یہ موت فوت کا عمل تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ جو اس دنیامیں آئے گا اس نے جانا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ یعنی ہر چیزجو اس زمین پر ہے وہ فانی ہے اور آگے فرمایا کہ وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ (الرحمٰن:28) اور صرف تیرے ربّ کی ذات باقی رہنے والی ہے جو جلال اور اکرام والی ہے۔ پس دنیا میں جو آیا اس نے چلے جانا ہے، کسی نے پہلے، کسی نے بعد۔ کسی نے لمبی عمر پا کر، کسی نے جلدی۔ پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ذُوالْجَلَالِ وَالْاِ کْرَامِ خدا سے چمٹے رہتے ہیں اور اس کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پچھلوں کے لئے بھی یہ نمونہ چھوڑ کر جاتے ہیں کہ دنیا کی فانی چیزوں کے پیچھے نہ دوڑنا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ اگر یہ تمہیں مل گئی توتمہیں دونوں جہان کی نعمتیں مل گئیں۔ وہ اپنے عمل سے اپنے پیچھے رہنے والوں کو، اپنی نسلوں کو یہ سبق دے کر جاتے ہیں کہ ہم نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ اللہ تعالیٰ کے اُس انعام کے مصداق ٹھہریں جس نے فرمایا ہے کہ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ (البقرۃ:113) یعنی جو بھی اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجرا س کے رب کے پاس ہے۔ پس ایسے لوگ جو اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیتے ہیں اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے حصہ لیتے ہیں اور آخرت میں بھی انشاء اللہ حصہ لیں گے۔ اور آخرت کا حصہ ظاہر ہے کہ مرنے کے بعد ملنا ہے۔ اس فانی دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد ملنا ہے۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ ہر جان کو موت آنی ہے اور موت آنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر تمہارا میری طرف لوٹنا ہے اور جب میری طرف لوٹو گے تو ہم اُنہیں جنہوں نے نیک عمل کئے ہوں گے ضرور بالضرور جنت میں ایسے بالا خانے دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ پس نیک عمل کرنے والوں کا یہ ایسا عمدہ اور اعلیٰ اجر ہے کہ اس کے برابر کوئی اور اجر ہو نہیں سکتا۔ پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے نیک اعمال کے ایسے اجر پائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنتوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔ … ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے۔ وہاں بیٹھے ہوئے صحابہ نے ان کی تعریف کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہو گئی۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی برائی کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے جو پاس بیٹھے ہوئے تھے عرض کیا حضور! کیا واجب ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی کی اس کے لئے دوزخ واجب ہو گئی۔ تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو یعنی نیکی اور بدی میں تمیز کی تم لوگوں کو توفیق دی گئی ہے۔ (بخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس علی االمیت حدیث نمبر1367) پس کسی بھی مرنے والے کے ماحول کے لوگ جب اس کی نیکیوں کی گواہی دے رہے ہوں تو یقینا ًیہ اس کے حق میں دعا ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بھی ایسے مرنے والوں کو اجر دیتا ہے۔ اللہ کرے کہ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو جنت کے بالاخانوں میں جگہ دے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم ستمبر۲۰۰۶ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍ستمبر ۲۰۰۶ء) مزید پڑھیں: ’’سورج ۳۶۴ دن میں اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے ‘‘ کی تشریح