https://youtu.be/1MCfnYBH-j8 ’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘ پر ایک تبصرہ میں سابق پرنسپل کالج نے لکھا کہ ’’سکولوں اور کالجوں میں یہ کتاب نصاب کے طور پر شامل ہو۔‘‘ ’’بےلاگ تبصرہ؟‘‘اور اس کا پس منظر: ’’کتاب اسوۂ انسان کاملؐ پربے لاگ تبصرہ ‘‘کے عنوان سےاہلحدیث کے ہفت روزہ الاعتصام لاہور کے شمارہ ۱۱جنوری تا۱۴؍فروری ۲۰۲۵ء میں قسط وار مضامین کا سلسلہ نظر سے گزرا۔ تبصرہ نگار ابو صہیب محمد داؤد ارشدصاحب ہیں۔ جن کےساتھ لفظ ’’مولانا‘‘ کو بریکٹ میں رکھ کر ایڈیٹر’’ الاعتصام ‘‘نے کچھ اظہار تحفّظ بھی کیا ہے۔ تبصرہ کا پس منظر یہ ہے کہ تبصرہ نگارکو تقریباًتیس سال قبل مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب اور مصنف’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘ سے ضلع میانوالی کے ایک مناظرہ میں ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔ جس کےبعدموصوف پہلے سےزیادہ جماعت احمدیہ کےخلاف اعتراضات اورنارواتنقید کا سلسلہ جاری رکھ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اب انتہا یہ ہے کہ سیرت رسولؐ جیسے مقدس موضوع پر لکھی ہوئی کتاب پر بھی آنکھیں بند کرکے تبصرہ کر ڈالا۔ تبصرہ میں ’’مصنف کتاب سیرت ‘‘کےلیے’’فنکار‘‘، ’’شاطر‘‘، ’’جدلیات کے تجربہ کار‘‘ اور’’ الدّالخصام‘‘ وغیرہ کے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ جن سے موصوف کا ذاتی بغض و تعصب تو عیاں ہے ہی، اس متعصبانہ تبصرہ کا ’’بےلاگ‘‘ہونا بھی داغدار ہوگیا ہے۔ مصنف کو’’جاہل دیہاتی ‘‘، ’’افتراءپرداز‘‘ کہنے کےعلاوہ جماعت احمدیہ کو’’امت مرزائیہ‘‘، ’’خبیث العقیدہ حضرات‘‘ اور ’’اسوۂ انسان کامل‘‘ کوبےادبی، افتراپردازی اورتحریف سے بھری ہوئی کتاب قرار دیا۔ اوریوں اپنی شکست مناظرہ کا بدلہ چُکانے کےلیےہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی پاکیزہ سیرت پر لکھی گئی مستند با حوالہ کتاب کوبے جا اعتراضات کا نشانہ بنا ڈالا۔ جس سے مزیدکُھل گیاکہ یہ انتقامی کارروائی مناظرہ میں موصوف کی ہزیمت کا ردّعمل ہےمگر بقول کسے: مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید برکلّہ خود باید زد! مبالغہ آرائی یا غلط بیانی؟: اسےتبصرہ نگار کا مبالغہ کہیں یا غلط بیانی کہ ۱۹۹۴ء میں مناظرہ حافظ والا ضلع میانوالی میں حسبِ معاہدہ فریقین مظفر خان صاحب کے گھر کےبند کمرہ میں دونوں طرف کے پانچ پانچ افرادکو موصوف نے ’’مجمع عام‘‘ قراردے کر مصنف کویوں مخاطب کیا ’’شاید آپ کو یاد ہو راقم نے آپ کو ایک دفعہ سرزنش کرتے ہوئے دورانِ مناظرہ’’مجمع عام‘‘ میں بآواز بلند کہا تھا کہ’’ صحیح بخاری پڑھی بھی ہے یا صرف زیارت ہی کی ہے؟‘‘ ’’بےلاگ تبصرہ ‘‘ میں وہی مناظرہ والا اندازِ کلام تیس سال بعد بھی جاری ہے۔ باوجودیکہ اس عرصہ میں موصوف کو بخاری پڑھ لینے کا ثبوت اسوۂ انسان کاملؐ میں مذکور بخاری کی قریباًچھ صد اورصحاح ستہ کی ایک ہزار احادیث نبویؐ سے مل ہی چکا ہے۔جس کےبعد اسی بے لاگ تبصرہ میں بھی آخر خودتسلیم بھی کیا کہ’’ مؤلف نے… کتب احادیث و سیر کی ورق گردانی خوب کی ہے موصوف کی اس لحاظ سے محنت بھی خوب ہے۔‘‘ موصوف کو بھی یاد ہوگا کہ انہوں نے مناظرہ میں پنجابی میں اپنا تعارف’’ اہلحدیث کا چنڈیاہوا‘‘ کروایاتھایعنی ’’ماہراہلحدیث‘‘ اس تبصرہ میں اس کا پُول بھی کھل گیا۔شاید اسی لیےادارہ ’’الاعتصام‘‘ کو انہیں ’’(مولانا) ‘‘ کہنےپر تحفظ ہوگا؟ الغرض اسوۂ انسان کاملؐ پر یہ ’’داغدار تبصرہ ‘‘مناظرہ حافظ والامیں اپنی ہزیمت کا بھونڈا انتقام لینے کی ایک سعی لاحاصل ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا موصوف دوران مناظرہ مسئلہ وفاتِ مسیح میں لاجواب ہو ئے اور اب تبصرہ میں اس پر پردہ ڈالنے کے لیے لکھا کہ ’’وفات مسیح کا مسئلہ تضییع اوقات ہے‘‘ سچ ہے ناچ نہ جانے آنْگَن ٹیڑھا۔اگر یہ مسئلہ واقعی تضییع اوقات ہے تو کیاہمارے ضیاعِ وقت کے لیے مناظرہ کیا تھا یااپنی ہزیمت کےلیے؟ اور آپ کے گُرو اور’’مولانا‘‘ ثناءاللہ صاحب امرتسری نے ۱۸۹۱ء میں اسی مسئلہ وفات وحیات مسیح کو اصل الاصول قرار دیا تھا۔ (رسالہ تاریخ مرزا صفحہ ۲۴ مطبوعہ جولائی ۱۹۲۳ء) اور حضرت بانئ جماعت احمدیہ نے چیلنج دے رکھا ہے کہ ہمارے مخالفوں کےصدق وکذب آزمانے کےلیے حضرت عیسٰیؑ کی وفات حیات ہے اگر عیسٰیؑ درحقیقت زندہ ہیں توہمارے سب دعوے جھوٹے اور دلائل ہیچ ہیں۔ (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۲۶۴) جن دوستوں نے یوٹیوب پر موصوف کا مناظرہ مذکورسنا ہے،انہیں توموصوف کے تبصرہ پربھی کوئی تعجب نہ ہوگا مگر حیرت ادارہ ’’الاعتصام‘‘ پر ہے جس نےبلاتحقیق ایک مستند کتاب سیرت پر’’(مولانا)‘‘ کا غیر متعلق اور فرقہ واریت پر مبنی تبصرہ شائع کر دیا جس کےجواب کا حق محفوظ تھا اور جو دو حصوں میں دیا جانا ضروری ہے۔یعنی اوّل اسوۂ انسان کاملؐ پر نکتہ چینی کا جواب۔ دوم کتاب کی آڑ میں جماعت احمدیہ پر غیرمتعلق اعتراضات کے جواب۔ قارئین خود انصاف فرمائیں کہ کوئی متعصب اور ہزیمت خوردہ مناظر ’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘ جیسے پایہ کی مستند کتاب سیرت پر علمی تبصرہ کا کیاحق ادا کرے گا ؟ جس کےآغاز میں ہی اپنا بیان ہو کہ ’’ اگلے روز کسی تاجر نے سات صد صفحات پر مشتمل کتاب اسوۂ انسان کاملؐ مطبوعہ ۲۰۱۴ء بھیجی ‘‘ اور موصوف نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، آناً فاناً طویل تبصرہ لکھ مارا۔ حالانکہ سیرت رسولؐ جیسی کتاب پرمنفی تنقید کرنے سے پہلے ایک مومن مسلمان سو بار سوچے گا۔ حدیثِ نبویؐ بھی ہے کہ عجلت شیطانی فعل ہے۔ جلدبازی میں لکھےاس غیر سنجیدہ تبصرہ میں اصل کتاب سے زیادہ جماعت احمدیہ پر گھسےپٹےاعتراضات ہیں،کہیں حضرت بانئ جماعت احمدیہ کی کتب پربے جا تنقیدتوکبھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی کتاب حقیقۃ النبوۃ یا الفضل میں مطبوعہ تقریر پرغلط اعتراض۔ کہیں حضرت قاضی محمدنذیر صاحب لائلپوری کی تعلیمی احمدیہ پاکٹ بُک پر ناروا تنقیدتو کبھی حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب کے تخلص کا غلط استعمال اور ان سب پرعنوان ’’اسوۂ انسان کامل پر بے لاگ تبصرہ‘‘۔ سبحان اللہ! شاید رسالہ الاعتصام میں تبصرہ شائع کرانے کی شرائط یہی بے ربط رطب ویابس اور ’’فرقہ واریت‘‘ وغیرہ ہوں گی۔ ادارہ الاعتصام اگر کتاب میں پہلےسے موجودچند تبصروں پر ہی نظر ڈال لیتا تو محض اختلاف عقیدہ اورمذہبی مخاصمت کی بنا پر ایسا متعصبانہ تبصرہ سیرت النبی ﷺ جیسی کتاب پر شائع کرنے کا روادار نہ ہوتا۔ اسوۂ انسان کاملؐ کے متعلق مشاہیر کی آراء:’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘ پر ایک تبصرہ میں سابق پرنسپل کالج نے لکھا کہ’’سکولوں اور کالجوں میں یہ کتاب نصاب کے طور پر شامل ہو۔‘‘ چیئرمین پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ سرگودھا کی رائے تھی ’’ آنحضرتؐ کی سیرت پر بلا شبہ یہ ایک منفرد تصنیف قرار پائے گی۔‘‘ پاک آرمی کےایک سرجن اورجرنیل نے ’’اسوہ ٔ انسان کامل‘‘ کو’’اردو سوانحی ادب میں ایک خوبصورت اضافہ‘‘ قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے اس کتاب کو ’’آنحضرتﷺ کےحسین اسوہ کا ایک دلآویز گلدستہ‘‘ کہا۔ اہل تشیع مشہور سکالر جناب تبسم نوازوڑائچ ایم اے اردو واسلامیات نےاسے’’سیرت طیبہ کے موضوع پر ایک ممتاز اور منفرد مقام کی حامل کتاب‘‘ لکھا۔ ایک شاعر وادیب جناب رشیدقیصر انی صاحب نے لکھا: ’’مسلسل دوران مطالعہ زبان سے درود و سلام اور آنکھیں آنسوؤں کا نذرانہ اس شان دلربا کے حضور پیش کرتے رہے۔‘‘ مگر ان سب تبصرہ نگار حضرات نےتو عشق و محبت کی نظر سے اس کتاب سیرت کا مطالعہ کرکے اپنی آراء لکھی تھیں جن سے ادارہ’’ الاعتصام‘‘پر واضح ہوتا کہ اس ( شکست خوردہ مناظر) تبصرہ نگار نے اسوۂ کامل کا مطالعہ محض نفرت کی نظر سےکیا ہے۔ بقول شاعر وَعَيْنُ الرِّضَا عَنْ كُلِّ عَيْبٍ كَلِيلَةٌ کَمَا اَنَّ عَيْنَ السُّخْطِ تُبْدِي الْمَسَاوِيَا یعنی محبت کی آنکھ ہر عیب نظر انداز کردیتی ہےجیسے بغض و عدوات کی آنکھ کو صرف برائیاں ہی دکھتی ہیں۔ کاش !تبصرہ نگار سیرت رسول ﷺ جیسی پاکیزہ کتاب میں تنکاتنکا عیب تلاش کرنے سے پہلے اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دیکھ پاتے۔ اگرموصوف میں خود کسی سنجید ہ اور منصفانہ تبصرہ کی لیاقت نہ تھی تو آج کےترقی یافتہ دور میں کم ازکم ’’مصنوعی ذہانت‘‘ ہی مستعار لے لیتےاورChat GPT پر ’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘ کے بارے پوچھ کر دیکھتےجو مسلسل بلاتعصب یہ رائے دے رہی ہے کہ’’ اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘سیرت نگاری کی اہم تصنیف ہے۔جو سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو مستند روایات اور واقعات کی روشنی میں پیش کرتی ہے کتاب میں اسوۂ حسنہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ قاری کو ایک جامع اور عملی نمونہ میسر آئے۔ اسوۂ انسان کاملؐ ایک مستند اورمفید سیرت کی کتاب ہے جو نہ صرف جماعت احمدیہ کے افراد بلکہ قارئین کے لیے بھی مفید ہے۔اگر آپ سیرت نبویؐ پر ایک جامع اورمستند کتاب کی تلاش میں ہیں تواسوہ ٔانسان کامل ایک بہترین انتخاب ہو سکتی ہے۔