(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍اکتوبر ۲۰۲۳ء) سیرت کی کتب میں ایک اَور فرضی واقعہ ابوعفک یہودی کے قتل کا بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے جو بیان کی جاتی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا ۔ کون ہے جو میرے لیے اس خبیث یعنی ابوعفک سے نپٹ سکتا ہے؟ یعنی کون ہے جو اس کا کام تمام کر سکتا ہے اس کو مار سکتا ہے؟ یہ شخص یعنی ابوعفک بہت زیادہ بوڑھا آدمی تھا یہاں تک کہ کہا جاتا ہے اس کی عمر ایک سو بیس برس ہوچکی تھی مگر یہ شخص لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکایا کرتا تھا اور اپنے شعروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی اور گستاخی کیا کرتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر حضرت سالم بن عمیرؓ اٹھے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بےحد رویا کرتے تھے۔ یہ غزوۂ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ غرض انہوں نے عرض کیا مجھ پر نذر یعنی منّت ہے کہ میں یا تو ابوعفک کو قتل کر ڈالوں گا اور یا اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت سالم بن عمیرؓ موقع کی تلاش میں رہنے لگے۔ ایک روز جبکہ رات کا وقت تھا اور شدید گرمی تھی تو ابوعفک اپنے گھر کے صحن میں سویا جو اس کے مکان کے باہر تھا۔ حضرت سالمؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ فوراً روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر حضرت سالمؓ نے اپنی تلوار ابوعفک کے جگر پر رکھی اور اس پر پورا دباؤ ڈال دیا یہاں تک کہ تلوار اس کے پیٹ میں پار ہوکر بستر میں بندھ گئی اور ساتھ ہی خدا کے دشمن ابوعفک نے ایک بھیانک چیخ ماری۔ حضرت سالمؓ اس کو اسی حالت میں چھوڑ کر وہاں سے چلے آئے۔ ابوعفک کی چیخ سن کر فوراً ہی لوگ دوڑ پڑے اور اس کے کچھ ساتھی اسی وقت اسے اٹھا کر مکان کے اندر لے گئے مگر وہ خدا کا دشمن اس کاری زخم کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ300، دارالمعرفہ بیروت 2012ء) ایک سیرت کی کتاب میں یہ واقعہ اس طرح لکھا گیا ہے۔لیکن یہ واقعہ بھی کسی معتبر سند سے مروی نہیں ہے۔ صحاح ستّہ میں بھی یہ مذکور نہیں۔ سیرت کی بعض کتابوں میں اس واقعہ کا تذکرہ موجود ہے جیسے سیرت الحلبیہ، شرح زرقانی، طبقات الکبریٰ لابن سعد، سیرت النبویہؐ لابن ہشام ، البدایہ والنھایہ، کتاب المغازی للواقدی اور سبل الھدیٰ والرشاد وغیرہ میں لیکن تاریخ کی اکثر کتب میں یہ واقعہ درج نہیں ہے۔ مثلاً الکامل فی التاریخ، تاریخ طبری، تاریخ ابن خلدون وغیرہ جبکہ تاریخ کی بعض کتب جیسا پہلے بیان ہوا ہے مثلاً تاریخ الخمیس میں یہ واقعہ درج ہے۔ اس واقعہ کے متعلق بھی واقعہ عصماء کی طرح یہ شہادت بیان کی جاتی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت اور دشمنی میں لوگوں کو ابھارا کرتا تھا۔ جنگِ بدر کے بعد یہ بغض و حسد میں مزید بڑھ گیا اور کھلم کھلا باغی ہوگیا۔ قتل ابوعفک والی روایت کے اندرونی تضادات بھی اس واقعےکو مشتبہ کر دیتے ہیں مثلاً نمبر ایک قاتل میں اختلاف۔ ابن سعد اور واقدی کے نزدیک ابوعفک کے قاتل سالم بن عمیر تھے جبکہ بعض دیگر روایات میں سالم بن عمر کا ذکر ہے جبکہ ابن عُقبہ کے نزدیک سالم بن عبداللہ بن ثابت انصاری نے اسے قتل کیا۔ دوسرے یہ کہ قتل کے سبب میں اختلاف ہے۔ ابن ہشام اور واقدی کے نزدیک سالم نے خود جوش میں آ کر اسے قتل کیا جبکہ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے قتل کیا گیا۔(شرح زرقانی جزء2صفحہ347 دارالکتب العلمیۃ بیروت1996ء)(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 887 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء )(کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 163دارالکتب العلمیۃ2013ء)(سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد 6 صفحہ 23، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء) ابن ہشام نے اس طرح لکھا ہے۔ ایک تیسری بات مذہب کے اختلاف کے بارے میں ہے۔ ابن سعد کے نزدیک ابوعفک یہودی تھا جبکہ واقدی کے نزدیک یہ یہودی نہیں تھا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 21، دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)( کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 163دارالکتب العلمیۃ2013ء) پھر زمانہ قتل میں بھی اختلاف ہے۔ واقدی اور ابن سعد کے نزدیک یہ واقعہ عصماء بنت مروان کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ ابن اسحاق اور ابن ہشام وغیرہ کے نزدیک یہ واقعہ عصماء کے قتل سے پہلے کا ہے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ20 21-، دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)( کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ161، 163، دارالکتب العلمیۃ2013ء)(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 886-887، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء ) ان واضح اختلافات سے بھی ظاہر ہے کہ یہ محض بناوٹی اور جعلی قصہ ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر بفرض محال ابوعفک کا قتل ہونا مان بھی لیا جائے تو اس کے دیگر جرائم سربراہ مملکت کو قتل کرنے پر اکسانا، ہجویہ شعر کہہ کر جنگ پر ابھارنا، امنِ عامہ کو خطرے میں ڈالنا اور جنگ کی آگ بھڑکانا ہی سزائے موت کے لیے کافی ہیں جن پر آج کل بھی سزائے موت دی جاتی ہے جب حکومت کے خلاف بغاوت ثابت ہوجائے۔ محض گالیاں دینا اس قتل کی وجہ نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح عصماء کے واقعہ کی طرح یہاں بھی ابوعفک کے قتل کے بعد یہود کا کوئی ردّعمل ثابت نہیں ہے۔ اس کے قتل پہ یہود کا کوئی ردّعمل ہونا چاہیے تھا لیکن کوئی ردّعمل ثابت نہیں ہے۔ پس ان کا خاموش رہنا اس واقعےکے فرضی ہونے پر دلیلِ قاطعہ ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ان واقعات کا زمانہ جنگِ بدر سے قبل یا معاً بعد کا بیان کیا جاتا ہے کہ فوری پہلے ہوا ہے یا پہلے تھا یا فوری طور پر ہوا اور جملہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کی پہلی مخاصمت غزوۂ بنو قینقاع ہے۔ اگر بدر سے پہلے بھی کوئی واقعہ ہوتا تو اس کے ذیل میں ضرور ذکر کرتے کہ اس طرح یہ واقعہ ہوا ہے اور یہود ابوعفک اور عصماء کے قتل کے واقعات کی بنا پر بجا طور پر مسلمانوں پر یہ اعتراض کر سکتے تھے کہ مسلمانوں نے عملی چھیڑ چھاڑ میں ان سے پہل کی ہے لیکن کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ مدینے کے یہود نے ان واقعات کو لے کر کبھی کوئی ایسا سوال اٹھایا ہو۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے عصماء اور ابوعفک کے قتل کے فرضی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں جو بیان فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’جنگ بدر کے حالات کے بعد واقدی اور بعض دوسرے مؤرخین نے دو ایسے واقعات درج کئے ہیں جن کا کتبِ حدیث اور صحیح تاریخی روایات میں نشان نہیں ملتا اور درایتاً بھی غور کیا جائے تو وہ درست ثابت نہیں ہوتے مگر چونکہ ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک ظاہری صورت اعتراض کی پیدا ہوجاتی ہے اس لئے بعض عیسائی مؤرخین نے حسب عادت نہایت ناگوار صورت میں ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ فرضی واقعات یوں بیان کئے گئے ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت عصماء نامی رہتی تھی‘‘ عصماء کا دوبارہ یہاںذکر آ رہا ہے۔ ’’جو اسلام کی سخت دشمن تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت زہر اگلتی رہتی تھی اور اپنے اشتعال انگیز اشعار میں لوگوں کو آپؐ کے خلاف بہت اکساتی تھی اور آپؐ کے قتل پر ابھارتی تھی۔ آخر ایک نابینا صحابی عُمیر بن عدیؓ نے اشتعال میں آکر رات کے وقت اس کے گھر میں جبکہ وہ سوئی ہوئی تھی اسے قتل کر دیا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے اس صحابی کو ملامت نہیں فرمائی بلکہ ایک گونہ اس کے فعل کی تعریف کی۔‘‘ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ فعل کی تعریف کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حقیقت میں کی۔ یہ واقعہ ہے جو بیان کیا جاتا ہے جس کا غلط ہونا پہلے میں ثابت کر چکا ہوں۔’’ دوسرا واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بڈھا یہودی ابوعفک نامی مدینہ میں رہتا تھا۔ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہتا تھا اور کفار کو آپؐ کے خلاف جنگ کرنے اور آپؐ کو قتل کر دینے کے لئے ابھارتا تھا۔ آخر ایک دن اسے بھی ایک صحابی سالم بن عُمیؓر نے غصہ میں آکر رات کے وقت اس کے صحن میں قتل کر دیا۔‘‘یہ بیان کیا جاتا ہے۔ مزید پڑھیں: شیطانی وساوس سے بچنے کا طریق