کواجواجے (Kwajuaje) گاؤں ممباسہ شہر سے شمال مشرق میں ۳۵؍کلومیٹر کے فاصلے پر Mazerasاور Kaloleni کے درمیان بر لب سڑک واقع ہے۔ یہ علاقہ سرسبز اونچی نیچی پہاڑیوں کے درمیان بل کھاتی خوبصورت سڑک اور ناریل کے درختوں کی بہتات کی وجہ سے قدرتی خوبصورتی کا شاہکار ہے۔ کواجواجے کی ایک جانب ‘Jumbo’سٹیل مل اور دوسری جانب ‘Rino’ سیمنٹ فیکٹری ہے جس کی وجہ سے یہاں ہر وقت لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔ اس علاقے میں ‘Rabai’قبیلہ کے لوگوں کی اکثریت کی وجہ سے یہ ‘رابائی ’(Rabai) علاقہ کہلاتا ہے۔ جہاں ساحلی علاقہ اپنی مسلم اکثریتی آبادی اورجگہ جگہ مسجدوں و مدرسوں کی وجہ سے مسلمانوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاںمشرقی افریقہ میں ربائی کا علاقہ عیسائیت کے اولین مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کیونکہ کینیا میں پہلا عیسائی مشن اسی علاقہ میں قائم ہوا تھا جس کی بنیاد Ludwig Krapfجو ایک جرمن مشنری تھے اور Johannes Rebmannنے ۱۸۴۶ء میں رکھی تھی۔ اس دور میں مسلمانوں نے اِس علاقے میں عیسائیت کی تبلیغ کے سدّ باب کے طور پر تبلیغی مہمات شروع کیں اور درجنوں مسجدیں بنائیں، مدرسے کھولے نتیجۃً کچھ لوگ مشرف بااسلام ہوئے لیکن ان کا اسلام نام اور لباس تک ہی محدوود رہا اور لوگوں کو اسلام کی حقیقت سے روشناس کرانے سے قاصر رہے اور اب یہاں اکثر مساجد نمازیوں کے بغیر تقریباً غیرآباد نظر آتی ہیں۔ اس پس منظر میں اس علاقہ میں جماعت کو اپنی پہلی مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک کواجواجے میں جماعت کا پیغام مکرم بشارت احمد طاہر صاحب ریجنل مشنری اور مکرم حسین صا لح صاحب مرحوم سابق صدر جماعت احمدیہ ممباسہ کے ذریعہ۲۰۱۸ء میں پہنچا جب یہ احباب وہاں ایک واقف کار کے گھر تعزیت کے لیے گئے تھے۔ وہاں انہیں بعض لوگوں سے جماعت سے متعلق گفتگو کرنے اور لٹریچر تقسیم کرنے کا موقع ملا۔ لوگوں کی دلچسپی دیکھ کر انہوں نے وہاں آنا جانا شروع کردیا اوراس طرح تبلیغ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ۲۵؍افراد کو جماعت احمدیہ میں شمولیت کی توفیق ملی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ ان افراد کی تعلیم و تربیت، ان سے رابطہ اور اس علاقہ میں تبلیغی کام کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری قریبی جماعت کے معلم مکرم محمد امایا صاحب کو دی گئی جنہوں نے ایک درخت کے نیچے صفیں بچھا کر نماز یں ادا کرنا اور کلاسز کا سلسلہ شروع کردیا جس میں روز بروز ترقی ہوتی گئی اور نماز سنٹر بھی قائم کردیا گیا۔ دسمبر ۲۰۲۳ء میں یہاں باقاعدہ معلم کی تقرری کرکے الگ جماعت قائم ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی مسجد کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کی تلاش شروع کر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور امیر صاحب جماعت کینیا کی خصوصی توجہ سے مورخہ ۱۵؍مئی ۲۰۲۴ء کو مرکزی سڑک پر واقع مناسب مکانیت کا ایک پلاٹ کینیا جماعت کے ایک مخلص احمدی کی معاونت سے خرید لیا گیا۔ فجزا ہ اللہ خیراً ٹرانسفر اور دیگر قانونی تقاضوں کی تکمیل کے بعد یہاں مسجد کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی جانے لگی۔ دریں اثنا جرمنی کے مخلص دوست مکرم چودھری منیر احمد منیب صاحب نے اپنی والدہ مرحومہ مکرمہ جنت بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم مہر دین آف کھاریاں ضلع گجرات پاکستان جو مکرم حافظ شاہ محمد صاحب کی صاحبزادی تھیں اور بفضلہ خدا ایک تہائی حصہ کی موصیہ تھیں کی طرف سے افریقہ میں ایک مسجد تعمیر کرانے کی درخواست حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھجوائی جسے حضورانور نے ازراہ شفقت قبول فرمایا اور مسجد کا نام ’’جنت‘‘ رکھنے کی بھی منظوری عطا فرمائی۔ فروری ۲۰۲۵ء میں مذکورہ علاقے میں مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا جو باوجود طویل عرصہ بارشوں وغیرہ کے جون ۲۰۲۵ء میں مکمل ہوا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک مسجد کی تعمیر کا کام ایک ٹھیکیدار کو دیا گیا تھا لیکن تعمیراتی سامان کی خریداری اور نگرانی کا کام ریجنل انچارج مکرم بشارت احمد طاہر صاحب مبلغ سلسلہ نے سر انجام دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۳۱؍فٹ لمبی اور ۲۵؍فٹ چوڑی ایک خوبصورت اور مضبوط مسجد تعمیر ہوئی جس میں بیک وقت ۱۰۰؍نمازی آسانی سے نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ہال میں پارٹیشن لگا کر مستورات کے لیے نماز کا بندوبست کیا گیا ہے۔ مسجد کے سامنے والے حصہ میں ایک خوبصورت بالکنی بھی بنائی گئی ہے۔ مسجد کے دروازے لوہے کے لگائے گئے ہیں جبکہ کھڑکیوں میں ایلومینیم کے سلائیڈنگ شٹر فٹ کیے گئے ہیں۔ چھت پر لوہے کی چادریں لگا کر اندر پی وی سی کی سیلنگ فٹ کی گئی ہے۔ وضو وغیرہ کے لیے مردوں اور مستورات کے لیے الگ الگ مناسب انتظام کیا گیا اور مسجد کی چھت سےبارشوں کا پانی جمع کرنے کے لیے پانچ ہزار لیٹر کا پلاسٹک ٹینک نصب کیا گیا ہے۔ مسجد کے مینار کافی اونچے بنائے گئے ہیں جودُور سے نظر آتے ہیں۔ ساری مسجد کو سفید اور سبز رنگ کا پینٹ کیا گیا ہے جو بہت خوبصورت لگتا ہے۔ مسجد کے سامنے سڑک کے کنارے ’’جنت مسجد احمدیہ مسلم مشن‘‘ کا سائن بورڈ لگایا گیا ہے۔ مسجد کے پلاٹ کے گرد خاردار تار لگائی گئی ہے جبکہ سامنے والے حصہ میں بارشی پانی سے بچاؤ کے لیے چھوٹی سی پختہ دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد میں بجلی کی تاریں بھی بچھا دی گئی ہے، امید ہے جلد ہی کنکشن مل جائیگا اور پھر ایم ٹی اے کی سہولت بھی میسر ہو جائے گی۔ ان شاءاللہ ۵؍جولائی ۲۰۲۵ء بروز ہفتہ مسجد ہذا کے افتتاح کی سادہ مگر پر وقار تقریب مسجد کے سبزہ زارمیں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے ریجنل انچارج صاحب کی طرف سے ایک دعوت نامہ تیار کیا گیا تھا جس میں جماعت احمدیہ اور مسجد کا مختصر تعارف کرانے کے بعد سرکاری اورکاؤنٹی گورنمنٹ کے افسران، مذہبی لیڈران، سماجی کارکنان اور معززین علاقہ سے مسجد کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کی درخواست کی گئی تھی۔ اس موقع پر مسجد کو رنگ برنگی جھنڈیوں اور تبلیغی و تربیتی بینروں سے سجایا گیا تھا۔ مکرم امیر صاحب اس تقریب میں شمولیت کے لیے ایک وفد کے ہمراہ نیروبی سے تشریف لائے تھے۔ معزز مہمانوں کے ہمراہ مکرم امیر صاحب نے یادگاری تختی کی نقاب کشائی کی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر کاؤنٹی کونسل نے فیتہ کاٹا اور مکرم امیر صاحب نے دعا کروائی جس کے بعد آپ معزز مہمانوں کے ساتھ مسجد کے اندر گئے اور مختلف حصوں کودیکھا۔ اس کے بعد مسجد کے احاطے میں امیر صاحب اور معزز مہمانوں نے پودے لگائے۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور نظم سے ہوا۔ مقامی جماعت کے نمائندہ نے امیر صاحب اور دیگر حاضرین کو خوش آمدید کہا۔ ریجنل انچارج صاحب نے سواحیلی اور انگریزی زبانوں میں جماعت احمدیہ کا تعارف اور کینیا میں جماعت احمدیہ کی طبی، علمی اور سماجی خدمات کا ذکر کیا۔ بعدہٗ مقامی پادری ہنری صاحب نے اپنی تقریر میں جماعت احمدیہ کو مسجد کی تعمیر پر مباکباد پیش کی۔ پھروارڈ ممبر کائونٹی کونسل کلیفی مفتالی کومبو صاحب جو مقامی کائونٹی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی ہیں نے تقریر کی اور جماعت کو مسجد کی تعمیر پر مبارکباد دینے کے علاوہ جماعت کے جذبہ خیر سگالی کی تعریف کی اور عیسائی پادری صاحب کو پروگرام میں مدعو کرنے اور تقریر کا موقع دینے پر خوشی کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے جماعت کی طرف سے لوگوں کی فلاح وبہبود اور اصلاح کی کوششوں اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت کے کاموں کو سراہا اور کہا کہ میں اپنے علاقہ میں جماعت احمدیہ کو مسجد بنانے کے لیے جگہ پیش کرتا ہوں جس پر مکرم امیر صاحب نے کہا کہ اگر آپ مسجد کی تعمیر کے لیے جماعت کو جگہ دیں گے تو جماعت اسے شکریہ کے ساتھ قبول کرے گی اور وہاں ضرور مسجد تعمیر کرے گی۔ ان کے بعد اسسٹنٹ کاؤنٹی کمشنر مسٹر مسانے تقریر کی اور کہا کہ مجھے یہاں آکر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ میں اس خوبصورت مسجد کی تعمیر پر جماعت احمدیہ کو مباکرباد پیش کرتا ہوں۔ میں آپ کے سلوگن ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں آپ سب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ہمہ وقت آپ سے تعاون کے لیے تیار ہوں۔ آخر میں مکرم امیر صاحب نے بتایا کہ اسلام کا پیغام اللہ وحدہ لا شریک کی اطاعت، اس کی عبادت اور انسانیت کی خدمت ہے۔ اسلام انسانی مساوات، بھائی چارے اور امن و آشتی کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ایک پر امن، ملکی قوانین کی پابند اور انسانیت کی خدمت کرنے والی جماعت ہے ان شاء اللہ اس علاقہ میں بھی جماعت اسلام کی اعلیٰ اقدار اور خدمت کے اس اعزاز کو برقرار رکھے گی۔ اس کے بعد آپ نے دعا کروائی اور یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ اس موقع پر سرکاری افسران اور دیگر معزز مہمانان کرام کو جماعتی کتب تحفۃً پیش کی گئیں جو معزز مہمانوں نے شکریہ کے ساتھ وصول کیں۔ اس کے بعد تمام حاضرین جن کی تعداد ۳۰۰؍کے قریب تھی کی خدمت میں ظہرانہ پیش کیا گیا۔ پھر نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں۔ اس مبارک تقریب میں مقامی جماعت کے علاوہ ممباسہ، کبارانی، مریاکانی، کاتولانی، کواکا ڈوگو اور زوونی جماعتوں سے بھی احباب جماعت نے شرکت کی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک اللہ تعالیٰ اس مسجد کو اس علاقہ میں اسلام کی ترویج و ترقی کا مرکز بنائے اور اسے نیک دل نمازیوں سے بھر دے۔ آمین یا رب العالمین (رپورٹ:محمد افضل ظفر۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سیرالیون میں مرکزی مبلغین کے پہلے ریفریشر کورس کا انعقاد