https://youtu.be/a_Ksua6ooA8 (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ۵؍ستمبر ۱۹۲۴ء بمقام مسجد پٹنی لندن) ۱۹۲۴ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا کے حقیقی معنی اور فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) خدا کو کسی کے الٹے سیدھے لٹکنے کی ضرورت نہیں اور نہ اس کے اعمال کے ساتھ پاکیزگی اور وہ اخلاص جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے وابستہ ہے۔خدا تعالیٰ کے احکام تکلیف کے لیے نہیں ہوتے۔ بلکہ ان سے کامیابی اور ابدی راحت وابستہ ہوتی ہے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ؓ نے فرمایا: سورہ فاتحہ کی جس کو ہم بار بار پانچوں وقت نماز میں پڑھتے ہیں ایک آیت ہے جو دشمنوں کے لئے ہمیشہ ٹھوکر کا موجب ہوتی رہی ہے۔ ہمارے لئے بہت ہی قابل غور ہے۔ اور وہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ہے۔ ایک مسلمان جو اسلام قبول کر چکا ہے۔ بلکہ اسلام کے موافق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اور اپنے وقت اور آرام کی قربانی کرنا چاہتا ہے۔ جب عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ تو کس غرض کے لئے دعا کرتا ہے۔ یہ سوچنے کے قابل بات ہے۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کے معنی کئی رنگ میں کئے جاتے ہیں۔ ایک مشہور معنے تو یہ ہیں کہ ہدیٰ کے تین معنے ہیں۔ رستہ دکھانا۔ اس پر چلانا۔ چلاتے رہنا۔ ایک شخص جو نہیں جانتا کہ سچا مذہب کون سا ہے۔ وہ جب اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا کرتا ہے تو اس کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ حقیقی مذہب کا راستہ دکھا۔ اور جو مذہب قبول کر چکا ہے اس کی دعا یہ ہوگی کہ اس مذہب پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ اور جس کو توفیق ملی ہے اس کی دعا اس غرض سے ہے کہ اس توفیق عمل کو قائم رکھ کر اس صحیح راستہ پر چلاتا ہی رہ اور اس طرح پر استقامت عطا کر۔ یہ عام اور مشہور معنے ہیں جو کئے جاتے ہیں اور اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن اس کے ایک اَور معنی بھی ہیں جس کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی اور دوسرے لوگوں کو بھی دقتیں پیدا ہوتی ہیں میرے خیال میں بہت سے لوگ مسلمانوں میں بھی اور دوسری اقوام میں بھی ایک غلطی میں مبتلا ہیں۔ اور وہ اس غلطی کو یہی نہیں کہ غلطی نہیں سمجھتے بلکہ اس پر مُصِر ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ان کے خیال میں کسی کامیابی کے لئے اتنا ہی ضروری ہے کہ یہ معلوم ہو جاوے کہ فلاں صحیح راستہ ہے۔ ایشیا کے اکثر مذاہب برہمو وغیرہ اسی غلطی میں مبتلا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سچائی کے معلوم ہو جانے پر اس کامل جانا کیا مشکل ہے۔ مگر یہ نفس کا دھوکہ اور غلط خیالی ہے۔ دیکھو یہ مان لینے کے بعد کہ خدا موجود ہے خدا مل نہیں جاتا۔ ایک شخص جانتا ہے کہ امریکہ موجود ہے لیکن اس کے علم کے ساتھ وہ امریکہ پہنچ نہیں جاتا۔ یہ جان لینے پر کہ مونٹ ایورسٹ ہمالیہ کی سب سے اونچی چوٹی ہے وہ اس پر چڑھ نہیں جاتا۔ تو پھر یہ کہہ دینے سے کہ ہم نے خدا کو مان لیا ہے کوئی شخص خدا تک کس طرح پہنچ جاتا ہے۔ اس مادی عالم میں جب کہ محض علم کسی چیز کا اس کے حصول کا باعث نہیں ہو جاتا۔ تو خدا تعالیٰ کا قرب محض اس علم سے کہ خدا موجود ہےکیونکر حاصل ہوسکتا ہے۔ بہت لوگ ہیں جو اس غلطی میں مبتلا ہیں اور مجرد علم اور مان لینے کو کافی سمجھے ہوئے ہیں حالانکہ یہ بہت ہی ادنیٰ اور ابتدائی درجہ ہے۔ پھر ایک جماعت ہے جو اس سے بڑھ کر کہتی ہے کہ اس کے حصول کے لئے کوشش کی ضرورت ہے۔ بے شک یہ درست ہے جب تک کسی سچائی کے حاصل کرنے کے لئے کوشش نہ کی جائے ہم اس کو نہیں پا سکتے۔ لیکن اس کوشش کے ساتھ جس چیز کی ضرورت ہے اور جس کے بغیر مطلب حاصل ہو ہی نہیں سکتا وہ یہ ہے کہ ہماری کوشش ان ذرائع سے ہو جن کے ذریعہ کامیابی ہوتی ہے۔ دنیا میں ناکامیوں کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ صحیح ذریعہ سے لوگ کوشش نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مقصد میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ پس سورہ فاتحہ کی یہ آیت اس اصل کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ اور اس سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ صحیح ذرائع کی طلب ہمارا پہلا مقصد ہے۔اِہۡدِنَا میں اول انسان ہدایت چاہتا ہے کہ صحیح راستہ مل جائے۔ مگر صرف اسی قدر کہہ کر نہیں چھوڑ دیا کہ انسان کو ہدایت کا علم ہو جاوے۔ نہیں بلکہ الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کہہ کر انسان کے اندر ایک جوش پیدا کر دیا ہے کہ صحیح ذرائع جو ہدایت تک پہنچنے کے ہیں ان کی توفیق ملے۔ وہ میسر آجائیں۔ اگر وہ صحیح ذرائع نہ ملیں تو سوائے سوزش اور جلن کے کیا ہو گا؟ انسان کو ناکامی پر کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔ جب وہ اپنی محنت اور کوشش کو دیکھتا ہے کہ رائیگاں چلی گئی۔ پس اس سوزش اور تکلیف سے بچانے کے لئے اصل ذرائع کامیابی کی توفیق پاتا ہے۔ ایک پیاسا آدمی اتنا تو جانتا ہے کہ پانی ہے۔ مگر اس تک پہنچ نہ سکنے کے باعث اس کی شد ت پیاس اور بھی زیادہ بڑھ جاوے گی۔ اتنے علم سے اسے فائدہ نہیں ہوگا۔ پس کامیابی کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے۔ وہ اس کے صحیح ذرائع کا حصول ہے۔ اور یہ خداتعالیٰ کے فضل اور راہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے قرآن مجید نے اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی تعلیم دی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں بھی پورے طور پر اس کا احساس نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے مان لینا اور اس پر عمل کرنا کافی ہے۔ مگر عمل کے لئے جب تک صحیح ذرائع ساتھ نہ ہوں وہ عمل بھی ناقص اور بے معنی ہو جائے گا۔ میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ بڑی قربانی کر کے کام کرتے ہیں۔ مگر اس میں نقص ہوتا ہے اور نتیجہ ناکامی ہوتی ہے۔ میں جب اعتراض کرتا ہوں تو دوسرے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو بہت بڑی محنت کرتے ہیں۔ صبح سے لے کر رات کے نو بجے تک کام کرتے رہتے ہیں۔ میں ان کی محنت کا انکار نہیں کرتا لیکن جب تک صحیح ذرائع پاس نہ ہوں گے اس محنت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہاں جب صحیح ذرائع سے عمل ہو گا تو محنت اور وقت دونوں میں کمی ہو جائے گی۔ یہ ضرورت نہیں کہ ایک شخص پندرہ گھنٹہ کام کرےمگر نتیجہ کچھ نہ ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کامیابی ہو۔ اور اس کے لئے جب تک صحیح ذرائع کو اختیار نہ کیا جائے گا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ ان صحیح ذرائع کے حصول کی تعلیم اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا ہے۔ اس بات کو خوب یاد رکھو کہ محض کام کرنا اوقات یا روپیہ کا صرف کر دینا یا احساسات اور جذبات کا قربان کر دینا کافی نہیں ہے۔ اور اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ اصل چیز جس کے لئے انسان ساری محنتیں اور قربانیاں کرتا ہے کامیابی اور حصول مقصد ہے۔ اگر وہ حاصل نہیں ہوتا تو کیا فائدہ؟ اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے کہ ان اسباب کو حاصل کیا جائے جو اس کے لئے ضروری ہیں۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ملتے ہیں۔ اسی کے لئے یہ دعا ہے۔ پہلے اصل مقصد کا علم حاصل کر لو۔ پھر اس کے صحیح ذرائع حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرو۔ اور پھر استقامت کے ساتھ ان ذرائع سے کوشش کرو۔ اور یہ عزم کر لو کہ اس مقصد کو حاصل کرنا ہے۔ اس کے لئے تھکو نہیں۔ اور ہمت نہ ہارو۔ ورنہ بغیر صحیح ذرائع کے اصل مقصد دور ہوتا جائے گا۔ ایک شخص دن میں پانچ نمازیں پڑھتا ہے۔ اور ایک ہندو ہے۔ جو رات دن الٹا لٹکا رہتا ہے۔ اور ایسی شدید محنت برداشت کرتا ہے کہ تصور سے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمازوں کے مقابلہ میں اس کی محنت اور عمل بہت بڑا ہے۔ مگر کیا اس طریق سے خدا مل جاتا ہے؟ خدا کو کسی کے الٹے سیدھے لٹکنے کی ضرورت نہیں اور نہ اس کے اعمال کے ساتھ پاکیزگی اور وہ اخلاص جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے وابستہ ہے۔ خدا تعالیٰ کے احکام تکلیف کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ان سے کامیابی اور ابدی راحت وابستہ ہوتی ہے۔ اگر چارپائی پر بیٹھ رہنے یا سونے سے کامیابی ہو تو خدا یہی حکم دیتا۔ انسان بعض اوقات اس حقیقت کو نہیں سمجھتااور دھوکہ کھاتا ہے۔خدا تعالیٰ انسان کو مشقتوں میں ڈالنا نہیں چاہتا۔بلکہ خدا تعالیٰ تو انسان کے لیے یُسر پسند کرتا ہے۔ ہاں انسان اپنی نادانی سے صحیح راستہ اور صحیح ذرائع کو چھوڑ کر خود مصیبتوں اور مشقتوں میں پڑ جاتا ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ بعض اوقات کامیابیوں کا صحیح ذریعہ مختلف قسم کی مشقتیں بھی ہوتی ہیں اور کئی قسم کی قربانیاں اسے کرنا پڑتی ہیں۔ لیکن ان مشقتوں اور قربانیوں میں اسے تکلیف نہیں ہوتی بلکہ دل امید اور خوشی سے بھرا ہوا ہوتا ہے جو اپنے مقصد کی کامیابی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ان کو شوق اور جوش سے اختیار کرتا ہے۔ پس میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صرف اتنی ہی بات پر خوش نہ ہوں کہ انہیں راستہ مل گیا ہے۔یا وہ حصول مقصد کے لیے کوشش کر رہے ہیں بلکہ انہیں دیکھنا چاہیے کہ کیا وہی طریق کامیابی کا ہے جس پر وہ چل رہے ہیں۔اگر نہیں تو انہیں فکر کرنی چاہیے کہ ان کی محنت وقت اور روپیہ ضائع نہ ہو۔ صحیح اسباب محنت کو کم کر دیتے ہیں۔ بعض دو گھنٹہ میں کام ختم کرلیتے ہیں جب کہ کام کرنے کا صحیح طریقہ انہیں معلوم ہو۔اور بعض پندرہ گھنٹہ بھی کام کر کے ختم نہیں کر سکتے اور اس کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایاکہ ابوبکرؓ کی فضیلت اس وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔(نزھۃُ المجالسمصنف شیخ عبدالرحمان الصفوری، جلد ۲ ؍ صفحہ ۱۵۳) اس کا یہی مطلب ہے کہ ابوبکرؓ اپنے اخلاص و وفا کے ساتھ جو خدمت دین کی کرتے ہیں وہ عقل اور فکر سے سوچ سمجھ کر ایسے طریق سے کرتے ہیں جو کامیابی کا موجب ہوتی ہے۔ یاد رکھو کہ ایک شخص ساری نماز پڑھتا ہے۔ مگر اس میں خشیت پیدا نہیں ہوتی وہ اس کے برابر نہیں جو ایک بار سبحان اللہ کہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کا قلب پگھل جاتا ہے۔ اور یہ بات صرف صحیح طریق کے حاصل ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ پس اپنے تمام کاموں میں ان امور کو مدنظر رکھو کہ بغیر اس کے کامیابی مشکل ہے۔ پھر یہی نہیں کہ ناکامی ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک سوزش اور جلن ہوتی ہےجو انسان کو اپنی محنت وقت اور روپیہ کے صرف کرنے سے ہوتی ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو توفیق دے کہ ہم ایسے طریقوں سے خدمت دین کریں جو اسلام کی ترقی کا موجب ہوں اور ہم کو اس کے فضلوں اور برکات کے حاصل کرنے کا موقعہ ملے۔ آمین۔ (الفضل ۱۸؍اکتوبر۱۹۲۴ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اگر دنیا قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصولوں پرعمل کرے تو سارے جھگڑے ختم ہوجائیں