اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ محترم چودھری عبدالحمید صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ یکم مارچ۲۰۱۴ء میں مکرم خالد اقبال صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم چودھری عبدالحمید صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ ابی جان ۱۹؍ستمبر۱۹۳۹ء کو محترم چودھری محمد حسین صاحب کے ہاں جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ دو بہنیں اور سات بھائی تھے۔ آپ کے والد محکمہ تعلیم انسپکٹرز آف سکول میں بطور ہیڈکلرک ملازم تھے اور بوجہ ملازمت زیادہ عرصہ ملتان میں مقیم رہے۔ چنانچہ ابی جان نے ملتان سے ہی تعلیم حاصل کی اور ایمرسن کالج سے ٍB.Scکی ڈگری لی۔ جب آپ نے F.Sc کا امتحان دینا تھا تو آپ کے بڑے بھائی محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کیمبرج سے آپ کو ایک تاریخی نوعیت کا خط لکھا جس نے آپ کے لیے مشعل راہ کا کام کیا۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے خط میں لکھا: ’’…آپ کو شاید اس وقت تو یہ مضمون حساب فزکس، کیمسٹری وغیرہ بےکار معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ ان میں Top پر رہنے میں دو پوائنٹ ہوتے ہیں۔ (1) اگر آپ ان مضمونوں میں بہتر نتیجہ دکھائیں تو اگرچہ آپ کی ان میں دلچسپی نہ بھی ہو تو بھی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ محنت کرسکتے ہیں اور دوسرے آپ ذہین ہیں۔ زندگی میں کامیابی محنت اور ذہانت سے ہے۔ ایک معمولی کلرک بن جانا یا معمولی دکاندار بن جانا یا معمولی میکینک بن جانا آپ کو خوش نہیں کرسکتا۔ زندگی Ambition کا نام ہے۔ اور وہ Ambition کیا ہے؟ سب سے چوٹی پر رہنا۔ جس شخص کی زندگی میں Ambitionنہیں ہے وہ مردہ ہے۔ ماں باپ بھائی کسی کے کام نہیں آسکتے۔ ہر شخص نے اپنی زندگی خود بنانی ہوتی ہے۔ آپ کی عمر میں انسان کو احساس نہیں ہوتا کہ وقت کس طرح خرچ کرنا چاہئے، زندگی بھر میں کونسی چیزیں کام آئیں گی۔ لیکن محنت کی عادت ایسی چیز ہے کہ ایک بار پڑ جائے تو کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔ محنت کرنا کوئی آسان چیز نہیں۔ بہت کڑوی چیز ہے۔ (جی کہتا ہے)کہ یہ مصیبت ہے، (دوسرے)لوگ مزے کررہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ جو لوگ اس عمر میں مزے کرتے ہیں وہ ساری عمر روتے رہتے ہیں۔ مزے کرنے کا بھی وقت ہو اور کام کرنے کا بھی وقت ہو تو زندگی حسین ہوتی ہے۔ آپ کا مطمحٔ نظر یہ ہونا چاہئے کہ آپ رات کو جب سوئیں تو سونے سے پہلے یہ سوچیں کہ کیا آپ کا دن اچھا گزرا ہے۔ پڑھنے کے وقت آپ پڑھتے ہیں؟ کھیلنے کے وقت آپ کھیلتے ہیں؟ یاد رکھیں ہم بہت غریب ہیں۔ ہمارے پاس سوائے محنت اور ذہانت کے اور کچھ نہیں کہ ہم اوپر چڑھ سکیں۔ آپ کے سامنے ہزاروں میدان ہیں آپ محنت کریں تو بڑے سے بڑے تاجر، بڑے سے بڑے میکینک ہوسکتے ہیں۔ ایک بار عزم کریں اور پھر محنت۔ اس وقت آپ کے سامنےStudies کا میدان ہے۔ آپ یقیناً اس قابل ہیں کہ آپ سب کو پیچھے چھوڑ سکیں۔ اگر پہلے وقت ضائع ہوگیا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ عزم کے ساتھ کیا ہوا دو دن کا کام لوگوں کے مہینوں کے کام سے بہتر ہوتا ہے۔…‘‘ ان نصائح پر عمل کرنے کے نتیجے میں آپ نے بہت ہی کامیاب زندگی گزاری۔ بی ایس سی میں کامیابی کے بعد ڈاکٹر سلام صاحب نے آپ کو ۱۹۵۷ء میں انگلستان بلالیا جہاں آپ نے بسکٹ کی مشینری بنانے والی کمپنی میں دو سال اپرنٹس شپ کی اور پھر پاکستان آکر بسکٹ بنانے والی مشینری کی فروخت کا کام شروع کیا۔ ۱۹۶۱ء میں آپ سویڈن گئے جہاں دودھ پروسس کرنے والی مشینری بنانے کی تربیت لی۔ پھر پاکستان آکر کچھ عرصہ کراچی میں کاروبار کیا اور بھلوال میں ۱۹۷۰ء میں ڈیری پلانٹ لگایا۔ ۱۹۷۷ء میں ایران جانے کا پروگرام بنایا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہوئے تو حضورؒ نے فرمایا کہ چندہ پوری شرح سے دیتے رہیں آپ کا کانٹریکٹ Renew ہوتا رہے گا۔ چنانچہ آپ ایران چلے گئے۔ انقلابِ ایران میں مارچ ۱۹۷۹ء میں کمپنی نے آپ کو پاکستان میں اپنا سیلزمینیجر مقرر کردیا۔ ۱۹۸۱ء تک آپ کراچی میں رہے اور پھر لاہور آگئے جہاں وفات تک مقیم رہے۔ ۱۹۸۳ء میں ایک برطانوی کمپنی کے سیلزمینیجر کے طور پر کام شروع کیا۔ ۱۹۸۸ء میں اپنی کمپنی بنائی اور پاؤڈر دودھ بنانے والی ڈنمارک کی کمپنی Niro کی ایجنسی لی جو آج بھی قائم ہے۔ Dairy Technologist کے طور پر آپ نے پاکستان بھر میں شہرت پائی۔ ۱۹۶۰ء میں محترمہ شریفہ حمید صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر میاں عبدالحمید صاحب سے آپ کی شادی ہوئی تھی جن سے ایک بیٹا (مضمون نگار) اور دو بیٹیاں خدا تعالیٰ نے عطا فرمائیں۔ آپ نے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی اور اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ جب ایک بیٹی صرف بتیس سال کی عمر میں وفات پاگئیں تو یہ صدمہ بڑے صبر سے برداشت کیا۔ آپ ہمیشہ خلفائے کرام سے رابطہ رکھتے اور اہم کاموں میں مشورہ لیتے۔ کئی بزرگ صحابہ اور دیگر بزرگان کو بھی دعائیہ خطوط لکھتے رہتے۔ اپنے تمام عزیزوں سے رابطہ رکھتے اور صائب مشورے دیتے۔ طبیعت میں رعب بھی تھا اور انتظامی صلاحیت بھی تھی۔ دادا جان محترم چودھری محمد حسین صاحب سے وقت کی پابندی کی عادت اُن کے سب بچوں نے اپنائی تھی۔ یہ عادت اگلی نسل میں بھی قائم ہے۔ ۱۹۶۳ء میں حلقہ سوسائٹی کراچی کے صدر جماعت مقرر ہوئے۔ آپ کا گھر ہی نماز سینٹر بھی تھا۔ بھلوال میں قیام کے دوران وہاں بھی صدر جماعت رہے۔ اس دوران وہاں زمین خرید کر وقارعمل کے ذریعے ایک مسجد بھی تعمیر کروائی جس میں آپ امامت بھی کرتے رہے۔ گھر میں ہمیشہ نماز باجماعت پڑھاتے۔ فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت لازمی تھی۔ ہمیشہ جلدی سونے اور جلدی صبح اٹھنے کو ترجیح دیتے۔ آپ اپنے مشاہدات پر مبنی بزرگان کا ذکرخیر مضامین کی شکل میں الفضل میں شائع کرواتے رہتے۔ اپنے بڑے بھائی محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے عشق کی حد تک پیار تھا۔ اس لیے اُن کی سوانح عمری لکھنی شروع کی۔ ۱۷؍نومبر۱۹۹۸ء کو مسودہ مکمل ہونے پر الحمدللہ کہا اور پھر چند لمحوں بعد ہی آپ کی اپنی زندگی کی کتاب مکمل ہوگئی۔ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ آپ کی کتاب آپ کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ ………٭………٭………٭……… محترم ارشاد علی خان صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۳؍مارچ۲۰۱۴ء میں محترم ارشاد علی خان صاحب کا ذکرخیر اُن کے نواسے مکرم علی احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ محترم ارشاد علی خان صاحب ۱۹۳۸ء میں ضلع روہتک (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان پر آپ ضلع منڈی بہاؤالدین کے نواحی گاؤں رکھ بلوچ میں رہائش پذیر ہوگئے۔ اس وقت آپ کے والد وفات پاچکے تھے اور آپ نہایت سخت حالات میں چھٹی جماعت میں کہار ضلع جہلم کے ایک سکول میں داخل ہوگئے۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک احمدی طالب علم سے ہوئی جس کو لڑکے مرزائی وغیرہ کہہ کر تنگ کرتے تھے۔ آپ کو اس سے قبل احمدیت کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا اس لیے آپ نے اُس احمدی لڑکے سے معلومات لینا چاہیں تو اُس نے اپنے والد سے آپ کو ملوادیا جنہوں نے احمدیت کا تعارف کروایا اور کچھ کتب بھی دیں۔ یہ بات سکول میں پھیلی تو سکول میں ملازم آپ کے گاؤں کے منشی صاحب نے آپ کے گھر جاکر بتایا کہ اپنے لڑکے کو واپس بلالو ورنہ وہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس پر ساتویں کلاس میں آپ کو سکول سے اٹھالیا گیا۔ آپ نے بھرپور شور مچایا لیکن سکول جانے کی اجازت نہیں ملی۔ ایک سال تک آپ کے مسلسل رونے دھونے سے آپ کے چچا کو ترس آگیا تو انہوں نے اس شرط پر پڑھنے کی اجازت دے دی کہ آپ کہار سکول میں نہیں پڑھیں گے۔ چنانچہ آپ کو منڈی بہاؤالدین کے ایک سکول میں داخل کروایا گیا۔ مڈل کا امتحان شروع ہونے میں دو تین ماہ باقی تھے۔ گھر کے مسدود حالات آپ کے کپڑوں سے ظاہر تھے۔ کتابیں بھی پوری نہ تھیں۔ آپ دوسرے لڑکوں سےعاریۃً کتابیں مانگ کر پڑھتے رہے۔ خدا تعالیٰ نے ذہن رسا دیا تھا اس لیے جو پڑھتے وہ یاد ہوجاتا۔ اس دوران آپ خداتعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے رہے کہ اے مولا کریم! مجھے پتہ ہے کہ احمدیت سچی ہے لیکن میرے دل کی تسلّی کے لیے مجھے یہ نشان دکھادے کہ مَیں مڈل بورڈ میں اوّل آؤں۔ خداتعالیٰ نے بڑی شان سے یہ نشان دکھایا اور ۱۹۵۳ء کے مڈل امتحان میں آپ پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ یہ وہ دَور تھا جب پنجاب میں احمدیت کے خلاف فسادات بھی کیے گئے۔ سکول میں بھی احمدیت کی بہت مخالفت تھی تاہم آپ نے کسی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور ۱۹۵۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ حضورؓ اُس وقت یورپ کے دورے پر تشریف لے گئے تھے۔ چنانچہ بیعت کی منظوری کی اطلاع آپ کو حضورؓ کے یورپ کے دورے سے واپس آنے پر اُس وقت ملی جب آپ سرگودھا میں ایف اے میں زیرتعلیم تھے۔ تعلیم مکمل کرکے آپ بینک میں ملازم ہوگئے اور نیشنل بینک آف پاکستان میں وائس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آپ ایک اچھے ہومیوپیتھ ڈاکٹر بھی تھے۔ گاؤں میں بےشمار مریضوں کا علاج مفت کیا۔ بہت مہمان نواز اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ آپ کے اخلاق کا اثر احمدی غیراحمدی سب پر یکساں تھا۔ صلہ رحمی کا بہت جذبہ تھا۔ زندگی بھر اپنے غیراحمدی بھائیوں کو اپنی زمینیں دیے رکھیں اور کبھی حساب کتاب نہیں کیا۔ لوگ برملا کہتے کہ آپ بہت اچھے انسان ہیں مگر ہیں قادیانی۔ آپ جواب دیتے کہ ہم اچھے اسی لیے ہیں کہ احمدی ہیں۔ ۱۷؍دسمبر۲۰۰۹ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ ………٭………٭………٭……… اوسلو (Oslo) ۱۹۰۵ء میں ناروے کا دارالحکومت بننے والے اور ساڑھے چارسو مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ملک کے سب سے بڑے شہر اوسلو کا پرانا نام کرسٹیانا تھا۔ خیال ہے کہ اس کی بنیاد ۱۰۲۸ء میں شاہ ہیرلڈ ہارڈریڈا نے رکھی تھی۔ تب یہ لکڑی کا بنا ہوا قصبہ تھا جسے سترھویں صدی میں آتشزدگی نے برباد کردیا۔ بعدازاں منصوبہ بندی کے ذریعے اس کی تعمیرِنَو کی گئی۔ یہاں کا تعلیمی نظام بہت شاندار ہے اور شرح خواندگی ۹۸فیصد ہے۔ ۱۸۱۱ء میں یہاں یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔ شہر میں متعدد عجائب گھر واقع ہیں۔ ۱۳۱۹ء میں یہاں ایک قلعہ شاہ ہاکون پنجم نے تعمیر کروایا تھا جو ۱۳۸۰ء تک شہنشاہوں کی رہائش کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ ۹؍اپریل۱۹۴۰ء کو جرمنی نے اوسلو پر قبضہ کرلیا جو ۱۹۴۵ء میں جنگ کے اختتام تک قائم رہا۔ ناروے ایک غیرزرعی ملک ہے لیکن بحری جہاز، گتہ، کاغذ، خام لوہا، کیمیکل اور مشینری کی صنعت یہاں کی مشہور ہے۔ یہ مختصر مضمون روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۴؍جولائی ۲۰۱۴ء میں (مرسلہ مکرم امان اللہ امجد صاحب)شامل اشاعت ہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۱؍ستمبر۲۰۱۴ء میں ربوہ کے حوالے سے کہی گئی مکرم بشارت محمود طاہر صاحب کی نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: یہ شہر پُرنشان کہ ربوہ ہے جس کا نامغم میں ہے سائبان کہ ربوہ ہے جس کا نامبستے ہیں اس کی خاک میں ہیرے جہان کےکیسی ہے اس کی شان کہ ربوہ ہے جس کا نامزندہ ہیں جس میں پیار کی یادوں کے سلسلےیہ وہ ہے داستان کہ ربوہ ہے جس کا نامپھیلا ہوا ہے دل کی زمینوں پہ اس کا پیارہم جسم اور یہ جان کہ ربوہ ہے جس کا ناممسکن ہے عاشقانِ غلامانِ مصطفیٰ ؐاِک اَور قادیان کہ ربوہ ہے جس کا نام مزید پڑھیں: OCD پرندہ۔ سیٹن باور برڈ کی حیرت انگیز کہانی