٭… نبی اکرمؐ کے اخلاقِ فاضلہ کی جھلک قابلِ غور ہے کہ آپؐ نے مکّہ فتح کر لیا تھا، اب یہ ایک مفتوح قوم تھی اور جنگی دستور اور رواج کے مطابق فاتح ہی مفتوح قوم کے اموال کا مالک ہوا کرتا ہے۔ لیکن اب جب جنگ کے لیے ہتھیاروں کی ضرورت پڑی ، تو ایک ایک ہتھیار اُدھار لیا گیا، اور اِس وعدے کے ساتھ کہ ہم جتنے ہتھیار لے رہے ہیں، اُتنے ہی واپس کریں گے ٭… مکرم خواجہ مختار احمد صاحب بٹ آف کینیڈا اور مکرمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ نذیر احمد صاحب آف انڈیا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍اگست ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۲؍ظہور۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۲؍اگست۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سےجنگوں یا غزوات کے ضمن میں ذکر ہو رہا تھا۔اِسی ضمن میں آج غزوۂ حنین کا کچھ ذکر کروں گا۔ یہ غزوہ شوال آٹھ ہجری میں پیش آیا۔ اِس کوغزوۂ حنین کیوں کہا جاتا ہے؟ اِس لیے کہ حنین مکّہ اور طائف کے درمیان ایک بستی کا نام ہے، جو مکّے سے قریباً ۲۶؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، یہ غزوہ اِسی جگہ پر ہوا تھا، اِس لیے اِس کو غزوۂ حنین کہا جاتا ہے۔اِس غزوہ میں شامل بڑا قبیلہ ہوازن تھا، اِس لیے اِس کو غزوۂ ہوازن بھی کہا جاتا ہے۔بعض نے اِس کو غزوۂ اوطاس بھی کہا ہے کیونکہ دشمن کی فوج کا ایک حصّہ حنین سے بھاگ کر اوطاس نامی وادی میں چلا گیا تھا اور مسلمانوں نے وہاں پہنچ کر دشمن کو شکست دی تھی، اِس لیے بعض نے یہ نام دیا ہے۔ جبکہ اکثر مصنّفین نے سریّہ اوطاس کا الگ ذکر کیا ہے۔غزوۂ حنین کا ذکر قرآنِ کریم میں اِس طرح ہے کہ یقیناً اللہ بہت سے میدانوں میں تمہاری مدد کر چکا ہے اور (خاص طور پر) حنین کے دن بھی، جب تمہاری کثرت نے تمہیں تکبّر میں مبتلا کر دیا تھا۔ پس وہ تمہارے کسی کام نہ آ سکی اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی ،پھر تم پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل کی اور ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور اِس نے ان لوگوں کو عذاب دیا ،جنہوں نے کفر کیا تھا اور کافروں کی ایسی ہی جزا ہوا کرتی ہے۔پھر اِس کے بعد بھی اللہ جس پر چاہے گا، توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جائے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب مکّہ فتح ہو گیا اور اُس وقت تک عرب کےبڑے بڑے قبائل یا اسلام لے آئے یا آنحضرتؐ کی اطاعت میں چلے آئے، لیکن مکّے کےقریب ہی بسنے والے بنوہوازن اور بنو ثقیف جو کہ نہایت سرکش اور جنگجو قبائل تھے اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ اطاعت قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ اُن کے سردار جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) نے مکّے سمیت عرب کے بعض قبائل کو مطیع و فرمانبردار بنا لیا ہے، اب وہ یقیناً ہماری طرف پیش قدمی کریں گے، اِس لیے بہتر ہو گا کہ قبل اِس کے کہ وہ ہماری طرف بڑھیں، ہم خود اِن پر حملہ آور ہو جائیں۔