https://youtu.be/iKF62HD1XVw (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍جون ۲۰۱۸ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ابتدائی اور جاںنثار صحابی حضرت عمارؓ بن یاسرؓ تھے۔ ان کے والد حضرت یاسرؓ قحطانی نسل کے تھے۔ یمن ان کا اصل وطن تھا۔ اپنے دو بھائیوں حارث اور مالک کے ساتھ مکہ میں اپنے ایک بھائی کی تلاش میں آئے تھے۔ حارث اور مالک یمن واپس چلے گئے مگر حضرت یاسرؓ مکہ میں ہی رہائش پذیر ہو گئے اور ابوحذیفہ مخزومی سے حلیفانہ تعلق قائم کیا۔ ابوحذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سُمَیّہ سے ان کی شادی کروا دی جن سے حضرت عمّار پیدا ہوئے۔ ابوحذیفہ کی وفات تک حضرت عمّار اور حضرت یاسرؓ ان کے ساتھ رہے۔ جب اسلام آیا تو حضرت یاسر، حضرت سمیّہ اور حضرت عمّار اور ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن یاسرؓ ایمان لے آئے۔ حضرت عمّار بن یاسرؓ کہتے ہیں کہ مَیں حضرت صہیب بن سنان سے دارِاَرقم کے دروازے پر ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارِاَرقم میں تھے۔ میں نے صہیب سے پوچھا تم کس ارادے سے آئے ہو؟ تو صہیب نے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ان کا کلام سنوں۔ صہیب نے کہا میرا بھی یہی ارادہ ہے۔ حضرت عمّار کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ہمیں اسلام کے بارے میں بتایا۔ ہم نے اسلام قبول کر لیا۔ ہم شام تک وہاں رہے۔ پھر ہم چھپتے ہوئے دارارقم سے باہر آئے۔ حضرت عمّار اور حضرت صہیب نے جس وقت اسلام قبول کیا تھا اس وقت تیس سے زائد افراد اسلام قبول کر چکے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 186-187عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا تھا جب آپ کے ساتھ صرف پانچ غلام اور دو عورتیں اور حضرت ابوبکر صدیق تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب اسلام ابی بکر الصدیقؓ حدیث 3857) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان صحابہؓ کے بارے میں ایک جگہ ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’مکہ کے چوٹی کے خاندانوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے کئی لوگوں کو خدمت کی توفیق دی اور غرباء میں سے بھی کئی لوگوں نے اسلام کی شاندار خدمات سرانجام دیں۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت علیؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت حمزہؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عثمانؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ اس کے بالمقابل (حضرت) زیدؓ اور (حضرت) بلالؓ اور سمرۃؓ اور خبابؓ، صہیبؓ (اور) عامرؓ (اور) عمّارؓ ابوفکَیْہَہ (یہ) چھوٹے سمجھے جانے والوں میں سے تھے۔ گویا بڑے لوگوں میں سے بھی قرآن کریم کے خادم چنے گئے اور چھوٹے لوگوں میں سے بھی (قرآن کریم کے خادم چنے گئے۔) (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 176) آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’حضرت سُمیّہ ایک لونڈی تھیں۔ ابوجہل ان کو سخت دکھ دیا کرتا تھا تاکہ وہ ایمان چھوڑ دیں لیکن جب ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ ہوئی (ان کے ایمان کو کوئی ہلا نہ سکا) تو ایک دن ناراض ہو کر ابوجہل نے ان کی شرمگاہ میں نیزہ مارا اور انہیں شہید کر دیا۔ حضرت عمارؓ جو سُمیّہ کے بیٹے تھے انہیں بھی تپتی ریت پر لٹایا جاتا اور انہیں سخت دکھ دیا جاتا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 443) عروہؓ بن زبیر یہ روایت کرتے ہیں تاریخ میں لکھا ہے کہ ’’حضرت عمارؓ بن یاسرؓ مکہ میں ان کمزور لوگوں میں سے تھے جنہیں اس لئے تکلیف دی جاتی تھی کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں۔ محمد بن عمر کہتے ہیں کہ مُسْتَضْعَفِیْن (یعنی کمزور لوگ جو تھے، قرآن کریم میں جن کمزوروں اور بے بس لوگوں کا ذکر آیا ہے)، یہ وہ لوگ تھے جن کے مکہ میں قبائل نہ تھے اور نہ ان کا کوئی محافظ تھا نہ انہیں کوئی قوت تھی۔ قریش ان لوگوں پر دوپہر کی تیز گرمی میں تشدّد کرتے تھے تا کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 187عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) اسی طرح عمر بن الحکم کہتے ہیں کہ ’’حضرت عمارؓ بن یاسرؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت ابوفکیہہؓ پر اتنا ظلم کیا جاتا تھا کہ ان کی زبان سے وہ باتیں جاری ہو جاتی تھیں جن کو وہ حق نہیں سمجھتے تھے‘‘ (لیکن دشمن ظلم کر کے ان کے منہ سے وہ باتیں نکلوا لیتے تھے)۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) اسی طرح روایت میں ہے محمد بن کعب قُرَظِی بیان کرتے ہیں کہ ’’مجھے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو ایک پاجامہ پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے حضرت عمارؓ کی پشت پر ورم اور زخموں کے نشان دیکھے۔ میں نے کہا یہ کیا ہے؟ تو حضرت عمّار نے بتایا کہ یہ اس ایذا کے نشان ہیں جو قریش مکہ دوپہر کی سخت دھوپ میں مجھے دیتے تھے۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ ’’مشرکین نے حضرت عمارؓ کو آگ سے جلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمارؓ کے پاس سے گزرے تو ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا۔ یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی عَمَّار کَمَا کُنْتِ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْم۔ اے آگ !تُو ابراہیم کی طرح عمارؓ پر بھی ٹھنڈک اور سلامتی والی ہو جا۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) پھر روایت میں آتا ہے حضرت عثمان بن عفانؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی وادی میں جا رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ ہم ابو عمار، عمارؓ اور ان کی والدہ کے پاس آئے۔ ان کو تکالیف دی جا رہی تھیں۔ حضرت یاسرؓ نے کہا کیا ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہے گا؟ آپ نے حضرت یاسرؓ سے فرمایا صبر کرو۔ اور پھر آپ نے یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ! آل یاسر کی مغفرت فرما اور یقیناً تُو نے ایسا کر دیا ہے‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 188عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) یعنی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تھا کہ ان کی مغفرت ہو گئی جس شدت کے تنگ حالات سے یہ گزر رہے تھے۔ مزید پڑھیں: مالی لین دین کے معاملات پر راہنمائی