ہم جو احمدی کہلاتے ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس ربّ کا جو ربّ العالمین ہے، تمام جہانوں کا ربّ ہے، وہ جو کائنات کی تمام مخلوق کو پیدا کرنے والا اور ان کو نقطۂ انتہاء تک پہنچنے کی طرف لے جانے والا ہے، اس ربّ کا پیغام تمام دنیا کو پہنچا کر تمام دنیاکو اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کریں۔ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم ساری دنیا کو ربّ العالمین کی پہچان کروا سکتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ قرآن کریم کے شروع میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کی طرف توجہ دلائی ہے اور آخر میں بھی ربوبیت پر قائم رہنے کی دعا سکھائی ہے تاکہ ایک مومن اس کو مالکِ کُل اور معبودِ کُل سمجھتے ہوئے، اس کی طرف جھکتے ہوئے ہر شر سے اس کی پناہ میں رہے۔… یہ سب باتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہر احمدی سستیوں کو دور پھینکے، اپنے ربّ کے ساتھ مضبوط تعلق جوڑے اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ کسی قسم کی تکلیف اور عارضی روکوں سے کسی احمدی کے قدموں میں کبھی لغزش نہ آئے۔ دیکھیں تکلیفوں کا جہاں تک ذکر ہے اس کے بارے میں بھی قرآن کریم نے اصحاب کہف کے بارے میں بتایا۔ اور قرآن کریم کے جوسیپارے ہیں اگر ان کی ترتیب دیکھی جائے تو یہ سورۃ قرآن کریم کے تقریباً نصف میں آتی ہے، اس میں انہیں لوگوں کا ذکرہے جنہوں نے اپنے ربّ کی خاطر، واحد و یگانہ ربّ کی خاطر تکلیفیں اٹھائیں، ظلم سہے، قتل ہوئے لیکن ہمیشہ اپنے ربّ کی پہچان کی، اس کے آگے جھکے اور بالآخر اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنے۔ تو ایک تو ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں ہمیں اپنے ربّ کے ساتھ تعلق میں بہت مضبوط ہونا چاہئے۔ مشکلات کے جو حالات اصحاب کہف پر آئے اس کا تو کچھ بھی حصہ ہمارے حصہ میں نہیں آیا۔ لیکن انہوں نے ان حالات کے باوجود اپنے ربّ کو نہیں چھوڑا۔ ہم تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے دین کامل کیا ہے۔ جہاں احمدیت مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے وہاں بھی دَور اتنا مشکل نہیں ہے جو دَور ان پر آئے تھے یا مختلف اوقات میں آتے رہے۔ اکثراحمدی جو ہیں وہ بڑے آسان اور آرام دہ حالات میں گزارا کر رہے ہیں اس لئے ہمیں سب سے زیادہ اپنے ربّ کی پہچان کرتے ہوئے، اس کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اس کی طرف ہمیشہ جھکے رہنا چاہئے۔ ہمیں ہمیشہ اس بات کاخیال رکھنا چاہئے کہ ہم اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے دین کامل کیا۔ ہمیں اُن لوگوں سے زیادہ اپنے ربّ کا فہم و ادراک دیا جتنا اصحاب کہف کوتھا۔ تو اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بڑھ کر ہماری مدد کرنے والا ہے ہر احمدی کو اپنے ربّ سے تعلق میں بڑھتے چلے جانا چاہئے۔ عُسر اور یُسر، تنگی اور آسائش ہر حالت میں یہ ربّ ہی ہے جس سے ہماری ترقیات وابستہ ہیں۔ پس ہر احمدی کو اس صفت پر غور کرتے ہوئے اپنے ربّ سے تعلق مضبوط تر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (خطبہ جمعہ ۱۷؍نومبر ۲۰۰۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۸؍دسمبر ۲۰۰۶ء) مزید پڑھیں: صرف تیرے ربّ کی ذات باقی رہنے والی ہے