https://youtu.be/LVK_Qq9eNe0 (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ۲۱؍مارچ ۱۹۲۴ء) ۱۹۲۴ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے سورہ فاتحہ میں مذکور انبیاء کی صداقت کے پرکھنے کے معیار کا فلسفہ بیان فرمایا ہے۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) سورۂ فاتحہ …میں بتایا گیا ہے کہ کوئی نبی صرف اس لئے نہیں مبعوث کیا جاتا کہ وہ اپنا نمونہ لوگوں کو دکھا کر چلا جائے۔ اور لوگوں کو کچھ نہ دے جائے۔ اگر ایسا ہوتا اور نبی کی بعثت کی غرض صرف نمونہ دکھانا ہوتی۔ تو قرآن کریم میں اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ نہ آتا بلکہ اِہۡدِنی الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ آتا۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔یہ کہو کہ اے خدا !ہم کو سیدھا رستہ دکھا اور ہمیں کامیاب کر۔ یہ نہیں سکھاتا کہ کہو مجھ کو کامیاب کر تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: دنیا میں مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں جو سارے کے سارے اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے ہیں۔ لیکن ایک سمجھ دار انسان کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنے سامان مہیا کر دیے گئے ہیں کہ جن کے ذریعہ وہ سچے اور جھوٹے میں فرق کر سکتا ہے۔ اور اگر تعصب کی پٹی اس کی آنکھوں پر نہ بندھی ہو۔ یا غفلت کی وجہ سے اس کی آنکھیں بند نہ ہوں۔ یا اس کے دماغ میں فتور نہ ہو تو وہ دھوکہ نہیں کھا سکتا۔ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ نشانوں میں سے ایک نشان ایسا ہے جس سے ہر مذہب کی صداقت کا ہی پتہ نہیں لگ سکتا بلکہ اس کی زندگی بھی معلوم ہو سکتی ہے۔ وہ نشان سورۂ فاتحہ میں بیان کیا گیا ہے۔ میں نے بارہا بتایا ہے کہ سورہ فاتحہ اپنے اندر اتنے کمالات اور اس قدر معارف رکھتی ہے جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے۔ خود مجھے بیسیوں مواقع ایسے پیش آئے ہیں کہ میں نے سورہ فاتحہ پڑھی اور مجھے اس کے معنی سکھائے گئے۔ اس کا باعث میری ایک روٴیا ہے جو میں نے ۱۶ یا ۱۷ یا ۱۸ سال کی عمر میں دیکھی تھی۔ خواب میں مجھے ایک ایسی آواز سنائی دی جیسے پیتل یا تانبے کی چیز کو ٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ آواز میرے دل سے نکلی اور میرے کانوں نے سنی۔ پھر وہ بلند ہونی شروع ہوئی۔ جوں جوں بلند ہوتی جاتی تھی۔ ایک وسیع میدان بنتا جاتا تھا اس میدان میں سے ایک صورت نمودار ہوئی۔ جو فرشتہ تھا وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہیں قرآن کی تفسیر سکھاؤں میں نے کہا ہاں ضرور سکھاؤ۔ اس نے مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر شروع کرائی۔ جب وہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ تک پہنچا تو کہنے لگا۔ سب مفسروں کی تفسیریں یہاں ختم ہو جاتی ہیں۔ آگے کسی نے تفسیر نہیں کی۔ میں خواب میں اس بات پر حیران نہیں ہوتا۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ آگے بھی تفسیریں لکھی گئی ہیں۔ میں سمجھا یہ کوئی خاص بات بتانے لگا ہے۔ اس نے مجھے وَلَاالضَّآلِّیۡن تک تفسیرسکھائی۔ جب وہ اس قدر تفسیر سنا چکا تو میری آنکھ کھل گئی۔ اس وقت اس تفسیر میں سے ایک دو نہایت لطیف نکتے مجھے یاد تھے۔ میں نے خیال کیا صبح لکھ لوں گا اور پھر سو گیا۔ لیکن صبح کو جب اٹھا تو وہ بھی بھول گئے۔ ان دنوں میں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے طب پڑھا کرتا تھا۔ یہ روٴیا انہیں سنائی تو فرمانے لگے۔ واہ میاں اسی وقت وہ باتیں لکھ لینی چاہئے تھیں۔ میں نے کہا میں نے سمجھا صبح تک یاد رہیں گی جو نہ رہیں۔ مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ مجھے سکھایا گیا تھا وہ یاد رکھنے کے لئے نہ تھا بلکہ ایک ذخیرہ تھا جو میرے دماغ میں بھرا گیا۔ اس روٴیا کے بعد جب بھی میں سورہ فاتحہ کو پڑھتا ہوں اسی وقت مجھے اس کے نئے معانی سمجھائے جاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور پھر حضرت مسیح موعودؑ نے سورۂ فاتحہ پر بہت زور دیا ہے۔ اور اس کے نکات اور معارف کا دائرہ بہت وسیع بتایا ہے۔ ہم ایمانی طور پر اس بات کو مان سکتے تھے۔ لیکن ذاتی طور پر دعویٰ نہیں کر سکتے تھے۔ اب اپنے تجربہ کی بنا پر میں یقین اور حق الیقین پر پہنچا ہوں کہ اس میں سے بڑی بڑی تفسیریں نکلتی ہیں۔ اور اس میں اس قدر معارف اور نکات ہیں جو کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ معیار صداقت کے متعلق بھی میں نے دیکھا ہے۔ اگر باقی قرآن کریم کو نہ بھی دیکھیںتو بھی سورۂ فاتحہ ہی اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس میں ایک معیار پیش کیا گیا ہے۔ اس سے سچے اور جھوٹے مدعی نبوت کو بآسانی پرکھا جاسکتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کوئی نبی صرف اس لئے نہیں مبعوث کیا جاتا کہ وہ اپنا نمونہ لوگوں کو دکھا کر چلا جائے۔ اور لوگوں کو کچھ نہ دے جائے۔ اگر ایسا ہوتا اورنبی کی بعثت کی غرض صرف نمونہ دکھانا ہوتی تو قرآن کریم میں اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ نہ آتا بلکہ اِہۡدِنی الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ آتا۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ کہو کہ اے خدا !ہم کو سیدھا رستہ دکھا اور ہمیں کامیاب کر۔ یہ نہیں سکھاتا کہ کہو مجھ کو کامیاب کر۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کوئی اور الفاظ نہیں رکھے۔ اور دوسروں کے لئے کوئی اور بلکہ ایک ہی الفاظ سب کے لئے رکھے ہیں پس اگر کوئی نبی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام ملے لیکن آگے اس کے اتباع کو وہ انعام نہ ملیں تو سب لوگ یہی سمجھیں گے کہ اسے کچھ نہیں ملا۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والا اگر زبانی سناتا رہے کہ مجھے خدا نے یہ کچھ دیا ہے مگر عملی طور پر کسی کو کچھ نہ دلائے تو اس کے آنے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص آئے اور ایک لڑکے کو کہے کہ میں تمہارے باپ کے پاس سے آیا ہوں۔ اس نے تمہارے لیے کرتہ ٹوپی اور جوتی دی ہے۔ مگر اسے کچھ نہ دے اور یہ کہہ کر چل پڑے۔ تو یہی کہا جائے گا کہ جو کچھ اس نے کہا غلط کہا۔ ہاں اگر وہ چیزیں دے تب سمجھا جائے گا کہ وہ سچ کہتا ہے۔ چونکہ جو انبیاء آتے ہیں وہ اھدنا کہتے ہیں۔ اور خدا سے اوروں کے لئے بھی مانگتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ دوسروں کو بھی کچھ دیں تاکہ معلوم ہو کہ وہ اس خدا کی طرف سے آئے ہیں۔ جس نے اپنی مخلوق کی بھلائی اور بہتری کے لیے انہیں بھیجا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے مگر ماننے والوں کو کچھ نہیں دیتا تو صاف ظاہر ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ پچھلے دنوں ہم ایک جگہ سفر پر گئے۔ وہاں کی ایک عورت کا لڑکا یہاں پڑھتا ہے۔ اس نے اپنے لڑکے کے لئے مٹھائی دی کہ اسے دے دیں۔ یہ محبت اور الفت کا تقاضا تھا۔ مگر ایک شخص جو خدا کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرے اور لوگوں کو کہے کہ میں تمہاری طرف آیا ہوں مگر نہ کچھ ان کے لیے لائے اور نہ انہیں کچھ دے تو کس طرح مان لیں کہ خدا نے اسے بھیجا ہے۔ کیونکہ اگر خدا اسے اپنی مخلوق کی طرف بھیجتا تو کوئی چیز بھی اسے دیتا کہ جا کر مخلوق کو دے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کسی نبی کے ذریعہ جو کتاب ملتی ہے وہ دنیا کے لیے انعام ہوتا ہے۔ مگر یاد رہے صرف لطائف اور نکات سن لینے سے کسی کی تسلی نہیں ہو سکتی۔ کیا اگر کسی بھوکے کے پاس کوئی آئے اور پچا کے مار کے چلا جائے تو بھوکے کا پیٹ بھر جائے گا اور اس کی بھوک دور ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی نبی آئے اور کچھ باتیں سنا کر چلا جائے تو خواہ وہ باتیں کیسی ہی اعلیٰ ہوں فائدہ نہیں دے سکتیں۔ خدا تعالیٰ اگر کوئی نبی بھیجتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ علیٰٰ قدر مراتب نبی کے سے کمال حاصل کر سکیں۔ ان میں ایسی تبدیلی اور تغیر واقعہ ہو کہ انبیاء سے مشابہت اور تعلق پیدا کر لیں۔ اس معیار کے مطابق دیکھو جھوٹے نبی کبھی نہیں ٹھہر سکتے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہوتا جو ساری دنیا تک پہنچے۔ ایک طبقہ ہوگا جس میں رہے گا۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کچھ بےوقوفوں کو جمع کرے اور ان سے اپنی باتیں منوالے اور پھر وہ اپنے جیسے اوروں سے منوا لیں۔ اس طرح کچھ نہ کچھ لوگوں کو منوا سکتے ہیں۔ اور کچھ نہ کچھ بے وقوف ہر شخص کو کسی نہ کسی نسبت سے مان لیتے ہیں۔ جیسا کہ ابن عربی لکھتے ہیں۔ میں نے ایک کوّا اور ایک کبوتر کو اکٹھے بیٹھے دیکھا اور حیران ہوا کہ ان کی رفاقت کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ اس بات کے دریافت کرنے کے لیے میں ٹھہر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب دونوں چلے تو میں نے دیکھا۔ دونوں لنگڑے تھے ان کا جوڑ لنگڑے پن کی وجہ سے تھا۔ جس رنگ کا کوئی آدمی ہوتا ہے اسی رنگ کے آدمی سے مل جاتا ہے۔ سچے نبی بھی چونکہ ساری دنیا تک نہیں پہنچ سکتے نہ آئندہ کے لئے ان کی کارروائیاں نمایاں رہتی ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ انہیں ایسے نشانات کے ساتھ بھیجتا ہے جو ہر جگہ اور ہر زمانہ میں زندہ اور روشن ثابت ہوں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی فرمایا ہے کہ جو نشانات مجھے دیئے گئے ہیں یہ اگر تمہیں ملیں تب بات ہے۔ ورنہ میرے بعد میرے نشانات اگر قصوں کے طور پر رہ گئے تو اسی طرح ہوں گے جس طرح اوروں کے پاس ہیں۔ ان کو لوگ کس طرح مانیں گے۔ مثلاً ہمارے آدمی غیر ملکوں میں جائیں اور وہاں کے لوگوں کو جاکر سنائیں تو وہ کہیں گے۔ یہ تو ایسے ہی قصے ہیں جیسے یسوع مسیح کے ہیں۔ پھر ان میں اور ان میں فرق کیا رہا۔ فرق تبھی ہو سکتا ہے جب کہ سنانے والا انسان اپنے اندر نبوت والا امتیاز اور نشان رکھتا ہو اور رسول کے انعام سے اسے بھی حصہ ملا ہو۔ یہی صداقت کا نشان ہے اور اھدنا میں اسی کی طرف اشارہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہتے ہیں۔ الٰہی مجھے ہدایت ملنے سے دنیا میں ہدایت نہیں پھیل سکتی جب تک میرے ساتھیوں کو بھی نہ ملے۔ کیونکہ نبی کے متبع جہاں بھی جائیں جا کر دکھا سکتے ہیں کہ دیکھو یہ انعام اس نبی کی صداقت کا ثبوت ہے۔ جو اس کے ذریعہ ہمیں ملا۔ اس معیار کے مطابق کوئی بھی جھوٹا نبی نہیں ٹھہر سکتاکیونکہ جو نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ یہ بھی کہے گا کہ مجھے نبیوں والے انعام ملے ہیں۔ وہ اس کے ماننے والوں میں دیکھنے چاہئیں۔ مگر کوئی جھوٹے مدعی کا پیرو یا خود جھوٹا مدعی نہیں دکھا سکے گا اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود ؑکی جماعت میں ہزاروں ایسے آدمی ہیں جنہیں نشان دکھائے جاتے ہیں۔ وہ چونکہ مامور نہیں اس لئے دوسروں کو سناتے نہیں لیکن اگر ان کے نشانات کو جمع کریں تو ایک بہت بڑی کتاب بن جائے۔ کیونکہ کوئی مخلص احمدی ایسا نہیں کہ جسے خدا نے نشان نہیں دکھائے اور دوسروں نے دیکھے نہیں۔ ایسا شخص اگر مسیح موعود کے نشانات کو سورج کی طرح دیکھ کر اپنے نشانات کا ذکر زبان پر نہ لائے تو اور بات ہے۔ لیکن اگر کہا جائے کہ تم انکسار نہ کرو اور نشانات بتاؤ تو کوئی ایسا احمدی نہیں ہو گا کہ جس میں اخلاق کا شائبہ بھی ہو اور اس لیے خدا کے نشان نہ دیکھے ہوں کوئی شاذو نادر ہی ایسا شخص ہو گا جس نے تعلق کو بڑھانے کی کوشش نہ کی ہوگی ورنہ اور کوئی نہیں ہو سکتا لیکن کیا کوئی اور مدعی بھی ہے جس کے پیرو ایسے ہیں۔ یہی جو بہائی فتنہ ہے۔ کیا ان میں سے کوئی ہے جو نشان دکھا سکے۔ کوئی نہیں دکھا سکتا۔ کچھ عرصہ ہوا رنگون سے کسی نے لکھا تھا بہائی بھی نشان دکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں نے جواب میں لکھایا کہ وہ اپنے خلیفہ کو میرے مقابلہ پر کھڑا کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا کس کی مدد اور تائید کرتا ہے۔ یقیناً خدا میری مدد کرے گا اس لیے نہیں کہ میں مامور ہوں بلکہ اس لیے کہ میں خدا کے سچے نبی کا جانشین ہوں اور نبی خدا کی نعمتوں اور فضلوں کے قاسم ہوتے ہیں۔ یعنی دوسروں میں بانٹتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام ہی قاسم تھا پس جس قسم کے نشان نبی دکھاتے ہیں ویسے ہی اگر مدعی نبوت کی امت میں نظر آئیں تو وہ سچا نبی ہوگا اور اگر نہ نظر آئیں تو سچا نہیں ہو گا۔ ہاں نبی اور اس کی امت کے نشانات میں قلت اور کثرت کا فرق ہو گا اس کی مثال ایسی ہی ہو گی۔ تازہ بتازہ سنگترے تو باغ ہی سے مل سکتے ہیں۔ لیکن وہ بھی سنگترے ہی ہوتے ہیں جو دکان سے مل جائیں۔ یہ ایسا زبردست معیار ہے کہ جس سے سچے اور جھوٹے میں بین فرق ہو جاتا ہے۔ اس کے مطابق میں عام چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی مدعی ہے تو بالمقابل آئے اور دیکھے کہ خدا ہماری تائید کرتا ہے یا اس کی ہمارے لیے نشان دکھاتا ہے یا اس کے لیے اگر خدا تعالیٰ ہماری مدد نہ کرےاور اس کی کرے تو وہ سچا اور اگر ہماری کرے اس کی نہ کرے تو معلوم ہوا کہ ہمارے سلسلہ کا بانی سچا اور خدا کا برگزیدہ ہے۔ باقی سب قصے کہانیاں ہیں کہ ان کے بانیوں نے اپنے مریدوں کو کچھ نہیں دیا۔ اگر اس بات کو ہماری جماعت کے لوگ یاد رکھیں تو کبھی ٹھو کر نہ کھائیں۔ ہر اس شخص سے جو کسی جھوٹے مدعی کا پیرو ہونے کا دعویٰ کرے۔ اس سے پوچھنا چاہئے کہ تمہیں کیا ملا ہے؟ ہم کو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ یہ نشان ملے ہیں اور اگر وہ خود ایسا نہیں کہ اسے نشان ملے تو کہے کہ ہماری اور اپنی جماعت کے لوگوں کے نشانات کا مقابلہ کرلو اس مقابلہ میں کوئی شخص تمہارے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کو ان نشانات کا وافر حصہ دے جو اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو دیے ہیں تاکہ کوئی جھوٹا ان کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ اور خدا تعالیٰ دنیا کی آنکھیں کھولے تاکہ لوگ جھوٹ اور فریب ، حق اور صداقت میں فرق کر سکیں۔ اور جھوٹ و فریب کو چھوڑ کر حق اور راستی اختیار کر سکیں۔ (الفضل یکم اپریل۱۹۲۴ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: کامیابی کے لئے صحیح ذرائع کی ضرورت