماتے ہیں کہ یہ محبت تھی جس نے اُس کی دشمنی کو دُور کردیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد آنحضرتﷺ اپنے خیمے میں تشریف فرما تھے کہ شیبہ بن عثمان آنحضورﷺ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے ۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جو کچھ تم اُس وقت سوچ رہے تھے اس سے یہ بہتر ہے جو خدا نے اب تمہارے لیے مقدر کردیا ہے۔ پھر آپؐ نے شیبہ کووہ تمام باتیں بتائیں جو شیبہ میدانِ جنگ میں اپنے دل میں سوچ رہا تھا۔ شیبہ نے اپنے لیے بخشش کی دعا کی درخواست کی تو رسول اللہﷺ نے دعا کی کہ اللہ تمہاری بخشش فرمائے۔ خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے یہ سلسلہ آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمایا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: غزوۂ حنین کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز جلسہ سالانہ جرمنی کے شاملین کو نصائح اوردنیا کے حالات کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۹؍اگست ۲۰۲۵ء