https://youtu.be/esDeZzmMfEM سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔…پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اِس زمانہ کے اہلحدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدم ہیں…بلکہ چاہئے کہ قرآن اور سنّت کو حدیثوں پر قاضی سمجھا جائے اور جو حدیث قرآن اور سنّت کے مخالف نہ ہو اُس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے یہی صراطِ مستقیم ہے۔ مبارک وہ جو اس کے پابند ہوتے ہیں۔ نہایت بدقسمت اور نادان وہ شخص ہے جو بغیر لحاظ اس قاعدہ کے حدیثوں کا انکار کرتا ہے۔(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) جماعت احمدیہ میں قبول حدیث کا معیار: پھرتبصرہ نگار نے ایک اور غلط بیانی کرتے ہوئے حضرت مرزا صاحبؑ پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے تحفہ گولڑویہ میں علمائے امت کی پیش کردہ احادیث کوموضوع قرار دیا ہے (تحفہ گولڑویہ صفحہ۱۰ بحوالہ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۵۱) یہاں بھی تحریف سے کام لیتےہوئے ادھورا حوالہ دیا گیا۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے صرف ایسی احادیث کو طریق تصفیہ قرار نہیں دیا جو خلاف قرآن ہیں یا دیگرایسی احادیث صحیحہ جوالہام الٰہی اور خدائی نشانوں کے خلاف ہوں۔اصل حوالہ ملاحظہ فرمائیے۔ آپؑ فرماتے ہیں :’’پھر مَیں ایسے روشن ثبوت کو کیونکر چھوڑ سکتا ہوں جس کی ایک طرف قرآن شریف تائید کرتا ہے اور ایک طرف اس کی سچائی کی احادیث صحیحہ گواہ ہیں اور ایک طرف خدا کا وہ کلام گواہ ہے جو مجھ پر نازل ہوتا ہے اور ایک طرف پہلی کتابیں گواہ ہیں اور ایک طرف عقل گواہ ہے۔ اور ایک طرف وہ صدہانشان گواہ ہیں جو میرے ہاتھ سے ظاہرہورہے ہیں۔ پس حدیثوں کی بحث طریق تصفیہ نہیں ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۵۱) تبصرہ نگار نے آیت اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ کی رُو سے حفاظت قرآن کے مضمون کا بھی ذکر کیاہے۔ یہ کام بھی اللہ تعالیٰ نے بانی جماعت احمدیہ حکم و عدل سے لیا اور آپ کےذریعہ قرآن کی لفظی و معنوی حفاظت کا اہتمام اس وقت کیا جب ایک فرقہ حدیث کو قرآن پر حاکم قراردے کر اس ’’الذکر‘‘ کی حفاظت پر حملہ آور تھا۔تب مجدد وقت حضرت بانئ جماعت احمدیہ نے حدیث تجدید دین کی پیشگوئی کےمطابق حفاظت قرآن کا حق اداکرتے ہوئے منشاء الٰہی کےمطابق قرآن کو حدیث پر مقدم ثابت کر کےدکھایا۔جس کا ایک عمدہ نمونہ’’ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی‘‘ ہے۔ حدیث کی عظمت: حضرت بانئ جماعت احمدیہ کے چند ارشادات حدیث کی عظمت واہمیت کےبارہ میں پیش ہیں۔آپؑ فرماتے ہیں : ۱۔ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔…پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اِس زمانہ کے اہلحدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدم ہیں۔…بلکہ چاہئے کہ قرآن اور سنّت کو حدیثوں پر قاضی سمجھا جائے اور جو حدیث قرآن اور سنّت کے مخالف نہ ہوا اُس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے یہی صراطِ مستقیم ہے۔ مبارک وہ جو اس کے پابند ہوتے ہیں۔ نہایت بدقسمت اور نادان وہ شخص ہے جو بغیر لحاظ اس قاعدہ کے حدیثوں کا انکار کرتا ہے۔(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی،روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۲۱۱-۲۱۲) ۲۔ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اورسنت نہ ہوتو خواہ کیسے ہی ادنی درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں۔( ریویو برمباحثہ بٹالوی وچکڑالوی،روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ ۲۱۲) ۳۔ ہمارے دین کا تمام مدار قرآن شریف پر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث قرآن کی مفسر ہے اور جو قول ان دونوں کے مخالف ہو وہ مردود اور شیطانی قول ہے۔ (آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۶۲) ۴۔ میرا مذہب یہ ہے کہ حدیث کی بڑی تعظیم کرنی چاہیے کیونکہ یہ آنحضرتﷺ سےمنسوب ہے۔ جب تک قرآن شریف سے متعارض نہ ہو تو مستحسن یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاوے۔(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۴۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ۵۔سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک ان کو سلسلۂ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں۔