https://youtu.be/VEaz_kI1apY ( مبلغ سلسلہ و سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ) اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت اور اُن کی زندگی کے مقصد کے حصول کے لیے اِس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو ساتھ ہی یہ الہامی وعدہ بھی آپ علیہ السلام سے فرمایا: ینصرک رجالا نوحی الیھم من السماءکہ اللہ تعالیٰ آپؑ کی مددایسے متبعین کے ساتھ کرے گا جن کو اللہ تعالیٰ شرف مکالمہ و مخاطبہ بخشے گا۔خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے صحابہ کرامؓ کے ذریعے پورا ہوااور خلافت احمدیہ کے ذریعے یہ وعدہ ہر دور میں پورا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلافت احمدیہ کی مدبّرانہ قیادت میں احمدیت کایہ قافلہ روز بروز آگے بڑھتا چلا جارہا ہے اور ترقیات کی نئی منازل طے کر رہا ہے۔ اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی اور دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو خلافت کے سلطان نصیر بھی عطا فرماتا ہے۔ انہی خدّامِ احمدیت میں سے ایک مثالی خادم سلسلہ مکرم سیدمیر محمود احمد ناصر صاحب (مبلغ سلسلہ و سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ)بھی تھے جو کہ ۱۱؍مئی ۲۰۲۵ء بروز اتوار بعمر ۹۶؍سال ربوہ میں وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اس مضمون میں خاکسار محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کی خوبصورت شخصیت، آپ کے تعلیم و تربیت کے طریق اور چند خوشگوار یادوں کا ذکر کرے گا۔ تعارف: محترم سیدمیر محمود احمد ناصر صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھتیجے، حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور حضرت سیدمیر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے تھے۔آپ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی دامادی کا شرف بھی حاصل تھا۔ جماعتی خدمات: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ۱۶؍مئی۲۰۲۵ء میں آپ کی جماعتی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’1954ء تا 1957ء آپ یہاں انگلستان میں تھے۔ جہاں آپ نے بطور مبلغ کام کیا اور اسی دوران SOAS (سکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن سٹڈیز) میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر تعلیم بھی حاصل کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی، اکٹھے دونوں پڑھتے تھے۔ کچھ عرصہ لندن مشن کے سیکرٹری کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ 1957ء سے 1959ء تک وکالتِ دیوان میں بطور ریزرو مبلغ رہے۔ پھر 1960ء میں جامعہ میں بطور استاد مقرر ہوئے۔ 1978ء تک یہ فرائض انجام دیے۔ 78ء سے 82ء تک امریکہ میں مبلغ رہے۔ 82ء سے 86ء تک سپین میں خدمت کی توفیق ملی۔ 86ء سے 89ء تک بطور وکیل التصنیف کام کیا۔ 86ء سے 2010ء تک جامعہ احمدیہ ربوہ کے پرنسپل کے طور پر خدمت کی۔ اس دوران 94ء تا جولائی 2001ء وکیل التعلیم بھی رہے۔ اسی طرح ریسرچ سیل کے انچارج تھے، واقعہ صلیب سیل کے انچارج تھے۔ 2005ء میں نور فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیاتو اس کے صدر مقرر ہوئے اور آخر تک اسی خدمت پر مامور تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُن کو 3 جون 1962ء کو مجلس افتاء کا ممبر مقرر فرمایا اور نومبر 1972ء تک آپ اس کے ممبر رہے۔ اس کے بعد دسمبر 1989ء میں دوبارہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان کو افتاء کا ممبر مقرر فرمایا اور تاحیات اس پر قائم رہے۔ خدام الاحمدیہ میں بھی ان کو مختلف حیثیتوں سے بطور مہتمم اور بطور نائب صدر خدمت کی توفیق ملی۔ علمی میدان میں بھی ان کی بڑی وسیع خدمات ہیں۔… مسجد بشارت سپین کے سنگ بنیاد کے موقع پر جس بنیادی پتھر پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے دعا کروائی تھی وہ پتھر حضرت محترم میر صاحب نے اٹھایا ہوا تھا۔ اسی طرح مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے موقع پر بھی ان کو اور ان کی اہلیہ کو خدمت کا موقع ملا جس کا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ذکر بھی فرمایا تھا۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۱۶؍مئی۲۰۲۵ء) آپ واقف زندگی اور مبلغ سلسلہ تھے اور آپ کو ایک لمبا عرصہ بطور پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ،خدمت کی توفیق ملی۔ اس لیے آپ اس وقت موجود مربیان کی ایک بڑی تعداد کے استاذ تھے اور آپ کی قیادت میں مربیان کی ایک بڑی تعداد جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ التحصیل ہو کر میدان عمل میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ادنیٰ خدّام کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہی ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک تعلق باللہ: آپ کے خاندان کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے جسمانی تعلق تھا اور اس بات کا حق آپ نے ہمیشہ تعلق باللہ کی اعلیٰ مثالیں قائم کر کے ادا کیا۔ آپ پنجوقتہ نماز باجماعت، نماز تہجد اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ آپ کے وجود میں ہمیشہ فانی فی اللہ ہونے کی جھلک نظر آتی تھی، جس کا اظہار آپ کی گفتار اور کردار سے ہوتا تھا۔ خاکسار نے آپ کو دیکھا کہ آپ سارا دن جامعہ اور دیگر جماعتی خدمات میں مصروف رہتے لیکن جیسے ہی جامعہ کی رخصت کے بعد نماز ظہر کا وقت ہوتا تو آپ فوری طور پر مسجد حسن اقبال میں تشریف لے جاتے اور نماز سے قبل سنتیں ادا کرتے۔ خاکسارکو جب کبھی مسجد مبارک میں نماز ادا کرنے کا موقع ملا تو نماز سے قبل آپ کو نوافل و سنتیں ادا کرتے دیکھا۔ اسی طرح نماز کے بعد بھی آپ بڑے سکون سے سنتیں وغیرہ ادا کرتے اور ہم طلبہ جامعہ کو بھی تاکید کرتے کہ کم از کم ایک نماز مسجدمبارک ربوہ میں ادا کرو۔ حضرت رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ سے محبت: آپ رسول کریم ﷺ سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ اس محبت کا اظہار آپ کے علم حدیث میں غیر معمولی شغف سے ہوتا ہے۔ چہل احادیث کو یاد کرنے کی تاکید آپ اکثر کیا کرتے تھے۔ احادیث کے حوالے سے آپ کو عظیم الشان خدمات کی توفیق ملی۔ جن میں احادیث کو جمع کرنے اور کتب حدیث کا ترجمہ کرنے اور درس حدیث دینا شامل ہیں۔ آپ اکثر جامعہ کے استقبالیہ میں لگے وائٹ بورڈ پر احادیث لکھتے۔ آپ وائٹ بورڈ پر صحابہؓ رسول اللہ ﷺ کی نیک اور تقویٰ کا ذکر کرتے ہوئے مختلف ہدایات لکھتے۔ ایک دفعہ آپ نے لکھا کہ مجھے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے متقی اور بہادر جرنیلوں کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم سے محبت: آپ کو قرآن کریم سے بھی بہت محبت تھی۔ خاکسار نے دیکھا کہ آپ جامعہ میں مقررہ وقت سے بہت پہلے تشریف لے آتے اور استقبالیہ میں موجود کرسی میز پر بیٹھ کر مکرم سیدمیر محمد اسحاق صاحبؓ کے ترجمہ قرآن سے روزانہ صبح تلاوت کرتے۔ آپ کہتے تھے کہ قرآن کریم میں دنیا کے تمام علوم موجود ہیں۔کسی بھی مضمون کو سمجھنا ہو تو ترتیب کے لحاظ سے جو قرآن میں اس مضمون کی پہلی آیت ہے اس کو دیکھو۔وہ آیت قرآن کریم میں آئندہ آنے والے اس مضمون کی کلید ہوتی ہے۔ آپ کہتے تھے کہ جو طالب علم ترجمۃ القرآن میں فیل ہے،وہ اپنے آپ کو تمام مضامین میں فیل سمجھے۔آپ کلاسز کا چکر لگاتے اور ترجمۃ القرآن کی گھنٹی میں دیکھتے کہ اگر کوئی طالب علم اپنا قرآن کریم نہ لے کر آیا ہوتا تو کلاس سے باہر بلا کراسے ہوسٹل بھیجتے کہ ابھی قرآن لے کر آؤ۔طلبہ کو کسی لغزش پر توجہ دلانی ہوتی تو کہتے کہ مسجد حسن اقبال میں جاؤ اور استغفار کرو اور سورۃالتوبہ کی تلاوت کرو۔طلبہ جب کبھی آپ سے قرآن کریم کے متعلق کوئی سوال کرتے تو بڑے شوق و محبت سے اس کا جواب دیتے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت سے محبت: محترم میر صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے خاص محبت و عقیدت رکھتے تھے۔آپؑ اور خلافت احمدیہ سے محبت، عقیدت اور اطاعت میں ایک روشن مینار کی طرح تھے۔ جس سے اساتذہ جامعہ احمدیہ اور طلبہ روشنی حاصل کرتے تھے۔طلبہ جامعہ کو ہمیشہ یہ تاکید کرتے کہ حضور علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں۔ مکرم میر صاحب ان تمام مضامین کو جو حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے احمدیت نے بیان فرما دیے ہیں، ان کا حوالہ دے کر بات کرتے اور کہتے خود بھی ان کتب کا مطالعہ کرو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیرالقرآن کو بہت پسند کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ مختصر مگر جامع ہے اوربات ایک جملہ میں پورے مضمون کا احاطہ کیے ہوتی ہے۔حضرت مصلح موعودؓ کا ذکر کرتے ہوئے مکرم میر صاحب کی آنکھیں پُرنم ہو جاتیں۔ ہم نے حضرت مصلح موعودؓکے بہت سے واقعات آپ سے سنے اورحضرت مصلح موعودؓ سے محبت کا علم آپ سے حاصل کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے بھی بہت محبت کا اظہار رکھتے تھے اور آپؒ کے بیان کردہ نظم و ضبط کو جامعہ میں قائم رکھنے کے لیے ہر کوشش کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ سے آپ کو بہت پیار تھا۔طلبہ آپ کی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے اس محبت و عقیدت کی برکت کچھ اس طرح حاصل کرتے کہ جامعہ میں سالانہ کھیلوں کے بعدیا سردی کا سامان گھر سے لانے کے لیے ایک،دو یوم کی رخصت کی ضرورت ہوتی تو طلبہ جمع ہو کر ترانہ ’’ہیں بادہ مست بادہ آشامِ احمدیت ‘‘ ترنم میں آپ کو سناتے۔ پھر آپ کی طبیعت میں غیر معمولی جذبات نظر آتے۔ آپ بھی طلبہ کی اس کوشش کا مقصد سمجھتے تھے۔ پھر کہتے ’’اچھا جاؤ اور فلاں تاریخ کو اس وقت حاضری لازمی ہے۔‘‘ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہر حکم کی فوری اور من و عن تعمیل کرتے۔حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جامعہ احمدیہ اورطلبہ کے حوالے سے براہ راست ہدایات پر بہت خوشی کا اظہار فرماتے۔خاکسار نے مشاہدہ کیا جب بھی حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم موصول ہوتا تو اسی وقت تمام کلاسز کا دورہ کرکے حضور انور کا حکم اور ہدایات طلبہ تک پہنچاتے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ پیارے حضور کی جامعہ کی طرف خصوصی توجہ اور شفقت کے سبب جامعہ اپنے ایک نئے اور عظیم دور میں داخل ہو چکا ہے۔