https://youtu.be/X6OlShOc1Xg پیارے ابو جان شبیر احمد لودھی صاحب ۱۵؍ستمبر۱۹۶۲ء کوقلعہ کالر والاضلع یالکوٹ میں محمد شفیع صاحب اور طالعہ بی بی صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کےخاندان میں احمدیت کا نفوذآپ کے دادا میاں شہاب الدین صاحب آف لودھی ننگل کے ذریعہ ہوا۔ جن کو اوائل زمانہ خلافت ثانیہ میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ تعلیم : آپ نے مڈل تک تعلیم قلعہ کالر والا اور گھٹیالیاں سے حاصل کی۔۱۹۷۶ءمیں آپ ہائی سکول میں داخلہ کی غرض سےاپنے بڑے بھائی بشیر احمد لودھی صاحب کے پاس گوجرانوالہ منتقل ہوگئے۔ جہاں آپ کا قیام ۱۹۸۸ء تک رہا۔ آپ کی دنیاوی تعلیم M.A B.Edتھی۔ پیشہ: یکم جنوری۱۹۸۸ء کو آپ نے بطور SST شعبۂ تدریس سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ آپ کی تدریسی خدمات کا سلسلہ پینتیس سال کے طویل عرصہ پر محیط ہے۔آپ نےنوشہرہ ورکاں، گھٹیالیاں اور راجہ،سادھوکی میں اپنی خدمات انجام دیں۔ مؤخرالذکر ٹاؤن میں آپ نے قریباً پچیس سال گزارے اوریہاں سے ہی ۱۵؍ستمبر ۲۰۲۲ء کو آپ اٹھارھویں گریڈ میں ریٹائر ہوئے اور اعزازی طور پر انیسواں گریڈ بھی ملا۔اسی ادارہ میں کچھ عرصہ ہیڈ ماسٹر بھی رہے۔ شادی:مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۸۷ء کو آپ کی شادی خاکسار کی امی جان ام کلثوم صاحبہ سے ہوئی۔امی جان کا تعلق مریدکے سے تھا جو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے قبل شعبہ تدریس میں ہی ملازمت کر رہی تھیں۔ چنانچہ۱۹۸۸ء میں آپ نےگوجرانوالہ سے مریدکے منتقل ہوکرمستقل رہائش اختیار کرلی۔جہاں جنوری ۲۰۲۴ء تک آپ کا قیام رہا۔جس کے بعد آپ امی جان کے ہمراہ بھائیوں کے پاس کینیڈا منتقل ہوگئے۔ وفات و پسماندگان: ۸؍نومبر ۲۰۲۴ء بروز جمعۃالمبارک بعمر۶۲؍سال کینیڈا میں اچانک حرکت قلب بند ہونے کے باعث اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔مکرم لال خان ملک صاحب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا نے آپ کی نماز جنازہ مورخہ ۱۵؍نومبر۲۰۲۴ء بروز جمعۃ المبارک مسجد بیت الحمد،مسی ساگا میں پڑھائی۔ بعدازاں بریمپٹن میموریل گارڈن میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کے پسماندگان میں والدہ صاحبہ کے علاوہ تین بیٹے خاکسار،فراز شبیر لودھی صاحب، فرحان شبیر لودھی صاحب۔کینیڈا اور ایک بیٹی فائزہ شبیر لودھی صاحبہ اہلیہ مکرم اسامہ محمود صاحب۔یوکے شامل ہیں۔ جماعتی خدمات: اللہ تعالیٰ کے فضل سےاوائل جوانی میں ہی آپ کو نمایاں جماعتی خدمات ادا کرنے کی سعادت ملنا شروع ہوگئی تھی۔ پاکستان میں ان کی جماعتی خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے کینیڈا منتقل ہونے سے قبل بطور صدر جماعت مریدکے ضلع شیخوپورہ میں خدمت کی توفیق پارہے تھے اور وفات سے قبل حلقہ Peel Village میں بطور سیکرٹری نشر و اشاعت اور ناظم مال مجلس انصار اللہ خدمت بجا لارہے تھے۔اس کے علاوہ آپ کو صدر احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن گوجرانوالہ ۱۹۸۰-۱۹۸۴ء، ممبر مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ گوجرانوالہ شہر، قائد مجلس خدام الاحمدیہ مریدکے نوسال، نگران حلقہ مجلس خدام الاحمدیہ، نائب زعیم مجلس انصار اللہ مریدکے، ناظم وقار عمل، ناظم مال،ناظم رشتہ ناطہ۔ جماعتی عاملہ میں جنرل سیکرٹری، سیکرٹری تربیت، سیکرٹری اصلاح و ارشاد، سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری امورعامہ،سیکرٹری وقف نو ۹؍سال، سیکرٹری تعلیم، سیکرٹری تحریک جدیداور بطورمربی اطفال بھی خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ایں سعادت بزور بازو نیست۔ اوصاف حمیدہ: خاکسار اپنے والد صاحب مرحوم کے کچھ اوصاف بیان کرنا چاہتا ہے جن کا بارہا ہم نے ان کی زندگی میں مشاہدہ کیا جو محض اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ان میں موجود تھے۔ والد صاحب میں موجود ان خوبیوں کے نہ صرف ہم گھر والے عینی شاہد ہیں بلکہ دیگر رشتہ دار، احباب جماعت،ہم جلیس اور طلبہ نے بھی ان کو بیان کیا۔الحمد للہ علیٰ ذالک۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ تہجد گزار،پنجوقتہ نمازوں کے پابند، حتی الوسع نماز باجماعت کا اہتمام کرنے والے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے، تلاوت قرآن کریم اور مطالعہ جماعتی لٹریچر کرنے والے، موصی، خلافت احمدیہ سے بے پناہ محبت کرنے والے، باقاعدگی سے خطبات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سننے والے، تحریکات پر لبیک کہنے والے، نفلی روزہ کا بحالت صحت باقاعدگی سے اہتمام کرنے والے، ہر وقت جماعتی خدمت کے لیے تیار رہنے والے، عاجزی سے خدمت کرنے والے، مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے، واقفین زندگی سے خاص محبت کرنے والے، عہدیداران کا احترام کرنےوالے،نظام جماعت کے لیے غیرت رکھنے والے، پیار سے تربیت کرنے والے، درگزرکرنے والے،مشکلات میں صبر و حوصلہ اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ رکھنے والے، اپنی مشکلات اللہ تعالیٰ کے حضور خشوع و خضوع سے بیان کرنے والے، دوسروں کی مشکلات میں ہر ممکن مدد کرنے والے،کسی کے لیے بھی دل میں ناراضگی کے جذبات نہ رکھنے والے،کسی بھی کامیابی کو محض اللہ کا خاص فضل قرار دینے والے، انصاف کرنے والے، صائب الرائے، مہمان نواز، دل کھول کر مالی معاونت کرنے والے،اپنے پیشہ کے ساتھ وفاداری کرنے والے، اپنے عملہ کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے والے، صلہ رحمی کرنے والے، بچوں سے بہت پیار کرنے والے،گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانے والے،لباس و غذا میں سادگی کا مظاہرہ کرنے والے، کھانے کو ضائع نہ کرنے والے،ہر طرح کے تکلف اور تصنع سے پاک طبیعیت کے مالک والد صاحب کسی بھی کام کے کرنے میں عار محسوس نہ کرتے بلکہ طبیعت میں بہت عاجزی تھی۔الحمدللہ حضور انور کی شفقت و محبت: ۱۳؍دسمبر۲۰۲۴ء کو میرے پیارے باپ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت والد صاحب کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا فرمائی اورخطبہ جمعہ میں تفصیل سے قریباً ان تمام اوصاف کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اچھے نیک آدمی تھے۔‘‘ خاکساروالد صاحب کی نیک سیرت اور پاکیزہ اوصاف کی روشنی میں ان کے کچھ حالات زندگی قلمبند کرنا چاہتاہے۔ کلمہ کی حفاظت : خاکسار کی نظر میں والد صاحب مرحوم کی سب سے افضل خوبی اور خدمت کلمہ کی حفاظت ہے۔والد صاحب ہائی سکول میں داخلہ کی غرض سےگوجرانوالہ اپنے بڑے بھائی کے پاس منتقل ہوگئے تھے۔ جہاں قریباً انہوں نے اپنی زندگی کے بارہ سال گزارے۔ ان میں وہ سال بھی شامل ہیں جن میں جنرل ضیاء اقتدار پر قابض تھا۔