تیسری خوبی خداتعالیٰ کی جو تیسرے درجہ کا احسان ہے رحیمیّت ہے۔ جس کو سورۂ فاتحہ میں اَلرَّحِیْم کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کے رو سے خداتعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضییعِ اعمال سے ان کو محفوظ رکھتاہے۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ۲۴۹) رحیمیت وہ فیض الٰہی ہے جو صفت رحمانیت کے فیوض سے خاص تر ہے۔ یہ فیضان نوع انسانی کی تکمیل اور انسانی فطرت کو کمال تک پہنچانے کے لئے مخصوص ہے لیکن اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا، عمل صالح بجا لانا اور جذبات نفسانیہ کو ترک کرنا شرط ہے۔ یہ رحمت پورے طور پر نازل نہیں ہوتی جب تک اعمال بجا لانے میں پوری کوشش نہ کی جائے اور جب تک تزکیہ ٔ نفس نہ ہو اور رِیا کو کلی طور پر ترک کرکے خلوص کامل اور طہارتِ قلب حاصل نہ ہو اور جب تک خدائے ذوالجلال کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر موت کو قبول نہ کر لیا جائے۔ پس مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں ان نعمتوں سے حصہ ملا بلکہ وہی اصل انسان ہیں اور باقی لوگ تو چارپایوں کی مانند ہیں۔ (اعجازالمسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۹۵-۹۶۔ اردو ترجمہ عربی عبارت از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ۴۹۔۵۰) چوتھا سمندر صفت اَلرَّحِیْم ہے اور اس سے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کا جملہ مستفیض ہوتا ہے تابندہ خاص انعام یافتہ لوگوں میں شامل ہو جائے۔ کیونکہ رحیمیت ایسی صفت ہے جو ان انعامات خاصّہ تک پہنچا دیتی ہے جن میں فرمانبردار لوگوں کا کوئی شریک نہیں ہوتا۔ گو (اللہ تعالیٰ کا) عام انعام انسانوں سے لے کر سانپوں، اژدہاؤں تک کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔ (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷صفحہ۱۱۸۔ اردو ترجمہ عربی عبارت از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ ۱۲۷) دوسری رحمت رحیمیت کی ہے۔ یعنی جب ہم دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ غور کیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ قانون قدرت کا تعلق ہمیشہ سے دعا کا تعلق ہے۔ بعض لوگ آج کل اس کو بدعت سمجھتے ہیں، ہماری دعا کا جو تعلق خداتعالیٰ سے ہے مَیں چاہتا ہوں کہ اسے بھی بیان کروں ۔ ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چلاّتا اور چیختا ہے، تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے۔ بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا، لیکن اس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ کر لاتی ہیں؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں، مگر بچہ کی چلاّہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچے لاتی ہے۔ تو کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں، تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لاسکتیں ؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے ۔مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے۔ بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر دعا کی فلاسفی پر غور کرے، تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے۔ دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعدپیدا ہوتا ہے۔ مانگتے جاؤگے، ملتا جائے گا۔ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المؤمن:۶۱)کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے۔ مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا۔ جو نہیں سمجھتااور نہیں مانتا، وہ جھوٹا ہے۔ بچہ کی مثال جو مَیں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کرکے دکھاتی ہے۔ رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں۔ پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتا ہے اسے مل نہیں سکتا۔ رحمانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت سے فیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے۔ جو ایسا نہیں کرتا، وہ کافر نعمت ہے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ۸۱-۸۲ ایڈیشن ۱۹۸۸ء) مزید پڑھیں: ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے