سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ معرفت میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’سورج ۳۶۴ دن میں اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے۔‘‘ جبکہ ہم اب تک یہی سنتے آئے ہیں کہ زمین سورج کے گرد چکر کاٹنے کے لیے تقریباً ۳۶۴ دن لیتی ہے۔ اس بارہ میں راہنمائی کی درخواست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍جولائی ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا حسب ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ہر گز نہیں فرمایا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے، بلکہ حضور علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ سورج اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے اور وہ دورہ یقیناًزمین کے سورج کے گرد گھومنے سے ہی پورا ہوتا ہے۔ اور یہی حضور علیہ السلام کی مراد ہے کہ جب زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو سورج کا یہ دورہ ۳۶۴ دنوں میں پورا ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی سورج کا دورہ ہی ہے جس سے موسموں میں تبدیلی آتی اور گرمیوں اور سردیوں میں سورج کا رخ بھی اسی وجہ سے مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:اور مسخر کیا تمہارے لیے سورج اور چاند کو جو ہمیشہ پھرنے والے ہیں۔ یعنی جو باعتبار اپنی کیفیات اور خاصیات کے ایک حالت پر نہیں رہتے مثلاً جو ربیع کے مہینوں میں آفتاب کی خاصیت ہوتی ہے وہ خزاں کے مہینوں میں ہر گز نہیں ہوتی ۔ پس اس طور سے سورج اور چاند ہمیشہ پھرتے رہتے ہیں کبھی ان کی گردش سے بہار کا موسم آ جاتا ہے اورکبھی خزاں کا اور کبھی ایک خاص قسم کی خاصیتیں ان سے ظہور پذیر ہوتی ہیں اور کبھی اس کے مخالف خواص ظاہر ہوتے ہیں۔ (توضیح مرام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۷۵) دوسری یہ بات پیش نظر رکھنے والی ہے کہ حضور علیہ السلام یہاں پر ایک عام انسان کی سمجھ کے لحاظ سے زمین پر دکھائی دینے والی ظاہری صورت کے مطابق یہ ارشاد فرما رہے ہیں، کیونکہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ سورج زمین کی ایک طرف سے طلوع ہو کر دوسری طرف غروب ہو جاتا ہے تو ایک عام انسان جو خود کو زمین پر ایک ہی جگہ موجود پاتا ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ سورج ہمارے گرد گھوم رہا ہے۔ پس اس اعتبار سے حضور علیہ السلام نے ایک عام انسان کو بات سمجھانے کے لیے یہ مثال دی ہے۔ کیونکہ حضورؑ چشمہ معرفت میں اس جگہ اصل میں یہ مضمون بیان فرما رہے ہیں کہ اس کائنات کا سب کچھ خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے اور کائنات میں تمام اشیاء اسی نے پیدا کی ہیں اور ہر مخلوق کی طاقت اور کام کی اس نے ایک حد مقرر کردی ہے جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتی۔ اور اسی ضمن میں حضور علیہ السلام نے چاند اور سورج کی مثال بیان فرمائی ہے۔ باقی آپ کے لیے یہ وضاحت بھی میں کر دیتا ہوں کہ اس کائنات میں تمام ستارے اور سیارے اپنے اپنے محور اور مدار میں گردش کرتے ہیں۔ زمین کے سورج کے گرد گھومنے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ سورج اپنی جگہ پر جامد کھڑا ہےا ور زمین اس کے گرد چکر لگا رہی ہے۔ بلکہ زمین اپنے مدار میں گردش میں ہے اور سورج اپنے مدار میں گردش کررہا ہے۔ چنانچہ جس طرح زمین سورج کے گرد گھوم کر اپنا چکر تقریباً۳۶۴ دنوں میں پورا کرتی ہے اور چاند زمین کے گرد گھوم کر اپنا چکر ۲۹ یا ۳۰ دنوں میں پورا کرتا ہے، اسی طرح سورج اپنے Axis کے گرد گھوم کر ۲۷ دنوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے اور اس کے علاوہ سورج اپنے محور میں بھی گھوم رہا ہےجس میں وہ اپنا ایک چکر ۲۳۰ ملین سال میں مکمل کرتا ہے۔ (بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۹۳، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍مارچ ۲۰۲۵ء) مزید پڑھیں: حضرت عثمانؓ کی خلافت کے متعلق ایک پیشگوئی