https://youtu.be/b--mMkOjyJk دنیا کے کھانوں میں اگر کسی اسنیک (Snack) نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے تو وہ ہے سموسہ۔ مثلثی یا تکونی شکل کا یہ کرسپی اور مصالحہ دار اسنیک ہر زبان اور ہر علاقے کے لوگوں کو یکساں طور پر پسند ہے۔ اسی پسندیدگی اور مقبولیت کے اظہار کے لیے ہر سال ۵؍ستمبر کو ورلڈ سموسہ ڈے World Samosa Day منایا جاتا ہے۔ یہ دن نہ صرف ایک ذائقے دار اسنیک کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مخصوص ہے بلکہ یہ کھانے کے ذریعے مختلف ثقافتوں کو قریب لانے کا بھی ذریعہ ہے۔ سموسے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ برصغیر کی ایجاد ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا تعلق مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا سے ہے۔ ابتدائی دور میں اسے سنبوسک یا سنبوسہ (Sambusak or Sanbosag) کہا جاتا تھا اور یہ زیادہ تر گوشت، خشک میوہ جات اور مصالحوں سے بھرا جاتا تھا۔عرب تاجروں اور مسافروں کے ذریعے یہ پکوان برصغیر میں داخل ہوا اور وقت کے ساتھ یہاں کی غذائی ثقافت کا لازمی حصہ بن گیا۔ تیرھویں اور چودھویں صدی میں دہلی سلطنت کے درباروں میں سموسے کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ بادشاہوں کے دسترخوان پر یہ لازمی پیش کیا جاتا اور عوام بھی اسے بڑے شوق سے کھاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آلو اور مٹر کے مصالحے دار سموسے عام ہو گئے اور آج یہ برصغیر کی پہچان بن چکے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ سموسے کی مقبولیت صرف جنوبی ایشیا تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ دنیا کے کئی خطوں میں مقبول ہوگیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں یہ زیادہ تر گوشت یا پنیر سے بنایا جاتا ہے۔ افریقہ کے ممالک کینیا اور تنزانیہ میں یہ سمبوسہ کہلاتا ہے اور عام طور پر دال یا گوشت سے تیار کیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں بھی اس کی مقامی شکلیں موجود ہیں جبکہ یورپ اور امریکہ میں جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے ذریعے یہ بہت مشہور ہوا۔ آج مغربی ممالک میں بھارتی اور پاکستانی ریسٹورنٹس میں سب سے زیادہ آرڈر کیے جانے والے اسنیکس میں سموسہ شامل ہے۔ ورلڈ سموسہ ڈے تقریباً ۲۰۱۶ء کے بعد سے باقاعدہ طور پر منایا جا رہا ہے اور اب یہ ایک سالانہ روایت بن چکی ہے۔ اس دن کو منانے کے کئی مقاصد ہیں۔ ایک تو یہ کہ ذائقے کے اس لاجواب سنیک کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ مختلف ثقافتوں میں سموسے کے ذائقوں اور شکلوں سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوستوں اور خاندان کے ساتھ بیٹھ کر سموسے کھانے کے خوشگوار لمحات کو مزید یادگار بنایا جائے۔ سموسہ بنانے کا فن بھی کم دلچسپ نہیں۔ بازار سے ملنے والے سموسے اپنی جگہ مگر گھر پر تیار کیے گئے سموسے کا ذائقہ سب سے منفرد ہوتا ہے۔ عام طور پر میدے کا آٹا گوندھ کر باریک پیڑیاں بنائی جاتی ہیں، پھر انہیں کون کی شکل دے کر آلو، مٹر یا قیمے جیسے مصالحے دار اجزا سے بھرا جاتا ہے اور تیز آنچ پر تَل کر سنہری کر لیا جاتا ہے۔ جدید دور میں فروزن سموسوں کی دستیابی کے ساتھ ساتھ بیکڈ سموسے، ایئرفرائر سموسے اور میٹھے سموسے بھی بنائے جا رہے ہیں جن میں چاکلیٹ، کھجور اور خشک میوہ جات شامل ہوتے ہیں۔ مشرقی بھارت میں ان کو شنگارا کہا جاتا ہے لیکن یہ میٹھے سموسے ہوتے ہیں۔ شمالی بھارت میں سموسوں میں آلو اور مٹر بھرے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کاغذی سموسے، قیمے والے سموسے اورآلو والے سموسے کھائے جاتے ہیں، کہیں بڑے سائز کے، کہیں زیادہ مرچوں والے، کہیں چنے بھرے سموسے بھی دسترخوانوں کی زینت بنائے جاتے ہیں۔ افغانستان اور ایران میں یہ گوشت پر مشتمل ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں تو سموسہ افطار کی میز کا سب سے پسندیدہ اور لازمی حصہ بن جاتا ہے۔ سموسے سے متعلق کئی دلچسپ حقائق بھی ہیں۔ مثال کے طور پر لندن میں۲۲؍اگست ۲۰۱۷ء میں ایک ایسا دیو ہیکل سموسہ بنایا گیا جس کا وزن ۱۵۳.۱؍کلوگرام تھا اور اسے گنیز ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔ جبکہ ۲۰۲۲ء میں بھارت میں ۳۳۲؍کلو گرام کا ریکارڈ قائم کیا جسے ابھی تک گنیز بک میں شامل نہیں کیا گیا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ورلڈ سموسہ ڈے صرف ایک کھانے کا دن نہیں بلکہ ایک عالمی ثقافتی جشن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کھانا انسانوں کو قریب لانے کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔ ایک چھوٹے سے کرسپی سموسے میں تاریخ، روایت، ذائقہ اور محبت سب کچھ سمٹ آیا ہے۔ ۵؍ستمبر کو اپنی پسند کا سموسہ خریدیں یا گھر پر تیار کریں اور اس عالمی دن کو مزیدار انداز میں منائیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ۲۹؍اگست۔ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کے خلاف عالمی دن