محترم میر صاحب طلبہ کو کہتے تھے کہ اگر حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم کی تعمیل نہیں کرنی تو پھر آپ کا جامعہ میں کوئی کام نہیں۔ طلبہ کو تنبیہ کے لیے کہا کرتے تھے کہ تمہیں پتہ ہے کہ تمہاری اس حرکت کا حضور کو علم ہوا تو حضور کو کتنا دکھ ہوگا؟ محترم میر صاحب کے اس طرح کہنے سے خلافت کا مقام بھی دلوں میں بیٹھ جاتا اور سب کی توجہ اس طرف ہو جاتی کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی خوشنودی ہی ہماری بقا کی ضمانت ہے اور جو اصلاح کرنی ہوتی وہ صرف ایک جملہ سے ہی ہو جاتی۔ خاکسار نے جامعہ میں اور جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بعض اوقات جب آپ کو دعا کے لیے درخواست کی تو آپ کہتے کہ’’حضور کولکھیں‘‘۔ عاجزی: حضور انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے جامعہ احمدیہ میں طلبہ کے علمی اور روحانی معیاروں کو بلند کرنے کے لیے مختلف سیمینارز، مقابلہ جات اور جلسہ جات کا انعقاد ہوتا۔ ان اجلاسات میں آپ طلبہ کے ساتھ مسجد حسن اقبال کے فرش پر ہی بیٹھے ہوتے اور سارا پروگرام سنتے۔حالانکہ مسجد کے دائیں اور بائیں دروازوں پر اساتذہ کے لیے کرسیوں کا انتظام ہوتا۔ہمیشہ سادگی کو پسند کرتے۔ سواری میں سائیکل کو پسند کرتے اور طلبہ کو بھی قناعت کرنے کی تاکید کرتے۔ وقت کی پابندی: خاکسار نے محترم میر صاحب کو جامعہ کے وقت سے بہت پہلے جامعہ آکر، داخلی راستے پر لگے میز کرسی پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے دیکھا۔ جہاں سے آپ غیرمحسوس طریق پر جامعہ میں داخل ہونے والے طلبہ کے یونیفارم وغیرہ کی نگرانی بھی کرتے جاتے اور طلبہ جامعہ کے لیے برکتوں کی دعائیں بھی کرتے جاتے۔آپ کے وقت کی پابندی کا بھی اس سے معلوم ہو تا ہے۔ دینی خوشیاں ہی آپ کی حقیقی خوشیاں تھیں: حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مدبّرانہ قیادت میں سال ۲۰۰۸ء خلافت جوبلی کے سال کے طور پر منایا گیا اور اس حوالے سے دنیا بھر میں تقریبات اور پروگرامز منعقد ہوئے۔ اس سال جامعہ احمدیہ سینیئر سیکشن ربوہ میں بھی چراغاں اور ایک بہت خوبصورت علمی نمائش کا انعقاد کیا گیا۔ جس کے لیے ہر شعبہ کے لیے کلاس رومز مختص ہوئے اور طلبہ کی مختلف شعبوں میں ڈیوٹیز لگ گئیں۔ ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ تمام طلبہ نے نیکیوں میں سبقت لے جانے کی روح کے ساتھ نمائش کو کامیاب کرنے کے لیے بہت محنت کی اور محترم میر صاحب نے اس نمائش کے انعقاد کی صبح سے شام تک مکمل نگرانی کی اور ساتھ ساتھ ہدایات بھی دیتے جاتے۔ اس نمائش کو ملاحظہ کرنے ربوہ بھر سے عہدیداران اور احمدی مرد وخواتین اور بچوں نے بڑے پیمانے پر شرکت کی۔ محترم میر صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نمائش کے کامیاب انعقاد پر بہت خوش تھے۔ آپ نے تمام طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور مبارکباد دی۔ آپ نے جامعہ کی عمارت کی چھت پر خوبصورت چراغاں کروایا۔ اسی طرح ہوسٹل کے کمروں کو سجانےاور سنوارنے کے حوالے سے بھی طلبہ میں مقابلہ ہوا اور طلبہ کو انعامات بھی دیے۔ طلبہ کی تربیت: جامعہ احمدیہ ربوہ کی نئی عمارت کے داخلی دروازے کے سامنے ایک وائٹ بورڈ ہوتا تھا۔ آپ مختلف اقوال زریں اس بورڈ پر لکھ کر ساتھ یہ الفاظ بھی لکھ دیتے کہ ’’کیا آپ میں سے کوئی ایسا ہے؟‘‘جامعہ سے چھٹی کے وقت تمام طلبہ اس کو پڑھتے جاتے اور محاسبہ کرتے جاتے۔جب کبھی طلبہ کو کسی غلطی پر سزا دینی ہوتی تو اس میں بھی طلبہ کی عزت نفس کا خیال رکھتے۔ اکثر سزا کے بعد کہتے کہ کینٹین جاؤ اور میری طرف سے کچھ کھا کر آؤ۔ طلبہ کے یونیفارم کا بہت خیال رکھتے۔ خاص طور پر جناح کیپ پہننے کی تاکید کرتے اور کہتے پیارے حضور نے جناح کیپ کو یونیفارم میں لازم کیا ہے۔طلبہ کو ہر قسم کے معاملات کو حل کرنے کی مشق پرخصوصی توجہ دیتے اور طلبہ کےذہنوں کو وسعت دینے کے لیے مختلف امور زیر گفتگو لاتے۔طلبہ کو کہتے تھے کہ مربی بددیانت نہیں ہوتا۔ دوسروں کی چیز پر کبھی نظر نہ رکھنا۔ مزیدکہتے تھے کہ علمی سرقہ بھی ہوتا ہے، اس لیے مضامین اور تقاریر خود لکھا کریں۔ کہتے تھے کہ واقف زندگی کے لیے چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جامعہ احمدیہ کا مستقبل: آپ جامعہ احمدیہ اور طلبہ سے بہت محبت رکھتے تھے۔ جامعہ اور طلبہ کے مستقبل کے حوالے سے آپ بہت پُرامید تھے۔ کہا کرتے تھے کہ جامعہ کے متعلق جتنی بھی پیشگوئیاں ہیں وہ ضرور پوری ہوں گی اور ایک دن جامعہ دنیا بھر میں ایک عظیم ادارے کے طور پر ابھرے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ تشکر: خاکسار جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن ربوہ میں درجہ ممہدہ میں داخل ہوا۔ محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ تھے۔ جب خاکسار درجہ ثانیہ میں جامعہ احمدیہ سینیئر سیکشن ربوہ گیا توبراہ راست آپ کی نگرانی اور صحبت سے مستفیض ہونے کی توفیق ملی۔ اس طرح خاکسارآپ کا شاگرد ہے اور خاکسار آپ کی تمام شفقتوں اورخاکسار کی تعلیم و تربیت کرنے پر آپ کا ممنون ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم میر صاحب کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ خاکسار کو ہمیشہ پیارے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے اور خاکسار کو اپناوقف آخری سانسوں تک پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین دعا: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ۱۶مئی۲۰۲۵ء میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک عظیم معاون اور مددگار تھے، جاںنثار تھے حرف حرف پر عمل کرنے والے تھے۔ باوفا تھے۔ ایسے سلطان نصیر تھے جو کم کم ہی ملتے ہیں۔ عالم باعمل تھے۔ مجھے تو کم از کم ان جیسی کوئی مثال ابھی نظر نہیں آتی۔ اللہ کے خزانے میں تو کوئی کمی نہیں ہے اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسی مثالیں اَور بھی پیدا ہو جائیں اور ایسے باوفا اور مخلص اور تقویٰ پہ چلنے والے مددگار اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو عطا فرماتا رہے ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍مئی۲۰۲۵ء) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کے درجات بہت بلند فرماتا چلا جائے اور آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آپ نے خلافت احمدیہ کے زیرسایہ جامعہ احمدیہ کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں، ان کے شیریں ثمرات ہمیشہ ظاہر ہوتے چلے جائیں اور آپ کی دعائیں آپ کے تمام شاگردوں کے حق میں قبول ہوتی چلی جائیں۔ آمین اللہم آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھائی یعقوب کا تابوت