(جلسہ گاہ Mendig جرمنی، ۲۹؍اگست ۲۰۲۵، نمائندہ انٹرنیشنل) آج جماعت احمدیہ جرمنی کے ۴۹ویں جلسہ سالانہ کا پہلا دن تھا۔ رات بھر مہمانوں کی آمد وقفہ وقفہ سے جاری رہی اور لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ بھی مہمانوں کے لئے کھلا تھا۔ آج روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کی سوشل میڈیا ٹیم اور الحکم کا سٹاف بھی جلسہ گاہ میں پہنچ کر کام میں مصروف ہو چکا تھا۔ آج کے دن کا آغاز بھی حسب روایت نماز تہجد سے ہوا جو صبح ساڑھے چار بجے مکرم حافظ خواجہ احتشام احمد صاحب نے پڑھائی۔ سوا پانچ بجے اذان فجر دینے کی سعادت مکرم محمد ولید عابد صاحب نے حاصل کی۔ ساڑھے پانچ بجے نماز فجر کی امامت مکرم مبارک احمد تنویر صاحب مشنری انچارج جرمنی نے کروائی۔ درس مکرم محفوظ احمد منیر صاحب نے ’درود شریف کی اہمیت‘ کے حوالے سے دیا۔ دن کے آثار نمایاں ہوتے ہی جلسہ کی چہل پہل کا آغاز ہو گیا۔ پارکنگ اور ٹریفک کے کارکنان کو علی الصبح کام میں مصروف دیکھا گیا۔ گزشتہ سال، جو کہ اس جگہ جلسہ منعقد کرنے کا پہلا سال تھا، اس کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے جلسہ گاہ آنے والی سڑکوں کا پلان پولیس نے اس طرح تیار کیا تھا کہ مقامی آبادی کو کم سے کم تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ جلسہ کی ٹریفک کو Mendig شہر میں جانے کی اجازت نہی تھی البتہ موٹر وے سے جلد گاہ تک ۱۷ کلو میٹر کے راستہ میں جگہ جگہ پولیس کی گاڑی لوگوں کو گائیڈ کرنے کے لئے موجود تھی۔ اسی طرح ۱۷ کلومیٹر کے طویل راستہ کے دوران آنے والے ہر موڑ پر ایک نیا خادم السلام علیکم ورحمتہ اللہ کا بینر لے کر مستعد کھڑا سامنے سے گزرنے والوں کو ہاتھ ہلا کر انتظامیہ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ یہ ایسا دیدہ زیب منظر تھا جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس بار تین اطراف سے کاریں پارکنگ ایریا میں داخل ہورہی تھیں جہاں وقت بچانے کی خاطر مختلف بلاکس میں کاریں پارک کروائی جا رہی تھیں جہاں سے بسوں میں لوگوں کو جلسہ گاہ کے داخلی دروازوں پر پہنچایا جارہا تھا۔ داخلہ سے قبل پینے کے پانی کے سٹال موجود تھے۔ مقامی احمدی اور مہمانوں کے داخلہ کارڈ بنانے اور تصدیق کروانے کے دفاتر بھی مصروف عمل تھے۔ جلسہ گاہ کی پیشانی جلسہ کے حسن لا ریب دیدہ ور منظر سے مزین تھی۔ آنے والے مہمان ایک دوسرے سے گلے مل کر جلسہ سالانہ کی اہمیت بارآور کروا رہے تھے۔ صبح سے شروع ہونے والے اس منظر میں جمعہ کی اذان تک ہر لمحہ اضافہ ہوتا رہا۔ جمعہ کے لئے ڈیڑھ بجے کا وقت مقرر تھا۔ ایک بجے عزیزم وقاص احمد متعلم جامعہ احمدیہ نے پہلی اذان دی تو اس وقت کی رپورٹ کے مطابق دونوں جلسہ گاہ کی حاضری پچیس ہزار تھی اور ابھی مسلسل کاریں جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھیں۔ ایک بجکر تیس منٹ پر دوسری اذان کے بعد مکرم مبلغ انچارج صاحب نے خطبہ جمعہ دیا جس کا آٹھ زبانوں میں رواں ترجمہ کیا گیا۔ مبلغ انچارج صاحب نے حضور انور کے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍جولائی بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ میں کی جانے والی نصائح کی طرف متوجہ کیا۔ ان نصائح میں حضور انور نے جلسہ کے مقاصد اور اس جلسہ سے وابستہ برکات کا احاطہ فرمایا ہے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جلسہ گاہ میں ہی حضور انور کا خطبہ جمعہ ایم ٹی اے پر سنا گیا۔ خطبہ جمعہ کے آخر میں حضور انور نے ازراہ شفقت شاملین جلسہ سالانہ جرمنی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آج سے جرمنی کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہوا ہے۔ وہاں کے تمام شاملین کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلسے کے مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق دے اور صرف میلہ سمجھ کر یہاں جمع نہ ہوں بلکہ اِن دنوں میں اپنی علمی، عملی اور روحانی ترقی میں مستقل بڑھتے چلے جانے کا عہد کریں اور اس کے لیے کوشش کریں۔ اِن دنوں میں خاص طور پر ذکر الٰہی اور دعاؤں میں وقت گزاریں۔ جہاں اپنے لیے، اپنی نسلوں کے لیے دعا کریں وہاں جماعت کی ترقی اور ہر مخالف کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے اور ان کے شر کے خاتمہ کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اِن کے شر سے بچائے۔ تقریب پرچم کشائی: جلسہ سالانہ کے اجلاس اول کے لئے پانچ بجے شام کا وقت مقرر تھا۔ اس سے قبل چار بجکر پینتالیس منٹ پر لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب ہوئی جس کے لئے پنڈال کے بائیں طرف ایریا مخصوص کیا گیا تھا جس کے چبوترے اور راستہ میں سرخ قالین بچھایا گیا تھا۔ بعض دیگر ممالک کے جھنڈے بھی اس زینت کا حصہ تھے۔ اس ایریا کو خوبصورتی سے سجانے کی ذمہ داری مکرم منظور احمد آف Wetzlar جماعت نے نبھائی جبکہ مکرم عثمان احمد صاحب ناظم پرچم کشائی تھے۔ آپ کا تعلق Riedstadt سے ہے۔ دس خدام مکرم خلیل احمد صاحب نائب افسر خدمت خلق کی معیت میں لوائے احمدیت اپنی حفاظت میں پرچم لہرانے کی جگہ پر لے کر آئے۔ پونے پانچ بجے مکرم امیر صاحب جرمنی اور مکرم مشنری انچارج صاحب جرمنی افسر جلسہ سالانہ اور افسر جلسہ گاہ کے ساتھ چبوترے پر تشریف لاۓ۔ مکرم امیر صاحب نے جرمنی کا قومی پرچم اور مشنری انچارج صاحب نے لوائے احمدیت لہرانے کی سعادت حاصل کی۔ جس کے آخر پر اجتماعی دعا ہوئی۔ لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب لائیو نشر کی گئی جس کو پنڈال میں موجود ہزاروں افراد نے بھی دیکھا۔ مکرم خلیل احمد صاحب نائب افسر خدمت خلق نے نمائندہ الفضل سے گفتگو میں بتایا کہ روزانہ صبح نو بجے سے شام ساڑھے سات بجے تک لوائے احمدیت جلسہ گاہ میں لہرایا جائے گا۔ جس کی حفاظت کے لئے پورے جرمنی میں خدام کو دعوت دی گئی تھی۔ لوائے احمدیت کی حفاظت کے لیے ایک سو سے زائد خدام نے نام لکھوائے ہیں۔ اس لئے سب کو موقع دینے کے لیے ہر ایک گھنٹہ کے بعد شفٹ تبدیل کی جائے گی۔ ایک وقت میں نو خدام ڈیوٹی دیں گے۔ اجلاس اول پانچ بجے اجلاس اول کی کارروائی شروع ہوئی۔ ابتداء میں مکرم حافظ فرید احمد خالد صاحب افسر جلسہ گاہ نے اجلاس کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اس اجلاس کی صدارت کے لیے حضور انور نے مکرم عبد اللہ واگس ھاوزر صاحب امیر جماعت جرمنی کو مقرر فرمایا ہے آپ سے التماس ہے کہ کرسی صدارت پر تشریف لایں۔ مکرم امیر صاحب کے کرسی صدارت پر متمکن ہونے کے بعد اجلاس کا آغاز تلاوت قران کریم سے ہوا جو مکرم دانیال احمد داؤد صاحب نے کی۔ آپ نے سورۃ الاحزاب کی آیات ۲۲ سے ۲۸ کی تلاوت کی جن کا جرمن ترجمہ مکرم مرزا نعمان احمد صاحب اور اردو ترجمہ مکرم مشہود احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ نے پیش کیا۔ مکرم راحیل احمد صاحب نے درثمین میں سے حضور علیہ السلام کا کلام ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے میں سے چند اعشار پیش کیے۔ نظم کے دوران بار بار اسلامی نعرے لگتے رہے۔ اجلاس کے پہلے مقرر مولانا مبارک احمد تنویر صاحب مشنری انچارج جرمنی تھے۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تکالیف اور ابتلا کے دوران مثالی نمونہ‘‘۔ آپ نے اپنی تقریر کے شروع میں قرآنی کریم کا حوالہ دیا جس میں رسول کو صبر کا حکم ہے آپ نے سورۃ الاحزاب کا بھی حوالہ دیا جس میں کافروں اور منافقوں کی بات پر کان نہ دھرنے کا ارشاد ہے۔ آپ نے آنحضرتﷺ کی زندگی کے قبل از نبوت اور زمانہ نبوت کے واقعات جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں کیا ہے ان کے اقتباسات پیش کیے۔ اسی طرح حضور صل اللہ علیہ وسلم کے جسمانی اور ذاتی تکالیف اور برداشت کے وہ واقعات جن کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے بھی فرمایا ہے بیان کیے۔ فاضل مقرر نے ۲۰۱۷ء سے حضرت خلیفتہ المسیح الخامس کی طرف سے حضورﷺ اور صحابہ کی سیرت کے واقعات پر مشتمل خطبات کا بھی حوالہ دیا جو صبر کی تعلیم اور تلقین کا بہترین نمونہ ہیں۔ اپنی تقریر کے آخر میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت پر اثر اقتباس پیش کیا جو صحابہ کے صبر اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کے متعلق تھا۔ اجلاس کے دوسرے مقرر سے قبل دو مہمان مقررین کو مختصر تقریر کا موقعہ دیا گیا جن میں سے پہلے مقرر Mr. Reine Braun برلن سے تشریف لائے تھے اور امن کے قیام کے لیے کوشاں ایک تنظیم کے سربراہ ہیں۔ موصوف نے جماعت کی امن کے لیے کوششوں کی تعریف کی۔ برطانیہ جاکر حضور انور سے ملاقات کا ذکر کیا۔ انہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی کی پر زور مزمت کی اور کہا کہ دنیا میں ایک ارب لوگ بھوکے سو رہے ہیں ان کا پیٹ بھرنے کی بجائے ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ جس کے لئے ہمیں امن کی کوششوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ دوسرے مہمان مقرر Mr. Clemens Hoch تھے جو صوبہ Rheinland-Pfalz میں صوبائی وزیر ہیں۔ انہوں نے اپنے صوبہ کے چیف منسٹر کی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور آئندہ سال بھی جلسہ سالانہ اسی جگہ منعقد کرنے کی درخواست کی۔ جماعت کے ماٹو محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں کو عام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبہ نے چار مسلم تنظیموں سے برابری کی بنیاد پر معاہدہ کیا ہے جس میں جماعت احمدیہ بھی شامل ہے۔ ہم سب مل کر صوبہ کو ترقی دیں گے۔ جلسہ سالانہ اور اس طرز کی مجالس قومیتوں اور مذاہب کے درمیان گفتگو کا دروازہ کھولتی ہیں جس کی زمانہ کو ضرورت ہے۔ مہمان مقررین کے بعد مکرم عدیل احمد خالد صاحب مربی سلسلہ نے ڈیجیٹل دور کے فوائد و مسائل اور ہماری ذمہ داریاں کے موضوع پر جرمن زبان میں تقریر کی۔ آپ نے اپنی تقریر کے شروع میں بہت ساری ایسی مثالیں پیش کیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت اس کے غلط استعمال سے سکولوں کے بچوں نے بے راہ روی اختیار کی۔ اس سے بچنے کی قرآنی تعلیم کا آپ نے تفصیل سے ذکر کیا۔ اسی طرح بچوں کے ساتھ حضور کی مجالس میں پوچھے جانے والے سوالات اور حضور انور کے جوابات کا ذکر نصائح کے رنگ میں کیا۔ اس کے بعد مکرم راشد منصور صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کا کلام خوش الحانی سے پیش کیا۔ جس کے بعد اعلانات ہوئے اور آج پہلے دن کی کارروائی شام سات بجے اختتام پذیر ہوئی۔ کھانے کے وقفہ کے بعد نو بجے نماز مغرب و عشاء جمع کر کے ادا کی جائیں گی۔ انشاء اللہ