(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۴؍مئی۲۰۱۹ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی وہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے وقت بھی، وصال کے وقت بھی ہمارا یہ حال تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت بھی جماعت کی ذہنی کیفیت وہی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں صحابہؓ کی تھی۔ چنانچہ ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی وفات نہیں پا سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کبھی ایک منٹ کے لیے بھی ہمارے دل میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جب فوت ہو جائیں گے تو کیا ہوگا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت بچہ نہیں تھا بلکہ جوانی کی عمر کو پہنچا ہوا تھا۔ میں مضامین لکھا کرتا تھا۔ میں ایک رسالے کا ایڈیٹر بھی تھا مگر میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کبھی ایک منٹ، بلکہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے حالانکہ آخری سالوں میں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ایسے الہامات ہوئے جن میں آپؑ کی وفات کی خبر ہوتی تھی۔ اور آخری ایام میں تو ان کی کثرت اَور بھی بڑھ گئی تھی مگر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے الہامات ہوتے رہے ہیں اور باوجود اس کے کہ بعض الہامات و کشوف میں آپؑ کی وفات کے سال اور تاریخ وغیرہ کی بھی تعیین تھی اور باوجود اس کے کہ ہم الوصیت میں پڑھتے تھے، ہم یہی سمجھتے تھے کہ یہ باتیں شاید آج سے دو صدیاں بعد پوری ہوں گی۔ اس لیے اس بات کا خیال بھی دل میں نہیں گزرتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے تو کیا ہو گا۔ اور چونکہ ہماری حالت ایسی تھی کہ ہم سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہمارے سامنے فوت ہی نہیں ہو سکتے اس لیے جب واقعہ میں آپؑ کی وفات ہو گئی تو ہمارے لیے باور کرنا مشکل تھا کہ آپؑ فوت ہو چکے ہیں۔ چنانچہ آپؓ لکھتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے بعد جب آپؑ کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو چونکہ ایسے موقعے پر بعض دفعہ ہوا کے جھونکے سے کپڑا ہل جاتا ہے یا بعض دفعہ مونچھیں ہل جاتی ہیں، (بال ہل جاتے ہیں ) اس لیے بعض دوست دوڑتے ہوئے آتے اور کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو زندہ ہیں۔ ہم نے آپؑ کا کپڑا ہلتے دیکھا ہے، یا مونچھوں کے بالوں کو ہلتے دیکھا ہے اور بعض کہتے کہ ہم نے کفن کو ہلتے دیکھا ہے۔ اس کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی نعش کو قادیان لایا گیا تو اسے باغ میں ایک مکان کے اندر رکھ دیا گیا۔ کوئی آٹھ نو بجے کا وقت ہو گا، (یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد کہ وفات کے بعد تو ہم سب کی یہ حالت تھی پھر کہتے ہیں جب نعش قادیان پہنچی ہے آٹھ نو بجے کا وقت ہو گا تو) خواجہ کمال الدین صاحب باغ میں پہنچے اور مجھے علیحدہ لے جا کر کہنے لگے کہ میاں !کچھ سوچا بھی ہے کہ اب حضرت صاحبؑ کی وفات کے بعد کیا ہو گا۔ میں نے کہا کچھ ہونا تو چاہیے مگر یہ کہ کیا ہو اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ کہنے لگے کہ میرے نزدیک ہم سب کو حضرت مولوی صاحب، (حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بیعت کر لینی چاہیے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت کچھ عمر کے لحاظ سے بھی اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ میرا مطالعہ باوجود اس کے کہ مطالعہ کرتا تھا لیکن پھر بھی کم تھا مَیں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپؑ کے بعد کسی اَور کی بھی بیعت کر لیں اس لیے حضرت مولوی صاحبؓ کی ہم کیوں بیعت کریں؟ آپؓ لکھتے ہیں گو الوصیت میں اس کا ذکر تھا مگر اس وقت میرا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس پر میرے ساتھ بحث شروع کردی اور کہا کہ اگر اس وقت ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت نہ کی گئی تو ہماری جماعت تباہ ہو جائے گی۔ پھر انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی تو یہی ہوا تھا کہ قوم نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی تھی۔ (یہ بڑی اہم بات ہے کہ اس وقت خواجہ صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قوم نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی اور آپؓ کو خلیفہ تسلیم کر لیا تھا۔ پھر خواجہ صاحب نے کہا کہ) اس لیے اب بھی ہمیں ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیے اور اس منصب کے لیے حضرت مولوی صاحبؓ سے بڑھ کر ہماری جماعت میں اور کوئی شخص نہیں۔ پھر خواجہ صاحب نے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کو کہا کہ مولوی محمد علی صاحب کی بھی یہی رائے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ تمام جماعت کو مولوی صاحب کی بیعت کرنی چاہیے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ آخر جماعت نے متفقہ طور پر حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ لوگوں سے بیعت لیں۔ اس پر باغ میں تمام لوگوں کا اجتماع ہوا اور اس میں حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک تقریر کی اور فرمایا کہ مجھے امامت کی کوئی خواہش نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کسی اَور کی بیعت کر لی جائے۔ چنانچہ آپؓ نے، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آپؓ نے اس سلسلے میں پہلے میرا نام لیا، پھر ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحبؓ کا نام لیا، پھر ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحبؓ کا نام لیا۔ اسی طرح بعض اَور دوستوں کے نام لیے لیکن ہم سب لوگوں نے متفقہ طور پر یہ عرض کیا کہ اس منصبِ خلافت کے اہل آپ ہی ہیں۔ چنانچہ سب لوگوں نے آپؓ کی بیعت کر لی۔‘‘(ماخوذ از خلافتِ راشدہ، انوارالعلوم جلدنمبر15 صفحہ نمبر 489تا491) بلکہ بعض روایات کے مطابق تو خواجہ صاحب نے یہ اشتہار بھی، اعلان بھی شائع کروایا تھا کہ رسالہ الوصیت کی رُو سے ہمیں اپنا ایک واجب الاطاعت خلیفہ منتخب کرنا چاہیے اور اس کے لیے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا نام پیش کیا تھا۔ تو بہرحال یہ پہلے ان لوگوں کی ایک سوچ تھی۔ حالات کی وجہ سے اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے ہو سکتا ہے یہ سوچ ہو۔ ان لوگوں نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی بیعت تو کر لی لیکن دل میں جو اطاعتِ خلافت کی سچی روح ہونی چاہیے وہ نہیں تھی اور دل میں کچھ اَور تھا۔ اس لیے اس تدبیر اور فکر میں بھی رہتے تھے کہ کس طرح خلافت پر انجمن کو بالا سمجھا جائے یا کیا جائے۔ اور پھر سب اختیار انجمن کے ذریعہ سے اپنے قبضے میں لے لیں۔ یہ بھی ان عمائدین کا خیال تھا۔ ان لوگوں کی اس نیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابھی آپؓ کی بیعت پر پندرہ بیس دن ہی گزرے تھے (یعنی خلیفہ اولؓ کی بیعت پر پندرہ بیس دن گزرے تھے) کہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے کہ میاں صاحب !کبھی آپ نے اس بات پر غور بھی کیا ہے کہ ہمارے سلسلے کا نظام کیسے چلے گا؟ میں نے کہا اس پر اب اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے حضرت مولوی صاحبؓ کی بیعت جو کر لی ہے۔ وہ کہنے لگے وہ تو ہوئی پیری مریدی۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلے کا نظام کس طرح چلے گا۔ میں نے کہا کہ میرے نزدیک تو اب یہ بات غور کرنے کے قابل ہی نہیں کیونکہ جب ہم نے ایک شخص کی بیعت کر لی ہے تو وہ اس امر کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح سلسلے کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ ہمیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اس پر وہ خاموش تو ہو گئے مگر کہنے لگے کہ یہ بات غور کے قابل ہے۔ (ماخوذ از خلافت راشدہ صفحہ 48 تا 50۔ انوارالعلوم جلدنمبر15 صفحہ491) مزید پڑھیں: ابوعفک یہودی کے قتل کا فرضی واقعہ