‘‘ ’’انسان کامل ‘‘ کے نام پر اعتراض: تبصرہ نگار کو عجلت میں جب کتاب کےبارے میں کوئی اور خاطرخواہ اعتراض نہ ملا تو بے سوچےسمجھے کتاب کا نام ہی غلط قرار دے دیا اور یہ خیال نہ کیا کہ اسی نام کی جتنی مسلّمہ کتب موجود ہیں یہ حملہ ان سب پرہو گا۔ موصوف نے اپنےاس نامعقول اعتراض کی وجہ یہ لکھی کہ ’’قادیانی بجائے اسوہ ٔنبی کے یہ نام رکھ کر مستشرقین کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔‘‘انہیں یہ بھی علم نہیں کہ ’’انسانِ کامل‘‘ پر پہلی کتاب علامہ ابن عربیؒ نے سات سوسال پہلے لکھی جب مستشرقین کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ گویاتبصرہ نگار نے اپنی عمارت کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ کر اپنے تبصرہ کا ستیاناس کردیا۔ کاش وہ دیکھتے کہ شیخ اکبروسرتاج صوفیا حضرت مولانا محی الدین ابن عربی(وفات ۶۳۸ھ) کی تصنیف’’انسان کامل‘‘ میں اس کے مترجم مفتی سید سجاد حسین شاہ کاظم نے کیا خوب لکھا: آقائے نامدار سیدالکونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جو کہ ’’انسان کامل‘‘ ہیں کی سیرت پاک پر مستند ترین کتاب۔ انسانِ کامل کے نام سے دوسری عظیم الشان کتاب حضرت سید عبد الکریم جیلانی متوفی۵۶۱ھ کی ہے جوخزینہ تصوّف کہلاتی ہے اور جس میں آنحضرت ﷺ کو بطور خاتم النبیینؐ انسان کامل قراد دیتے ہوئے لکھا ہے:’’کوئی ایسا شخص کامل نہیں جو رسول اللہ ﷺ کےبعد ایسی چیزبیان کرے جس کو آپؐ نے بیان نہ کیاہو تاکہ اس کامل کا اتباع کیا جائے۔ پس تشریعی نبوت کا حکم آنحضرت ﷺ کےبعد منقطع ہوگیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ٹھہرے۔چونکہ سب کمالات کے آپ ہی جامع تھے۔(انسان کامل مترجم صفحہ ۱۷۲ مطبوعہ فیض بخش سٹیم پریس فیروز پور شہر ۱۹۰۸ء) ‘‘ انسان کامل‘‘ کے ہی موضوع پر تیسری معروف کتاب سیرت جناب علامہ ڈاکٹر خالد علوی صاحب ایم اے، ایم اوایل کی ہے۔ جس میں(’’الاعتصام ‘‘سے زیادہ معتبراوروقیع) اہلحدیث کے ہی دوسرے مشہور رسالہ ماہنامہ محدث نےجنوری ۱۹۷۵ء کے شمارے میں یہ تبصرہ شائع کیاکہ ’’فاضل مؤلف (انسان کامل )نے زیر نظر بلند پایہ تالیف… میں تحقیق و تنقید کے معروف اصولوں کو پیش نظر رکھا ہے ہر روایت اور بیان پر محدثانہ جرح سے کام لے کر اخذوتردید کی ہے‘‘ ’’انسان کامل‘‘ نام کی متعدّد کتب میں سے دیگرچند ایک کےنام ادارہ الاعتصام کی نذر ہیں۔فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَار ٭…انسان کاملﷺ مطبوعہ خدابخش اورئینٹل پبلک لائبریری پٹنہ مصنفہ خواجہ غلام السیدین متوفی ۱۹۷۱ء پرنسپل علیگڑھ یونیورسٹی وٹریننگ کالج۔ ٭…انسان کامل ﷺ مصنفہ تمغۂ امتیاز محمد حمید شاہد پاکستان کے نامور افسانہ نگار اور ادبی نقاد ہیں۔ ٭…انسان کاملؐ از حاجی محمد منیر قریشی ممبر پنجاب اسمبلی۔ مطبوعہ نذیر سنز پبلشرزاردوبازارلاہور انسان کاملﷺ از کیڈٹ کالج لاڑکانہ کتاب کا سرورق ’’سیر ت رسول‘‘: تبصرہ نگار اگر تعصب کی عینک اتارکر اپنی تنقید سے پہلے سرورق ہی غور سے پڑھ لیتے تو اس پر لکھی ہوئی یہ آیت قرآنی ہی کافی تھی:لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ(الاحزاب: ۲۲)یعنی اللہ کے رسول میں یقیناً تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔اور اب تو یہ آیت باعث تشفّی ہونی چاہیے:فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَ اللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ یُؤۡمِنُوۡنَ(الجاثية:۷) پس(حضرات اہلحدیث!) اللہ اوراس کی آیات کے بعد کس حدیث پر ایمان لاؤ گے۔ موصوف کا کُھلا تضاد ملاحظہ ہو۔پہلے اپنے تبصرہ میں لکھا ’’کتاب(اسوۂ انسان کاملؐ) کےسرورق پر اس کا تعارف یوں کروایا ہے ‘‘سیر تِ رسولؐ کاایمان افروز تذکرہ‘‘مگر دروغگو را حافظہ نباشد۔ اگلے ہی صفحہ پریہ اعتراض داغ دیا کہ قادیانی سیر ت نبی یا رسول کہنے کی بجائے اسوۂ انسان کاملؐ کہتے ہیں۔ قرآن کا انسان کامل؟:کاش اہلحدیث حضرات قرآن کا بھی بغور مطالعہ کرتے تو سورہ احزاب کی آیت ۷۳ میں یہ موجود پاتے کہ امانت احکام شریعت کو تمثیلی رنگ میں آسمان وزمین اورپہاڑوں پر پیش کیا گیا اور وہ اٹھانے سے ڈر گئے وَحَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا۔ اور پھراس ’’انسان‘‘ نے اسے اٹھالیا جس میں دو خوبیاں ہیں’’ظلوم‘‘ یعنی خدا کی خاطر اپنے نفس پر سختی برداشت کرکے اسے حرام چیزوں سے روکنے والا اور’’جہول‘‘ یعنی غیر اللہ سے غافل ہوکر احکام الٰہی کی تعمیل میں نفسانی جذبات کو دبانے والا اورعواقب سے لاپرواہ۔