اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ سیرۃالنبیﷺ کے پُراثر واقعات حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کا آنحضورﷺ کی حیات طیبہ سے متعلق ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۴؍اپریل۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔ ٭…آنحضرتﷺ نے حضرت عائشہؓ سے ایک دن فرمایا کہ مَیں نے تمہارے نکاح سے پہلے تمہیں دو دفعہ خواب میںد یکھا۔ ایک دفعہ تو یوں دیکھا کہ تم ریشم کی ایک چادر میں لپٹی ہوئی ہو اور ایک شخص کہتا ہے کہ یہ آپ کی بی بی ہیں۔ مَیں نے اس کپڑے کو کھولا تو دیکھا کہ تم تھیں۔ اُس وقت مَیںنے یہ تعبیر کی کہ اگر یہی خدا کی مرضی ہے تو پوری ہوکر رہے گی۔ ٭…ایک دفعہ حضرت ابن عباسؓ نے لوگوں کو بتایا کہ وہ کالی سی عورت جو سامنے جارہی ہے یہ جنتی ہے۔ یہ ایک دفعہ آنحضورﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ حضور! مجھےمرگی پڑتی ہے اور مَیں اس بےہوشی میں ننگی ہوجاتی ہوں۔ آپؐ میرے لیے دعا کیجیے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تُو جنت چاہتی ہے تو تُو اس بیماری پر صبر کر ورنہ مَیں تیرے لیے دعا کروں گا کہ خدا تجھے شفا بخشے۔ اُس عورت نے کہا: حضور! اچھا مَیں صبر کروں گی مگر اتنی دعا ضرور کیجیے کہ یہ میرا بدن جو کھل جاتا ہے اور بےپردگی ہوتی ہے یہ نہ ہو۔ آنحضورﷺ نے اُس کے لیے یہ دعا کی۔ اس کے بعد اُسے مرگی کے دورے تو پڑتے ہیں مگر ننگی نہیں ہوتی۔ ٭…جب قریش کی طرف سے مسلمانوں کو تکالیف پہنچانے کا سلسلہ بہت بڑھ گیا تو آنحضورﷺ نے اُن کے لیے یہ بددعا فرمائی کہ اے اللہ! ان لوگوں پر یوسفؑ کے زمانے کا سا سات برس کا قحط نازل کر۔ چنانچہ قحط پڑگیا اور بہت آدمی بھوک سے مرگئے اور سڑا ہوا مُردار اور ہڈیاں تک کھاگئے۔ جب قحط کی تکلیف حد سے گزر گئی تو ابوسفیان نے آنحضورﷺ کے پاس آکر کہا کہ اے محمد! آپ تو رشتہ داروں سے نیک سلوک کی ہدایت کرتے رہتے ہیں مگر اب تو آپ کی اپنی قوم قحط سے ہلاک ہوگئی ہے۔ لِلّٰہ خدا سے دعا کیجیے کہ اس مصیبت کو دُور کرے۔ چنانچہ آپؐ نے دعا کی اور وہ قحط دُور ہوگیا۔ اگرچہ تکلیف کے دُور ہوتے ہی قریش پھر شرارتیں کرنے لگے۔ ٭…آنحضورﷺ کے مرضِ موت میں ایک دوا تجویز کی گئی۔ جب وہ تیار ہوئی تو اہل بیت نے اسے پلانا چاہا۔ آپؐ اُس وقت غشی کی سی حالت میں تھے مگر اشارے سے منع کرتے تھے کہ مجھے دوا نہ پلاؤ۔ گھر والوں نے کہا کہ دوا سب بیماروں کو بُری ہی لگتی ہے چنانچہ زبردستی آپؐ کے منہ میں ڈال دی گئی۔ جب آپؐ کو ذرا افاقہ ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ جب مَیں نے منع کیا تھا تو تم لوگوں نے مجھے زبردستی دوا کیوں پلائی؟ اچھا وہ دوا لاؤ۔ پھر آپؐ نے اُن سب لوگوں کو جو اس کے پلانے میں شریک تھے وہ دوا پلوائی۔ صرف حضرت عباسؓ بچ گئے کیونکہ وہ پلانے کے وقت موجود نہ تھے۔ ٭…ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے آنحضورﷺ کا ہاتھ پکڑکر کہا کہ یارسول اللہ!آپ مجھے سوائے اپنی جان کے ہرچیز سے زیادہ پیارے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:نہیں اے عمر!