https://youtu.be/4YGwMovyzws ربِّ کائنات نے جب اپنی پہچان کی کا ارادہ کیا تو اس نے کائنات کو وجود بخشا تاکہ اس کی صفاتِ جلال و جمال کے مظاہر آشکار ہوں۔ اس تجلّیٔ ذات کا سب سے اعلیٰ مظہر ’’عشق‘‘ہے۔ عشق ہی ہے جو بندے کو ربّ تک لے جاتا ہے بلکہ اسے اس کے قُرب و رضا کے ان مَراتب تک پہنچاتا ہے جہاں ’’اَنَا‘‘ فنا ہوجاتی ہے اور ’’تُو‘‘ باقی رہتا ہے۔ عشق ، دراصل سیڑھی ہے معرفت کی جو زینہ در زینہ انسان کو اُس کی مادی حدود سے نکال کر روحانی رفعتوں کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن یہ سفر محض چاہنے یا جاننے سے طے نہیں ہوتا؛ یہ تو قربانی، تسلیم، فنا اور سلوک کی تلخ و شِیریں منازل سے ہو کر گزرتا ہے۔ جب دل میں محبوبِ حقیقی کی محبت رَچ بَس جائے، تو بندہ بے اختیار پُکار اٹھتا ہے:’’میری نماز، میری قربانیاں، میرا جینا اور میرا مرنا ۔ سب کچھ صرف ربّ العالمین کے لیے ہے۔‘‘ یہی وہ مقام ہے جہاں عشق عبادت بن جاتا ہے اور عبادت عشق۔ میدانِ عشق کی داستانیں اتنی عظیم اور وسیع ہیں کہ تاریخ ان کے نور سے عشق کے جذبے کو روشن کیے ہوئے ہے۔ یہ عشق ہی تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دَہکتے اَلاؤ میں کُود جانے پر آمادہ کر گیا۔ یہی عشق ہمیں بصُورت حضرتِ یوسف کنعان کےکنویں کی تنہائی میں بے یارو و مددگار ، مگر محبوب کے ذکر سے لبریز دل کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اِسی عشق ہی نے مصر کے شاہی محلات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق بآواز بلند کہنے کی جرأت دی۔ عشق کی شان نرالی اور کام واقعی اَوَلّے ہیں۔ عشق خودی کو مٹا کر محبوب کی رضا میں گم ہو جانے کا نام ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب فرمایا: ’’اے رب! میں وہ نہیں چاہتا جو میری چاہت ہے، میں وہ چاہتا ہوں جو تیری رضا ہے۔‘‘ تو صلیب بھی ان کے لیے باعثِ شرف بن گئی۔ اور انہوں نے اسی جذبہ محبت کے ساتھ مصیبتوں اور تکلیفوں کی پروا نہ کرتے ہوئے صلیب کو گلے لگا لیا۔ عشق کا ایک جلوہ یونان میں ظاہر ہوا۔ جب سقراط نے زہر کا پیالہ پیا اور عشق کی حقیقی معراج کو پالیا۔ اور پھر، وہ لمحہ بھی آیا جب کائنات کے محبوب ترین عاشق کا ظہور ہوا ۔ وہ عاشق اعظم ﷺ جس نے اپنے محبوب سے عشق حقیقی کی انتہا کی یہاں تک کہ رب نے خود گواہی دی: ’’تو (اپنے رب کی محبت میں)اپنی جان ہلاکت میں ڈالنے والا ہے!‘‘ یہی عشق ایک عاشق کو معشوق کی محبت میں سرگردان وَوَجَدَکَ ضَآلًّاپاتا ہے اور فَہَدٰی کے مقام محمود پر فائز کردیتا ہے۔ یہی وہ عشق تھا جس نے محمد ﷺ کے قدموں کے نشان کو عشقِ حقیقی کی دائمی روشنی بنا دیا۔ یہ وہ مقام ہے، جب یہ عاشق خود معشوق بنا اور اس کی قوتقدسیہ عاشق تراش ہوئی اور ایسے عاشق پیدا کیے جن میں بلال حبشی رضی اللہ عنہ، تپتی ریت پر پتھروں تلے لیٹے رہے صدائے ’’احد! احد!‘‘ کے نعرے سے حقیقی عشق کا ورد کرتے رہے۔ فدائیت کا عالم تو دیکھیے کہ جب زید بن دثنہؓ اپنی جان بےمول بنا کر معشوق کے قدموں میں چبھنے والے کانٹے کو بھی قیامت خیال کرتا ہے۔ جب ایک عاشق معشوق کی محبت میں متبسم چہرے کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو چھلنی کر لیتا ہے۔ حضرت اویس قرنیؓ ، جنہوں نے صرف دندان مبارک کے زخمی ہونے کی خبر پر اپنے دانت توڑ دیے۔ یہ وہ جنون تھا جس میں ’’فنا فی الرسول‘‘ہو کر بندہ "فنا فی اللّٰہ" کا مقام پا لیتا ہے۔ عشق کی ان داستانوں میں ایک داستان جو آج بھی کانوں میں گونجتی ہے حسین رضی اللہ عنہ۔ جنہوں نے عشق میں وفا، قربانی اور ثبات کی ایک ایسی نئی تفسیر رقم کی جو رہتی دنیا تک مثال بنی رہے گی۔ ہر دور میں، ہر صدی میں، ہر خطے میں یہ عاشقانِ حق اپنا خون دے کر عشق کی شمع کو روشن کرتے رہے۔ آج بھی انا الحق کی صدائیں انہی روحوں سے اٹھتی ہیں جنہیں عشق کی آگ نے جلایا ہو اور جن کے دلوں میں عشقِ الٰہی کے الاؤ دہک رہے ہوں۔ جسے عشق کی حقیقت جاننی ہو، وہ ’’سیروا فی الارض‘‘پر عمل کرے۔زمان و مکان کی قید سے نکل کر وہ ہر عہد میں، ہر سرزمین پر عشق کے نشان دیکھے گا۔ کابل میں عبد الرحمٰن و عبد اللطیف، امریکہ میں مظفر، افریقہ میں برکینا فاسو کا گروہِ عاشقاں، سرزمینِ پاک پر عبدالقدوس،لئیق اور اب مسیحائے انسانیت شیخ محمود ۔اور پھر شہر لاہور میں عشاق کی کھڑی ایک قطار اس جذبے کی امین ملے گی۔یہ سب عشق کے چراغ ہیں جنہوں نے اپنے وجود کو معشوق کے لیے جلایا اور روشنی کو عام کیا۔ نادان نہیں جان سکتا کہ عشق کا راز کیا ہے۔یہ تو وہی جانتا ہے جو اپنی جان، مال، وقت، خواب، خواہش، اور حتیٰ کہ اپنی ’’میں‘‘ کو محبوب کے قدموں میں رکھ دے۔ تب جا کر وہ بلال بنتا ہے۔ تب جا کر زید بن دثنہ عاشق کہلاتا ہے۔ تب جا کر وہ اویس قرنی پہچان بنتا ہے۔ اور پھر کہیں جا کر عاشق منصور کے ’’انا الحق‘‘ کے نعرے میں گم ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں سلام پیش کیا جاتا ہے ۔ اے عبداللطیف تجھ پر سلام، اے مظفر تجھے سلام، اے قدوس تجھے سلام۔ اور پھر اسی سلام کے ساتھ فرشتے اگلے جہاں میں ان کا استقبال کرتے ہیں ۔ (ابو عثمان) مزید پڑھیں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب کا تابوت