یہی وہ حامل امانتِ الٰہی ’’الانسان‘‘ تھا جس کےاکمل وارفع اوراعلیٰ فرد ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیﷺ ہیں۔ موصوف مزید مطالعہ قرآن کرتے تو اس حقیقت کی تائید میں سورہ التّین میں بھی نبی کریمؐ کے انسان کامل ہونے کا یہ اشارہ پاتے کہ ’’اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡم‘‘ کی تخلیق وہ مقام ارفع ہے جو انسان کامل حضرت محمد مصطفیٰؐ کو عطا ہوا۔ اسی لیےآپؐ کے شہر ’’’ البلد الامین ‘‘(مکّہ )کی قسم کھا کر فرمایا لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ۔(التين:۵)یعنی ہم نے(اس صاحب بلد امین ) انسان کامل کو خوبصورت اور کامل ترین صفات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔( تفسیر قرطبی سورۂ التّین) سورہ التّین کی تفسیر میں ہی علامہ محمد حنیف ندوی صاحب لکھتے ہیں:’’ فخر موجودات سید اکوان اور صاحب بلد امین کی شان دیکھو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انسانیت کا رتبہ کتنا بلند اورارفع ہے اور یہ وہ تعلیم ہے جو انسانیت کے افق کو تابناک اور روشن بنا دیتی ہے۔(تفسیر سراج البیان ازمحمد حنیف ندوی مکتبہ شاملہ اردو اہلحدیث) اسی طرح سورۂ طہٰ کےآغاز میں جو طاء اور ھاء کے حروف مقطعات ہیں۔ اکثرمفسرین نے اس سے مراد آنحضرت ﷺ کے نام لیے ہیں یعنی اے طاہر، اے مرد کامل،اے انسان کامل۔ صیغۂ مفرد اور اسلوب قرآنی : تبصرہ نگار نے محض کج بحثی سےاسوۂ انسان کاملؐ میں حسبِ ضرورت صیغۂ مفردکا استعمال باعث’’ توہین‘‘ کہا ہے۔ جبکہ اسلوب قرآنی میں اکثر وبیشتر صیغۂ مفرد خدا کی ذات اور رسول اللہؐ کے لیےاستعمال ہوا ہے۔ اسوۂ انسان کاملؐ میں سینکڑوں مرتبہ رسول اللہؐ اورنبی کریمؐ کے الفاظ تو موصوف کو نظر نہ آئےلیکن اگر شاذو نادر کہیں حیرت و تعجب اورشان کے اظہار کے لیے مفرد کا صیغۂ قرآنی اسلوب کے مطابق اختیارکیا تو اس پر بھی اعتراض کر دیا۔ صیغۂ مفردمیں رسول اللہ ﷺ کےلیے قرآنی اسلوب کی مثال ملاحظہ ہو۔ سورہ آل عمران کی آیت۱۴۴ کا ترجمہ اہلحدیث کے علامہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ یوں کرتے ہیں:’’اور نہیں محمد مگر رسول ہے۔ ہوچکے پہلے اس سے بہت رسول۔ اگر وہ مرگیا یامارا گیا تو ہوجاؤ گے الٹے پاؤں۔‘‘(آل عمران:۱۴۴) خود آپ کے ’’مولانا‘‘ ثناء اللہ امرتسری نے اس آیت کا ترجمہ بھی صیغۂ مفرد میں کیا ہےتو کیا وہ توہین کےمرتکب ہوئے؟ پھرآیت خاتم النبیین کا ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ صیغۂ مفرد میں ملاحظہ ہو:’’محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں لیکن رسول ہے اللہ کا۔ اور مہر سب نبیوں پر۔(الاحزاب: ۴۱)‘‘ یہی ترجمہ عبدالقادرمحدث دہلوی صاحب کا ہے۔ صیغۂ مفرد میں اظہارحیرت اورعظمت ومحبت : یہی اسلوب قرآنی شعرائےکرام اور ادیب حضرات کبھی اظہاربشریت، کبھی تعجب وحیرت کبھی اظہار شان اورکبھی محبت کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ تسلیم فاضلیؔ نے یہی اصولِ ادب ایک شعر میں یوں بیان کیا۔ پیار جب حد سے بڑھا سارے تکلف مٹ گئے آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے چنانچہ مولانا حالی ؔنےاپنی مشہورِ زمانہ نعت رسولؐ میں یہی اسلوب اپنایا: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ خطا کار سے درگزر کرنے والا بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا اگر مصنف کتاب نے بھی کسی ایک آدھ جگہ بتقاضائے عظمت اور ادب والفت مفرد صیغے میں ایک سعاد ت مندعربی نوجوان کا ذکر کرتے ہوئےحیرت واستعجاب اور شان رسولؐ کے اظہار کےلیے یہ اسلوب بھی اپنایا گیا، تو جائے اعتراض ہے؟ قابل ذکراہم امر یہ ہے کہ خودتبصرہ نگار نے ازراہ خیانت تحریفِ لفظی کرتے ہوئے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا نام حذف کردیا۔ ملاحظہ ہو :’’اس سعادت مند(عربی) نوجوان کو عبادت الٰہی سے انتہائی لگاؤ تھا … وہ تن تنہا کچھ زادراہ ساتھ لے کر مکہ سے چندمیل دور حرا نامی پہاڑی غار میں جاکر، معتکف ہوکر عبادت کیا کرتا… یہ پاک طینت اور نیک خصلت انسان درگاہ الہٰی میں بارپاگیا۔ حرا سے اتر کر سوئے قوم آنے والا یہ فخر عرب نوجوان ہادی برحق، سید المعصومین حضرت مصطفیٰ ﷺ کا وجود باجود ہے جسے ربّ العزت نے خلعت نبوت سے سرفراز فرمایا۔‘‘(اسوۂ انسان کاملؐ ﷺ صفحہ ۹۹) مبالغہ آرائی اور تکرار کا اعتراض : دس بار ہ افراد پر مشتمل مناظرہ حافظ والا کو’’مجمع عام‘‘ کہہ کر مبالغہ کرنےوالے تبصرہ نگار کا ایک اعتراض یہ ہےکہ پیش لفظ کے مطابق اسوۂ انسان کامل میں اڑھائی ہزار حوالہ جا ت کا ذکر مبالغہ ہے کیونکہ ان حوالوں میں تکرار ہے۔ بصورت تسلیم اوّل تویہ اندازہ بذات خود مبالغہ ہے کہ بغیر تکرار تعداد حوالہ جات نصف رہ جاتی ہے۔ دوسرے تکرار کا یہ نامعقول اعتراض پہلے قرآن کریم پر پڑے گا جس کا اسلوب تکرار اور تصریف آیات بغرض وضاحت وتفہیم ہے (الانعام:۱۰۶) پھرقرآن کےبعد یہ اعتراض بخاری ومسلم پر آئے گا کہ بخاری میں ۳۲۷۵احادیث اور مسلم میں آٹھ ہزار احادیث کا تکرار ہے۔ (شرح تیسیر مصطلح الحدیث صفحہ۶۳) دراصل ایسا تکرار بھی کوئی حقیقی تکرار نہیں ہوتا جب کسی دیگر مسئلہ یا خلق کےبیان کےلیے کوئی حدیث مکرّر لائی جاتی ہے۔ ’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘ کے ثقہ اورمستند حوالے: تبصرہ نگار نے حوالہ جات اسوۂ انسان کاملؐ کے رطب ویابس ہونے کا غیرمعقول اعتراض بھی کیا ہے حالانکہ کتاب کے اڑھائی ہزارحوالہ جات میں سے ایک ہزار تو کتب صحاح ستہ سے ہیں۔اب کیا اہلحدیث کے نزدیک صحاح ستہ رطب ویابس ہے یا دیگرکتب حدیث مؤطا امام مالک، مسند احمد بن حنبل، مستدرک حاکم،المعجم الکبیر للطبرانی وغیرہ جن کےکئی سو مستند حوالے کتاب کی زینت ہیں۔ دراصل اہلحدیث کےبرعکس قبولِ حدیث کے بارے میں حضرت بانئ جماعت احمدیہ کامسلک یہ ہے کہ ’’ہمارا مذہب حدیث کے متعلق یہی ہے کہ جب تک وہ قرآن اورسنت کے صریح مخالف اورمعارض نہ ہو اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے خواہ وہ محدثین کے نزدیک ضعیف سے ضعیف کیوں نہ ہو۔‘‘(الحکم۱۷؍ نومبر۱۹۰۲ء، ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۰۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اس ارشاد کی راہنمائی میں تبصرہ نگار اسوۂ انسان کاملؐ میں سے کوئی رطب ویابس حوالہ یا ایک حدیث بھی خلاف قرآن و سنت نہیں دکھا سکتے۔ حوالہ جات کتاب کےمتعلق تبصرہ نگار کا دوسرا غلط اعتراض یہ ہے کہ حضرت بانئ سلسلہ کی کتاب آریہ دھرم کے مطابق جماعت احمدیہ کی مسلّمہ کتب قرآن شریف کے علاوہ صحاح ستہ اورمؤطا،دارقطنی سمیت صرف ۹ ہیں جبکہ اسوۂ انسان کاملؐ میں ان کےعلاوہ دیگر کتب کےحوالے بھی ہیں۔یہ اعتراض اس لیے باطل ہے کہ ۱۸۹۵ء میں حضرت بانئ جماعت کا ۹مسلّمہ کتب کایہ وقتی اصول ہمارے آقا ومولا محمد مصطفےٰؐ پراسلام دشمن آریہ لیڈروں اورمخالف عیسائی پادریوں کے بے سروپا اعتراضات سے مشروط تھا۔ لیکن ۱۸۹۸ء میں دیگر علمی مباحث کے لیے حضرت بانئ جماعت احمدیہ نے سینکڑوں مستند اسلامی کتب کی فہرست پیش کر کے فرمایا کہ کسی مؤلف کےپاس ان کثیر التعداد کتابوں کا جمع ہونا ضروری ہے۔ جو نہایت معتبر اورمسلّم الصحت ہیں۔اس سلسلہ میں آپ نے اپنی لائبریری کےعلاوہ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ کے کتب خانہ کی سینکڑوں کتب کی فہرست حاشیہ میں دی ہے کہ یہ ہماری مستند کتب ہیں۔(ملاحظہ ہو البلاغ،روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ۴۵۸) الحمد للہ اسوۂ انسان کاملؐ کے حوالہ جات ان کتب سے باہر نہیں۔ البتہ موصوف کے اپنے اعتراض کی زد میں اہلحدیث کی کتب سیرت ضرور آتی ہیں کیونکہ مجدد اہلحدیث علامہ محمد بن عبدالوہاب نے اپنی کتاب مختصر سیرۃ رسول میں اسوۂ انسان کاملؐ کی محوّلہ کتب کے حوالے دیے ہیں جو معترض کے مطابق سب رطب ویابس ہیں۔ابن ہشام، ابن اسحاق، ابن قیم، ابن ابی حاتم اور ابن حبان کی کتب کے حوالہ جات کےعلاوہ اہل تفسیر کی روایات بھی درج کی ہیں پھرسیرت نبویؐ پر دنیا میں اوّل انعام یافتہ کتاب الرحیق المختوم مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہورپر بھی یہی اعتراض ہوگا جس میں اسوۂ انسان کاملؐ کی پچاس سے زائد محوّلہ کتب کے حوالے ہیں اور طُرفہ یہ کہ فہرست حوالہ کتب میں آپ کے ہم مسلک اہلحدیث علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری صاحب نے کلام اللہ قرآن شریف کوپہلے نمبر کی بجائے ۴۴ویں نمبر پر درج کیا ہے۔ شایدآپ کے مطابق اس کی وجہ بھی آیت قرآنی لَا رَطۡبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ۔(الانعام:۶۰) ہوگی۔ الغرض تبصرہ نگاراپنی عجلت کی مجبوری میں درست مطالعہ و جائزہ کتاب’’اسوۂ انسان کامل‘‘میں بُری طرح ناکام رہے۔ اندازہ اس سےلگا لیجیے کہ انہوں نے کتاب کے کل ۴۷؍مضامین کی بجائے ۴۴؍بتائے ہیں جبکہ پیش لفظ میں ہی کتاب کے ۴۷؍عناوین کا ذکر ہے۔ خصائص نبوت ورسالت کا بیان از بانئ جماعت احمدیہؑ: تبصرہ نگار کا یہ اعتراض بھی باطل ہے کہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ اور آپ کی جماعت آنحضرتؐ کا لقب نبی و رسول اور دیگر خصائص چھوڑ کر آپ کو صرف ’’انسان کامل‘‘ کہتے ہیں۔