خدا کی قسم!جب تک مَیں تجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوں گا تب تک تیرا ایمان کامل نہیں ہوگا۔ حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ!بےشک اب آپؐ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہاں اے عمر!اب ایمان کامل ہوگیا۔ ٭…حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کبھی کبھی عبادہؓ بن صامت کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اُن کی بیوی کا نام اُمّ حرامؓ تھا۔ ایک دن انہوں نے آنحضرتﷺ کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد جب آپؐ لیٹ گئے تو امّ حرامؓ آپؐ کے سر کو صاف کرنے لگیں۔ آپؐ سو گئے اور جب اُٹھے تو ہنستے ہوئے اُٹھے۔ اُمّ حرامؓ نے پوچھا:یارسول اللہ!آپؐ کیوں ہنستے ہیں؟ فرمایا:مَیں نے اپنی اُمّت کے لوگوں کو بادشاہوں کی طرح سمندر میں جہازوں پر سوار ہوکر جاتے دیکھا ہے۔ اُمّ حرامؓ نے عرض کیا:یارسول اللہ!آپ اللہ سے دعا کریں کہ خدا مجھے بھی اُن لوگوںمیں سے کردے۔ آپؐ نے دعا کی اور پھر سوگئے۔ جب دوبارہ اُٹھے تو پھر ہنستے ہوئے اُٹھے۔ اُمّ حرامؓ نے کہا کہ یارسول اللہ!اب آپؐ کیوں ہنستے اُٹھے؟ آپؐ نے فرمایا:مَیں نے ایک اَور جماعت کو اپنی اُمّت میں سے دیکھا کہ خدا کے رستہ میں جہاد کررہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے بھی دعا کریںکہ مَیں اُن لوگوں میں شامل ہوں۔ آپؐ نے فرمایا:تم تو پہلے لوگوں میں شامل ہوگی۔ چنانچہ اُمّ حرامؓ حضرت معاویہؓ کے زمانے میں سمندر کے سفر پر گئیں اور جہاز سے اُترتے وقت اپنی سواری کے جانور سے گر کر شہید ہوئیں۔ ٭…حضرت رباحؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک جہاد میں تشریف لے گئے۔ لشکر کے اگلے حصے کے افسر خالد بن ولیدؓ تھے۔ ان کا مقابلہ دشمن سے ہوا تو ہلّہ میں ایک عورت بھی ماری گئی۔ آنحضورﷺ تشریف لے آئے تو دیکھ کر ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ عورت تو لڑائی نہیں کرتی تھی یہ کیوں قتل کی گئی۔ پھر آپؐ نے ایک آدمی کو لشکر کے اگلے حصے کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ خالد بن ولید کو جاکر کہہ دو کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو ہرگز قتل نہ کیا جائے۔ ٭…بدر کی جنگ میں کافروں کی طرف عمیر ابن وہب بھی شریک تھا۔ یہ خود تو بچ کر مکہ آگیا مگر اس کا ایک بیٹا مسلمانوں کی قید میں آگیا۔ ایک روز وہ اپنے ایک سردار صفوان بن امیہ کے ساتھ کعبے کے پاس بیٹھا باتیں کررہا تھا کہ صفوان نے کہا کہ بدر میں اپنے لوگوں کے مارے جانے سے ہماری زندگی تلخ ہوگئی ہے۔ عمیر کہنے لگا کہ بات تو یہی ہے لیکن مجھ پر قرض ہے اور میرے بال بچے ہیں جن کے لیے کوئی گزارہ نہیں، اگر ان دو باتوں کا انتظام ہوجائے تو محمدؐ کے پاس جاکر اُسے قتل کردوں۔ اُس کے پاس جانے کے لیے میرے پاس اچھا بہانہ ہے کہ میرا ایک بیٹا اُن کی قید میں ہے، مَیں کہوں گا کہ مَیں اُسے فدیہ دے کر چھڑانے آیا ہوں۔ صفوان نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ تمہارا قرضہ میرے ذمے، باقی رہے بال بچے، سو پہلے وہ کھائیں گے پھر میرے بال بچے۔ اس پر معاملہ طے ہوگیا اور صفوان نے عمیر کو سامانِ سفر اور زہر میں بجھی ہوئی ایک تلوار دے دی۔ عمیر مدینہ پہنچ کر مسجد کے سامنے اُترا تو حضرت عمرؓ نے اُس کو دیکھ کر کہا کہ اس کے پاس تلوار بھی ہے، یہی بےایمان بدر کے دن بھی مسلمانوں کی مخبری کرنے آیا تھا۔ آپؓ نے آنحضورﷺ کو عمیر کے آنے کی خبر دی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! اس کے پاس تلوار ہے اور یہ شخص بڑا مکار اور فریبی ہے، اس کا اعتبار نہ کیجیے گا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اچھا، اس کو میرے پاس لے آؤ۔ حضرت عمرؓ اُس کو لے آئے۔ آنحضورﷺ نے پوچھا: اے عمیر! تم یہاں مدینہ میں کیوں آئے ہو؟ اُس نے کہا کہ میرا بیٹا آپ کی قید میں ہے، آپ اُس کا فدیہ لے کر اُسے چھوڑدیں ۔ آپؐ نے پوچھا کہ پھر تم یہ تلوار کیوں ساتھ لائے ہو؟ عمیر نے کہا کہ یہ کم بخت تلوار بدر کے دن ہمارے کس کام آئی تھی جو اَب آئے گی۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: سچ بولو۔ عمیر نے پھر اپنی بات دہرائی تو آنحضورﷺ نے فرمایا: پھر وہ شرطیں کیا تھیں جو تم نے کعبے میں صفوان سے طے کی تھیں؟ یہ سن کر عمیر ڈر گیا اور کہنے لگا کہ مَیں نے تو کوئی شرط اُس سے طے نہیں کی۔آپؐ نے فرمایا کہ تم نے اُس سے میرے قتل کا وعدہ لیا اس شرط پر کہ وہ تمہارے بال بچوں کا خرچ اٹھائے اور تمہارا قرضہ ادا کرے۔ حالانکہ میری حفاظت خدا کرتا ہے۔ عمیر نے بےاختیار ہوکر کہا کہ یا رسول اللہ! مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اُس کے پیغمبر ہیں۔ ان شرائط کی سوائے میرے اور صفوان کے اَور کسی کو خبر نہ تھی۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہاں بھیج دیا اور مَیں اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ایمان لے آیا۔ آنحضرتﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ عمیر کو قرآن سکھاؤ اور اس کے بیٹے کو رہا کردو۔ پھر عمیر نے مکہ جانے کی اجازت چاہی تاکہ قریش کو اسلام کی دعوت دیں شاید وہ ہلاکت سے بچ جائیں۔ آپؐ نے اجازت دی اور عمیر مکہ چلے گئے۔ اُدھر صفوان نے عمیر کے مکہ سے جانے کے چند دن بعد لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ لوگو! خوش ہوجاؤ، عنقریب تم ایسی خوشخبری اور فتح کی خبر سنوگے کہ بدر کے واقعہ کو بھول جاؤگے۔ جو کوئی شخص مدینہ سے آتا تھا تو صفوان اُس سے پوچھا کرتا کہ بتاؤ مدینہ میں کوئی حادثہ تو نہیں ہوا۔ ایک روز کسی آنے والے نے بتایا کہ تازہ واقعہ یہ ہے کہ عمیر مسلمان ہوگیا ہے۔ یہ سن کر سب مشرکوں نے عمیرؓ پر لعنت کی اور صفوان نے قسم کھائی کہ وہ کبھی عمیر سے بات نہیںکرے گا۔ اس کے بعد حضرت عمیرؓ بھی مکہ پہنچ گئے اور اُن کی تبلیغ سے کئی لوگ مسلمان ہوئے۔ ………٭………٭………٭……… اخبار الفضل قادیان کا خاتم النبیّین ؐ نمبر ۱۹۲۸ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے سیرۃ النبیﷺ کے جلسوں کی بنیاد رکھی اور اخبار الفضل نے بھی ہر سال ’’خاتم النبیّینؐ‘‘ نمبر شائع کرنا شروع کیا۔ اس حوالے سے بعض تبصرے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں ’’اخبار الفضل کی خدمات۔ معاصرین کی نگاہ میں‘‘ کے عنوان سے شامل اشاعت ہیں۔ ٭… اخبار ’’مشرق‘‘ گورکھپور ۲۱؍جون ۱۹۲۸ء میں لکھتا ہے: ۱۲؍جون کو خاتم النبیّین نمبر الفضل نے شائع کیا ہے۔ اس میں حضرت رسول کریم ﷺ کے سوانح حیات و واقعات نبوۃ پر بہت کثرت سے مختلف اوضاع و انواع کے مضامین ہیں اور ہر مضمون پڑھنے کے قابل ہے۔ ایک خصوصیت اس نمبر میں یہ ہے کہ ہندو اصحاب نے بھی اپنے خیالات عالیہ کا اظہار فرمایا ہے جو سب سے بہتر چیز ہندوستان میں بین الاقوام اتحاد پیدا کرنے کی ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مردوں سے زیادہ عورتوں نے اپنے پیغمبر کے حالات پہ بہت کچھ لکھا ہے۔ اس نمبر کی قیمت ٤ آنے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہماری رائے ہے کہ ۱۷؍جون کو جو لیکچر دیے جائیں ان سب کو ایک بڑی کتاب میں طبع کرنا چاہیے۔ …بہرحال جماعت احمدیہ نہایت اہم اور ضروری کام کررہی ہے۔ ٭… جناب محمد بخش صاحب حنفی چشتی (سرگودھا)تحریر فرماتے ہیں:الفضل کا خاتم النبیّیننمبر بہزار شکریہ قبول ہوا۔ حضرت نبی مبارک ﷺ کے شان مبارک میں احمدی فضلاء کے مضامین خاص کر طبقۂ نسواں کے بیش بہا اورقابل لاکھ لاکھ تحسین کے ہیں لاریب جماعت احمدیہ جملہ فرقہ اسلامیہ میںترقی اور اشاعت اسلام میں پہلی قطار میں ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ ایسا عمدہ قیمتی نمبر٤آنے کا پرانے خریداروں کو کس طرح مفت دے کر ایسے عظیم خرچ کا الفضل اور جماعت نے بارعظیم اٹھایا۔ (الفضل ۳۱؍جولائی ۱۹۲۸ء) ٭…جناب لالہ رام چند صاحب منچندہ بی اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ لاہور تحریر فرماتے ہیں: میں نے اہل قلم کے قیمتی مضامین کو جو تمام کے تمام حضرت رسول اللہ ؐکی پاک ذات اور سوانح عمری کے متعلق ہیں، نہایت ہی مسرت اور دلچسپی سے پڑھا اور اپنی واقفیت کو بہت زیادہ بڑھانے کا نادر موقعہ حاصل کیا جس کے لیے میں آپ کا نہایت ہی مشکور ہوں۔ اور اس لیے بھی کہ آپ نے میرے مضمون کو اس قدر اہمیت دی اور اپنے قیمتی اخبار کے ایک نمایاں صفحہ پر زینت بخشی۔ جس ارادے سے آپ نے مجھے ارشاد فرماکر مضمون حضرت کی پاک ہستی کے متعلق مانگا، مَیں اس کی دل سے قدر کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لکھے پڑھے ہندوؤں کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کے مشن کے متعلق صحیح صحیح واقفیت ہو اور وہ ہندو ہوتے ہوئے بھی اُن کی عزت کریں اور اُن کے کام کی قدر۔ اس وقت دونوں ہندو مسلم دل و دماغ تعصب کے روگ سے میلے ہورہے ہیں اور انصاف اور حق کو برطرف کرکے سوائے ایک دوسرے کے لیڈروں کی برائیوں کے اَور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ اس صدیوں کی مَیل کو دُور کرنا بےشک مشکل کام ہے اور مَیں چاہتا تھا کہ اس کی ابتدا مسلمان بھائیوں کی طرف سے ہو۔ خوشی کا مقام ہے کہ اس کا آغاز ہوگیا اور کچھ سالوں کے بعد اپنا اثر دکھلائے گا اور اگر استقلال کے ساتھ اس کو جاری رکھیں تو آج سے تیس سال بعد کئی ہندو گھرانوں میں پیغمبر صاحب کی برسی منائی جائے گی اور جو کام مسلم بادشاہ ہندوؤں سے نہیں کراسکے وہ آپ کراسکیں گے۔ ملک میں امن ہوگا، خوشحالی ہوگی، ترقی اور آزادی ہوگی اور ہندو مسلم باوجود مذہبی اختلاف کے بھائیوں کی طرح رہیں گے۔ …میں شکریہ کے ساتھ اس نیازنامہ کو ختم کرتا ہوں۔ (الفضل ۱۱؍جون ۱۹۲۹ء) ٭…ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی جناب محمد یعقوب (از منصوری) لکھتے ہیں: آپ کا عنایت نامہ اور الفضل کا رسولؐ نمبر پہنچے۔ الفضل کا یہ پرچہ کیا باعتبار مضامین کے اور کیا باعتبار چھپائی وغیرہ کے نہایت عمدہ ہے اور میں آپ کو اس کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔ (الفضل۱۸؍جون۱۹۲۹ء) ٭…انگریزی اخبار انڈین ’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘لکھنؤ ۱٤؍جون ۱۹۲۹ء میں لکھتا ہے: قادیان کے اخبار الفضل نے اپنا خاص نمبر ۷٦ صفحہ کا بہت قلیل قیمت پانچ آنے پر بانی اسلام کے یادگاری دن شائع کیا ہے۔ یہ خاص نمبر محمد ﷺ کی سیرت کے متعلق مسلم و غیرمسلم معززین کے مضامین اور نظموں پر مشتمل ہے اور قابل دید ہے۔ (ترجمہ ماخوذ) ٭…معاصر ’’کشمیری‘‘ (لاہور) ۱٤؍جون ۱۹۲۹ء میں رقمطراز ہے: الفضل کے خاتم النبیّینؐ نمبر کی کئی دنوں سے دھوم تھی۔ آخر ۳۱؍مئی کو یہ نمبر دیدہ زیب جاذب توجہ شکل اور صوری و معنوی خوبیوں کے ساتھ شائع ہوگیا۔ اس میں تیس مَردوں کے مضامین ہیں جن میں چار ہندو بزرگ بھی ہیں اور ایک عیسائی ہے باقی مسلمانوں کے مضامین ہیں۔ جن میں زیادہ حصہ احمدیوں کا ہے۔ چودہ خواتین نے رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ سیرت پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ آنحضرتؐ کا عورتوں اور بچوں سے کیا سلوک تھا۔ سترہ نظمیں ہیں جو مسلم و غیرمسلم اصحاب کی طرف سے ہیں۔ اس نمبر میں رسول کریمؐ کی زندگی پر ہر پہلو سے بحث کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ انسان تھے تو کس قسم کے تھے نبی تھے تو کس قسم کے تھے اور خاوند تھے تو کس قسم کے تھے۔ بیماروں سے بوڑھوں سے اپنوں سے غیروں سے غلاموں سے کس قسم کے پاکیزہ خصائل کا برتاؤ کرتے تھے۔ نظم و نثر کا یہ پاکیزہ مجموعہ جس کا حجم بڑے سائز کے ۷٦ صفحہ تک ہے صرف پانچ آنہ میں مہتمم الفضل قادیان ضلع گورداسپور سے مل سکتا ہے۔ ٭…اخبار سیاست لاہورلکھتا ہے: ’’قادیان کے مشورے سے ہر سال ایک مقررہ تاریخ پر تمام ہندوستان میں جلسے ہوتے ہیں جن میں رسول ﷺ (فداہ ابی و امی) کے اسوہ حسنہ پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ امسال ۲؍جون کو یہ جلسے ہوئے اس موقعہ پر قادیان کے اخبار الفضل نے خاتم النبیّینؐ نمبر نکالا تھا۔ یہ نمبر ہماری نظر سے گزرا ہے۔ اس میں ملک کے بہترین انشاء پردازوں کے قلم سے اسوہ حسنہ رسول پاک کے متعلق مضامین موجود ہیں ہر مضمون اس قابل ہے کہ موتیوں سے تولا جائے۔ فاضل مدیر کی محنت قابل داد ہے کاغذ دبیز اور سفید، کتابت و طباعت دیدہ زیب۔‘‘ (۱٦؍جون ۱۹۲۹ء) ٭…اخبار منادی دہلی ۲۱؍جون ۱۹۲۹ء میں لکھتا ہے: ’’اس سال بھی اخبار الفضل کا خاتم النبیّینؐ نمبر نہایت قابلیت اور عرق ریزی سے مرتب کیا گیا ہے جو … ۷٤ صفحات پر مشتمل ہے۔ مختلف اقوام کے اکابر و مشاہیر کے لکھے ہوئے ۳٦ مضمون اور ۱٦ نظمیں درج کی گئی ہیں۔ یہ مضمون مختلف عنوانوں کے ماتحت لکھے گئے ہیں اور ان میں رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مبارک زندگی کے ہر پہلو پر مبصرانہ خامہ فرسائی کی گئی ہے جس کے مطالعہ سے گوناگوں معلومات کے حصول کے علاوہ ایمان بھی تازہ ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس اخبار کا یہ نمبر اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس کا مطالعہ کرے۔…‘‘ ٭…اخبار مشرق (گورکھپور) لکھتا ہے: الفضل قادیان یہ پرچہ سہ روزہ قادیان سے نکلتا ہے اور سلسلہ احمدیہ کا آرگن ہے۔ آجکل مسلمانان ہند کے متعلق اس کا نقطۂ خیال بہت صحیح ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہر انجمن اسلامیہ اور ہر مسجد میں اس کی رسائی ہو۔ عقائد سے کوئی واسطہ نہ رکھو، نہ ان کو پڑھو، صرف اتحاد بین المسلمین کے مسئلہ کو دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے۔ آٹھ روپے سالانہ قیمت ہے اور اسلامی جذبات کی پوری تائید کرتا ہے اور حضور انور ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا بڑا متبع ہے۔ (بحوالہ الفضل ۲؍ستمبر۱۹۲۷ء) ٭… حکیم محمد عبدالرحمٰن صاحب (مالک دواخانہ رحمانی ضلع حصار) لکھتے ہیں: الفضل …میری نگاہ سے گزرا۔ میں آپ کے آزاد اور پابندِ شریعت اور سچے خیالات کو نہایت عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور پرچہ ہٰذا کو مسلمانوں کا سچا رہبر سمجھتا ہوں۔ جی چاہتا ہے کہ آپ کے پرچے اور خیالات کی تبلیغ کروں۔ چندہ سالانہ دس روپے پرچہ کی خوبیوں اور عظمت کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ (الفضل۱۹؍جون ۱۹۳۰ء) ٭…مولوی محمد سلیمان صاحب غوری (اسلامیہ سکول فاضلکا) رقمطراز ہیں کہ اس شورش اور فتنۂ کانگریس کے ایام میں مسلمانوں کو آپ کے اخبار کی راہنمائی کی ازحد ضرورت ہے۔ مگر مسلمان ابھی ایسے تنگ نظر ہیں کہ مخالف عقیدہ جماعت کے اعلیٰ نمونہ کو بھی دیکھ کر عبرت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ قادیان سے خواہ کیسی ہی بہی خواہِ اسلام آواز اٹھے، ان کے دماغوں میں نہیں سماتی۔ (الفضل۱۹؍جون ۱۹۳۰ء) ………٭………٭………٭……… روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۲؍مئی ۲۰۱۴ء میں مکرم اطہر حفیظ فراز صاحب کا نعتیہ کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نعت میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: ہم دل کے آنگنوں کو سجاتے چلے گئےاسمِ رسولؐ لب پہ جو لاتے چلے گئےسینا کی چوٹیوں سے جو سایہ فگن ہوئےابرِ کرم بنے اور چھاتے چلے گئےپہلے خدا کے در پہ جھکایا جہان کوپھر قوّتِ یقین بڑھاتے چلے گئےاپنے عروجِ خلق سے معراج پا گئےاپنا کمالِ تام دکھاتے چلے گئےصدیوں سے دل تڑپتے تھے دیدارِ یار کوتشنہ لبوں کی پیاس بجھاتے چلے گئے‘‘بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم’’یہ عشق ہم بھی دل سے نبھاتے چلے گئےمقتل سجے ہوئے ہیں ہمارے ہی خون سےحبّ رسولؐ ہم جو کماتے چلے گئے مزید پڑھیں: الفضل ڈائجسٹ