(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ۳۵) رسول اللہ ﷺ کی شان : الغرض تبصرہ نگار نے قابل شرم تحریف کے متعدد نمونے مہیا کیے۔ الفضل ۱۷؍جولائی۱۹۲۳ء صفحہ ۵ کا غلط حوالہ دیاجو الفضل ۱۹۲۳ء میں موجود ہی نہیں۔ پھریہ نامکمل عبارت دی جو اس حوالہ کی تحریف کی مثال ہے کہ ’’ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے حتیٰ کہ محمد رسول اللہؐ سے بھی بڑھ سکتاہے۔‘‘ ( الفضل۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ء صفحہ۵) کیونکہ موصوف نے اس سے اگلا یہ جملہ خیانت سے حذف کردیا’’مگر آنحضرت ﷺ اس میدان میں سب سے آگے بڑھ گئے اورخدا نے آئندہ کےمتعلق بھی گواہی دے دی کہ آپؐ آئندہ آنے والی نسلوں سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں ‘‘۔ صحابہؓ کی مثیل جماعت : اسوۂ انسان کامل ؐصفحہ۶۱۷ کے مضمون ’’رسول اللہؐ کی فراست اور بصیرت ‘‘میں سورۃ الجمعہ کی آیت وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعہ:۴)کی تفسیر نبویؐ پر ’’الاعتصام ‘‘ کی قسط دوم میں اعتراض کیا گیا ہےاور کمالِ نبوت و شان رسالت کے بیان پر مشتمل حدیث بخاری کے اس مضمون کو اہلحدیث تبصرہ نگار نے ’’کفریات وتحریفات‘‘ کا الزام دیاہے۔العیاذباللّٰہ اس حدیث نبویؐ کا ترجمہ ازاہلحدیث علامہ پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری یوں ہے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریمﷺپر(سورت) جمعہ نازل ہوئی اور آپؐ نے یہ پڑھا : وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ان میں اور بھی لوگ ہیں جو اب تک آکر ان سے نہیں ملے ہیں۔ (الجمعة ۶۲:۳) تو ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ وہ کون لوگ ہیں ؟ نبی کریم ﷺنے اس کا کوئی جواب نہ دیا، حتیٰ کہ اس نے آپؐ سے ایک یا دو یا تین بار سوال کیا، کہا: اس وقت ہم میں حضرت سلمان فارسیؓ بھی موجود تھے، نبی کریمﷺ نے حضرت سلمانؓ پر ہاتھ رکھا ، پھر فرمایا لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّالَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ۔یعنی’’ اگر ایمان ثریا کے قریب بھی ہوتا توان میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیتے۔‘‘ رجل فارس کاایمان کو قائم کرنا: اب تبصرہ نگار کےمطابق اگر نَالَ اوریَتَنَاوَلُ کے معنے پالینے کے کیے جائیں تو عجیب وغریب معنی بنیں گے۔ ایمان توآسمان پر معلّق ہوگا رجل فارس بھی وہاں اسے پاکر خود وہیں معلّق ہو جائیگا۔ مگر یہ معنی کرنے سے رجل فارس کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ویسے بھی عربی لغت میں لَنَالَہٗ اور یَتَنَاوَلُہٗ کے معنے حاصل کرلینے کے لکھےہیں جیسا کہ قرآنی آیت وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّنَيْلًا (التوبة:۱۲۰) میں حاصل کرنے کے یہی معنے آپ کے ’’مولانا‘‘ ثناء اللہ امرتسری اورصلاح الدین یوسف صاحب نے کیے توپھر حدیث میں انہی معنی پر اعتراض کیوں؟ الغرض صاحب علم وفضل علماءنے (ماسوائے تبصرہ نگار) ثریّا سے ایمان لانے کاہی ترجمہ کیا ہے۔چنانچہ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب نے تفسیر مظہری کے حوالے سے زیر آیت وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ کاذکر کیا اور رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’اگر ایمان ثریا ستارہ کی بلندی پر بھی ہو گا تو ان (مسلمان)کی قوم کے کچھ لوگ وہاں سے بھی ایمان کو لے آئیں گے اس روایت میں بھی اہل فارس کی تخصیص کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ اتنا ثابت ہوا کہ یہ بھی آخرین کے مجموعہ میں داخل ہیں، اس حدیث میں اہل عجم کی بڑی فضیلت ہے۔‘‘( معارف القرآن جلد ہشتم صفحہ۴۳۶) پس بخاری کی روایت ’’لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ‘‘کا یہی مطلب ہے کہ اگر ایمان ثریا پر اٹھایا جاتا تو کچھ مردانِ فارس یا ایک مرد فارسی الاصل اسے حاصل کرلیتا یا واپس لے آتا۔ موصوف کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ دیگر روایات مسلم وغیرہ میں ایک مرد فارس کی بجائے کئی رجال فارس کا ذکر ہے۔ ہمارے نزدیک بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے جس کی حدیث مذکور میں راوی سلیمان بن بلال نے کمال احتیاط سے لفظ رِجَالٌ کے بارہ میں حرف ’’ أَوْ‘‘ سے اپنا شک ظاہر کردیا ہے۔ پس بخاری کےسوا کسی اور کتاب میں رِجَالٌ کا لفظ ہو بھی تو بخاری کے رجل فارس کوچھوڑا نہیں جاسکتا خصوصاً جبکہ حضرت بانئ جماعت احمدیہ کےدعویٰ کے مطابق وحی الہٰی نےتصدیق کردی کہ لَنَالَهُ رَجُلٌ کے الفاظ ہیں۔