اور یہ بھی کہنے لگے کہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) کا واسطہ ابھی تک اناڑی لوگوں سے پڑا ہے، ہمارے ساتھ ابھی تک اُن کا واسطہ نہیں پڑا۔ بنو ہوازن کے ساتھ قبیلہ ثقیف، نصر اور جشم کے تمام جنگجو افراد جمع ہو گئے۔ قبیلہ سَعْد بن بکر اور بنو ہلال میں سے کچھ لوگ جمع ہوئے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو ہوازن نے دراصل اِس سے بہت پہلےہی مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دی تھی، کیونکہ جب اُنہوں نے دیکھا کہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) آہستہ آہستہ یہود سمیت دوسرے قبائل کو اپنے تابع کرتے چلے جا رہے ہیں، تو اُن کو فکر لاحق ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ بت پرستی ختم ہو جائے اور محمد (صلی الله علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں سمیت سب پر غالب آ جائیں۔ اِس لیے ضروری ہے کہ اُن کا راستہ روکا جائے۔چنانچہ اِس کے لیے اُنہوں نے تیاری شروع کر دی اور عُروہ بن مسعود کی قیادت میں ایک وفد اُردن کے شہر جُرش کی طرف بھیجا، تاکہ وہاں سے اسلحہ اور جنگی ہتھیار وغیرہ لے کر آئے۔ بنو ہوازن کی اِن تیاریوں کا علم اِس طرح ہوا کہ جب آنحضرتؐ نے فتح مکّہ کے لیے مدینہ سے مکّہ روانگی کاارادہ فرمایا، تو آپؐ نے ہراول دستے کے طور پر کچھ لوگوں کو لشکر کے آگے آگے روانہ کر دیا، اِس ہر اول دستے نے بنو ہوازن کے ایک شخص کو گرفتار کر لیا، جو کہ ایک جاسوس تھا اور ہوازن کی طرف سے مسلمانوں پر نظر رکھنے کے لیے پھر رہا تھا۔آنحضرتؐ نے جب اِس سے پوچھا اور اچھی طرح پوچھ گچھ کی تو اِس نے بتایا کہ بنو ہوازن نے بہت سی فوج جمع کی ہے اور بنو ثقیف کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے اور بھاری ہتھیار اور اسلحہ کےلیے جُرش کی طرف وفد بھیجا ہے۔بنو ہوازن اِنہی تیاریوں میں تھے کہ مکّہ بغیر کسی خاص مزاحمت کےبآسانی فتح ہو گیا، جس کی وجہ سے ہوازن نے اپنی طاقت کےغرور میں یہ فیصلہ کیا کہ ہم خود محمد (صلی الله علیہ وسلم) اور اِن کے ساتھیوں کے مقابلہ کے لیے نکلیں، اور جیسا کہ اُن کا زُعم تھا کہ ہم ہیں جو مسلمانوں کومغلوب کر کےاِن کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ اُن سب قبائل نے قبیلہ ہوازن کے سردار تیس سالہ جوان ، مالک بن عوف کو اپنا سپۂ سالار اور سردار بنایا اور ۲۰؍ہزار کا لشکر تیار ہو کر حنین کی طرف بڑھنے لگا۔ بنو ہوازن کے سردر مالک بن عوف نے اِس جنگ کی تیاری کے لیے ایک ایسا قدم اُٹھایا، جو عرب کی تاریخ میں شاید ہی پہلے کسی نے اُٹھایا ہو، اور وہ یہ کہ سپۂ سالار نےہر قبیلے کے ہر فرد کو یہ حکم دیا کہ وہ لڑائی کے لیے اپنے گھر سے اکیلے نہیں نکلےگا، بلکہ اپنے بیوی بچے ،یہاں تک کہ اپنے مال مویشی سب کچھ ساتھ لے کر نکلے۔ اور اِس سے اِس کا مقصد یہ تھا کہ اُس کے لشکر کا ہر سپاہی جان توڑ کر مردانہ وار جنگ کرے گا۔ اِس جنگ میں بنو جشم ایک سو سال سے زائد عمر کے بوڑھے سردار دُرَیْد بن صِمَّہ کے لڑائی سے روکنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔جب مالک بن عوف نے لوگوں کے ساتھ مل کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف چلنے پر اتفاق کر لیا اور لوگ اپنے اموال، اپنی عورتوں، اپنے بیٹوں کو لے کر نکلے، یہاں تک کہ وہ اوطاس کی وادی میں پہنچ گئے اور وہاں خیمہ زن ہو گئےتو بوڑھے دُرَیْد بن صِمَّہ نے مالک بن عوف کی حکمتِ عملی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہایت غلط رائے ہے۔ الله کی قسم! تم محض بھیڑوں کو چرانا جانتے ہو یعنی اُس نے کہا کہ تمہیں لڑائی نہیں آتی۔ سنو! لڑائی میں تمہارے نفع کے لیے صرف یہی بات ہے کہ آدمی کا نیزا اَور اُس کی تلوار کام آئے گی اور اگر لڑائی کا فیصلہ تمہارے خلاف ہوا تو تم اپنے بیوی بچوں اور مال سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ اے مالک! تم نے ہوازن کی جماعت اور گھوڑوں کو آگے کیوں نہ کیا؟ اموال، عورتوں اور بچوں کو قلعوں میں بھیج دو۔ پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر اُن سے لڑو اور پیادہ فوج گھوڑوں کے درمیان ہو گی، اگر تم کو کامیابی ہوئی تو یہ لوگ، بچے اور مال مویشی تم سے آملیں گے، اگر ناکام رہے تو تم اِن کے پاس چلے جانا۔ اِس طرح تیرے اہل و عیّال اور تمام مویشی بچ جائیں گے۔ مالک بن عوف نے کہا کہ الله کی قسم! مَیں ایسا نہیں کروں گا اور نہ ہی اپنا فیصلہ تبدیل کروں گا۔ تم بوڑھے ہو گئے ہو، تمہاری عقل ماری گئی ہے۔ دُرَیْد نے کہا کہ اے ہوازن کے گروہ! الله کی قسم! یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ یہ شخص تمہاری عورتوں کو بے عزت کر دے گا اور یہ شخص تم کو دشمن کے حوالے کر کے خود ثقیف کے قلعوں میں جا کر چھپ جائے گا۔ پس! تم واپس لَوٹ آ جاؤ اور اِس کو چھوڑ دو۔یوں اِس نے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اِس پر مالک نے اپنی تلوار نکالی اور کہا کہ اے ہوازن کے گروہ! الله کی قسم! تمہیں میری اطاعت کرنا پڑے گی، ورنہ مَیں اپنا سارا بوجھ اِس تلوار پر ڈال کر اِس کو اپنے سینے سے پار کر دوں گا یعنی خود کشی کر لوں گا۔ بنو ہوازن نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ الله کی قسم! اگر ہم نے مالک کی نافرمانی کی تو وہ اپنے آپ کو مار دے گا، حالانکہ وہ نوجوان ہے۔ تو پھر ہم دُرَیْد کے ساتھ باقی رہ جائیں گے اور وہ بوڑھا ہے اور اِس کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کی جا سکتی، تم مالک کے ساتھ اتفاق کر لو، چنانچہ یہی ہوا۔ مالک نے دُرَیْد سے پوچھا کہ کیا اِس کے علاوہ کوئی اور بھی رائے ہے؟ تو اُس نے کہا کہ ہاں! کمین گاہوں میں اپنے افراد کو چھپا دو، جو تمہارے مددگار ثابت ہوں، اگر دشمن نے تم پر حملہ کر دیا، تو یہ اُن کے پیچھے سے حملہ کر دیں گے، تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ حملہ کر سکو گے۔ اگر تم نے حملہ کیا تو پھر اِن میں ایک بھی پیچھے نہ ہٹے گا۔ اُس وقت مالک نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ گھاٹیوں اور وادیوں کے دامن میں چھپ جائیں، پہلا حملہ ہی یکبارگی سے کر دیں تاکہ اسلامی لشکر کو شکست دے سکو۔ آنحضرتؐ کو بنو ہوازن کی تیاری کی خبر بھی ملی، جس کی تفصیل یوں ہے ، پہلے بھی بیان ہو ئی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مکّہ میں اِن واقعات کی خبر پہنچی تو آنحضرتؐ نے قبائل ہوازن کےلشکر کے حالات کے جائزہ کے لیے حضرت عبدالله بن ابوحدرد اسلمی رضی الله عنہ کو بھجوایا تھا، ایک تو اُس جاسوس نے کچھ خبر دی تھی کہ اسلحہ اکٹھا ہو رہا ہے، اب تیاری جب ہو گئی تو اِس کے لیے پھر آپؐ نے اپنا ایک آدمی بھجوایا کہ خبر لاؤ۔ وہ اِن ہوازن کے لوگوں کے لشکر میں داخل ہو گئے اور اُن میں چل پھر کر ہر قسم کی معلومات جمع کیں، وہ ایک یا دو دن اُن میں ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ اُنہوں نے مالک کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ، وہ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ کہہ رہا تھا کہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) نے اِس سے پہلےکسی ایسی قوم سے قتال نہیں کیا، جو جنگی فنون سے آشنا ہو، اُنہوں نے ایسی قوم کے جوانوں سے لڑائی کی ہے کہ جن کو لڑائی کا علم نہیں ہے، تو وہ اِن پر غالب آ گئے ہیں۔ پس جب صبح ہو گی ، تو اپنے مویشیوں اور اپنی عورتوں کی صفیں اپنے پیچھے بنا لو، پھر ایک دفعہ ہی حملہ کر دینا اور تم اپنی تلواروں کی نیام توڑ دینا اور بے نیام ۲۰؍ ہزار تلواروں سے لڑو اور ایک مرد کے حملے کی طرح حملہ کرو اور تم جان لو کہ غلبہ وہی پائے گا جو پہلے حملہ کر لے گا۔ پھر عبدالله بن ابوحدردؓ رسول اللهؐ کے پاس آئے اور آپؐ کو ساری خبر دی، آنحضرتؐ نے مجبوراً مقابلے کی تیاریاں کیں۔ آنحضرتؐ نے بنو ہوازن سے مقابلے کے لیے، مکّے سے روانگی سے قبل، جائزہ لیا، تو متوقع جنگ کے لحاظ سےاسلامی فوج کے پاس سامانِ جنگ بہت کم تھا۔ اِس کمی کو پورا کرنے کے لیے آپؐ نے مکّے کے مالدار رئیس صفوان بن اُمَیَّہ، جو اُس وقت تک ابھی مشرک ہی تھا، اُس سے کچھ ہتھیار بطور قرض مانگے۔تو اُس نے کہا کہ کیا آپ(صلی الله علیہ وسلم) میرا مال عاریتاً لینا چاہتے ہیں یا غصب کرنا چاہتے ہیں؟آپؐ نے فرمایا کہ نہیں! ہم تو یہ عاریتاً مانگ رہے ہیں اور اِن کی واپسی کے لیے ضمانت ہے۔ اِس پر وہ دینے کے لیے تیار ہو گیا اور اُس نے ایک سو زرہیں دیں، جن کے ساتھ خَود اور ڈھالیں وغیرہ بھی تھیں۔ بعض روایات کے مطابق اِس اسلحہ کو منتقل کرنے کے لیے اُس نے اونٹ بھی ساتھ دیے۔ جنگ کے بعد صفوان کی زِرہیں واپس کرنے کے لیےاکٹھی کی گئیں، تو اُن میں سے کچھ زِرہیں کم تھیں، چونکہ زِرہیں واپس کرنے کی ضمانت دی گئی تھی، اِس لیے نبی اکرمؐ نے صفوان سے بات کی کہ اِن کی قیمت لے لو۔ لیکن صفوان اب وہ صفوان نہیں رہا تھا، جو زِرہیں دیتے وقت تھا، صفوان جنگِ حنین میں ساتھ تھا۔ گو کہ وہ اُس وقت بھی مشرک ہی تھا اور حنین کے واقعے کے بعد اُس نے اسلام قبول کر لیا تھا، اِس لیے جب رسولِ کریمؐ نے ذرہوں کی قیمت دیے جانے کا فرمایا تو صفوان کہنے لگا کہ نہیں یارسول اللهؐ! کیونکہ میرے دل کی کیفیت جو آج ہے، وہ اُس دن نہیں تھی۔ قیمت لینے سے انکار کر دیا۔ اِسی طرح آپؐ نے اپنے چچازاد بھائی نوفل بن حارث سے بھی تین ہزار نیزے مستعار لیے اور فرمایا کہ مَیں تیرے اِن نیزوں کو دشمن کی پُشت میں دھنستا ہوا دیکھ رہا ہوں۔آپؐ کے اِس فرمان میں یہ خبر تھی کہ دشمن شکست کھا کر بھاگے گا اور بھاری جانی نقصان اُٹھائے گا۔ اِسی طرح ابنِ ابی ربیعہ سے بھی کچھ اسلحہ مستعار لیا۔ نبی اکرمؐ کے اخلاقِ فاضلہ کی جھلک قابلِ غور ہے کہ آپؐ نے مکّہ فتح کر لیا تھا، اب یہ ایک مفتوح قوم تھی، اور جنگی دستور اور رواج کے مطابق فاتح ہی مفتوح قوم کے اموال کا مالک ہوا کرتا ہے۔ لیکن اب جب جنگ کے لیے ہتھیاروں کی ضرورت پڑی ، تو ایک ایک ہتھیار اُدھار لیا گیا، اور اِس وعدے کے ساتھ کہ ہم جتنے ہتھیار لے رہے ہیں، اُتنے ہی واپس کریں گے۔ اِسی طرح ابو جہل کے سوتیلے بھائی عبدالله بن ابی ربیعہ سےآپؐ نے تیس، چالیس ہزار دِرہم قرض لیا۔ روایت میں ہے کہ یہ فتح مکّہ کے دن مسلمان ہو ئے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ نے قریش کے تین افراد سے قرض لیا، صفوان بن اُمَیَّہ سے پچاس ہزار دِرہم ، عبدالله بن ابی ربیعہ سےچالیس ہزار دِرہم اور حویطب بن عبدالعُزّٰی سے چالیس ہزار دِرہم قرض لیا۔ یہ کُل ایک لاکھ تیس ہزار دِرہم بنتے ہیں۔بعض روایات کے مطابق نقد قرض آپؐ نے فتح مکّہ کے موقع پر ضرورت مند صحابہؓ کی مدد کے لیے لیا تھاجو آپؐ نے اِن کے درمیان تقسیم کیا تھا اور ہر ایک کو کم و بیش پچاس دِرہم دیے گئے تھے۔اور ایک روایت کے مطابق بنو جذیمہ کے مقتولین کی دیّت کا معاوضہ وغیرہ ادا کرنے کے لیےیہ رقم قرض کے طور پر لی گئی تھی۔ حضور انور نے اِس حوالے سے تصریح فرمائی کہ ممکن ہے آپؐ نے مختلف ضروریات کے لیے یہ رقم قرض کے طور پر لی ہو، جس میں مالی معاونت اور دیّتوں کی ادائیگی بھی شامل ہو۔ الله بہتر جانتا ہے۔ والله اعلم!خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے فرمایا کہ نماز کے بعد مَیں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ مکرم خواجہ مختار احمد صاحب بٹ جو خواجہ عبدالرحمٰن صاحب آف سیالکوٹ کے بیٹے تھے، گذشتہ دنوں یہ ۹۲؍ سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، قانون کی تعلیم حاصل کی، پھر ایئر فورس میں چلے گئے۔ وہاں رسالپور میں اِنہوں نے ایئر فورس سے ٹریننگ لی اور ۱۹۷۴ء تک پاک فضائیہ میں بطور قانونی افسر نمایاں خدمات بجا لاتے رہے۔ اِسی سال دیگر احمدی افسران کے ساتھ اِن کو بھی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ ۱۹۷۴ء میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف فسادات کے نہایت نازک دَور میں آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ الله کے زیرِ راہنمائی جماعت کے قانونی کمیشن میں خدمت کی اور جماعت کی کوششوں کے سلسلہ میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب حنیف رامے سے ملاقات بھی کی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت چودھری ظفرالله خان صاحبؓ سے گہرا تعلق تھا اور The Essence of Islam کی پہلی جِلد کی تیاری میں حضرت چودھری ظفرالله خان صاحبؓ کی معاونت کا بھی اِن کو موقع ملا۔ مرکزی سطح پر آپ بطور ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن اور کافی سال دارالقضاء ربوہ میں بطور قاضی بھی خدمت بجا لاتے رہے۔قضاء میں اِن کے ساتھ مَیں نے بھی کچھ عرصہ کام کیا ہے، بڑے صائب الرّائے تھے اور بڑے عاجزانسان تھے۔ اور خلافت سے اِن کا تعلق تو ہمیشہ سے تھا اور بعد میں تو میرے ساتھ بھی بڑا تعلق رہا۔۲۰۰۲ء میں یہ کینیڈا منتقل ہو گئے تھے، وہاں ریجنل امیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ نمازوں اور تلاوتِ قرآنِ کریم کے پابند ، مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والے مخلص فدائی احمدی تھے۔ آپ کی زندگی خلافت کے ساتھ وفاداری ، عاجزی اور اخلاص کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے اور نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں ہیں۔ اِن کی اہلیہ امۃ القیوم صاحبہ، غلام احمد اختر صاحب مرحوم کی بیٹی ہیں جو ریلوے میں ڈائریکٹر کے بڑے عہدے پر تھے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دَور میں یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ ناظرِ اعلیٰ بھی رہے ہیں اور آپؓ کے ساتھ سٹیج پر تقریروں کے دوران سیکیورٹی کی ڈیوٹی بھی دیتے رہے۔بہرحال خدمت کرنے والا خاندان تھا۔ ڈاکٹر زاہد خان صاحب صدر قضاء بورڈ یو کے مختار صاحب خسر تھے۔ دوسرا ذکر ہے، سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ نذیر احمد صاحب کا، یہ انڈیا کی ہیں۔ یہ بھی گذشتہ دنوں ۷۵؍ سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔الله تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے شامل ہیں۔ طاہر احمد طارق صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد قادیان کی والدہ تھیں۔بطور جماعتی نمائندہ یہ یہاں انگلستان میں آئے ہوئے تھے، پیچھے اِن کی والدہ کی وفات ہو گئی، اِس لیے یہ اُن کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے۔ یہ بھی خدمت کرنے والا خاندان ہے۔ اِن کے چھوٹے بیٹے طاہر صاحب کے بھائی شبیر احمد صاحب بھی معلّم سلسلہ ہیں، اِسی طرح اِن کی بیٹی بھی مبلغِ سلسلہ جبّار صاحب کی اہلیہ ہیں۔ باقی دو بیٹے بھی جماعت کی خدمت کرنے والے ہیں۔ کافی خدمت گزار خاندان ہے۔گذشتہ پچیس سال سے سانس کی تکلیف میں مبتلا تھیں اور بڑے صبر اور وقار سے اپنا بیماری کا عرصہ گزارا، کبھی شکوہ شکایت نہیں تھا۔خاندان میں احمدیت کا نفوذ حضرت قاضی محمد اکبر بھٹی صاحبؓ صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے ہوا۔ اِن کے خاندان میں پھر احمدیت پھیلی۔ بہت دیندار اور نماز روزہ کی پابند تھیں۔ ٭…٭…٭