شائدموصوف نےاسوۂ انسان کاملؐ کاسینتالیسواں عنوان ’’نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی‘‘ بنظرغائر نہیں دیکھا جس میں شان رسولؐ میں مشاہیر عالم کے متعدد حوالے ہیں اور آخر میں حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی چند وہ عبارتیں ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کی رسالت،ختم نبوت اوردیگرخصائص بشمول اخلاق نبویؐ مذکور ہیں۔ تبصرہ نگارنے تحریف لفظی اورخیانت سے حضرت مرزا صاحب کا صرف ادھورا جملہ بغرض اعتراض بیان کیا ہے۔کہ’’وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا‘‘ اور اس سےپہلے وہ فقرات چھوڑ دیے جن میں رسول اللہﷺکی ذات و صفات، اخلاق و اعمال اورہر لحاظ سے آنحضرتؐ کے کامل نبی ہونے کے ساتھ آپؐ کےخاتم الانبیاء، ختم المرسلین اور فخر النبیین ہونے کے خصائص کا ذکر ہے۔ یہو د کا خاصہ یہی تحریف تھی اب اصل حوالہ سے موازنہ کیجئے۔حضرت بانئ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں: “ وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اوراپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پرزوردریاسے کمال تام کا نمونہ علماًو عملاً و صدقاً وثباتاً دکھلایا اورا نسانِ کامل کہلایا…وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اورحشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہوگیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمدمصطفیﷺہیں۔ اے پیارے خدا اِس پیارے نبی پروہ رحمت اوردرود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پرنہ بھیجا ہو۔”(اتمام الحجة، روحانی خزائن، جلد ۸ صفحہ ۳۰۸) یہ ہے آنحضرت ﷺ کی شان مبارک میں وہ عدیم المثال عبارت جسے پڑھ کر ایک عاشق رسولؐ بےاختیار آپؐ پر درود بھیجتا ہے سوائے تبصرہ نگار کے جو توہین کا اعتراض کرتا ہے۔ العجب ثم العجب اب اسوۂ انسان کاملؐ کےپیش لفظ کےدوسرے صفحہ سےخصائص نبویؐ کی ایک اور جھلک ملاحظہ ہو جو عجلت میں متعصّب تبصرہ نگار کو نظر نہیں آئی۔ اس عبارت میں خصائل نبی معصومؐ کے علاوہ آپؐ کےمقام خاتم الانبیاء کا ذکر ہے۔حضرت بانئ جماعت احمدیہ نے رسول اللہؐ کے اخلاق فاضلہ کو بیان کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا: عقلِ ذکا،سرعت فہم،صفائی ذہن، حسنِ تحفظ،حسنِ تذکّر، عفت، حیا، صبر، قناعت، زہد، تورّع، جوانمردی، استقلال، عدل،امانت، صدق لہجہ،سخاوت فی محلّہ، ایثار فی محلّہ،کرم فی محلّہ، مروّت فی محلّہ، شجاعت فی محلّہ، علوہمت فی محلّہ، حلم فی محلہ،تحمل فی محلّہ،حمیّت فی محلّہ،تواضع فی محلّہ، ادب فی محلّہ، شفقت فی محلّہ، رافَت فی محلّہ،رحمت فی محلّہ، خوفِ الہٰی، محبت الہٰیہ، اُنس باللہ، انقطاع الی اللہ وغیرہ وغیرہ … جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خود بخود روشن ہونے پر مستعد تھے… اُن نوروں پر ایک اور نورِآسمانی جو وحی الہٰی ہے۔ وارد ہوگیا۔اور اُس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔ (براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد۱صفحہ۱۹۵حاشیہ۱۱) یہ عبارت اسی مشہورِ زمانہ کتاب براہین احمدیہ کی ہے جس کی اشاعت پر اہلحدیث کےعلامہ محمدحسین بٹالوی نے لکھا تھا کہ ’’ہماری رائےمیں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظرسے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔…اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ و برہم سماج سے اس زور شورسے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو۔”(اشاعۃ السنہ صفحہ۱۶۹) ’’اسوۂ انسان کاملؐ ‘‘ صفحہ ۶۵۹ میں فضائل و خصائص نبویؐ سے متعلق حضرت بانئ جماعت احمدیہ کی تیسری عالی شان عبارت وہ ہے جس میں رسول اللہؐ کے خصائل نبوت بطور اعلیٰ درجہ کےنور بیان کرکے آپؐ کو نہ صرف انسانیت کا اعلیٰ وارفع وجود بلکہ سردار انبیاء کےاعلیٰ فضائل بیان کیے ہیں۔ یہ حوالہ بھی عجلت میں موصوف کی دھندلی عینک سے اوجھل رہا۔ کیا خوب فرمایا ہے: “وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسانِ کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وُہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اوریاقوت اور زمردّ اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اورسماوی میں نہیں تھا۔صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اوراعلیٰ اورارفع فرد ہمارے سیدومولیٰ سیدالانبیاء سیدالاحیاء محمدمصطفیؐ ہیں۔” (آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۱۶۰تا۱۶۱) اب تبصرہ نگار سے محض اتنا مطالبہ ہے کہ اپنے تمام علمائے اہلحدیث کی کتب سیرت سے رسول اللہ ﷺ کے خصائص نبویؐ کے بارے میں اس پایۂ کا کوئی ایک حوالہ ہی دکھا دیں۔ ورنہ یہ حقیقت تسلیم کریں کہ حضرت بانئ جماعت احمدیہ ہی انبیائے کرام کے بہترین مقام شناس اورمد ح خواں ہیں۔ ہمیں تو بعد از تلاش بسیار مختصر سیرۃرسول اور الرحیق المختوم میں سے بھی اس پایہ کی کوئی ایک عبارت ایسی نہیں ملی۔ تعظیم شان کےلیے صیغۂ مفرد کی مثال: تبصرہ نگار نے قسط اوّل میں آخری مطالبہ یہ کیا کہ اگر واقعی مفرد کا صیغہ کبھی اظہار شان کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے تو حضرت مرزا صاحب کے بارے میں کیوں استعمال نہیں کرتے؟ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ لیجیے حضرت مرزا صاحب کی وفات پر آپ کی شان میں ابو الکلام آزاد کے اخبار’’ وکیل ‘‘میں جو بے نظیرتاریخی تعزیتی کالم لکھا گیا وہ اگرچہ صیغۂ مفرد میں ہے مگر صیغۂ جمع سے کہیں زیادہ شہرت وعظمت پا گیا۔ جسے آج بھی احمدی بڑے فخر سے یاد کرکے پیش کرتے ہیں اور جسےپڑھ کر کوئی بھی منصف عبداللہ العمادی اور حضرت مرزا صاحب کے علم کلام کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس وقت کالم نگار عبداللہ العمادی نے جولکھا احمدی اسے نہ صرف پسند کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ سرعام پیش کرنے میں کوئی باک نہیں سمجھتے،انہوں نے لکھا : ’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سےانقلاب کےتار الجھے ہوئے تھے اورجس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لیے تیس بر س تک زلزلہ اور طوفان رہا۔ جو شور قیامت ہوکر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اٹھ گیا…مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے۔ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اورجب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرکے دکھا جاتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کے ہاں تعلیم یا فتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہوگیا۔ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے۔تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کوعرصہ تک پست و پائمال بنائے رکھا، آئندہ بھی جاری رہے۔ مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کےمقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کرچکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدر وعظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہےدل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے… غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبارِ احسان رکھے گی کہ اُنہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوکر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون ہے۔ اور حمایت اسلام کا جذبہ اُن کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا… آئندہ اُمید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دُنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو۔‘‘(اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی۱۹۰۸ء) آغاز کتاب خطبہ مسنونہ سے نہیں!: ایک اعتراض تبصرہ نگار نے یہ کیا ہے کہ کتاب اسوۂ انسان کاملؐ کو کسی خطبہ مسنونہ سے شروع نہیں کیا۔ یہ اعتراض اس لیےخوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ احمدیوں پر فتویٰ کفر کےباوجود اہلحدیث کوانہی سے ہی قیام سنّت کی بجاطور پر توقع ہے مگر شاید انہیں معلوم نہیں کہ احمدی قرآن کو حدیث اور فرائض کو سنن پرمقدم رکھتے ہیں۔ اگر ہر کتاب سے پہلے خطبہ مسنونہ کوئی سنت مؤکدہ ہوتی تو مصنفین صحاح ستہ اپنی کتب حدیث کا آغاز خطبہ مسنونہ سے ہی کرتے۔ پھرشاید تبصرہ نگار کو یہ شعور بھی نہیں کہ اردو میں کتاب کا دیباچہ ہی خطبہ ابتدائیہ کے قائم مقام ہوتا ہے۔ اوراسوۂ انسان کاملؐ کے پیش لفظ کےپہلے صفحہ میں کسی خطبۂ مسنونہ کی بجائے سات قرآنی آیات پر مشتمل خطبہ ابتدائیہ موجود ہے۔ جس میں خاتم الانبیاء، مظہر اتم الوہیت حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کےبلند روحانی ونورانی مقام اور خلق عظیم کا ذکر کرکےواضح کیا ہے کہ آپؐ ہی وہ رسول امین تھے جوانسان کامل ٹھہرے۔ اگر تبصرہ نگار پیش لفظ میں درج یہ آیات ہی پڑھ لیتے تو انہیں رسول اللہﷺ کے’’انسان کامل‘‘ ہونے پر بھی اعتراض پیدا نہ ہوتا۔ مثنوی پربھی اعتراض : فارسی مقولہ ہے: بازی بازی با رِیشِ بابا ہَم بازی اسوۂ انسان کاملؐ پر اعتراض کرتے کرتے تبصرہ نگار نے بالآخر مثنوی مولانا روم کے ایک حوالہ پر اعتراض کرکے اسے جھوٹی روایت قرار دیاہے۔ شاید اسلامی لٹریچر میں مثنوی کا یہ مقام انہیں معلوم نہیں کہ مثنوی و مولوی و معنوی ہست قرآں در زبانِ پہلوی حضرت بانی جماعت احمدیہ ؑکو بھی مثنوی مولانا روم بہت پسند تھی اورآپؑ اسے اکثر زیر مطالعہ رکھتے تھے۔تاہم مثنوی کے بیان کردہ جس واقعہ پر موصوف نے اعتراض کیا،اس کے شاہد مستند روایات احادیث میں موجود ہیں۔جسے بلا تحقیق جھوٹی روایت قرار دینا کم ازکم کسی اہلحدیث کےلیے قرین ادب وانصاف نہیں۔رسول اللہﷺ کے پاکیزہ اخلاق مہمان نوازی پر مشتمل جس زبان زدعام روایت کو تبصرہ نگار بلا تحقیق جھوٹ کہہ کر بے ادبی کا مرتکب ہوا، وہ ایمان افروز واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے پاس ایک کافر مہمان ٹھہرا۔ آپؐ کےارشاد پر اس کی خاطر تواضع کےلیے دودھ پیش کیا گیا۔ اس نے ایک بکری کا دودھ پی لیا۔ پھر دوسری کا دودھ دوہ کر اسے پلایا گیا وہ بھی پی گیاپھر تیسری اور چوتھی بکری کا۔ یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ اسے پلایا گیا تب کہیں سیری ہوئی۔ وہ آنحضرتﷺ کی اس بےتکلف مہمان نوازی اور حسن سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ اگلے دن اس نے اسلام قبول کر لیا۔ حضورﷺ نے دوسرے روز پھر اس کے لیے دودھ لانے کا حکم دیا۔ اس روز ایک بکری کا دودھ تو وہ پی گیا دوسری بکری کا سارا دودھ نہ پی سکابلکہ اس میں سے بھی کچھ بچ رہا۔ آنحضرتﷺ نے ایمان کی برکت وطمانیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔ (ترمذی کتاب الاطعمہ باب مَا جَاءَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ) مثنوی کا مفصّل واقعہ جس میں اس مہمان کےپیٹ خراب ہونے اور آنحضرت ﷺ کا خود اس کا بستر صاف کرنے کا ذکر ہے اس واقعہ کی تفصیل طبرانی کبیر میں موجود ہے جسےمولانا روم نےاپنے ایرانی محدّث سے اخذ کیاتھا۔ (ملاحظہ ہومعجم الکبیر لطبرانی جلد ۲صفحہ۲۷۴ بیروت و اکرام ضیف ابن اسحاق ابراھیم بغدادی صفحہ۴۲مطبوعہ مکتبہ الصحابہ طنطا مصر)یہ روایت مع حوالہ کتاب کے نئے ایڈیشن میں شامل ہیں۔ ایک اور کھلی الزام تراشی: پہلی قسط میں تبصرہ نگار کی ایک اور کذب بیانی ملاحظہ ہو لکھتےہیں کہ ’’پوری کتاب(اسوۂ انسان کامل ) میں دعاؤں کے علاوہ کسی جگہ الفاظ نبویؐ درج کرنے کی توفیق نہیں ملی‘‘ اس سے بھی ظاہر ہے کہ موصوف نے عجلت میں کتاب دیکھی اوربقول ان کےاُدھر’’اگلے روز کتاب آئی‘‘ اِدھر تبصرہ کرڈالا۔ اس عجلت کا نتیجہ صاف ظاہرہے۔ بے شک اردو کتابوں میں عربی عبارات کا ترجمہ ہی قارئین کی سہولت اور اختصار کی خاطر دیاجاتا ہے۔مگر اسوۂ انسان کاملؐ میں ادعیہ ماثورہ کے علاوہ بطور تبرک آنحضرتؐ کی زبان مبارک سے نکلے دیگر متعدد عربی فقرات منقول ہیں۔ برائے ثبوت افترا پردازئ تبصرہ نگار ایسے چندنمونے پیش ہیں۔ نمبر شمار صفحہ اسوۂ انسان کامل رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے کلمات۱ ۱۱ إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوْا۔ مجھے عفوکرنے کاحکم ہے پس تم لڑائی نہ کرو۲ ۵۵ هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيْتِ۔ تو ایک انگلی ہی توہے جو (راہ خدا میں ) خون آلود ہوئی۳ ۷۳ اللّٰهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ۔ اللہ ہی سب سے اعلیٰ اوربزرگ شان والا ہے۔۴ ۷۴ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ، میں نبی ہوں۔جھوٹا نہیں ہوں۔میں عبدالمطلب کا بیٹاہوں۵ ۹۵ لَقَدْ خَشِيْتُ عَلَى نَفْسِيْ۔ مجھے اپنی جان کا خوف ہوا۔۶ ۹۵ إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللّٰہِ أَنَا۔ یقیناً تم میں سے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے اور علم رکھنے والا میں ہوں۔ ۷ ۱۰۷ أَفَلَا أَكُوْنُ عَبْدًا شَكُوْرًا۔ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۸ ۲۰۴ سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ۔ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتاہے۔۹ ۳۶۰ اَلْعَيْنُ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزُنُ۔ آنکھ آنسو بہاتی اور دل غمگین ہے۱۰ ۲۴۸ خطبہ مسنونہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ نَسْتَعِیْنُہٗ۔الخ۔ یعنی تمام حمد اللہ کےلیے اورہم اس کی تعریف کرتے اورمدد مانگتے ہیںکتاب میں بابرکت الفاظ نبویؐ تو اور بھی ہیں مگر خطبہ مسنونہ پر ہی اختتام سے قرض چکاتے ہیں۔ تِلْکَ عَشَرَةٌ کَامِلَۃٌ۔ (جاری ہے) (’ابو احمد‘) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: تنویرِ افکار اور تقویٰ قلب