۱۹۸۶ء یا۸۷ء میں باغبان پورہ،گوجرانوالہ شہر کی مسجد سے کلمہ باربار مٹایا جاتا تھا اور مرکز کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ کلمہ ہر صورت لکھا رہنا چاہیے۔اس عرصہ کے دوران وہاں پر قائد مجلس مکرم عبدالباسط صاحب(حال کینیڈا) تھے۔ انہوں نے خاکسار کو بتلایا کہ والد صاحب کو جس وقت بھی کسی خدمت کے لیے بلایا گیا تو فوراً لبیک کہتے۔ ان حالات میں قریباً تین سال تو دن رات مسجد میں قیام رہا۔ چنانچہ مکرم لودھی صاحب کو یہ ڈیوٹی سپرد کی گئی کہ آپ نے کلمہ لکھنا ہے۔اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک سٹینسل بھی تیار کروایا تاکہ کلمہ لکھنے کا کام سرعت سے کیا جا سکے اور یوں کم سے کم ایک سو مرتبہ ان کو کلمہ تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ انہی ایام میں وہ ایک حادثہ کا بھی شکار ہوئے۔یہ ویسپا موٹر سائیکل پر سوار تھے کہ ایک تیز رفتار کار کی ٹکر سے شدید زخمی ہوگئے جس کے باعث ان کی ٹانگ کی ہڈی بری طرح ٹوٹ گئی جس میں پلیٹ ڈالنا پڑی جو تا عمر ان کی ٹانگ میں موجود رہی۔والد صاحب نے خاکسار سے بھی اس واقعہ کا ذکر کیا کہ میں بےہوش ہوگیا تھا۔بعد میں کسی نے ان کو بتایا کہ غنودگی کی حالت میں بھی آپ یہی کہہ رہے تھے کہ کلمہ ذرا اوپر کرکےلکھنا ہے۔ نمازباجماعت کے اہتمام کے لیے مسجد جانے کا شوق: والد صاحب حتی الوسع نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد ہی جایا کرتے تھے اور مسجد سے ان کا تعلق بچپن سے ہی قائم ہو گیا تھا۔جوانی میں تو مسلسل تین سال مسجد میں ہی رہائش پذیر رہے۔پاکستان میں دو مرتبہ نماز فجر پر اکیلے جاتے ہوئے ان کو ڈاکوؤں نے بھی روکا۔ اس وقت ان کی جیب میں صرف رسید ہی تھی جو کسی کے چندہ کی کاٹ کر رکھی ہوئی تھی۔ایسی خطرناک حالت میں بھی مسجد جانے سے نہ رکے۔دوران ملازمت سکول سے سیدھا نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجدکا رخ کرتے۔ریٹائرمنٹ کے بعد بطور صدر جماعت احمدیہ مریدکے خدمت کی توفیق پارہے تھے۔جب کہ گھر فون کرنا تو اکثر یہی پتہ چلتا کہ مسجد گئے ہیں یا مسجد سے آرہے ہیں۔حالانکہ ان دنوں ان کو برین سٹروک بھی ہوا جس سے ان کی یادداشت اور بصارت بھی کچھ عرصہ تک متاثر رہی۔ہم چاروں بہن بھائی چونکہ بیرون ملک تھے۔تاہم ہمارے اصرار کے باوجود بھی مسجد جانے سے گریز نہ کرتےتھے۔نہ صحت کی فکر کرتے تھے نہ موسم کی گرمی کا خیال کرتے۔ہر ممکن کوشش ہوتی کہ مسجد جاکرہی نماز ادا کریں۔ایک نمازکے لیے جاتے تو اکثر دوسری نماز کے وقت تک مسجد میں ہی رہتے۔ والد صاحب کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور طبیعت میں عاجزی:والد صاحب کی وفات کے بعد جب ان کی زندگی پر کچھ غور کرنا شروع کیا تو حالات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ان کی زندگی میں کافی مشکلات رہی ہیں۔والدین کی وفات،۲۰۱۴ء سانحہ گوجرانولہ کچی پمپ والی میں ہمشیرہ بشریٰ بی بی صاحبہ کی شہادت، دیگرخاندان کے گھروں کا جلایا جانا، دوران ہجرت بڑے بھائی مکرم بشیر احمد لودھی صاحب کی وفات۔دوران ملازمت شدید مخالفت کا سامنا رہا اور چند دیگر حالات جنہوں نے ان کی زندگی پر گہرا اثر چھوڑا۔والد صاحب ایک Self-Made انسان تھے۔ جنہوں نے اپنے لیے خود محنت کی۔ اپنی پڑھائی کے اخراجات ٹیوشن پڑھا کرپورے کرتے۔صفر سے شروع کرکے الحمدللہ ضرورت کی ہرآسودگی انہوں نے پائی۔