https://youtu.be/kB9Xqbwu5IE مکرم رشید احمد کاہلوں صاحب جن کی وفات ۲؍رمضان بمطابق ۴؍مارچ ۲۰۲۵ء صبح تین بجے ہوئی۔شناختی کارڈ کے مطابق آپ ۷؍جولائی ۱۹۶۲ء کو پیدا ہوئے اور یوں ۶۳؍سال کی عمر میں وفات پائی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم نواب دین ابن عمر دین صاحب ساکن شاہ پور تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپورکے ذریعہ ہوا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ۱۹۰۳ء میں عبدالحیٔ صاحب تحصیلدار کے ذریعہ قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ بعض خاندانی روایات کے مطابق مکرم نواب دین صاحب مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں مل سکا۔ مکرم رشید احمد کاہلوں صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور اپنا چندہ وصیت ہر ماہ بڑی فکر اور باقاعدگی کےساتھ ادا کرتے تھے۔ اسی طرح چندہ وقف جدید اور تحریک جدید پیارے حضور کے خطبہ جمعہ کے فوری بعد سو فیصد ادا کیا کرتے تھے۔امسال جس دن پیارے حضور کا خطبہ جمعہ بابت تحریک جدید متوقع تھا آپ ربوہ گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے واپس تشریف لائے اور نئے سال کے اعلان کے فوری بعد اپنا اور اپنی فیملی کا چندہ تحریک جدید مکمل سو فیصد ادا کر دیا اور کہا کہ آج میں ربوہ سے صرف اس لیے واپس آ گیا ہوں تا کہ پیارے حضور کے ارشاد پر فوری عمل کر سکوں۔ مرحوم نماز باجماعت کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے نماز تہجد خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے۔ مرحوم وفات سے کچھ عرصہ قبل لائل پور کالونی میں منتقل ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود وہاں سے موٹر سائیکل پر تشریف لاتے اور مسجد میں نماز تہجد ادا کیا کرتے تھے جس میں نہایت آہ و زاری کے ساتھ دعائیں کیا کرتے تھے۔ مرحوم اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے لیکن ہمیشہ چھوٹا بن کر بہن بھائیوں اور تمام مہمانوں کی خدمت کیا کرتے تھے۔آپ دس سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے اور ساری زندگی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی خدمت بڑے ہونے کے باوجود چھوٹا بن کر ہی کرتے رہے۔ واقفین زندگی سے بہت محبت اور احترام کیا کرتے تھے اور کبھی کوئی ایسی بات نہ کہتے جو کسی کی دل آزاری کا موجب ہو۔ مرحوم مکرم رفیق احمد کاہلوں صاحب کے بڑے بھائی تھے۔ مکرم رشید صاحب تمام مہمانوں کو بڑی فراخدلی اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر کھانا کھلایا کرتے۔ کھانے کے دوران اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی تو بھاگ کر جلدی سے جاتے اور مہمان کی ضرورت کو پورا کرتے۔ یہ صورتحال اس وقت بھی اسی طرح جاری رہتی جب آپ کے چھوٹے بھائی اور بیٹے بیٹھک میں ہی موجود ہوتے۔ رشید احمد کاہلوں صاحب کی طبیعت اعتراض کرنے اور سوال کرنے کی بجائے اطاعت کرنے اور بڑھ کر لبیک کہنے والی تھی۔ کبھی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی کبھی کسی کا دل دکھایا۔ مرحوم واپڈا میں ملازم تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری زندگی اپنی بے داغ ڈیوٹی سرانجام دینے والے تھے جس کا ہر کسی پر نمایاں اثر ہوتا تھا۔ تعزیت کے لیے آنے والے غیر احمدی واپڈا ملازمین و افسران نے بھی رشید صاحب کی بےداغ سروس کا ذکر کر کے رشید صاحب کے بلند کردار کی گواہی دی اور اس کا برملا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔ مرحوم اپنے بھائیوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہائش پذیر تھے جہاں اندرون خانہ سب کی رہائش الگ الگ ہے۔ مرحوم تینوں گھروں کا پانی خود بڑی فکر کے ساتھ بھرا کرتے تھے اور باوجود سب سے بڑا ہونے کے اپنے کند ھے پر پانی کا کین بھر کر لے جاتے۔ مرحوم کی پوتیاں پرائیویٹ سکول میں زیر تعلیم ہیں جن کے ماہانہ اخراجات کافی زیادہ ہوتے ہیں اور بیٹے کی کوئی معقول آمدن نہیں ہے۔ اس لیے اپنے چندہ جات کی ادائیگی کے بعد اپنی پوتیوں کی سکول فیس اور دیگر تعلیمی اخراجات خود برداشت کیا کرتے تھے اور سالانہ پیپر فیس جو سکول نے چار ہزار روپے فی کس مقرر کی ہے۔آئندہ تعلیمی سال کی فیس بھی پیشگی ادا کر چکے تھے۔ مکرم رشید صاحب کی بیماری کے دوران جب خاکسار ان کی تیمارداری کے لیے ہسپتال گیا تو ان کے بیٹے روتے اور بار بار کہتے کہ ابا جان ایک ہی نصیحت بار بار اور بڑی تاکید کے ساتھ کرتے تھے کہ نما ز باجماعت لازمی ادا کیا کرو اور اس میں کسی قسم کی سستی اور کسل نہ کیا کرو۔ خود نما زکے لیے جاتے تو ہمیں لازمی نماز کا کہہ کر اور فجر پہ جگا کر جاتے۔ مرحوم نافع الناس وجود تھے۔جب بھی موقع ملتا کسی کی مدد، تیمارداری یا خدمت کے لیے پہنچ جاتے اور یوں خدمت خلق کے لیے کبھی بھی احمدی یا غیر احمدی کی تخصیص نہ کرتے بلکہ ہمہ وقت خدمت انسانیت کے لیے تیار رہتے۔ مرحوم اپنی ساری زندگی نہایت عاجزی اور بے نفسی کے ساتھ گزارنے والے تھے اس لیے اپنے اخلاق سے ہر کسی کے دل میں گھر کر چکے تھے۔ مرحوم کی وفات پر ہر آنکھ اشکبار اور دل غمگین تھا اور زبانیں مرحوم کے پاکیزہ اخلاق ، عاجزی اور انکساری کی گواہی دے رہی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کا جنازہ چک ۱۰۹ رب ورکشاپ مسعود آباد میں امیر صاحب ضلع فیصل آباد نےپڑھا یا اور بعد ازاں ان کا جسد خاکی ربوہ لے جایا گیا جہاں ان کہ نماز جنازہ ۴؍مارچ کو بعد نماز مغرب ربوہ میں ادا کی گئی اور تدفین بہشتی مقبرہ توسیع میں عمل میں آئی۔ مرحوم نے اپنے لواحقین میں اہلیہ بلقیس بیگم صاحبہ کے علاوہ تین بیٹے وحید احمد، توقیر احمد اور طلحہ احمد اور بیٹی ریحانہ کوثر اور والدہ حنیفہ بیگم صاحبہ کو یادگار چھوڑا ہے۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور لواحقین کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (م۔ ح۔مسرور) مزید پڑھیں: مرزا محمد اسماعیل صاحب قندھاری