(ماخوذ ازتحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۱۱۴تا۱۱۸) رجل فارس کون ہے؟: محض حسن ظن یا اجتہادسےرجل فارس امام ابوحنیفہ یا امام بخاری وغیرہ کو مراد لینا اس لیے درست نہیں کہ اول توانہوں نے خود ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا دوسرےان بزرگان کا زمانہ رسول اللہ ؐکےبعد دوسری اور تیسری صدی ہجری ہے جن کو نبی کریم ﷺ نے خیر القرون یعنی بہترین صدیاں قرار دیا۔ جبکہ رجل فارس نے ایمان قائم کرنے جس زمانہ میں آنا تھا وہ بے ایمانی کا خراب زمانہ ہے جو پہلی تین صدیوں میں نہیں ہوسکتا۔ پس یہ رجل فارس بلا شبہ چودھویں صدی کے مجدّد حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ ہیں جنہوں نے بے ایمانی کے زمانہ میں ایمان کوثریا سے لاکر پھرسے دلوں میں قائم کیااور ایمانداروں کی ایک شاندار مثالی جماعت احمدیہ قائم کی۔آپؑ کے رجل فارس ہونے کی گواہی نہ صرف خدائی الہام میں ہے بلکہ آپ کے ’’مولٰنا‘‘ بٹالوی صاحب خود یہ گواہی دے چکے ہیں کہ ’’ مؤلف (براہین احمدیہ ) قریشی نہیں فارسی الاصل ہے۔‘‘(اشاعہ السنۃ النبویہ نمبر۷ جلد۷ صفحہ۱۹۳) خودحضرت بانیٔ جماعت احمدیہ فارسی الاصل ہونے کےبارے میں لکھتے ہیں کہ ’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے۔… اب خدا کی کلام سے معلوم ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے۔ سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں اسی کا علم صحیح اور یقینی ہے اور دوسروں کا شکی اور ظنّی۔‘‘ (اربعین نمبر ۱، ۲، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۶۵حاشیہ)پس وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ میں جس رجل فارس کےذریعہ رسول اللہ ﷺ کی دوسری بعثت کی پیشگوئی تھی وہ بانئ جماعت احمدیہ ہی ہیں۔ روسی سکالر علامہ موسیٰ جار اللہ نے بھی یہی معانی کیے ہیں کہ آخرین میں نبی کریم ﷺ کی ایک دوسری بعثت ہوگی۔(کتاب فی حروف اوائل السور صفحہ۱۳۳ مطبوعہ بیت الحکمۃ لاہور۱۹۲۴ء) پس رسول اللہؐ کی دوسری بعثت آپ کے بروز حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہوئی جس پر ایک اور قرینہ قویّہ یہ ہے کہ آیت وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ کے حروف بحساب اعداد جمل ۱۲۷۵؍نکلتے ہیں۔تیرھویں صدی ہجری کا یہی وہ زمانہ تھا جب حضرت مرزا صاحب کی عمر ۲۵؍برس تھی جب آپ کو اصلاح خلق کے لیے تیار کیا گیا،پھر آپ کوچودھویں صدی کے مجدد اور مسیح و مہدی کے مقام سے نوازا گیا۔ آپ نےخود اللہ تعالی ٰ سے علم پاکر حدیث بخاری رجل فارس کے مصداق کا دعویٰ کرتے ہوئے فرمایا :’’براہین احمدیہ میں بار بار اس حدیث کا مصداق وحی الٰہی نے مجھے ٹھہرایا ہے اور بتصریح بیان فرمایا کہ وہ میرے حق میں ہے‘‘ آپ نے بڑی تحدّی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اس وحی کو خدا کا کلام قرار دیتے ہوئے مفتری پر خدا کی لعنت ڈالی اور انکار کرنے والوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا جسے آج تک کسی کو قبول کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اگر اسے تسلیم نہ کیا جائے تو رجل فارس مسیح موعود سے افضل ہوگا۔براہین احمدیہ حضرت مرزاصاحبؑ کی شہرہ ٔآفاق کتاب ہے جس کی مولوی محمد حسین بٹالوی نے نہ صرف تائید وتصدیق کی بلکہ آپ کا ملہم ہونا تسلیم کیا اور اپنے ریویو میں براہین احمدیہ پر اعتراضات کےجواب دیے۔ تحریف معنوی کا اعتراض : تبصرہ نگار نے ایک اور غیرمتعلق اعتراض اسوۂ انسان کاملؐ پر یہ کیاہے کہ بانیٔ جماعت احمدیہ نے اپنی نبوت و مسیحیت پر جو دلائل قرآن و حدیث سے دیے ہیں ان میں تحریف معنوی ہے۔مگر اس بے بنیاد دعویٰ کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ البتہ حضرت مرزا بشیر الدین خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے دو حوالے اس کی مثال کے طور پر دیے۔ اول یہ کہ رسول اللہﷺ نے مسیح موعود کو اپنے مشابہ بلکہ برابر کہا بلکہ ان میں ایسی صفات بیان کیں جن سے صحابہ سمجھے کہ وہ اپنا ہی ذکر فرما رہے ہیں۔اس بارے میں تبصرہ نگاہ لکھتے ہیں کہ یہ قطعاً فرمان نبویؐ نہیں۔ اس بارے میں قبل ازیں روایت بخاری سے ایمان قائم کرنے والے رجل فارس کی آمد کا تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے کہ جب سورت جمعہ نازل ہوئی اور حضورﷺ نے صحابہ کے سامنے تلاوت کی۔ چوتھی آیت وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ میں رسول اللہﷺ کی دوسری بعثت کا ذکر تھا اور صحابہ یہی سمجھے کہ حضورؐ اپنا ہی ذکر فرما رہے ہیں اسی لیے صحابی نے پوچھا کہ وہ کون (خوش قسمت )ہیں جن میں آپ دوبارہ تشریف لائیں گے۔ حضور نے رجل فارس کے آنے کو اپنا آنا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’وہ ایمان کے اٹھ جانے کے بعد اسے قائم کرے گا‘‘۔ مسیح موعودؑکی رسول اللہؐ سے مشابہت: رجل فارسی کا یہی کام مسیح موعود اور امام مہدی کا مشن بیان کیا گیا ہے کہ وہ بطور حَکَم عدل مسلمانوں میں انصاف سےاختلافات کے فیصلے کر کے انہیں متحد کرے گا اور کسر صلیب یعنی نصارٰی کے دلائل کا بطلان ثابت کر کے اسلام کو غالب کرے گا ۔(بخاری کتا ب احادیث الانبیاءبابت نزول عیسیٰؑ ابن مریم )اور اللہ تعالیٰ اس کے زمانہ میں اسلام کے سوا دیگرتمام مذاہب کو ہلاک کردے گا۔رسول اللہؐ نےمہدی کو ہی عیسیٰ ابن مریم قرار دیا۔ اسی طرح مہدی سے اپنی مماثلت و مشابہت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسْمُهُ اسْمِى (سنن ابی داود کتاب المہدی) کہ اس کانام میرا نام ہے۔ اسم کے معنے صفت کے بھی ہوتے ہیں۔پس اس حدیث کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ مہدی کے اخلاق میرے اخلاق جیسے ہوں گے۔اسی طرح آپؐ نے مہدی کا نام اپنے نام کی طرح ’’احمد‘‘ بیان فرمایا۔(کنز العمال جلد ۱۴ صفحہ۲۱۳،عقد الدررصفحہ۶۲۔مختصر فی علامات المہدی المنتظر صفحہ۲۷ قاہرہ ) اسوۂ انسان کاملؐ میں رجل فارس کے ذکر کے بعد اس کے ذریعہ قائم ہونےوالی جماعت مومنین کی مناسبت سے حدیث نبویؐ کے مطابق یہود کی طرح مسلمانوں کے تہتّر فرقوں میں بٹ جانے کا ذکر ہے۔رسول کریم ﷺنے اُن سب انتشار زدہ فرقوں کا ٹھکانہ آگ قرار دیا۔ صرف ایک فرقہ اور جماعت کے ناجی ہونے کی خبر دی اورانہیں امام جماعت کے ساتھ چمٹ جانے کی نصیحت کی۔ یو ں تواب ہر فرقہ ہی ناجی ہونے کا دعویدار ہے۔اگرعلامہ احمد رضا بریلوی نےبریلویوں کےعلاوہ دیگر تمام فرقوں دیوبندی، اہلحدیث وغیرہ کو کافر مرتد اور بالاجماع امت دائرہ اسلام سے خارج لکھاہے۔(حسام الحرمین صفحہ ۲۸) دوسری طرف دیوبند مسلک کے علامہ خلیل احمد سہارنپوری نے بریلوی مسلمانوں کےکفر یہ عقائد بیان کیے ہیں ملاحظہ ہو( المہند علی المفند) لہذا اس میدان میں بطور ناجی فرقہ جماعت احمدیہ ہی باقی رہ جاتی ہے۔ فرقہ ناجیہ کی پہچان : اہلحدیث تبصرہ نگار کاالٹا اعتراض ہےکہ نبی کریم ﷺاور صحابہ سے قاد یانی عقائد ثابت نہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے قائم فرمودہ معیار مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي کےمطابق دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ اسلامی فرقوں یاجماعتوں میں سے کون ہے جو سنت نبویؐ اور صحابہ کے نمونہ سے قریب تر ہے۔ فرقہ ناجیہ کی پہچان پر کچھ مناظرانہ سوال تبصرہ نگار نے اٹھائے ہیں جن کے مفصّل جواب احمدیہ پاکٹ بک میں موجود ہیں۔ دعویٰ مسیح موعود کے ثبوت : موصوف نے حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے دعویٰ کی سچائی کے لیے ایک آیت، ایک مرفوع حدیث اور ایک قول صحابی کا مطالبہ کیا ہے جس کا تبصرہ اسوۂ انسان کاملؐ سےکوئی تعلق نہیں تاہم اگر موصوف ان سوالات میں سنجیدہ ہوں تواس کا تفصیلی جواب احمدیہ لٹریچر میں دستیاب ہے۔ معیارِ صداقت مدعی نبوت کی دلیل سورۃ الحاقہ کی آیت ۴۵ تا ۴۶ اور مرفوع حدیث بابت آمد نبی اللہ روایت نواس بن سمعان مسلم کتاب الفتن میں ہے۔ جس میں چار مرتبہ نبی اللہ کے ظہور کی گواہی ہے اس کےعلاوہ حدیث بخاری ’’وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ‘‘ اور حدیث مسلم اَمَّکُمْ مِنْکُمْ ایک مسیح موعود کے امت میں سےآنےکی صاف خبردے رہی ہے۔ جبکہ لَا نَبِیَّ بَعْدِی ْسے وفات عیسیٰ بھی ثابت ہے۔ ایک مومن کوختم نبوت کی وضاحت کےلیے امّ المؤمنین حضرت عائشہؓ کا یہی قول کافی ہے :قُوْلُوْااِنَّہٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ (المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الادب جلد نمبر ۱۳صفحہ نمبر ۵۶۶دار قرطبۃ بیروت) یعنی تم یہ تو کہو کہ رسول کریمﷺ خاتم النبیین ہیں لیکن یہ نہ کہو کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں(جبکہ خود مسیح نبی اللہ کی آمد کا اقرار کرتے ہو)۔ صحابہ رسولؐ سے جماعت احمدیہ کی مماثلت: پھر تبصرہ بر اسوۂ انسان کاملؐ میں ایک اور غیر متعلق سوال تبصرہ نگار نے یہ اٹھایا ہے کہ کیا جنت البقیع میں مدفون صحابہ احمدیوں کی طرح چندے دیتے تھے۔ اگر انہوں نے بخاری پڑھی ہوتی تو علم ہوتا کہ مدینہ کی جنت البقیع میں زمانہ نبوی میں مدفون تمام صحابہ احمدیوں سے بھی بڑھ کر مالی قربانی کرتے تھے۔بخاری فضائل صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ،حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کے مناقب پڑھیں تو آپ کو ان کے چندے اور مالی قربانی کا علم ہو۔ ایک اور غیر متعلق سوال تبصرہ نگار کا یہ ہے کہ کیا صحابہ جہاد کے قائل تھے یانہیں ؟ موصوف کو اتنا بھی علم نہیں کہ تمام صحابہ رسولؐ شرائط جہاد کے بھی قائل تھےاسی لیے۱۳؍سال تک مکہ میں جہاد نہیں کیاپھر جب ان پر جنگ مسلط کی گئی اور نہ صرف جہاد بلکہ شرائط جہاد موجود ہونے پرحسب شرائط أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا…الخ (الحج :۴۰) اذن جہاد ہوا توانہوں نے جہاد کیا۔ وہی شرائط جہادآج بھی قائم ہیں جن کی موجودگی میں حضرت ابوبکرؓ نے باغیوں اور منکرین زکوٰۃ سے جہاد کیا اور جب وہ شرائط موجودنہ تھیں تو حضرت عثمان ؓنے مدینہ پر حملہ آور گروہوں سے جہاد نہ کیا ور اپنی جان تک کی قربانی دے دی اور حضرت معاویہؓ کی پیشکش کے باوجود اپنی حفاظت کے لیےمدینہ میں (شامی )فوج رکھنا بھی پسند نہ فرمایا تاکہ مسلمانوں کا قتل وخون نہ ہو۔ پس جہاں تک فرقہ ناجیہ کی بنیادی علامت کا تعلق ہے وہ کسی امام والی جماعت کا رسول اللہﷺ کے نمونہ پر قائم ہونا ہے۔ فرقہ ناجیہ کی علامات ازروئے قرآن و حدیث پیش کرتےہوئےایک سوال تبصرہ نگار سےبھی ہے کہ وہ یہ علامات اپنے اندر ثابت کرکے دکھلا دیں۔ علامات فرقہ ناجیہ: (۱)وہ جماعت یافرقہ اکثریت میں نہیں بلکہ اقلیت ہوگا۔ (۲)وہ جماعت ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کرنے والی ہوگی۔ کیونکہ۷۲ ایک ساتھ اور وہ جماعت اکیلی ہوگی۔ محض منتشر فرقہ نہ ہوگا۔ (بخاری کتاب المناقب علامات النبوۃ فی الاسلام ) (۳)حضرت ملّا علی قاری نے سنت رسول ﷺ پر چلنے والے اس فرقہ ناجیہ کا نام ’’احمدیہ ‘‘ لکھا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد۱ صفحہ ۳۸۱) مفتی غلام سرور قادری کےمطابق’’ بہتر فرقے کل کےکل دوزخ میں جائیں گے اور فرقہ نجات پانے والا وہ اہل سنت بیضاء محمدیہ اور صاف ستھرے طریقہ احمدیہ والا ہے۔‘‘(۷۳ اسلامی فرقےاور ان کی تاریخ و عقائد صفحہ۴۰۔مفتی سرور قادری مکتبہ مصباح القرآن جامع غوثیہ امین مارکیٹ گلبرگ لاہور) حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے الہام الٰہی سےعلم پاکر بیان فرمایا کہ سرور کائنات کی رحلت سے ایک ہزار اور چند سال بعد حقیقت محمدیؐ کا نام حقیقت احمدی ہو جائے گا۔(مبدأ والمعاد صفحہ۲۰۵)جس کے مطابق چودھویں صدی میں یہ جماعت ظاہر ہوئی اوراسی طرح مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي کی دیگر علامات کی واحد مصداق یہی جماعت احمدیہ ہے۔ (۴)رسول کریمﷺ اور آپ کے صحابہ کلمۂ توحید و رسالت پر قائم اور عمل پیرا تھے جبکہ کفار مکہ ان کو صابی کہہ کر فتوی کفر لگاتے تھے یہی حال فی زمانہ احمدیوں کا ہے۔ (۵)رسول اللہ ﷺ اورصحابہ کرام ؓکو اذان اور نمازوں سے روکا جاتا تھا آج احمدیوں سے بھی یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ (۶)رسو ل اللہ ﷺ اور صحابہؓ کلمہ گو تھےاور کفار مکہ کےمظالم کا نشانہ بنتے تھے۔ آج کلمہ گواحمدی مظلوم ہیں۔ (۷)مکہ میں رسو ل اللہ ﷺ اور صحابہ رسولؐ کو تبلیغ کی ممانعت تھی جیسے آج صرف احمدیوں پر یہ پابندی ہے۔ (۸)رسو ل اللہ ﷺ اورصحابہ کو مکہ میں قرآن پڑھنے سے روکا جاتا تھا جیسے آج احمدیوں کواس سے روکا جاتا ہے۔ (۹)مدینہ میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ پر حج و عمرہ کی پابندی تھی۔جیسے آج احمدیوں پر ہے۔ (۱۰)اہل مکہ مسلمانوں کی نعشوں کی توہین کرتے تھے جیسے آج یہی سلوک احمدیوں سے دیگر ۷۲ فرقے روا رکھتے ہیں۔ (۱۱)رسول اللہﷺ اورصحابہؓ اسلام کی خاطر مالی قربانیاں کرتے تھے۔ جیسے آج احمدی کر رہے ہیں۔ (۱۲)رسول اللہﷺاور صحابہ کرامؓ نےمخالفت کی وجہ سے وطن کی قربانی دے کر ہجرت کی یہی آج احمدیوں کا حال ہے۔ (۱۳)رسول اللہﷺاور صحابہؓ نے مخالفت کے باوجود صبرو استقامت کا نمونہ دکھایا جیسے آج احمدی دکھا رہے ہیں۔ (۱۴)رسول اللہ ﷺاور صحابہؓ نمازوں میں اورراتوں کو اٹھ کر دعائیں کرتے تھے جیسے آج احمدی کر رہے ہیں۔ (۱۵)رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی کےمطابق صحابہ کرامؓ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے نوازا تھا۔اسی پیشگوئی کے مطابق آج یہ انعامِ خلافت جماعت احمدیہ کو عطا ہے۔ پس حدیث مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي( یعنی وہ جماعت میرے اورمیرے صحابہ کےنقش قدم پر ہوگی )کی عملی تفسیر کا بہترین نمونہ جماعت احمدیہ کےسوا کہیں بھی موجود نہیں۔ اعجاز المسیح پر اعتراض: تبصرہ نگارنےایک اور غیر متعلق اعتراض حضر ت بانئ جماعت احمدیہ کی کتاب اعجاز المسیح پرکرتے ہوئے طنزاً یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ قادیان میں رمضان المبارک سترّ ایام کا بھی آیا کرتا تھا یہ اعتراض دراصل کتاب اعجاز المسیح کے ٹائٹل کی عربی عبارت پر ہے جس میں لکھا ہے کہ یہ کتاب رمضان کے مہینہ (کےبعد) ستّر دن میں طبع ہوئی۔ من شھر الصیام میں موصوف نے تجاہل عارفانہ سے پہلے خود من تبعیضہ کےغلط معنے کرلیے حالانکہ اگر موصوف قرآن اس کی تفسیر اور بخاری کےعلاوہ عربی کا مطالعہ بھی کرتے تو انہیں پتا چلتا کہ قرآنی محاورہ میں ’’مِنْ‘‘ ابتدائے غایت کے لیے بھی آتا ہے۔ جیسے فرمایا وَکُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ(البقرہ:۱۸۸) اس آیت میں مِنَ الْخَيْطِ میں مِنْ ابتدائے غایت کے لیے اور مِنَ الْفَجْرِ کا مِنْ بعضیہ ہے۔(ملاحظہ ہو اتقان از علامہ سیوطی) اور ٹائٹل اعجاز المسیح پر ’’مِنْ‘‘ ابتدائے غایت کے ہے یعنی یہ کتاب رمضان کےمہینہ کےبعد سے لے کر ستّر ایام میں طبع ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ایک تقریر: اسوہ انسان کاملؐ پرتبصرہ کےبہانے ایک اور غیر متعلق اعتراض ’’الاعتصام ‘‘ میں تبصرہ کی پانچویں قسط کے آخر میں جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی تقریرمورخہ ۳؍اپریل ۱۹۲۴ءپر کیا ہے کہ احراریوں کے تبلیغی جلسہ قادیان کے موقع پر انہوں نے اپنی تقریر میں علمائے اہل حدیث و احناف کی الزام تراشیوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے عقل و خرد کا دعویٰ کرنے والو! جب تم کسی نبی کو چور،کسی کوجھوٹا،کسی کو دوسرے کی عورت چھیننے والا اور رسول کریمﷺ کو اپنی پھوپھی کی شادی شدہ بیٹی پر عاشق ہوکر اس سے شادی کرنے والا کہتے ہو اور باوجود اس کے انہیں سچے نبی مانتے ہو تو کیوں آج اس نبی کو نہیں مانتے جس پر اسی قسم کے الزام لگاتے ہو۔‘‘(القول الحق۔انوارالعلوم جلد۸ صفحہ۵۹) قادیان میں تبلیغی جلسہ احرار کا احوال: تبصرہ نگار نے مزید لکھا ہے کہ قادیان میں ۱۹۲۴ء کے اس تبلیغی جلسہ کی روداد اسی زمانہ کے رسائل میں چھپ گئی تھی جس میں برصغیرکےپندرہ علماء کے بیانات ہوئے اور اہل حدیث،دیوبندی، بریلوی جید علماء نے شرکت کی۔ان کے جاندار خطابات کے ردّ عمل میں مرزا محمود احمد صاحب نے یہ بیان دیا تھا۔اس پر موصوف نے ایک کھلا چیلنج بھی دیا ہے کہ مذکورہ عقائد ان پندرہ علماء کی تالیفات سے ثابت کردیں یا ان سے منسلک افراد میں سے کسی کی وضاحت ہوکہ ہمارے حضرت کے یہ نظریات ہیں۔ تحقیق پسند حضرات کےلیے ۸؍اپریل ۱۹۲۴ء کے روزنامہ الفضل قادیان میں شائع شدہ غیراحمدیوں کے اس جلسہ کی مکمل رپورٹ از خصوصی نمائندہ لائق مطالعہ ہے جس کی کوئی تردید فریق مخالف نے نہیں کی۔تبلیغی جلسہ احرار کی تقاریر کا خلاصہ قارئین کی دلچسپی کےلیے پیش ہے: ’’ان تقاریر میں علم،اخلاق اور روحانیت کے سوا سب کچھ تھااورغیراحمدی مولویوں نے قادیان میں نہایت بد تہذیبی،ناشائستگی، بدخلقی اور بیہودگی کا نمونہ دکھایا۔ان کا تمسخر اور استہزا حد سے بڑھا ہوا تھا اور ان میں نام نہاد علماء کی کچھ پھلجھڑیاں سنیئے:منشی حبیب اللہ صاحب تو محض عجل جسد لہ خوار…سوائے بھاں بھاں کے کچھ نہ تھا۔مولوی ثناء اللہ امرتسری تین بار بولا اور اپنا گند ہی کھولا۔نہ کوئی مضمون،نہ ترتیب،چند بیہودہ شعر سنائے۔ موصوف نے دعویٰ کیا کہ (مباہلہ کی) قسم کھانے کو تیار ہوں بشرطیکہ میرے نہ مرنے کی صورت میں احمدیہ جماعت میری بیعت کرے۔ اس پر اگلے روزنظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سےجوابی اشتہار شائع ہواکہ مولوی ثناء اللہ صاحب قسم کےلیے تیار ہوجائیں بشرطیکہ وہ دیگر مسلمانوں یااہل حدیث کی طرف سے بھی یہ اعلان کریں کہ خدائی عذاب سےاپنی موت کی صورت میں وہ اور ان کےسب ساتھی احمدی جماعت میں داخل ہوجائیں گے۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ اشتہار خود جلسہ میں سنایا مگر یہ مشروط قسم کھانے کی ہمت نہ ہوئی۔ ایک مولوی نےتو قادیان کے آریوں ا ور سکھوں (اللہ،رسول کےدشمنوں)کو صحابہ کا مثیل کہہ کر بتایا کہ انہوں نے ہمارے مولویوں کی مہمانی کےلیے اپنے مکان خالی کردیے۔ مولوی بدرعالم صاحب نے طرح طرح کی استہزا آمیز باتیں،پھکڑلطیفے وغیرہ سنائے۔ یہی حرکات بڈھاوربھنگی صاحب نے اپنی تقریر میں کیں۔ ۳ اپریل کو مولوی عطاء اللہ بخاری صاحب نے لیکچر میں پہلے از راہ تمسخر کہا کہ شکر ہے کہ میں نے اس سرزمین مقدس کی زیارت کی۔دربار نبی میں پہنچنا نصیب ہوا۔یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے ۹۴ کروڑ مسلمانوں پر کفر کے فتوے نکلے۔(یہ صریح جھوٹ تھا کیونکہ فتویٰ تکفیر کی ابتدا مولوی محمد حسین بٹالوی اور سید نذیر حسین دہلوی کی طرف سے ۱۸۹۱ء میں ہوئی تھی) جس کے نتیجہ میں کلمہ گو احمدیوں کو غیر مسلم کہنے والے خود بموجب حدیث نبویؐ کافرہوگئے۔ ان علماء کی ایسی تمام الزام تراشیوں کے جواب میں اگر جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ نے الزام خصم کے طور پر یہ کہہ دیا کہ جو الزامات آج حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ پر لگاتے ہو،وہی بزرگ انبیاء پر پہلے لگاچکے ہو۔تو اس میں کون سی اعتراض کی بات ہے؟ انبیاء پر ناروا الزامات: نبیوں پر الزامات کےحوالہ کےلیے ایک تو تفسیر بیضاوی ہے یہ معتبرقرآنی تفسیر جملہ مدارس دینی میں اور تمام علمائے احناف پڑھتے ہیں۔ تفسیر بیضاوی کےمطابق حضرت یوسفؑ نے اپنے نانا کا بت چرایا اور توڑ کر روڑی پر پھینک دیا اور گرجے سے سونے کا ایک بت چوری کیا۔ ( تفسیر انوار التنزیل از ناصرالدین بیضاوی جز۳صفحہ۱۷۲) ایک دیوبندی عالم مفتی محمدشفیع عثمانی کے مطابق حضرت اسحاقؑ کاپٹکا حضرت یوسفؑ کے پاس نکلا… جس میں چوری کا الزام حضرت یوسف علیہ السلام پر لگا۔‘‘(معارف القرآن جلد ۵ صفحہ ۱۲۲، سورہ یوسف: آیت ۷۷) حضرت ابراہیم ؑکے تین جھوٹ کا تفصیلی واقعہ مشہور تفسیر طبری میں ہے۔جسے تمام علمائے احناف تسلیم کرتے ہیں۔کسی نے تردید کی ہوتو ثبوت دیں۔لکھا ہے کہ ’’حضرت ابراہیمؑ نے سوائے تین جھوٹ کے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔اول یہ کہ کہا اِنِّیْ سَقِیْمٌ(میں بیمار ہوں حالانکہ تندرست تھے) دوسرے کہا فَعَلَهٗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا (یہ چھوٹےبت بڑے بت نے توڑےحالانکہ خود توڑےتھے )تیسرے انہوں نے اپنی بیوی سارہ کے بارے میں کہا هَذِهِ أُخْتِي ( یہ میری بہن ہے۔)۔‘‘( تفسیر طبری جز ۲۳ صفحہ ۷۱) یہی بات مولوی اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی صاحب اپنی تفسیر میں بحوالہ روایت بخاری و مسلم و ابن کثیر تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں (حضرت ابراہیمؑ)نے مطابق الہام اپنی جان بچانے کے لیے یہ جھوٹ بولا جو ظاہر میں جھوٹ مگر شرع میں جائز ہے کیونکہ شرع میں وہ جھوٹ ناجائز ہے جس کے ذریعہ غیر کو نقصان اوراپنے لیے ناجائز نفع مطلوب ہو…اور بتوں کے توڑنے کے معاملہ میں انہوں نے بت پرستوں کے فائدہ کے لیے جھوٹ بولا۔(تفسیر مولوی اشرف علی تھانوی صفحہ ۴۵۶ حاشیہ مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی) یہی تفسیر کنز الایمان مترجم علامہ احمد رضا خان صاحب بریلوی و مفسر مولوی محمد نعیم الدین صاحب نے لکھی کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام بت خانہ کی طرف لوٹے یعنی بتوں کو توڑ کر چھوڑ دیا اور سیوا اس کے کاندھے پر رکھ دیا… فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا…‘‘(کنز الایمان صفحہ ۴۷۴ حاشیہ مطبوعہ فرید بک ڈپو دہلی ۶ حوالہ نمبر ۲۲۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کو قرآن کریم نے صدّیق نبی فرمایا۔ان کی سچائی کا دفاع صرف حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ اور آپ کی جماعت نے کیا جس پر علماء احناف الٹا خفا ہوتے ہیں۔چنانچہ مفتی شفیع عثمانی صاحب ان جھوٹوں کو ’’توریہ‘‘ کے لبادہ میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئےلکھتے ہیں: حدیث کذبات ابراہیم علیہ السلام کو غلط قرار دینا جہالت ہے۔ مرزا قادیانی اورکچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو باوجود صحیح السند ہونے کے اس لیے غلط اور باطل کہہ دیا کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور سند کے سارے راویوں کو جھوٹا کہہ دینا اس سے بہتر ہے کہ خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے۔ (معارف القرآن جلد ششم صفحہ ۱۸۵تا ۱۹۰مطبوعہ دار الکتاب دیوبند۔ یوپی ۲۴۷۵۵۴) تفسیرطبری میں حضرت داؤد ؑکے بارے میں لکھا ہے آپ کی ۹۹ بیویاں تھیں۔آپ نے ایک حسین ترین عورت کو چھت پر نہاتے دیکھا توا س پر دل آگیا۔ اس عورت کے متعلق دریافت کیا تو پتا چلا کہ اس کا خاوند فلاں چھاؤنی میں ہے۔آپ نے کمانڈر کو پیغام بھجوایا کہ اس عورت کے خاوند اھریا کو فلاں دشمن کے مقابلے میں بھجوا دو۔ دو دفعہ تو اھریا کو فتح ہوئی۔ تیسری دفعہ اسے کسی اور طاقتوردشمن کے مقابلے میں بھجوایا تو وہ مارا گیا۔ حضرت داؤد نے اس کی بیوہ سے شادی کرلی۔ (تفسیر طبری جز ۲۳ صفحہ ۱۴) اسی تفسیر طبری میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے ایک دفعہ حضرت زینبؓ کو دیکھ لیا۔وہ آپؐ کے دل کو اچھی لگی اس وقت وہ آپ کے غلام حضرت زیدؓ کے عقد میں تھی۔آپؐ چاہتے تھے کہ زینب زید سے علیحدہ ہو تی تو آپؐ نکاح کر لیتے۔ آپؐ زید کو بیوی اداکرنےکا کہتے حالانکہ اپنے دل میں زید سے زینب کی علیحدگی کو چھپاتے تھے تاکہ اس کے بعد آپ شادی کر لیں اور جب زید نے طلاق دے دی تو آپؐ نے نکاح کر لیا۔(تفسیر طبری جلد ۲۲ صفحہ ۱۲۔۱۳ طبع ثانیہ مصر) اور تفسیربیضاوی میں لکھا ہے کہ وقع فی نفسہ حبھا یعنی معاذ اللہ آپ کےدل میں حضرت زینبؓ کی محبت گھر کرگئی۔ کیاتبصرہ نگار کے چیلنج کے جواب میں ان علمائے احناف ومفسرین کے یہ حوالے کافی نہیں جن کے مدارس میں بیضاوی ایک درسی کتاب ہے اور آپ کے علماء نے تفسیر طبری کی زیارت تو کی ہوگی۔کسی ایک عالم کا تردیدی بیان یا تفسیر دکھا دیں جس میں انہوں نے انبیاء کےخلافِ شان مذکورہ بالا تفاسیر سے انکار کرتے ہوئے حضرت یوسفؑ کو چور، حضرت ابراہیمؑ کو جھوٹا اور حضرت داؤد کو کسی کی بیوی چھیننے اور رسول اللہؐ کےحضرت زینبؓ پر عاشق ہو کر شادی کرنے کی تردید کی ہو۔ دوسری طرف حضرت بانئ جماعت احمدیہ ان مضمونوں کی تردید کریں تو اس کےخلاف لکھتے ہیں جوان معنی کی تردید کرتے ہیں۔ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ ان تمام غلط واقعات کی تردید اپنی تفسیر صغیر اورتفسیر کبیر میں واضح دلائل سے کرتے ہیں آپ انہیں غلط القاب سے یاد کرتے ہیں۔ اب خود انصاف سے بتائیں ابلیس کی زبان کس کی ہوئی؟ جھوٹے الزام تراش اور ایسی تفاسیر کے اقراری یا ان کی تردید کرنے والے کی؟ دعوت اشتراک: آخر میں تبصرہ نگار کو قرآن شریف کی اصولی تعلیم کی روشنی میں دعوت کلمۂ اشتراک ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ۔ (آل عمران: ۶۵) ترجمہ:۔ تُو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کى طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمىان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسى کى عبادت نہىں کرىں گے اور نہ ہى کسى چىز کو اُس کا شرىک ٹھہرائىں گے اور ہم مىں سے کوئى کسى دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہىں بنائے گا پس اگر وہ پھر جائىں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ ىقىناً ہم مسلمان ہىں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کلمہ گو احمدیوں کا تمام مسلمانوں سے صرف توحید میں ہی اشتراک نہیں بلکہ رسالت محمد مصطفےٰﷺ پر ایمان میں بھی اشتراک ہے۔جیسا کہ مولوی ثنا ء اللہ امرتسری صاحب نے لکھا: ’’اسلامی فرقوں میں خواہ کتنا بھی اختلاف ہو مگر آخرکار نقطہ محمدیت پر جو درجہ ہے وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ کا سب شریک ہیں۔اس لیے گو ان میں باہمی سخت شقاق ہے مگر اس نقطہ محمدیت کے لحاظ سے ان کو باہمی رحماء…ہونا چاہیے۔مرزائیوں کا سب سے زیادہ مخالف میں ہوں مگر نقطہ محمدیت کی وجہ سے میں ان کو بھی اس میں شامل جانتا ہوں۔‘‘(اخبار اہلحدیث امرتسر صفحہ ۳۔۱۶ اپریل ۱۹۱۵ء) اس پہلو سے توحید او رمحمد مصطفےٰ ﷺاور آپ کےاسوہ و نمونہ پر عمل اور دنیا میں اس کی اشاعت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے جسے ادا کرنے کی بجائے اس میں روک یا رخنہ پیدا کرنا کسی کوزیب نہیں دیتا۔اس لیے سیرت النبیؐ کےپاکیزہ موضوع پر لکھی کتاب پر تنقید کرنے کی بجائے اس سے بہتر کتاب پیش کریں یا لانےکی سعی کریں اور اگر یہ نہیں کر سکتے اورنہ کرسکیں گے تو پھر اس کتاب میں مندرج پاکیزہ اخلاق فاضلہ پر عمل کرنے کی ہی سعی کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔آمین (‘ابو احمد’) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اہلحدیث ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘کے تنقیدی تبصرہ کا جائزہ(قسط دوم)