لیکن تمام حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا اور اپنی ہر ایک کامیابی کو محض اللہ تعالیٰ کا فضل قراردیا۔ہمیں بھی ہمیشہ یہی نصیحت کرتے کہ اپنی نیت صاف رکھو اللہ تعالیٰ بہت دےگا۔اللہ تعالیٰ نے پہلے بھی بہت دیا ہےاور آگے بھی بہت دے گا۔ہماری کسی بھی کامیابی پر کسی قسم کی تعریف یا فخر محسوس کرنے کی بجائے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اس کو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی قرار دیتے۔ نظام جماعت اور خلیفہ وقت سے تعلق : والد صاحب نے ہم سب بہن بھائیوں کو ہمیشہ جماعت سے تعلق مضبوط کرنے کی تلقین کی۔ہر مشکل گھڑی میں خلفاء کی دعاؤں کا سہارا لیتے۔خلیفہ وقت کو دعائیہ خطوط خود بھی لکھتے اور ہمیں بھی تلقین کرتے۔خطبات سنتے اور ہر تحریک پر لبیک کہتے۔بحالت صحت نفلی روزہ کا باقاعدہ اہتمام کرتے۔صحت کے کچھ مسائل کی وجہ سے جب روزہ رکھنا ممکن نہ رہا تو بڑی تکلیف سے اس محرومی کا اظہار کرتے۔وفات سے کچھ روز قبل چھوٹے بھائی کو جب جماعتی ذمہ داری ملی تو بہت خوش ہوکر کہنے لگے کہ اس وقت گھر میں ہم پانچ افراد کو خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔والد صاحب کی جماعتی خدمات کا عرصہ بھی قریباً ۴۵؍سال بنتا ہے۔الحمدللہ مقامات مقدسہ اور ایک احمدی سے تعلق:خاکسار کے سیالکوٹ شہر تقرر کے دوران میرے پاس تشریف لائے تو مسجد مبارک کو خاص شوق سے دیکھنے گئےجہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نمازیں ادا کیں۔جب اس مسجد کے تقدس کی پامالی،مینار اور گنبد کی شہادت کا علم ہوا تو اس تکلیف سے ان کے بے اختیار آنسو آگئے۔ چھوٹے بھائی عزیزم فرحان لودھی نےایک دفعہ خاکسار سے ذکر کیاکہ ایک مرتبہ ابو فون استعمال کر رہے تھے تو اچانک ان کے زاروقطار رونے کی آواز سنی۔وجہ پوچھنے پر انہوں نے فون آگے کر دیا جس پر کسی کی تصویر نظر آرہی تھی۔پوچھنے پر بتانے لگے کہ یہ احمدی ہیں اور ان کو پاکستان میں شہید کردیا گیا ہے۔بھائی نے پوچھا کیا آپ ان کو جانتے تھے۔جواباً کہنے لگے کہ نہیں۔بس احمدیت کا ہی رشتہ تھا۔ نقصان نہیں پہنچایا جائےگا: والدصاحب قریباً ۳۵؍ سال تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔آخری ادارہ (ہائی سکول راجہ،سادھوکی۔گوجرانوالہ) جس سے ریٹائر ہوئے قریباً ۲۵؍سال یہاں گزارے۔دو سال بعد ہی سٹاف کو پتا چل گیا کہ یہ احمدی ہیں تو شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ مکمل بائیکاٹ کردیا گیا حتیٰ کہ ان کے برتن بھی الگ کردیے۔ مخالفت اس قدر تھی کہ ایک طالب علم نے والد صاحب سے بیان کیا کہ فلاں ماسٹر صاحب نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ کو گولی ماردوں، بےشک ٹانگ میں ہی۔اس قدر جان لیوا صورت حال کے باوجود والد صاحب نے سکول جانا نہ چھوڑا۔تبلیغ بھی برابر جاری رہتی،حوالہ جات جیب یا فون میں محفوظ ہوتے کہ اگر ضرورت پڑے تو پیش کیے جاسکیں۔کبھی اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔ ایک مرتبہ کچھ شرپسند اساتذہ نے انہیں زد و کوب کرنے کا بھی پروگرام بنایا اور وقتاً فوقتاً طرح طرح کے مسائل کھڑے کرتے رہتے تھے۔ چھوٹے بھائی عزیزم فراز شبیر لودھی نے بتایا کہ انہی دنوں والد صاحب نے خواب میں آواز سنی کہ نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔۲۰۱۹ء میں ایک ہیڈ ماسٹر نے صرف احمدی ہونے کی بنا پر ان کو جبراً ریٹائر کروانے کی بھی کوشش کی۔ایک مرتبہ انہوں نے والد صاحب کا تبادلہ بھی کروانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ جو بظاہر ایک اچھی بات تھی۔ لیکن والد صاحب ان ایام میں حضور انور کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھتے رہتے تھے۔ والد صاحب نے بھی اپنے کچھ تعلقات استعمال کیے اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور حضور انور کی دعاؤں کی برکت سے اپنا تبادلہ رکوانے میں کامیاب ہوگئے۔۲۵؍سال اسی ادارہ میں گزارے جو ذہنی اذیت سےبھرپور اور جان کے لیے ایک خطرہ بھی تھے۔لیکن ہمیشہ بہادری سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔کبھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان متزلزل نہ ہوا بلکہ زیادہ ہی ہوا۔ الحمد للہ۔ والد صاحب کی شخصیت کی وجہ سے اس ادارہ کی ایک الگ پہچان اور نیک نامی تھی۔ کچھ عرصہ ہیڈ ماسٹر بھی رہے۔اس کی عزت ووقار کے لیے بھی کوشاں رہتے۔سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے۔ان کے وقت میں ۱۰۰ سے زیادہ طلبہ بھی سائنس کلاس کا حصہ ہوتے۔ ان کی وفات کے بعد ایک طالب علم نے بیان کیا کہ سرجی لودھی صاحب کے جانے کے بعد سائنس رکھنے والے طلبہ کی تعداد ۱۰-۱۵تک رہ گئی ہے۔الوداعی پارٹی پر ایک کارکن نے ان سے کہا کہ جیساآپ نے ادارہ سنبھالا ہوا تھا ان سے نہیں سنبھالا جارہا بلکہ سکول کا نام خراب کردیا ہے۔ کبھی گلہ،شکوہ یا شکایت نہ کرتے:خاکسار کے والد صاحب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ خوبی بہت نمایاں تھی۔جس کا اظہار ان کی زندگی میں کئی بار دیکھا۔اگر کسی نے کوئی تکلیف پہنچائی تو کبھی پلٹ کر جواب نہ دیتے۔کوہ وقار و صبر بنے رہتے۔ان سے کیے گئے حسن سلوک کو کبھی نہ جتاتے۔اپنے معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے اور دعاؤں سے اپنی تکلیف کا مقابلہ کرتے۔ خاکسار کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے لیے دعائیں: خاکساراپنے والدین کا پہلا بچہ تھا اور بخوشی مجھے وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل کیا۔والد صاحب نے بچپن ہی سے میرے ذہن میں اچھی طرح پختہ کر دیا تھا کہ آپ نے مربی بن کرہی جماعت کی خدمت کرنی ہے اور اسی کے پیش نظر میری تربیت کرنے کی بھی کوشش کرتے۔۲۰۰۵ء میں،خاکسار نے میٹرک Aگریڈ میں پاس کر لیاتو جامعہ احمدیہ میں داخلہ کی تیاری کے تمام مراحل میں میرے ساتھ بھرپور شریک رہے۔مجھے کالج میں داخلہ کے لیے پراسپیکٹس بھی منگوا کر دیے کہ اگر خدا نخواستہ میں جامعہ کے معیار پر پورا نہ اتر سکوں تو آگے تعلیم جاری رکھنے کا آپشن موجود رہے لیکن میرے ذہن میں یہی ڈالا کہ آپ نے جامعہ ہی جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سےخاکسار کا جامعہ میں داخلہ ہوگیا۔مجھے جامعہ چھوڑنے آئے،میرا بستر اپنے ہاتھوں سے لگایا،الماری ترتیب دینے میں میری مدد کی۔شروع کے دنوں میں والدین اور گھر سے دُوری کے باعث دل لگانا میرے لیے کافی مشکل تھا۔فون پہ بات ہونی تو رونا آجانا اور میں نے ان سے کہنا کہ ملنے آئیں۔چنانچہ جامعہ شروع ہونے کے چھ دن بعد ہی مجھے ملنے آئے۔ گیسٹ روم میں میرے ساتھ علیحدگی میں ملے تو کہنے لگے : بیٹا ! میں نے ۱۶؍سال آپ کی خاطر اس دن کےلیے دعائیں کی ہیں۔اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دیا ہے تو اپنا خوب دل لگاؤ اور مربی بن کر ہی یہاں سے نکلنا۔ محض دعاؤں سے ہی یہ وقت گزرتا گیا اور میرا جامعہ میں آخری سال آگیا۔۲۰۱۲ء میں خاکسار کے شاہد کے امتحانات ہو رہے تھے۔ہر امتحان سے پہلے میں پیارے حضور کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھتا،صدقہ دیتا اور کمرہ امتحان میں جانے سے پہلے والد صاحب کو فون کر کے دعا کےلیے کہتا۔یوں محض اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے میں ایک ادنیٰ سا مربیٔ سلسلہ بن کر ہی جامعہ سے فارغ التحصیل ہوا۔ الحمد للہ جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پہلی ملاقات: جامعہ احمدیہ سے فراغت کے بعد، جب میں پہلی بار بطور مربی والدین سے ملنے کے لیے گھر جانے کا ارادہ رکھتا تھا، تو دل میں یہ خواہش تھی کہ ان کو اچانک جا کر یہ خوشخبری دی جائے۔چنانچہ والدین کو اپنی آمد کے بارے میں کوئی اطلاع نہ دی۔علی الصبح ہی ربوہ سے،پہلے اپنی والدہ صاحبہ کو سرپرائز دینے، گھرمریدکے پہنچا۔والد صاحب بسلسلہ ملازمت گھر سے جاچکے تھے۔ امی جان سے ملاقات کے بعد میں نے ان سے کہا کہ میں اب ابو سے ملنے جانا چاہتا ہوں میں مزید انتظار نہیں کرسکتا۔ چنانچہ آدھے گھنٹہ کی مسافت کے بعد میں ابو کے سکول پہنچ گیا جہاں وہ تدریس میں مصروف تھے۔ جب مجھے یوں اچانک سامنے دیکھا تو ان کی آنکھیں سوالیہ نظروں سےمجھے دیکھنے لگیں اور چہرہ پہ حیرانی کی بجائے پریشانی اور فکرمندی کے آثار زیادہ نمایاں تھے۔ مجھ سے فوراً پوچھا کہ جامعہ سے چھٹی لے کرآئے ہو؟فکرمند تھے کہ کہیں نکال تو نہیں دیا،کیونکہ ہمارے حد درجہ شفیق و مہربان پرنسپل مکرم سیدمیر محمود احمد ناصر صاحب، طلبہ کو ان کی نالائقیوں کے باعث جامعہ سےصرف ایک ہی دن کے لیے بطور سزا فارغ کیا کرتے تھے جس سے ہم بخوبی واقف تھے اور پھر اگلے دن کمال شفقت و محبت سے دوبارہ کلاس میں بیٹھنے دیتے۔ دوران تدریس ایسی شفقت تین دفعہ خاکسار کے حصہ میں بھی آئی اور ایک دفعہ تو والد صاحب کوبذات خود فون پر اطلاع دی کہ آپ کے بیٹے کو جامعہ سے نکال دیا ہے،والد صاحب کے ذہن میں غالباً یہ تمام حالات پھر سے گردش کرنے لگے۔میں نے عرض کیا کہ الحمد للہ میں مربی بن گیاہوں اور آپ کو سرپرائز دینے آیا تھا۔اس کے بعد ان کی تسلی ہوگئی اور خوشی کے آنسو ان کی آنکھوں میں تیرنے لگے۔اپنے ایک ساتھی (غیر احمدی )سے جب ملاقات ہوئی تو ان کو بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔اس کی تعلیم مکمل ہوگئی ہے اور اس نے آج مجھے یہاں آکر سرپرائز دیا ہے۔جواباً وہ کہنے لگے لودھی صاحب! آپ تو بڑے خوش قسمت ہیں کہ آپ کا بیٹا آپ کے پیچھے یہاں آیا ہے۔ہمارے بچے دو دو دن سے گھر آئے ہوتے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ہوتی۔ مربیان سلسلہ سے خاص محبت: خاکسار کے والد صاحب کا مربیان سلسلہ سے ایک خاص محبت و اخلاص کا تعلق تھا۔ہر ایک سے بڑی عزت و احترام سے پیش آتے اور دل میں ان کے لیے خاص جذبات رکھتے۔ایک مثال یہ پیش کرنا چاہوں گا کہ جب شہدائے لاہور کا حضور انور نے ذکر خیر کا سلسلہ اپنے خطبات میں شروع فرمایا تو بڑے ضبط و حوصلہ سے سارے واقعات کو سنتے۔ جس خطبہ میں حضور انور نے مکرم محمود احمد شاد صاحب شہید مربی سلسلہ کا ذکر فرمایا توضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور بےاختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ خود خاکسار کو مربی صاحب کہہ کرپکارا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دوران تدریس جامعہ میں رخصت پر گھر آیا ہوا تھا تو دوسرے بھائیوں کو کچھ تنگ کرنے پر ابو جان نے ایک ہلکا سا ہاتھ لگا دیا۔میرے مربی بننے کے بعد اس کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ مجھے اس کا بڑا افسوس ہے کہ آپ کو نہیں مارنا چاہیے تھا۔آپ مربی ہو۔ مجھے تو یہ واقعہ اس وقت بھولا ہوا تھا یقیناً میری ہی غلطی تھی۔ اس پر سرزنش بھی ٹھیک تھی اور ابھی تھا بھی جامعہ کا طالب علم۔لیکن اس وقت بھی احترام کرتے تھے۔میرے اکثر کلاس فیلوز یا دیگر مربیان جو ہمارے باہمی تعارف اور رابطہ میں تھے ان کا اکثر پوچھا کرتے تھے اور ہر ایک کے نام کے ساتھ صاحب لگاتے بے شک وہ چھوٹے ہی تھے۔ چندہ جات اور حصہ جائیداد کی ادائیگی: والد صاحب تمام مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے بروقت ادائیگی کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی بھی تھے۔ نصف سے زائد رقم تشخیص سے قبل ہی حصہ جائیداد کی مد میں اپنی زندگی میں ہی ادا کر چکے تھے۔گذشتہ کچھ ماہ سے اپنے حصہ جائیدادکی تشخیص کے لیے متعلقہ دفاتر سے خط و کتابت جاری تھی۔چاہتے تھے کہ اپنی زندگی میں ہی باقی ادائیگی بھی ہو جائے۔ وفات کے بعد ان کا تشخیص کا خط ملا۔ تدفین سے قبل ان کی طرف سے باقی رہ جانے والی رقم بھی ادا کردی گئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔کینیڈا جاکر بھی ان کو بطور ناظم مال مجلس انصار اللہ خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔یکم تاریخ آتے ہی چھوٹے بھائی عزیزم فرحان لودھی کو کہتے کہ میری رپورٹ جلد از جلد تیار کر دو اورچندہ بھی ادا کردوکیونکہ ابھی آئن لائن سسٹم سے زیادہ شناسائی نہیں ہوئی تھی۔ جب تک رپورٹ تیار نہیں ہو جاتی تھی مسلسل کہتے رہتے تھے کہ اب تک تیار نہیں کی۔چاہتے تھے کہ وقت پر تیار ہو جائے تاکہ جماعت کا وقت ضائع نہ ہو اور کام میں کوئی روک پیدا نہ ہو۔ تربیت کا انداز: والد صاحب کومجلس خدام الاحمدیہ کے دور سے ہی دیکھا کہ ان کا ہر گھرانے سے ایک ذاتی تعلق تھا جس سے ان کے مسائل کے حوالے سے کافی باخبر رہتے تھے۔کسی کو کوئی بات سمجھانی ہوتی تو ہمیشہ پیار سے سمجھاتے۔مخاطب کی عزت نفس کا خیال رکھتے،علیحدگی میں سمجھاتے،کبھی کسی کی تحقیر یا اپنے علم کا اظہار نہ کرتے۔اس ذاتی تعلق کی وجہ سے مریدکے جماعت کی ہردلعزیز شخصیت تھے۔ان کی وفات کے بعداکثر دوستوں نے بیان کیا کہ کبھی کسی کو ڈانٹا نہیں، غصہ کا اظہار نہیں کیا،حوصلہ افزائی کرنے والے،تعاون کرنے والے اور اپنے تجربہ سے دوسروں کو فائدہ دینے والے تھے۔ دوستوں نے ان کی وفات کو ایک خلا قرار دیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ صرف ہمارے قائد یا صدر ہی نہیں تھے بلکہ استاد بھی تھے۔ہر طرح کی راہنمائی کے لیے ان سے رابطہ کرتے۔بہت ہی نفیس طبیعت کے مالک،شفقت کرنے والے، عاجز، زندہ دل، خوش مزاج،محنتی،عظیم انسان جیسے الفاظ سے یادکیا۔الحمد للہ تاثرات: والد صاحب کی وفات کے بعد بہت سے دوستوں نے اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کی روشنی میں ان کی زندگی کے کئی خوبصورت پہلوؤں کا ذکر کیا جن سے ہم بھی لاعلم رہے۔مضمون کی طوالت کے خدشہ سے ان سب کا بیان ناممکن ہے۔تاہم صرف مکرم انور ورک صاحب صدر حلقہ Peel Villageبریمپٹن ویسٹ امارت،جن کا مکرم والد صاحب کے ساتھ تعلق صرف کچھ ماہ کا تھا، کے صرف ایک پیغام کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے ان کی شخصیت کا احاطہ کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شبیر احمد لودھی صاحب کی اچانک وفات ہمارے حلقہ کے لیے بہت بڑے صدمہ اور خلا کاموجب ہے۔مرحوم لودھی صاحب ایک نہایت ہی متقی،پارسا اور خادم دین وجود تھے جو ہمہ تن سلسلہ کی خدمت میں مشغول رہتے تھے۔انہیں خلافت سے بے انتہا پیار اور لگاؤ تھا۔گو کہ وہ ہمارے حلقہ میں رواں سال کے اوائل میں تشریف لائے مگر اپنے حسن سلوک اور دل پذیر شخصیت سے سب کے دل جیت لیے۔خاکسار نے ان کی ماضی کی خدمات کے پیش نظر جب ان سے گذارش کی کہ وہ یہاں بھی سلسلہ کے لیے کام کریں تو انہوں نے فوراً لبیک کہا اور ہماری عاملہ میں سیکرٹری نشرو اشاعت کے طور پر خدمات بجا لانے کے لیے راضی ہوگئے۔ نہ صرف وہ ہمارے حلقہ کی عاملہ کے بڑے سرگرم رکن تھے بلکہ ذیلی تنظیم انصاراللہ کے بھی بہت سرگرم رکن تھے۔گھروں کے دورے کر کےممبران حلقہ کو نمازسنٹر میں باجماعت نماز ادا کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے۔غرض کہ وہ ہرلحاظ سےہی ایک بہت ہی عبادت گزار،خدا ترس،سلسلہ سےمحبت کرنے والےایک بزرگ وجود تھے۔ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اس سلسلہ میں قائد صاحب خدام الاحمدیہ نے خاکسار کو بتایا کہ وہ عہدیداران کے لیے بھی نہایت عزت ا ور عقیدت کے جذبات رکھتے تھے۔جب بھی قائد صاحب نماز ادا کرنے کے لیے سنٹر میں جاتے تو وہ وہاں پر پہلے موجود ہوتے تو قائد صاحب انہیں سلام کرنے کے لیے آگے بڑھتے تووہ فوراً اٹھ کر ان سے ملتے اور کہتے کہ ہمارے قائد صاحب خدام الاحمدیہ تشریف لے آئے ہیں۔حالانکہ قائد صاحب ان سے عمر میں قریباً آدھے تھے۔ا ن کی عزت و عقیدت عہدیداران کے لیے ایک مثالی رنگ رکھتی تھی۔ان کی رحلت ہم سب کے لیے ایک بہت بڑے صدمہ کا موجب ہے۔ آخر پر خاکسار اپنے پیارے ابو جان کے حوالے سے پریقین ہوکر یہ بیان کرتا ہے کہ خاکسار کے وقف کی صورت میں جو انہوں نے عہد باندھا تا دم وفات ابراہیمی صفات سے مزین ہوکر خوب نبھایا۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ والد صاحب نے کہا ہو کہ کچھ دیر کے لیے ہی گھر آجاؤ یا کچھ وقت اور ٹھہر جاؤ۔خاکسار سے آخری ملاقات ۲۵؍جولائی ۲۰۱۹ء کو لائبیریا روانگی سے قبل لاہور ایئر پورٹ پر ہوئی۔ان کے چہرہ پر نہ کوئی پریشانی دیکھی نہ اداسی بلکہ خوشی اور دعاؤں کے ساتھ ہی ہمیشہ کی طرح رخصت کیا۔نہ تو اپنی کسی تکلیف،مشکل اور بیماری میں اور نہ ہی مجھے در پیش مسائل میں کمزور پڑنے دیا بلکہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور مسلسل دعاؤں اور راہنمائی سے مدد کرتےرہے۔ اُن کی زندگی ایک خاموش لیکن وفا، قربانی، دعا، اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کا ایک روشن پیغام تھی۔ قارئین سے عاجزانہ درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے والد صاحب سے اپنی رحمت و مغفرت کا خاص سلوک فرمائے، ہمیں ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے،بالخصوص خاکسار کو حقیقی رنگ میں اپنا وقف اخلاص، وفا اور صدق دل سے نبھانے کی توفیق عطا کرے۔آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مکرم رشید احمد کاہلوں صاحب